Monday, 5 March 2018

درس قرآن موضوع سورہ احزاب آیت : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ

درس قرآن موضوع سورہ احزاب آیت : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِه وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶)
ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔ اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکا دینے والا ا ٓ فتاب ۔

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا : اے نبی!بیشک ہم نے تمہیں گواہ بنا کر بھیجا ۔ آیت کے اس حصے میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا ایک وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا ہے۔ شاہد کا ایک معنی ہے حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے گواہ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شاہدکا ترجمہ ’’حاضرناظر ‘‘ فرمایا ہے ،اس کے بارے میں صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ترجمہ ہے ، مفرداتِ راغب میں ہے ’’اَلشُّھُوْدُ وَ الشَّھَادَۃُ اَلْحُضُوْرُ مَعَ الْمُشَاھَدَۃِ اِمَّا بِالْبَصَرِ اَوْ بِالْبَصِیْرَۃِ‘‘ یعنی شہود اور شہادت کے معنی ہیں حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے ،بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے ساتھ۔( خزائن العرفان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۷۸۴)
اگر اس کا معنی ’’گواہ‘‘ کیا جائے تو بھی مطلب وہی بنے گا جو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ترجمے میں لکھا ، کیونکہ گواہ کو بھی اسی لئے شاہد کہتے ہیں کہ وہ مشاہدہ کے ساتھ جو علم رکھتا ہے اس کو بیان کرتا ہے اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چونکہ تمام عالَم کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں اور آپ کی رسالت عامہ ہے ،جیسا کہ سورہِ فرقان کی پہلی آیت میں بیان ہوا کہ : ’’ تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا‘‘(فرقان:۱)
ترجمہ : وہ (اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے بندے پرقرآن نازل فرمایا تا کہ وہ تمام جہان والوں کو ڈر سنانے والا ہو۔
اس لئے حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ قیامت تک ہونے والی ساری مخلوق کے شاہد ہیں اور ان کے اعمال ، افعال ، احوال ، تصدیق ، تکذیب ، ہدایت اور گمراہی سب کا مشاہدہ فرماتے ہیں ۔( ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۵، ۴/۳۲۵، جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶/۱۸۰،چشتی)

حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ حاضر و ناظر ہیں

اہلسنّت کا یہ عقیدہ ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی عطا سے حاضر و ناظر ہیں اور یہ عقیدہ آیات،اَحادیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال سے ثابت ہے ،یہاں پہلے ہم حاضر وناظر کے لغوی اور شرعی معنی بیان کرتے ہیں ،اس کے بعد ایک آیت ،ایک حدیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال میں سے ایک شخصیت کا قول ذکر کریں گے،چنانچہ حاضر کے لغوی معنی ہیں سامنے موجود ہونا یعنی غائب نہ ہونا اور ناظر کے کئی معنی ہیں جیسے دیکھنے والا، آنکھ کا تل،نظر،ناک کی رگ اور آنکھ کا پانی وغیرہ اور عالَم میں حاضر و ناظر کے شرعی معنی یہ ہیں کہ قُدسی قوت والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالَم کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح دیکھے اور دور و قریب کی آوازیں سنے یا ایک آن میں تمام عالَم کی سیر کرے اور سینکڑوں میل دور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرے ۔یہ رفتار خواہ روحانی ہو یا جسمِ مثالی کے ساتھ ہو یا اسی جسم سے ہو جو قبر میں مدفون ہے یا کسی جگہ موجود ہے ۔( جاء الحق،حاضر وناظر کی بحث، ص۱۱۶)

