Monday 20 November 2017

قرآن پاک اور ذکر میلاد انبیاء کرام علیہم السّلام ۔ حصّہ اوّل

0 comments

قرآن پاک اور ذکر میلاد انبیاء کرام علیہم السّلام ۔ حصّہ اوّل

عرب ممالک میں اَئمہ و محدثین اور علماء حق نے آقا علیہ السلام کے میلاد کے موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ اہلِ عرب کے ہاں میلاد کے بیان کو عرفِ عام میں ’’مولد، ‘‘ ’’موالید‘‘ یا ’’مولود‘‘ پڑھنا کہتے ہیں۔ اس لیے ایسی کتابوں یا مضامین کو جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے واقعات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات کا تذکرہ ہو ’’مولود‘‘ کہا جاتا ہے۔ عرب ممالک میں اہلِ محبت مسلمانوں کے ہاں اکثر و بیشتر اب بھی یہی طریقہ رائج ہے کہ جب ماہ ربیع الاول آتا ہے تو وہ محافلِ میلاد میں ذوق و شوق سے مولود خوانی کرتے ہیں۔ حجاز مقدس میں آج بھی نثر و نظم کی صورت میں مولود کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں۔ مدینہ طیبہ، مکہ معظمہ، شام، مصر، عراق، عمان، اُردن، عرب امارات، کویت، لیبیا اور مراکش جیسے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا کے ہر ملک میں اَئمہ و محدثین کے تصنیف کردہ مولودبہت مقبول ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعاتِ ولادت کے بیان کو جسے اہلِ عرب مولد یا مولود کہتے ہیں، اُردو میں ’’میلاد نامہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

انبیاء علیہم السّلام کا ذکر کرنا سنت الٰہیہ ہے

بعض تجدد پسند ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت تو ہو چکی اور اس کے آثار و واقعات بھی رونما ہو چکے، فی زمانہ اس کے ذکر و بیان کی کیا ضرورت ہے؟ لہٰذا اب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور اُسوۂ حسنہ ہی بیان کیا جائے۔ یہ سوچ غیر قرآنی ہے جس کا اِزالہ اَز حد ضروری ہے۔

قرآن و سنت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے محبوب اور برگزیدہ بندوں کا ذکر کرنا نہ صرف عبادت ہے بلکہ یہ خالقِ کائنات کی سنت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید میں جابجا اپنے صالح و مقرب بندوں بالخصوص انبیاء علیہم السلام کا ذکر بالالتزام فرماتا ہے کیوں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے مقبول اور منتخب بندے ہوتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ان کی ولادت اور سیرت دونوں مذکور ہیں۔ قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے تذکار اللہ تعالیٰ کی سنت اور حکم کے طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اَقدس سے کئی بار تلاوت کیا گیا۔ اس بناء پر انبیاء کرام علیہم السلام کی ولادت باسعادت کے واقعات اور ان کی جزئیات تک کا ذکر کرتے رہنا سنتِ الٰہیہ بھی ہے اور خود سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی۔ انبیاء علیہم السلام کے حالات و واقعات کا ذکر کرنا کتنا باعثِ خیر و برکت ہے اس کی تفصیل قرانی آیات کی روشنی میں ہمارے سامنے ہے۔ یوں تو قرآن مجید نے انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی امتوں کے حالات و واقعات کو جا بجا تفصیل سے بیان کیا ہے مگر کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں انبیاء و مقربین کے ذکر کو ہی عنوانِ کلام بنایا گیا۔ اس حوالے سے بطور نمونہ چند آیات درج ذیل ہیں :

اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الانعام میں انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا : وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلاًّ فضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَO وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍO
ترجمہ : اور اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط (کو بھی ہدایت سے شرف یاب فرمایا) اور ہم نے ان سب کو (اپنے زمانے کے) تمام جہان والوں پر فضیلت بخشیo اور ان کے آباء (و اجداد) اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی (بعض کو ایسی فضیلت عطا فرمائی) اور ہم نے انہیں (اپنے لطفِ خاص اور بزرگی کے لیے) چن لیا تھا اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرما دی تھی ۔(سورۃ الأنعام، 6 : 86، 87)

