حصّہ دوم : کیا مسلمان شرک کر سکتے ہیں ؟
آج کے نام نہاد توحید پرستوں کا المیہ یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح روایات پیش کی جاتی ہیں کہ جنکے مفھوم کہ مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے جمہور یا پھر من حیث المجموع ،امت پر شرک جلی کا کوئی خطرہ نہ تھا تو یہ نام نہاد توحید پرست آج کہ دور کے مومنین کی اکثریت کو مشرک ثابت کرنے کے لیے پھر سورہ یوسف کی زیر بحث آیت سے استدلال کرتے ہیں کیونکہ ان لکیر کے فقیروں کے فہم کے مطابق ایک تو اس آیت میں لفظ مومن آیا ہے اور دوسرا کثیر لہذا ثابت ہوا کہ آج کہ دور کے جو اکثر مومن ہیں وہ لازما مشرک بھی ٹھرے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کس قدر بھونڈا استدلال ہے یہ ، اور یہی چیز ہم نے اوپر بھی واضح کی کہ آیت میں اگرچہ لفظ مومن آیا ہے مگر وہ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ صوری اور عرفی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور آیت کا شان نزول میں مفسرین نے تینون طبقات کا یعنی مشرکین مکہ ،منافقین مدینہ اور اہل کتاب یہود و نصارٰی وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے بحرحال مزکورہ بالا تینوں طبقات میں کسی ایک کو یا پھر تینوں کومشترکہ طور پر بھی اگر اس آیت کے شان نزول کا مصداق مان لیا جائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ آیت بحرحال اس وقت کے حقیقی مومنین کے حق میں ہرگز نازل نہیں ہوئی اور اسی چیز کو ہم نے اوپر واضح کیا ۔
اعتراض: جو لوگ ایمان لا کر اپنے ایمان میں ظلم کو شامل نہیں کرتے ان کے لئے امن اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں (سورہ الانعام ٨٢) جب یہ ایت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ وہ کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہے ہوگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے نیک بندے(لقمان رضی اللہ عنہ) کا قول نہیں سنا کہ اے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شک شرک ظلم عظیم ہے(بخاری کتاب الایمان باب ظلم دون ظلم رقم ٣٢، ٤٧٧٦)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ازالہ اعتراض : سورہ انعام کی اس آیت سے یہ استدلال کرنا کہ ایک مسلمان مسلم ہوتے ہوئے بھی شرک کی آمیزش سے خود کو آلود کرسکتا ہے اور ایسا کرچکنے کہ بعد بھی وہ مسلم ہی کہلواتا ہے درست نہیں کیونکہ جب آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام گھبرا گئے اور انھوں نے لفظ ظلم کا حقیقی و معروف معنی مراد لیا جو کہ کمی و ذیادتی پر دلالت کرتا ہے چناچہ انھوں نے گھبرا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ ہم میں سے کون ہوگا کہ جس سے کبھی نہ کبھی کسی دوسرے کہ حق میں کوئی کمی و بیشی نہ ہوئی ہوگی ؟؟؟ تو کیا ہمارے تمام اعمال ضائع گئے ؟؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیہ کہ حقیقی معنی ان پر واضح کرنے کے لیے سورہ لقمان کی آیت تلاوت کی اور فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد معروف معنوں والا ظلم نہیں بلکہ شرک ہے آیت کی یہ تفسیر سن کر صحابہ کرام کے بے قرار دلوں کو چین میسر ہوا ۔۔۔ اس آیت میں صحابہ کرام کے لیے تنبیہ نہیں بلکہ مژدہ جانفزا تھا کہ ظلم تو حقیقی طور پر ان لوگوں کا ہے کہ جو شرک کرتے ہیں جبکہ تم لوگ تو شرک سے تائب ہوکر پکے سچے مومن ہو ۔
اعتراض : فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسلمان جب تک شرک میں مبتلا نہیں ہوں گے اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی حدیث پیش ہے “" قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کے چند قبیلے مشرکوں سے نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کر لیں (ابوداود کتاب الفتن باب ذکرہ الفتن رقم ٤٢٥٢)