سورہِ اَحزاب کی آیت نمبر 6 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ‘‘ یعنی نبی کریم (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں ۔اور یہ بات ظاہر ہے کہ جو قریب ہوتا ہے وہ حاضر بھی ہوتا ہے اور ناظر بھی ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میرے سامنے کر دی ہے، لہٰذا میں ساری دنیا کو اور جو کچھ دنیا میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کا سب یوں دیکھ رہا ہوں جیسے اس ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔( کنز العمال، کتاب الفضائل، الباب الاول فی فضائل سیدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، الفصل الثالث، ۶/۱۸۹، الحدیث: ۳۱۹۶۸، الجزء الحادی عشر،چشتی)
شاہ عبد الحق محد ث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (اہلِ حق میں سے) اس مسئلہ میں کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اپنی حقیقی زندگی مبارکہ کے ساتھ دائم اور باقی ہیں اور امت کے احوال پر حاضر وناظر ہیں اور حقیقت کے طلبگاروں کو اور ان حضرات کو جو آپ کی طرف متوجہ ہیں ،ان کو فیض بھی پہنچاتے ہیں اور ان کی تربیت بھی فرماتے ہیں اور اس میں نہ تو مجاز کا شائبہ ہے نہ تاویل کا بلکہ تاویل کا وہم بھی نہیں۔(مکتوبات شیخ مع اخبارالاخیار،الرسالۃ الثامنۃ عشر سلوک اقرب السبل بالتوجّہ الی سیّد الرسل صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم، ص۱۵۵)

حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حاضر و ناظر ہونے میں اہلسنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے جو لفظ حاضر و ناظر بولا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بشریت مطہرہ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں جس طرح روح اپنے بدن کے ہرجزو میں ہوتی ہے۔ اسی طرح روح دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی حقیقت منورہ ذرات عالم کے ہر ذرہ میں جاری وساری ہے ۔

جس کی بناء پر حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور اہل اﷲ اکثر وبیشتر بحالت بیداری اپنی جسمانی آنکھوں سے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے جمال مبارک کا مشاہدہ کرتے ہیں اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بھی انہیں رحمت اور نظر عنایت سے سرخرو محظوظ فرماتے ہیں۔ گویا حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حاضر ہونے کے معنی ہیں اور انہیں اپنی نظر مبارک سے دیکھنا حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔

معلوم ہوا کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اپنے روضہ مبارک میں حیات حسی و جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور پوری کائنات آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سامنے موجود ہے اور اﷲ تعالیٰ کی عطا سے کائنات کے ذرے ذرے پر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نگاہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی عطا سے جب چاہیں، جہاں چاہیں جس وقت چاہیں، جسم و جسمانیت کے ساتھ تشریف لے جاسکتے ہیں۔

ہم محفل میلاد کے موقع پر کرسی حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے نہیں بلکہ علماء و مشائخ کے بیٹھنے کے لئے رکھتے ہیں ۔ صلوٰۃ و سلام کے وقت اس لئے کھڑے ہوتے ہیں تاکہ باادب بارگاہ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ میں سلام پیش کیا جائے اور ذکر رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تعظیم اور ادب کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور ہم ’’اشہدان محمد رسول اﷲ‘‘ پر نہیں بلکہ حی علی الصلوٰۃ، حی علی الفلاح پر کھڑے ہوتے ہیں۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی آمد کے لئے کھڑے نہیں ہوتے ۔

بعد از وصال تصرف فرمانا

حدیث شریف: حضرت سلمیٰ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ فرماتی ہیں۔ میں حضرت ام سلمیٰ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی، وہ رو رہی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیوں رو رہی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور سید عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو خواب میں دیکھا۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی داڑھی مبارک اور سر انور گرد آلود تھے۔ میں نے عرض کیا ۔ یارسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کیا بات ہے؟ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا میں ابھی حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں ۔ (ترمذی شریف، جلد دوم، ابواب المناقب، حدیث نمبر 1706، صفحہ نمبر 731، مطبوعہ فرید بک لاہور،چشتی)

حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا یہ فرمانا کہ میں ابھی حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں۔ اس بات کی طرف دلالت کرتا ہے کہ بعد از وصال ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے حیات کی ضرورت ہے لہذا حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بعد از وصال بھی حیات ہیں ۔

دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ وصال کے بعد بھی اپنے رب جل جلالہ کی عطا کی طاقت سے جب چاہیں ، جہاں چاہیں تشریف لے جاسکتے ہیں ۔

شارح بخاری علامہ امام قسطلانی علیہ الرحمہ اور شارح موطا علامہ امام زرقانی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ظاہری زندگی اور آپ کے پردہ فرمانے کے بعد اس میں کوئی فرق نہیں کہ آپ اپنی امت کا مشاہدہ فرماتے ہیں اور آپ کو ان احوال ونیات وعزائم و خواطر وخیالات کی بھی معرفت و پہچان ہے اور اﷲ کے اطلاع فرمانے سے یہ سب کچھ آپ پر ایسا ظاہر ہے جس میں کوئی خفا و پردہ نہیں ۔ (شرح مواہب لدنیہ جلد 8 ص 305،چشتی)