قرآن حکیم کی چودھویں سورت کا نام ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے خلیل اِبراہیم علیہ السلام کے نام پر رکھا۔ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام کے حوالہ سے فرمایا : الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِO
ترجمہ: سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحق (دو فرزند) عطا فرمائے، بے شک میرا رب دعا خوب سننے والا ہے ۔(سورہ ابراهيم، 14 : 39)

سورہ مریم اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کے اَذکار سے بھری پڑی ہے، اس میں انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر تواتر کے ساتھ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کے ذکر سے آغاز کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا : ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّاO إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّاO
ترجمہ : یہ آپ کے رب کی رحمت کا ذکر ہے (جو اُس نے) اپنے (برگزیدہ) بندے زکریا پر (فرمائی تھی)o جب انہوں نے اپنے رب کو (ادب بھری) دبی آواز سے پکارا ۔(سورہ مريم، 19 : 2، 3)

وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّا ۔ ترجمہ : اور (ہم نے) اپنے لطفِ خاص سے (انہیں) درد و گداز اور پاکیزگی و طہارت (سے بھی نوازا تھا)، اور وہ بڑے پرہیزگار تھے ۔(سورہ مريم، 19 : 13)

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّاO
ترجمہ : اور (اے حبیبِ مکرم!) آپ کتاب (قرآن مجید) میں مریم کا ذکر کیجئے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر (عبادت کے لیے خلوت اختیار کرتے ہوئے) مشرقی مکان میں آگئیں ۔(مريم، 19 : 16)

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ۔ ترجمہ : اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم کا ذکر کیجئے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے ۔ (سورہ مريم، 19 : 41)

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَى إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولاً نَّبِيًّاO
ترجمہ : اور (اس) کتاب میں موسیٰ کا ذکر کیجئے، بے شک وہ (نفس کی گرفت سے خلاصی پا کر) برگزیدہ ہو چکے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھے ۔(سورہ مريم، 19 : 51)

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولاً نَّبِيًّاO وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّاO
ترجمہ : اور آپ (اس) کتاب میں اسماعیل کا ذکر کریں، بے شک وہ وعدہ کے سچے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھےo اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضور مقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی اُن کا رب اُن سے راضی تھا) ۔ ( سورہ مريم، 19 : 54، 55)

حضرت اِدریس علیہ السلام کے حوالہ سے فرمایا : وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّاO وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا ۔ ترجمہ : اور (اس) کتاب میں اِدریس کا ذکر کیجئے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھےo اور ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھالیا تھا ۔ ( سورہ مريم، 19 : 56، 57)

اِسی طرح سورۃ الانبياء بھی انبیائے کرام کے محبوب تذکروں سے بھرپور ہے، حتیٰ کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے مسلسل تذکرے سے قبل آیت نمبر 50 میں تمہیداً یہ کلمات ارشاد فرمائے گئے : وَهَذَا ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ أَفَأَنتُمْ لَهُ مُنكِرُونَ ۔ ترجمہ : اور یہ (قرآن) برکت والا ذکر ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، کیا تم اس سے انکار کرنے والے ہو ۔ (سورۃ الأنبياء، 21 : 50)

ذکرِ مبارک کا عنوان دے کر اگلی آیت سے جد الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر شروع کیا گیا۔ ارشاد فرمایا : وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِه عَالِمِينَO
ترجمہ : اور بے شک ہم نے پہلے سے ہی ابراہیم کو ان کے (مرتبہ کے مطابق) فہم و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم ان (کی اِستعداد و اہلیت) کو خوب جاننے والے تھے ۔ ( سورۃ الأنبياء، 21 : 51)

پھر ان کے تفصیلی تذکرہ کے بعد حضرت لوط، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام کا ذکر ہے، جس کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے : وَكُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِينَ ۔
ترجمہ : اور ہم نے ان سب کو صالح بنایا تھا ۔ (سورۃ الأنبياء، 21 : 72)