ازالہ اعتراض : آپ کی پیش کردہ اس روایت کی وضاحت میں جوابا عرض ہے کہ : امت مسلمہ کی یہ ایمانی عظمت اب بھی برقرار ہے عقیدہ توحید باقی ہے۔ لیکن چمک میں فرق آنے لگا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حقیقت خود بیان فرمائی ۔
(۱) ’’مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور میں خدا کی قسم تمہارے بارے میں خطرہ محسوس نہیں کرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم کہیں دنیا کی محبت میں ڈوب نہ جائو۔ (بخاری شریف حدیث نمبر۱۳۴۴،مسلم شریف حدیث نمبر ۲۲۹۶)
(۲) حضرت عبادہ بن نُسَیّ کہتے ہیں میں حضرت شداد بن اوس کے پاس ان کی جائے نماز میں داخل ہوا تو وہ رو رہے تھے میں نے پوچھا اے ابو عبدالرحمن رونے کی وجہ کیا ہے؟ تو حضرت شداد نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے ایک حدیث سنی تھی اس کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ میں نے کہا وہ کونسی حدیث ہے انہوں نے کہا اس دوران کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ایسی کیفیت ملاحظہ کی جس سے میں غمگین ہوا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والدین آپ پر قربان ہو جائیں آپ کے چہرہ مبارک پر میں کیسی کیفیت دیکھ رہا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک امر کی وجہ سے میں رنجیدہ ہوں جس کا مجھے میرے بعد اپنی امت پرخطرہ ہے۔ میں نے کہا وہ کونسا امر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شرک اور شھوت خفیہ ہے حضرت شداد کہتے ہیں میں نے کہا کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبردار میری امت کے لوگ نہ سورج کی عبادت کریں گے نہ چاند کی نہ کسی بت کی عبادت کریں گے اور نہ ہی کسی پتھر کی لیکن اپنے اعمال کی وجہ سے لوگوں کیلئے ریاکاری کریں گے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ریا شرک ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ریا شرک ہے میں نے کہا شہوت خفیہ کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے صبح کے وقت روزے کی حالت میں ہوگا اسے دنیا کی شھوتوں میں سے کوئی شھوت عارض ہو جائے گی تو وہ روزہ توڑ دے گا۔ (مستدرک للحاکم جلد نمبر۵ ،ص۴۷۰، کتاب الرقاق، باب الشھوۃ الخفیہ ،حدیث نمبر۸۰۱۰ ،مطبوعہ دارالمعرفۃ ، مسند امام احمد جلد نمبر۵، ص۸۳۵ حدیث نمبر۱۷۲۵۰ ،مطبوعہ عالم الکتب ، ابن ماجہ کتاب الزھد باب الریا والسمعہ، حدیث نمبر۴۲۰۵ ، بیہقی شعب ایمان ،باب فی اخلاص العمل و ترک الریا ،جلد نمبر۵، ص۳۳۳ ، حدیث نمبر۶۸۳۰ ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، حلیہ الاولیا، جلد نمبر۱،ص۲۴۷،مطبوعہ دارا احیاء التراث العربی )
امام حاکم نے کہا ہے یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔
(۳) حضرت عبدالرحمن بن غنم کہتے ہیں میں۔ حضرت ابو درداء اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے کہ حضرت شداد بن اوس اورحضرت عوف بن مالک تشریف لے آئے اور فرمایا اے لوگو میں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اس کی وجہ سے مجھے تجھ پر شھوت خفیہ اور شرک کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔ حضرت عبادہ اور حضرت ابو درداء نے کہا اے اللہ معاف کرے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ ارشاد نہیں فرمایا: شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے۔ جہاں تک شھوت خفیہ کا تعلق ہے۔ اسے ہم جانتے ہیں وہ دنیا اور عورتوں کی خواہش ہے۔ اے شداد جس شرک سے آپ ہمیں ڈرار ہے ہیں یہ شرک کیا ہے۔ حضرت شداد نے کہا تم خود ہی مجھے بتا ئو جس نے کسی بندے کیلئے دکھلاوا کرتے ہوئے نماز پڑھی یا روزہ رکھا یا صدقہ کیا۔ کیا اس نے شرک کیا؟ حضرت عبادہ اور حضرت ابو دردا نے کہا ہاں حضرت شداد نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جس نے ریاکاری کرتے ہوئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا جس نے ریا کرتے ہوئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے ریا کرتے ہوئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا ۔ (سیر اعلام النبلاء للذھبی جلد نمبر۴،ص۹۵،مطبوعہ دارالفکر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس انداز میں شرک کی جڑیں کاٹیں کہ ہمیشہ کیلئے اسے ختم کردیا چنانچہ شیطان کو یہ مایوسی صرف جزیرہ عرب کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لحاظ سے ہوئی ملاحظہ ہو۔
(۴) حضرت جابر سے مروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ نمازی اسکی بندگی کریں۔ ( البدایہ ، ابن کثیر جلد نمبر1،ص۶۶، مطبوعہ دارالمعرفۃ) اس مضمون کی موید اور بھی متعدد احادیث ہیں۔ ان احادیث سے پتہ چلتا ہے اس امت کا کلمہ توحید پر یقین اتنا دیرپا ہے کہ جب نماز روزہ کا نام بھی باقی نہیں رہے گا یہ کلمہ اس وقت بھی ہوگا اور اس وقت بھی معتبر ہوگا، چنانچہ اس امت میں پہلے عمل میں کمزوری واقع ہوگی عقیدہ توحید بعد میں باقی رہے گا۔امت جس مرحلہ سے گذر رہی ہے یہ امت کے شرک جلی (بت پرستی) میں مبتلا ہونے کا مرحلہ نہیں بلکہ شرک خفی ریا کاری اور دنیا میں رغبت کا مرحلہ ہے۔
ایک حدیث شریف میں جو کچھ قبائل کے مشرک ہو جانے کا ذکر ہے وہ بعد کامعاملہ ہے۔دیکھیے
(۵) حضرت حذیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ اسلام یوں بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑے کے نقش و نگار مدھم ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ نہیں جانا جائے گا روزہ کیا ہے صدقہ کیا ہے اور قربانی کیا ہے؟ ایک ہی رات میں کتاب اللہ غائب ہو جائے گی زمین پر اس کی ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی لوگوں کے کچھ طبقے باقی رہ جائیں گے بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کہیں گے ہم نے اپنے آباء کو اس کلمہ لا الہ الا اللہ پر پایا تھا ہم بھی وہی کہ رہے ہیں۔ حضرت صلہ بن زفر نے حضرت حذیفہ سے کہا جب انہیں نماز روزہ صدقہ اور قربانی کا پتہ نہیں ہوگا تو لا الہ الا اللہ انہیں کیا فائدہ دے گا؟ حضرت حذیفہ نے ان سے اعراض کیا صلہ نے تین مرتبہ آپ سے پوچھا آپ اعراض کرتے رہے تیسری مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت صلہ کی طرف متوجہ ہوئے فرمایا اے صلہ یہ کلمہ ان کو نارجھنم سے نجات دے گا۔تین مرتبہ یہ کہا۔(مستدرک للحا کم جلد نمبر ۵ صفحہ نمبر ۶۶۶ حدیث نمبر ۸۵۰۸، سنن ابن ماجہ ، باب ذھا ب القرآن والعلم حد یث نمبر ۴۰۴۹، کتا ب النہایہ فی الفتن لا بن کثیر جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۳۰) امام حاکم نے کہا ہے یہ حدیث صحیح ہے اس حدیث شریف میں جن حا لات کا ذکر کیا گیا ہے ابھی وہ حالات یقینا نہیں آئے ، ابھی تو نما زیو ں سے مسجد یں بھر ی ہو ئی ہیں روزے دار روزہ رکھتے ہیں آج کے حا لات کے مقابلے میں وہ حالات کتنے برے ہو نگے جب نماز روزے کا نا م بھی بھول جائے گا مگر کلمہ اسلام پھر بھی نہیں بھولا ہوگا ۔ اس وقت کے کمزور ترین مومن کا بھی کلمہ معتبر ہوگا ،چنانچہ آج کے مسلما نوں پر تھوک کے لحا ظ سے فتوی شرک کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ جن کے کلمہ کو غیر معتبر قراردے دیا جائے اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرک جلی کا امکان نہیں امکا ن توخدائی کے جھوٹے دعوے کا بھی ہے (معاذاللہ) جب کوئی جھوٹا یہ کہہ سکتا ہے کہ میں خود اللہ ہوں (معا ذاللہ) اس کا رب ذوالجلا ل کے علاوہ کسی اور کو معبود مان کر شرک کرنے کا امکا ن موجود ہے لیکن امت میں ہر طرف پھیل جا نے والا شرک وہ شرک خفی ہے ۔ ریا کا ری ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس امت نے خاتم النبین حضر ت محمد مصطفےَصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر پہرادینے کا حق ادا کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی کی جھوٹی نبوت کو برداشت نہیں کر سکی اور اس معنی میں شرک فی الرسالت کا مقابلہ کیا ہے وہ امت سید المر سلین حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو معبوث کرنے والی ذات اللہ وحدہ لاشریک کے بارے میں شرک کو کیسے برداشت کر سکتی ہے جن کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ان کے نزدیک ازلی ابدی حی قیوم اللہ کے ہوتے ہوئے کو ئی اور اللہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ ویسے بھی جب تک قرآن موجو دہے شرک جلی کے امت میں پنپنے کی کوئی گنجا ئش نہیں ہے۔ پہلی امتو ں میں جو بد عملی تھی اس کا اس امت میں آجا نا معاذاللہ ایک اور امر ہے مگر پہلی امتو ں میں جیسے شرک تھا ویسے اس امت میں آنا یہ ہر گزنہیں ہے ان امتوں کی کتابیں محرف ہو گئیں مگر اس امت کا قرآن آج بھی تحریف سے پا ک ہے۔ان امتو ں میں ایسا بگاڑجو آیا تو اصلاح کیلئے نبوت کا دروازہ کھلا تھا ۔ مگر یہ امت آخری امت ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ چنا نچہ پہلی امتو ں جیسی شر ک کی بیما ری اس امت کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔اگر تھوک کے لحا ظ سے اس امت میں شرک آجانا ہوتا تو نبوت کا دروازہ بند نہ کیا جاتا بلکہ کچھ لوگو ں کے بقو ل ـــ’’آج مشرکین مکہ کے شرک سے بڑا شر ک مسلما نو ںمیں پایا گیا ہے‘‘تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھو ٹے مشرکین کے خلاف جہاد کیلئے نہ بھیجاجاتا بلکہ بڑے مشرکین کے زما نے میں معبوث کیا جا تا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کو نہا یت گھمبیر شرک کے زمانے میں مبعوث کیا گیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کی جڑیں ہمیشہ کیلئے کا ٹ دیں اور اپنی امت کی ریا کاری ،دنیا کی رغبت اور شہوت خفیہ کو شدید فتنہ قرار دیا امت کو شرکیہ امور سے ڈرانا ضرور چاہیے تا کہ کہیں جزوی طور پر بھی امکا نی صورت واقع میں نہ پائی جاسکے مگر توسل ،تبرک کا عقیدہ رکھنے والوں پر اور مزارات اولیاء پر حا ضری دینے والوں پر شرک کا فتوی بہت بڑا ظلم بھی ہے اور ملت میں انتشار کا باعث بھی ہے۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
احادیث کریمہ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ امت مسلمہ کا شرک جلی میں پڑنے کا کوئی خطرہ نہیں، اب مزید ایک حدیث اس حوالے سے پیش کی جائے گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو جام توحید پلایا اس کا خمار کب تک باقی رہے گا ؟
عن حذیفہ رضی اللہ عنہ قال ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم : یدرس الاسلام کما یدرس و شی الثوب حتی لا یدری ما صیام و لا صدقۃ ولا نسک ، س یسری علی کتاب اللہ فی لیلۃ فلا یبقی فی الارض منہ ایۃ ، و یبقی طوائف من الناس الشیخ الکبیر والعجوز الکبیرۃ یقولون ادرکنا اباءنا علی ھذہ الکلمۃ لا الہ الا اللہ فنحن نقولھا ۔ قال صلۃ بن زفر لحذیفۃ : فما تغنی عنھم لا الہ الا اللہ و ھم لا یدرون ما صیام و لا صدقۃ و لا نسک؟