شارح مشکوٰۃ شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے فرمایا۔ علماء امت میں سے کسی کا بھی اس میں اختلاف نہیں کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بحقیقت حیات دائم و باقی اور اعمال امت پر حاضر وناظر ہیں اور متوجہان آنحضرت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو فیض پہنچاتے اور ان کی تربیت فرماتے ہیں ۔(حاشیہ اخبار الاخیار صفحہ نمبر155)

کیا اللہ تعالیٰ کو حاضرو ناظر کہہ سکتے ہیں ؟

یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تو حاضر و ناظر ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر نہیں کہہ سکتے کیونکہ حاضر و ناظر کے جو لغوی اور حقیقی معنی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حاضر و ناظر کا اِطلاق بھی باری عَزَّوَجَلَّ پر نہ کیا جائے گا۔ علماءِ کرام کو اس کے اطلاق میں یہاں تک حاجت ہوئی کہ اس (کا اطلاق کرنے والے) پر سے نفیٔ تکفیر فرمائی۔( فتاویٰ رضویہ، کتاب الشتی، عروض وقوافی، ۲۹/۵۴)
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں ’’اُسے (یعنی اللہ تعالیٰ کو) حاضر و ناظر بھی نہیں کہہ سکتے، وہ شہید و بصیر ہے، حاضر و ناظر اس کی عطا سے اُس کے محبوب عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔( فتاویٰ رضویہ، عقائد وکلام ودینیات، ۲۹/۳۳۳)

اﷲ تعالیٰ اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حاضر وناظر ہونے میں امتیازی فرق : اﷲ تعالیٰ کی تمام صفات مستقل اور بالذات ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی کوئی صفت غیر مستقل اور عطائی نہیں، بندوں کی صفت مستقل اور بالذات نہیں بلکہ بندوں کی صفات غیر مستقل اور عطائی ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا حاضر وناظر ہونا رب کریم کی عطا سے ہے بالذات نہیں۔ جب آپ کی تمام صفات عطائی ہیں تو اﷲ تعالیٰ کی ذاتی صفات سے برابری کیسے جب ذاتی اور عطائی صفات میں برابری نہیں تو یقیناًشرک بھی لازم نہیں آئے گا ۔

تنبیہ : اﷲ تعالیٰ کو حقیقی معنی کے لحاظ سے حاضر و ناظر کہا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ہی اﷲ تعالیٰ کے اسماء گرامی میں سے کوئی اسم گرامی حاضر وناظر ہے بلکہ اﷲ تعالیٰ کو مجازی معنی کے لحاظ سے حاضر و ناظر کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ حاضر کا حقیقی معنی یہ ہے کہ کوئی چیز کھلم کھلا بے حجاب آنکھوں کے سامنے ہو، جب اﷲ تعالیٰ حواس اور نگاہوں سے پاک ہے تو یقیناًاسے حقیقی معنی کے لحاظ سے حاضر نہیں کہا جاسکتا۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : ’’لاتدرکہ الابصار‘‘ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں ۔ اسی طرح ناظر کا بھی اپنے حقیقی معنی کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ پر اطلاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ناظر مشتق ہے ۔

نظر سے اور نظر کا حقیقی معنی یہ ہے : النظر تقلیب البصر والبصیرۃ لادراک الشئی وروئیۃ ۔ کسی چیز کو دیکھنے اور ادراک کرنے کے لئے آنکھ اور بصیرت کو پھیرنا۔

حقیقی معنی کے لحاظ سے ناظر اسے کہتے ہیں جو آنکھ سے دیکھے۔ اﷲ تعالیٰ جب اعضاء سے پاک ہے تو حقیقی معنی کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ کو ناظر کہنا ممکن ہی نہیں، اسی وجہ سے لاینظر الیہم یوم القیمۃ کی تفسیر علامہ آلوسی نے روح المعانی میں یوں کی ۔ لایعطف علیہم ولایرحم ۔ کہ اﷲ تعالیٰ کفار پر مہربانی اور رحم نہیں فرمائے گا ۔