پھر آیت نمبر 73 میں ان کے دیگر فرائضِ منصبی کے باب میں فرمایا گیا :وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَO
ترجمہ : اور ہم نے انہیں(اِنسانیت کا) پیشوا بنایا وہ (لوگوں کو) ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف اَعمالِ خیر اور نماز قائم کرنے اور زکٰوۃ ادا کرنے (کے احکام) کی وحی بھیجی، اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے ۔ ( سورۃ الأنبياء، 21 : 73)
اس کے بعد آیت نمبر 76 سے لے کر آیت نمبر 84 تک حضرت نوح، حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت ایوب علیہم السلام کا تذکرہ ہے۔ آخر میں حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَى لِلْعَابِدِينَO
ترجمہ : تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف (پہنچ رہی) تھی سو ہم نے اسے دور کر دیا اور ہم نے انہیں ان کے اہل و عیال (بھی) عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور (عطا فرما دیے) یہ ہماری طرف سے خاص رحمت اور عبادت گزاروں کے لیے نصیحت ہے (کہ اللہ صبر و شکر کا اجر کیسے دیتا ہے) ۔ ( سورۃ الأنبياء، 21 : 84)
پھر اگلی آیات میں حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور حضرت ذو الکفل علیہم السلام کا یوں تذکرہ فرمایا : وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِينَO وَأَدْخَلْنَاهُمْ فِي رَحْمَتِنَا إِنَّهُم مِّنَ الصَّالِحِينَO
ترجمہ : اور اسماعیل اور ادریس اور ذو الکفل (کو بھی یاد فرمائیں)، یہ سب صابر لوگ تھےo اور ہم نے انہیں اپنے (دامنِ) رحمت میں داخل فرمایا، بے شک وہ نیکوکاروں میں سے تھے۔(الأنبياء، 21 : 85، 86)
اس کے بعد آیت نمبر 87 تا آیت نمبر 90 میں حضرت یونس (جنہیں ذوالنون کے لقب سے یاد فرمایا گیا ہے)، حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہم السلام کا ذکر فرمایا اور آخر میں حسبِ سابق ان کے قلبی احوال اور روحانی کیفیات یوں بیان فرمائیں :إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَO
ترجمہ : بے شک یہ (سب) نیکی کے کاموں (کی انجام دہی) میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیت (کی کیفیتوں) کے ساتھ پکارا کرتے تھے، اور ہمارے حضور بڑے عجز و نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھے ۔ ( سورۃ الأنبياء، 21 : 90)

اللہ رب العزت نے اپنے محبوب و مقرب اور برگزیدہ بندوں کے ذکر کی مقصدیت اور غرض و غایت کے حوالے سے یوں ارشاد فرمایا :إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِّقَوْمٍ عَابِدِينَ ۔ ترجمہ : بے شک اس میں عبادت گزاروں کے لیے (حصولِ مقصد کی) کفایت و ضمانت ہے ۔ (سورۃ الأنبياء، 21 : 106)

پھر اس سورت میں مقبولانِ حق کے ذکر کا سارا سلسلہ محبوبانِ عالم کے سرتاج رحمتِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جا کر ختم ہوا۔ آیت نمبر 107 کا اختتام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکرِ جمیل سے کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ۔ ترجمہ : اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر ۔ ( سورۃ الأنبياء، 21 : 107)

س کے بعد اس سورت میں کسی اور نبی اور رسول کا ذکر نہیں فرمایا گیا کیوں کہ تذکرۂ محبت اپنے معراج اور نقطۂ کمال کو پہنچ چکا۔ ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جس آیتِ کریمہ پر سورۃ الانبياء ختم فرمائی وہ ذکرِ رحمان ہے۔ ارشاد فرمایا : قَالَ رَبِّ احْكُم بِالْحَقِّ وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَO
ترجمہ : (ہمارے حبیب نے) عرض کیا : اے میرے رب! (ہمارے درمیان) حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے، اور ہمارا رب بے حد رحم فرمانے والا ہے اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے ان (دل آزار) باتوں پر جو (اے کافرو!) تم بیان کرتے ہو ۔ (سورۃ الأنبياء، 21 : 112)

