Tuesday 28 November 2017

دیابنہ اور وہابیہ کے اصول کے مطابق لفظاَََ نماز کی نیت بدعت ہے مگر ؟

0 comments
دیابنہ اور وہابیہ کے اصول کے مطابق لفظاَََ نماز کی نیت بدعت ہے مگر ؟

دیوبندی مفتی جمیل احمد تھانوی نذیر دیوبندی لکھتے ہیں کہ : اگر زبان سے بھی نیت کر لی جائے تو بھی جائزہے ۔ (رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم کا طریقہ نما زص ۱۰۳ بحوالہ احناف ص407)

زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں اور بدعتِ ممنوعہ بھی نہیں؛ ادا کرلے گا تو گنہگار نہیں ہوگا؛ نہیں ادا کرے گا تو نماز فاسد نہیں ہوگی، نیت تو مرادِ قلبی کا نام ہے وہ ادائے نماز کے لئے کافی ہے، لوگوں کے قلوب پر عامتاً افکار کا ہجوم رہتا ہے اور وہ پوری یکسوئی کے ساتھ قلب کو حاضر نہیں کرپاتے؛ اس لئے زبان سے بھی الفاظ ادا کرائے جاتے ہیں؛ تاکہ حضورِ قلب میں جس قدر کمی ہے وہ الفاظ کے ذریعہ سے پوری ہوجائے؛ اگر کوئی شخص احضارِ قلب پرقادر نہ ہو تو اس کے لئے الفاظ کا ادا کرلینا بھی کافی ہے۔(فتاویٰ محمودیہ:۵/۵۰۸،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)
جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے وقت اس طرح نیت کی جائے کہ فلاں وقت کی نماز امام کے پیچھے پڑھتا ہوں۔(فتاویٰ محمودیہ:۵/۵۰۵،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)

دیوبندی مفتی محمد عبد اللہ لکھتے ہیں کہ : دل سے نیت کرنا فرض ہے زبان سے مروجہ طریق کے مطابق نیت کرنا نہ فرض اور نہ ہی واجب۔البتہ متاخرین نے دونوں کو حاضر کرنے اور جمع کرنے کی بنا پر مستحب قرار دیا ہے لہذا اس مسئلہ میں بحث و منازعت غیر مناسب ہے جو زبان سے نیت کرے اس پر بھی نکیر نہ کی جائے اور جو دل سے بیت کرے وہ بھی سنت کا عامل ہے ۔ (خیر الفتاویٰ ج ۲ ص ۲۴۲)
آگے در مختار سے عربی عبارت نقل کی ہے جس کے آخر میں ہے کہ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے ۔بدعت پر مرتب فتاویٰ نے علامہ شامی کی عبارت نقل کی ہے کہ بدعت سے مراد بدعت حسنہ ہے ۔(مذکورہ)

نیت تو دل ہی سے ہوتی ہے؛ اگر دل کی نیت کا استحضار کرنے کے لئے زبان سے بھی کہہ لے فلاں نماز پڑھتا ہوں تو جائز ہے، رکعتوں کی تعداد گننے کی ضرورت نہیں۔
(آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۱۸۸، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)

علماے دیوبند کے اشرفعلی تھانوی بہشتی زیور میں لکھتے ہیں ’’اگر زبان سے نیت کہنا چاہیے تو اتنا کہہ دینا کافی ہے نیت کرتی ہوں میں آج کے ظہر کے فرض کی اللہ اکبر یا نیت کرتی ہوں میں ظہر کی سنتوں کی اللہ اکبر(بہشتی زیور حصہ دوئم ص ۸۲:مسئلہ ۲)
گو تھانوی اس کو ضروری نہیں سمجھتے لیکن بدعت ضلالہ بھی نہیں کہتے۔