جب اﷲ تعالیٰ کو حقیقی معنی کے لحاظ سے حاضر و ناظر کہنا ہی ممکن نہیں تو واویلا کس بات کا کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو حاضر و ناظر ماننے سے شرک لازم آئے گا۔ میں تو اکثر کہتا ہوں کہ ہمارے اﷲ تعالیٰ کی شان بہت بلند وبالا ہے۔ ہم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور مخلوق اور رب کریم کا محتاج سمجھ کر جتنی بھی آپ کی تعریف کریں، اﷲ تعالیٰ سے برابری لازم نہیں آئے گی کیونکہ وہ معبود ، خالق اور غنی ہے۔

ہاں ان کو فکر ہوسکتی ہے جن کے نزدیک خدا کا علم محدود ہے وہ معاذ اﷲ مخلوق اور محتاج ہے۔ یقیناًان کے نزدیک نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی زیادہ شان ماننے سے اﷲ تعالیٰ کی برابری لازم آئے گی۔ لیکن بفضلہ تعالیٰ ہمیں کوئی فکر نہیں کیونکہ ہمارا اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس کے متعلق شیخ سعدی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’برتر از خیال اوقیاس و گمان وہم‘‘ اﷲ تعالیٰ کی وہ ذات ہے جو خیال و قیاس و گمان و وہم سے بالاتر ہے ۔

اب فرق واضح ہوا کہ اﷲ تعالیٰ مکان، جسم، ظاہر طور پر نظر آنے، حواس سے مدرک ہونے کے بغیر ہر جگہ موجود ہے جو اس کی شان کے لائق ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے وہ حاضر ہے اور اپنے بندوں پر رحمت و مہربانی کرنے کے لحاظ سے وہ ناظر ہے۔ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اپنے مزار شریف میں اپنی جسمانیت کے ساتھ موجود ہیں ۔آپ کی امت اور اس کے اعمال و احوال آپ کے سامنے ہیں۔ آپ اپنے حواس سے امت کے اعمال و احوال کا ادراک فرما رہے ہیں ۔

اگر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شان ناپسند ہو تو اس کا علاج تو کچھ نہیں ورنہ روز روشن کی طرح عیاں ہوا کہ جسم، مکان، حدوث و امکان حواس میں آنے اور حواس کے ذریعے ادراک کرنے سے پاک ذات اور جسم، مکان، حدوث، امکان حواس میں آنے اور حواس سے ادراک کرنے کی محتاج ذات میں کوئی محتاج برابری کا ذرہ بھر بھی تماثل نہیں۔

وَ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا: اورخوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔ یہاں سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دو اَوصاف بیان کئے گئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دینے والااور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۹۴۴)
وَ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِه : اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا۔ آیت کے اس حصے میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چوتھے وصف کا بیان ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کوخدا کے حکم سے لوگوں کو خدا کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۶، ۷/۱۹۶، جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۳۵۵، )

وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا: او ر چمکادینے والا ا ٓ فتاب ۔ یہاں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا پانچواں وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا ۔ اس کے بارے میں صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
سراج کا ترجمہ آفتاب قرآنِ کریم کے بالکل مطابق ہے کہ اس میں آفتاب کو سراج فرمایا گیا ہے، جیسا کہ سورۂ نوح میں ’’وَ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا‘‘ اور آخر پارہ کی پہلی سورۃ میں ہے ’’وَ جَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا‘‘ اور درحقیقت ہزاروں آفتابوں سے زیادہ روشنی آپ کے نورِ نبوت نے پہنچائی اورکفر و شرک کے ظلماتِ شدیدہ کو اپنے نورِ حقیقت افروز سے دور کر دیا اور خَلق کے لئے معرفت و تَوحید ِالٰہی تک پہنچنے کی راہیں روشن اور واضح کر دیں اور ضلالت کے وادیٔ تاریک میں راہ گم کرنے والوں کو اپنے انوارِ ہدایت سے راہ یاب فرمایا اور اپنے نورِنبوت سے ضمائر وبَصائر اور قُلوب و اَرواح کو منور کیا ، حقیقت میں آپ کا وجود مبارک ایسا آفتابِ عالَم تاب ہے جس نے ہزارہاآفتاب بنا دیئے ،اسی لئے اس کی صفت میں منیر ارشاد فرمایا گیا ۔ (خزائن العرفان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۷۸۴)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...