اللہ تعالیٰ نے سورئہ ص میں اِرشاد فرمایا : وَاذْكُرْ إِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ وَكُلٌّ مِّنْ الْأَخْيَارِ ۔
ترجمہ : اور (اسی طرح) اسمٰعیل اور الیسع اور ذو الکفل کا ذکر کیجئے، اور یہ سبھی نیک لوگوں میں سے تھے ۔ (سورہ ص، 38 : 48)

ہم نے صرف پانچ سورتوں میں سے چند منتخب آیات بیان کی ہیں ورنہ قرآن مجید میں بے شمار ایسے مقامات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مقرب بندوں کے تذکرے فرمائے ہیں اور یکے بعد دیگرے سب کے روحانی مشاغل و معمولات کا ذکر کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے مقربین کی دعاؤں اور مناجات کے کلمات۔ جن سے وہ اللہ کو پکارتے تھے ۔ بھی من و عن بیان کر دیے، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے خاص اَوقاتِ دعا، اَندازِ دعا اور مقاماتِ دعا و گریہ تک بیان فرما دیئے۔ اس پر مستزاد ان پر اپنی غیبی نوازشات کے ساتھ ان کی آزمائشیں، ریاضات، مجاہدات، ان کی ثابت قدمی اور اُولو العزمی بیان فرما دی۔ الغرض ان کے ذکر کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ اس بیان سے ہمیں بار بار اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ یہ سب التزام عبادت گزاروں اور اِطاعت شعاروں کے لیے ہے۔ جو کوئی اللہ کی اطاعت و عبادت اور محبوبیت و مقرّبیت کی راہ تک رسائی حاصل کرنا چاہے تواس کے لیے یہی تذکرے نشانِ منزل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے لے کر آج تک تاریخِ اسلام کے ہر دور میں حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ سیرت اور حسنِ صورت کا بیان کرنا ہر صاحبِ ایمان و محبت کا شیوہ رہا ہے۔ ائمہ و محدثین، علماء کاملین اور اولیاء و عارفین سب اپنے اپنے ذوق اور بساط کے مطابق ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں اور ہر دور میں اس حوالے سے صدہا کتب تصنیف و تالیف کی جاتی رہی ہیں تاکہ اس سنتِ الہٰیہ پر عمل کی برکات دوسروں کو بھی نصیب ہوں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کا میلاد بیان کیا ہے۔ قرآن مجید کی کئی شانوں میں سے ایک شان یہ بھی ہے کہ یہ میلاد نامۂ انبیاء علیہم السلام ہے اور میلاد پڑھنے والی ذات خود ربِ کائنات ہے۔ لہٰذا اس اعتبارسے محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد پڑھنا سنتِ الٰہیہ ہے۔

میلادِ انبیاء علیہم السلام کی اہمیت

ولادت ہر انسان کے لیے خوشی و مسرت کا باعث ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یومِ پیدائش کی ایک خاص اہمیت نظر آتی ہے، اور یہ اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ان دنوں کی نسبت انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف ہو۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی ولادت فی نفسہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ ہے۔ ہر نبی کی نعمتِ ولادت کے واسطہ سے اس کی اُمت کو باقی ساری نعمتیں نصیب ہوئیں۔ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت و نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمتِ ہدایتِ آسمانی اور وحی ربانی کی نعمتِ نزولِ قرآن اور ماہ رمضان کی نعمت، جمعۃالمبارک اور عیدین کی نعمت، شرف و فضیلت اور سنت و سیرتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت، الغرض جتنی بھی نعمتیں ایک تسلسل کے ساتھ عطا ہوئیں، ان ساری نعمتوں کا اصل موجب اور مصدر ربیع الاوّل کی وہ پرنور، پرمسرت اور دل نشین و بہار آفریں سحر ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی اور وہ بابرکت دن ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیائے آب و گل میں تشریف آوری ہوئی۔ لہٰذا حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر خوش ہونا اور جشن منانا ایمان کی علامت اور اپنے آقا نبئ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قلبی تعلق کا آئینہ دار ہے۔

قرآن مجید نے بعض انبیاء کرام علیہم السلام کے ایام ولادت کا تذکرہ فرما کر اس دن کی اہمیت و فضیلت اور برکت کو واضح کیا ہے :حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ۔ ترجمہ : اور یحییٰ پر سلام ہو، ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے ۔ (سورہ مريم، 19 : 15)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف کلام کی نسبت کرکے قرآن مجید فرماتا ہے : وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ۔ ترجمہ : اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کے دن اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا ۔ (سورہ مريم، 19 : 33)