اس پر ہمارے کچھ سوال ؟

تھانوی صاحب نے جتنے الفاظ کہنے کو کافی قرار دیا ان کا ثبوت پیش کریں ؟

کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم لفظََ ایسی نیت ثابت ہے ؟

کیا کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے ؟

کیا کسی تابعی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے ؟

یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ بدعت کہا جائے کیوں کہ اہل علم جانتے ہیں کہ بعض علماے کرام نے زبان سے لفظاََ تعریف کو بدعت کہا ہے ۔ اور چوں کہ علماے وہابیہ کے نزدیک بدعت کی صرف ایک ہی قسم مانی جاتی ہے لہٰذا بدعت حسنہ کی تاویل ان کو قطعاََ جائز نہیں ۔

علامہ احمد قسطلانی فرماتے ہیں یعنی’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم کا زبان کے ساتھ لفظاََ نیت کرنا منقول نہیں اور نہ ہی آپ نے صحابہ کرام میں سے کسی کو تلفظ بالنیۃ کی تعلیم دی اور نہ ہی آپ نے اس کی تلقین فرمائی۔ (المواہب اللدنیہ جلد چہارم ۷۲)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم نے اپنی ظاہری حیاتِ طیبہ میں تیس ہزار سے زائد نمازیں ادا فرمائیں مگر آپ سے کہیں بھی یہ منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم نے بایں الفاظ زبان کے ساتھ نیت فرمائی‘‘(مرقات جلد اول :۳۷ ،الموہب اللدنیہ جلد چہارم ۷۳)

ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم سے بطریق صحیح نہ ہی بطریق ضعیف ثابت ہے کہ آپ نماز شروع کرتے وقت زبان سے کچھ نہ کچھ کہتے تھے اور صحابہ اور تابعین سے بھی منقول نہیں ۔لہٰذا اُصول وہابیہ کے مطابق زبان سے لفظا ایسی نیت بدعت ہونی چاہیے ۔

اگر کوئی یہ کہے کہ اس کا اتنا بڑا معاملہ نہیں تو ہم کہتے ہیں کہ پھر علماے کرام نے اس پر بحث ہی کیوں کی ؟

اور بعض نے بدعت [حسنہ]کے تحت داخل کیوں کی ا؟

آخر بعض علماے نے لفظاََ نیت کی مخالفت کیوں کی ؟

اہل سنت و جماعت کے مواقف کی تائید : ہم کہتے ہیں کہ اگر نیا کام اچھا ہو اور خلاف شرع نہ ہو تو اس کے کرنے میں کچھ حرج نہیں، ہمارے علما نے بدعت حسنہ کے تحت ایسی باتوں پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے۔

فقیہ حضرت ابراہیم حلبی رحمتہ اللہ علیہ زبان سے نماز کی نیت کرنے کے متعلق لکھتے ہیں کہ’’امام ابن الہام نے بعض حفاظ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم سے بطریق صحیح نہ ہی بطریق ضعیف ثابت ہے کہ آپ نماز شروع کرتے وقت زبان سے کچھ نہ کچھ کہتے تھے اور صحابہ اور تابعین سے بھی منقول نہیں بلکہ اتنا منقول ہے کہ جب آپ نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے ’’وھذہ بدعۃ لکن عدم النقل و کونہ بدعۃ لاینافی کونہ حسنا‘‘ زبان سے نیت کرنا بدعت [نیا کام]ہے لیکن عدم نقل اور اس کا بدعت [نیا ]ہونا اس کے حسن[اچھے و جائز] ہونے کے منافی نہیں ۔ (کبری شرح مینہ صفحہ ۲۹۶ )
دیکھے خود فرما رہے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم ،صحابہ و تابعین نے منقول نہیں لیکن اس کا نیا ہونا حسن ہونے کے منافی نہیں ۔ اس عمل کو بدعت ضلالہ نہیں کہا گیا ، یہ نہیں کہا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم سے منقول نہیں لہٰذا بدعت ضلالہ ہے ۔ صحابہ و تابعین سے منقول نہیں لہٰذا بدعت ضلالہ ہے ۔ بلکہ اس کو حسن کہا۔ اس لیے ہم سنی کہتے ہیں کہ ذکر رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم کی محافل کی مختلف شکلیں خواہ منقول نہ بھی ہوں تب بھی بدعت ضلالہ نہیں بلکہ حسنہ کہلائیں گی ۔ بحرحال یہاں یہ موضوع نہیں اس لیے آگے چلتے ہیں۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