فاعرض عنہ حذیفۃ فرددھا علیہ ثلاثا ، کل ذلک یعرض عنہ حذیفۃ ثم اقبل علیہ فی الثالثتہ فقال: یا صلۃ تنجیھم من النار ۔ ( مستدرک للحاکم جلد ۵ ص ۶۶۹ حدیث نمبر ۸۵۰۸ ، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۴۰۴۹ ، کتاب النہایہ فی الفتن لابن کثیر جلد ۱ ص ۳۰)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسلام یوں بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑے کے نقش و نگار مدھم ہو جاتے ہیں ، یہاں تک کہ یہ نہیں جانا جائے گا ، روزہ کیا ہے؟ صدقہ کیا ہے؟ اور قربانی کیا ہے؟ ایک ہی رات میں کتاب اللہ غائب ہو جائے گی ، زمین پر اس کی ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی لوگوں کے کچھ طبقے رہ جائیں گے بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کہیں گے ، ہم نے اپنے آباء کو اس کلمہ لاالہ الااللہ پر پایا تھا ہم بھی وہی کہہ رہے ہیں۔
حضرت صلہ بن زفر نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا جب انہیں نماز روزہ صدقہ اور قربانی کا پتہ نہیں ہو گا تو لا الہ الا اللہ انہیں کیا فائدہ دے گا ؟
حضرت حذیفہ نے ان سے اعراض کیا صلہ نے تین مرتبہ آپ سے پوچھا آپ اعراض کرتے رہے تیسری مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت صلہ کی طرف متوجہ ہوئے فرمایا، اے صلہ یہ کلمہ ان کو نار جہنم سے نجات دے گا۔امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
اس حدیث شریف میں جن حالات کا ذکر کیا گیا ہے ابھی وہ حالات نہیں آئے ہیں ، ابھی تو نمازیوں سے مساجد بھری ہیں ، روزے دار روزے رکھتے ہیں آج کے حالات کے مقابلے میں وہ حالات کتنے برے ہوں گے جب نماز روزے کا نام بھی بھول جائے گا مگر کلمہ اسلام پھر بھی نہیں بھولا ہو گا۔ اس وقت کے کمزور ترین مومن کا کلمہ بھی معتبر ہو گا، چنانچہ آج کے مسلمانوں پر تھوک یعنی ہول سیل کے لحاظ سے فتوی شرک کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ جن کے کلمہ کو غیر معتبر قرار دے دیا جائے اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرک جلی کا امکان نہیں امکان تو خدائی کے جھوٹے دعویٰ کا بھی ہے ۔ معاذ اللہ
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس امت نے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر پہرا دینے کا حق ادا کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کی جھوٹی نبوت کو برداشت نہیں کر سکی اور اس معنی میں شرک فی الرسالت کا مقابلہ کیا ہے ، وہ امت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کرنے والی ذات وحدہ لاشریک لہ کے بارے میں شرک کیسے برداشت کر سکتی ہے؟
ویسے بھی جب تک قرآ ن مجید امت کے پاس موجود ہے شرک جلی کا امت میں اگرچہ امکان ہے مگر پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مگر امکان تو معاذ اللہ یہ بھی ہے کہ کوئی الہ ہونے کا دعویٰ کر دے لیکن اس امکان کی بنیاد پر یہ درست نہیں ہے کہ امت پر یہ الزام لگایا جائے کہ یہ امت خدائی کی دعویدار ہے معاذ اللہ ایسا اگر کسی نے دعویٰ کیا تو فوراً امت سے نکل جائے گا ایسے ہی شرک جلی کی امکانی صورت اگر واقع میں پائی گئی تو ایسا نہیں ہو گا وہ امت دعوت میں بھی رہے اور مشرک بھی ہو بلکہ فوراً امت سے نکل جائے گا، پہلی امتوں میں جو بدعملی تھی اس کا اس امت میں آجانا معاذ اللہ ایک اور امر ہے مگر پہلی امتوں میں جیسے شرک تھا ویسے اس امت میں شرک آنا ہر گز نہیں ہے، ان امتوں کی کتابیں محرف ہو گئیں مگر اس امت کا قرآن آج بھی تحریف سے پاک ہے، ان امتوں میں بگاڑ آیا تو انبیا ء کرام مبعوث ہوتے رہے لیکن اب کوئی نبی نہیں آنا ، اور یہ امت آخری امت ہے لہٰذا پہلی امتوں جیسی شرک کی بیماری اس امت کا مسئلہ نہیں ہے اگر تھوک یعنی ہول سیل کے لحاظ سے اس امت میں شرک آجانا ہوتا تو نبوت کا دروازہ بند نہ کیا جاتا ، افسوس ہے کچھ لوگوں کے بقول "آج مشرکین مکہ کے شرک سے بڑا شرک مسلمانوں میں پایا گیا ہے ۔ الامان والحفیظ ۔ خلاصہ ء کلام یہ کہ یہ امت، امت توحید ہے اور شرک میں پڑنا اس امت کا مسئلہ نہیں ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
السلام علیکم
ReplyDeleteحضرت کیا آپ کی تحریرات کی کاپی کرنے کی اجازت ہے؟