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ذکر مبارک قسم کے ساتھ بیان فرمایا۔ ارشاد فرمایا : لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ ۔
ترجمہ : میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوںo (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی ۔ ( سورہ البلد، 90 : 1 - 3)

اگر ولادت کا دن قرآن و سنت اور شریعت کے نقطہ نظر سے خاص اہمیت کا حامل نہ ہوتا تو اس دن پر بطور خاص سلام بھیجنا اور قسم کھانے کا بیان کیا معنی رکھتا ہے؟ لہٰذا اسی اہمیت کے پیشِ نظر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام کے میلاد کا ذکر فرمایا ہے۔ بطور حوالہ ذیل میں چند جلیل القدر انبیاء علیہم السلام کے میلاد کا تذکرہ کیا جاتا ہے :

میلاد نامۂ آدم علیہ السلام

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب اور برگزیدہ بندوں میں سے سب سے پہلے ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً. ترجمہ : اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔(سورہ بقرہ)
اﷲ رب العزت نے سیدنا آدم علیہ السلام کے میلاد کا ذکر ان کی تخلیق سے بھی پہلے فرما دیا، جس کا ذکر مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ہوا ہے۔ پھر جب خالقِ کائنات نے آدم علیہ السلام کے پیکرِ بشری کی تخلیق فرمائی اور تمام فرشتوں کو اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا تو ابلیس نے نافرمانی کی اور راندۂ درگاہ ہوا۔ تخلیقِ آدم علیہ السلام کی اس پُرکیف داستان کا ذکر قرآن مجید نے تفصیلاً کر دیا ہے : وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍO فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَO فَسَجَدَ الْمَلآئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَO إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ۔
ترجمہ : اور (وہ واقعہ یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایاکہ میں سن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے ایک بشری پیکر پیدا کرنے والا ہوںo پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لاچکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ میں گر پڑناo پس (اس پیکرِ بشری کے اندر نورِ ربانی کا چراغ جلتے ہی) سارے کے سارے فرشتوں نے سجدہ کیاo سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا ۔ سورۃ الحجر، 15 : 28 - 31)
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے، صرف پیدائش کا ہی نہیں بلکہ ان کی حیاتِ طیبہ کے کئی پہلوؤں کا ذکر موجود ہے، جیسے جنت میں ان کے رہن سہن، تخلیقِ آدم پر فرشتوں کے خیالات، شیطان مردود کا اعتراض اور پیکرِ آدم کو سجدہ نہ کرنے کا ذکر بھی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ انسانی تخلیق سے متعلق جتنی آیات ہیں ان کا اوّلین مصداق سیدنا آدم علیہ السلام ہیں جن کے احوال کو تفصیل سے قرآنِ مجید کی زینت بنایا گیا ہے۔ یہی ان کا ’’میلاد نامہ‘‘ ہے۔

میلاد نامۂ موسیٰ علیہ السلام

سیدنا موسیٰ علیہ السلام وہ جلیل القدر نبی ہیں جنہوں نے فرعون جیسے ظالم، جابر اور سرکش شخص کو للکارا جو زمین پر خدائی کا دعوے دار بنا بیٹھا تھا۔ اللہ رب العزت نے ان کی بعثت کے ذریعہ بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دی اور فرعون کو غرق کرکے ہمیشہ کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قبل فرعون نے بنی اسرائیل پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔ جب اسے شاہی نجومیوں نے بتایا کہ بنی اسرائیل میں کسی ایسے بچے کی پیدائش ہونے والی ہے جس کے ذریعہ بنی اسرائیل تمہاری محکومی سے نجات پا لیں گے تو اس نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانے شروع کر دیے۔ لڑکوں کو ذبح کروا دیتا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا۔ ان حالات میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی جسے اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
سورۃ القصص کا آغاز ہی قصۂ موسیٰ و فرعون سے ہوا ہے جو کہ 50 آیات مبارکہ پر مشتمل ہے۔ پہلے 5 رکوعات مسلسل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے وقف ہیں۔ ذیل میں ہم میلاد نامۂ موسیٰ علیہ السلام کے ضمن میں سورۃ القصص کی ابتدائی 14 آیات بمع ترجمہ دے رہے ہیں جن میں باری تعالیٰ نے ان کی پیدائش سے لے کر جوانی تک کا ذکر بڑے بلیغ انداز سے کرتے ہوئے اُمت مسلمہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ اپنے محبوب بندوں کا میلاد پڑھنا میری سنت ہے۔ ارشاد فرمایا : طسمO تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِO نَتْلُوا عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَى وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَO إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَO وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَO وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَO وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَO فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَO وَقَالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّي وَلَكَ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَى أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَO وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَى فَارِغًا إِن كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَO وَقَالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ فَبَصُرَتْ بِهِ عَن جُنُبٍ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَO وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِن قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَO فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَO وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَى آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ۔ (سورۃ القصص، 28 : 1 - 14)
ترجمہ : طا، سین، میم (معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیںo (اے حبیبِ مکرم!) ہم آپ پر موسیٰ اور فرعون کے حقیقت پر مبنی حال میں سے ان لوگوں کے لیے کچھ پڑھ کر سناتے ہیں جو ایمان رکھتے ہیںo بے شک فرعون زمین میں سرکش و متکبر (یعنی آمرِ مطلق) ہوگیا تھا اور اس نے اپنے (ملک کے) باشندوں کو (مختلف) فرقوں (اور گروہوں) میں بانٹ دیا تھا اس نے ان میں سے ایک گروہ (یعنی بنی اسرائیل کے عوام) کو کمزور کر دیا تھا کہ ان کے لڑکوں کو (ان کے مستقبل کی طاقت کچلنے کے لیے) ذبح کر ڈالتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا (تاکہ مردوں کے بغیر ان کی تعداد بڑھے اور ان میں اخلاقی بے راہ روی کا اضافہ ہو)، بے شک وہ فساد انگیز لوگوں میں سے تھاo اور ہم چاہتے تھے کہ ہم ایسے لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں (حقوق اور آزادی سے محرومی اور ظلم و استحصال کے باعث) کمزور کر دیے گئے تھے اور انہیں (مظلوم قوم کے) رہبر و پیشوا بنا دیں اور انہیں (ملکی تخت کا) وارث بنا دیںo اور ہم انہیں ملک میں حکومت و اقتدار بخشیں اور فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجوں کو وہ (انقلاب) دکھا دیں جس سے وہ ڈرا کرتے تھےo اور ہم نے موسیٰ کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو پھر جب تمہیں ان پر (قتل کر دیے جانے کا) اندیشہ ہوجائے تو انہیں دریا میں ڈال دینا اور نہ تم (اس صورت حال سے) خوف زدہ ہونا اور نہ رنجیدہ ہونا، بے شک ہم انہیں تمہاری طرف واپس لوٹانے والے ہیں اور انہیں رسولوں میں (شامل) کرنے والے ہیںo پھر فرعون کے گھر والوں نے انہیں (دریا سے) اٹھا لیا تاکہ وہ (مشیتِ الٰہی سے) ان کے لیے دشمن اور (باعثِ) غم ثابت ہوں، بے شک فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجیں سب خطا کار تھےo اور فرعون کی بیوی نے (موسیٰ کو دیکھ کر) کہا کہ (یہ بچہ) میری اور تیری آنکھ کے لیے ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اس کو بیٹا بنالیں اور وہ (اس تجویز کے انجام سے) بے خبر تھےo اور موسیٰ کی والدہ کا دل (صبر سے) خالی ہوگیا، قریب تھا کہ وہ (اپنی بے قراری کے باعث) اس راز کو ظاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل پر صبر و سکون کی قوت نہ اتارتے تاکہ وہ (وعدہء الٰہی پر) یقین رکھنے والوں میں سے رہیںo اور (موسیٰ کی والدہ نے) ان کی بہن سے کہا کہ (ان کا حال معلوم کرنے کے لیے) ان کے پیچھے جاؤ، سو وہ انہیں دور سے دیکھتی رہی اور وہ لوگ (بالکل) بے خبر تھےo اور ہم نے پہلے ہی سے موسیٰ پر دائیوں کا دودھ حرام کردیا تھا سو (موسیٰ کی بہن نے) کہا : کیا میں تمہیں ایسے گھروالوں کی نشاندہی کروں جو تمہارے لیے اس (بچے) کی پرورش کر دیں اور وہ اس کے خیر خواہ (بھی) ہوںo پس ہم نے موسیٰ کو (یوں) ان کی والدہ کے پاس لوٹا دیا تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور تاکہ وہ (یقین سے) جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتےo اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمِ (نبوت) اور علم و دانش سے نوازا، اور ہم نیکو کاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں ۔
ان چودہ آیاتِ بینات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے کے حالات، ان کی پیدائش، ان کے بہ اَمرِ الٰہی صندوق میں ڈالے جانے، پھر فرعون کے محل میں پرورش پانے اور رضاعت کے لیے ان کی والدہ کی طرف لوٹائے جانے اور پھر جوانی اور بعثت یعنی ایک ایک چیز کا بیان ہوا۔ اور یہی ’’میلاد نامۂ موسیٰ علیہ السلام ‘‘ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک کی زینت بنایا۔

میلاد نامۂ مریم علیھا السلام

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت مریم علیھا السلام کا میلاد نامہ بھی بیان کیا ہے جو اگرچہ پیغمبر نہیں لیکن ایک برگزیدہ پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ اور ایک پاک باز ولیۂ کاملہ تھیں۔ ان کا میلاد نامہ بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے بعض انبیاء علیھم السلام اور ان کی نسل کی فضیلت بیان کی۔ اِرشاد فرمایا : إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَO ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۔
ترجمہ : بے شک اللہ نے آدم کو اور نوح کو اور آلِ ابراہیم کو اور آلِ عمران کو سب جہان والوں پر (بزرگی میں) منتخب فرما لیاo یہ ایک ہی نسل ہے ان میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے ۔ ( سورہ آل عمران، 3 : 33، 34)
اِس تمہید کے بعد میلاد نامۂ مریم علیھا السلام کا بیان شروع ہوتا ہے۔ یہاں کوئی اِعتراض کر سکتا ہے کہ قرآن حکیم نے تو صرف گزشتہ واقعہ بیان کیا ہے، آپ اسے میلاد نامہ کیسے قرار دے رہے ہیں؟ یہ اِعتراض کرنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ جو چیز فقط تعلیم و تربیت اور رُشد و ہدایت کی غرض سے بیان کی جاتی ہے اُس کی حدود و قیود ہوتی ہیں۔ جو بات جس حد تک مضمون سے متعلق ہو اتنی بتائی جاتی ہے اور غیر متعلق بات کو کم اَز کم کلامِ اِلٰہی میں جگہ دینے اور صحیفہ اِنقلاب کا مضمون بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ حضرت مریم علیھا السلام کی ولادت سے متعلق ذیل میں دی گئی آیات اور ترجمہ پر غور کریں، خود بخود پتہ چل جائے گا کہ یہ نفسِ مضمون کسی تعلیم و تربیت اور رُشد و ہدایت کے لیے نہیں بلکہ فقط ولادت کا قصہ بیان ہو رہا ہے جسے ہم بجا طور پر میلاد نامہ کا نام دے رہے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے : إِذْ قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُO فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَى وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَى وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وِإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ۔
ترجمہ : اور (یاد کریں) جب عمران کی بیوی نے عرض کیا : اے میرے رب! جو میرے پیٹ میں ہے میں اسے (دیگر ذمہ داریوں سے) آزاد کر کے خالص تیری نذر کرتی ہوں، سو تو میری طرف سے (یہ نذرانہ) قبول فرمالے، بے شک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo پھر جب اس نے لڑکی جنی تو عرض کرنے لگی : مولا! میں نے تو یہ لڑکی جنی ہے، حالاں کہ جو کچھ اس نے جنا تھا اللہ اسے خوب جانتا تھا، (وہ بولی : ) اور لڑکا (جو میں نے مانگا تھا) ہرگز اس لڑکی جیسا نہیں (ہوسکتا) تھا (جو اللہ نے عطا کی ہے)، اور میں نے اس کا نام ہی مریم (عبادت گزار) رکھ دیا ہے، اور بے شک میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود (کے شر) سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ۔ (سورہ آل عمران، 3 : 35، 36)
یہ حضرت مریم علیھا السلام کی ولادت کا حسین تذکرہ ہے جسے اللہ رب العزت نے بیان فرمایا۔ اگلی آیات میں ان کے بچپن کا بیان ہے جب وہ حضرت زکریا علیہ السلام کے سایہ عاطفت میں پرورش پانے لگیں۔ اس دوران میں اللہ رب العزت نے ان پر جو نوازشات کیں اور بے موسم پھل عطا فرمائے اُن کا تذکرہ ہے۔ اُن کی قیام گاہ کو وسیلہ بناتے ہوئے حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے اولادِ نرینہ کی دعا کی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بشارت عطا فرمائی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقاً قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّى لَكِ هَـذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ۔
ترجمہ : سو اس کے رب نے اس (مریم) کو اچھی قبولیت کے ساتھ قبول فرما لیا اور اسے اچھی پرورش کے ساتھ پروان چڑھایا، اور اس کی نگہبانی زکریا کے سپرد کردی، جب بھی زکریا اس کے پاس عبادت گاہ میں داخل ہوتے تو وہ اس کے پاس (نئی سے نئی) کھانے کی چیزیں موجود پاتے، انہوں نے پوچھا : اے مریم! یہ چیزیں تمہارے لیے کہاں سے آتی ہیں؟ اس نے کہا : یہ (رزق) اللہ کے پاس سے آتا ہے، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے ۔ (سورہ آل عمران، 3 : 37)
مذکورہ بالا آیت کریمہ میں حضرت مریم علیھا السلام کے بچپن اور پرورش سے متعلق حالات کا بیان ہے مگر بات فقط اس پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اللہ رب العزت نے ان کے فضائل مزید بیان فرمائے، یہاں تک کہ اس چھوٹی سی بات کو بھی نظرانداز نہ کیا جو ان کاہنوں سے متعلق ہے جب وہ اس کی پرورش کے لیے قرعہ ڈال رہے تھے۔ فرمایا :وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَO يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَO ذَلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُون أَقْلاَمَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ ۔
ترجمہ : اور جب فرشتوں نے کہا : اے مریم! بے شک اللہ نے تمہیں منتخب کر لیا ہے اور تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور تمہیں آج سارے جہان کی عورتوں پر برگزیدہ کر دیا ہےo اے مریم! تم اپنے رب کی بڑی عاجزی سے بندگی بجا لاتی رہو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کروo (اے محبوب!) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں حالانکہ آپ (اس وقت) ان کے پاس نہ تھے جب وہ (قرعہ اندازی کے طور پر) اپنے قلم پھینک رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی کفالت کرے، اور نہ آپ اس وقت ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔(آل عمران، 3 : 42 - 44)

یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بیان کردہ ’’میلاد نامۂ مریم علیھا السلام‘‘ ہی تو ہے کہ اس قدر چھوٹی چھوٹی باتیں بھی نظر انداز نہیں کی گئیں جن کا بظاہر تعلیم و تربیت سے کوئی تعلق نہیں مثلاً یہ فرمانا کہ وہ قرعہ اندازی کر رہے تھے، اپنے قلم پھینک رہے تھے اور آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ اگر بیان کرنے والے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد نامہ بیان کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات و واقعات کی تفصیلات و جزئیات اور ولادت باسعادت کے وقت ظہور میں آنے والے آثار و برکات بیان کریں تو یہ سنتِ الہٰیہ کے تتبع میں نہ صرف دین اور ایمان بلکہ اصلِ ایمان ہے۔ کاش کوئی اتنی سی بات سمجھ سکے کہ اگر اللہ کی ایک پاک باز ولیہ کا میلاد نامہ قرآن مجید میں بیان ہو رہا ہے تو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو محبوبِ رب العالمین اور تاجدارِ انبیاء علیھم السلام ہیں، ان کا میلاد نامہ کیوں نہیں بیان ہو سکتا! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد نامہ کا بیان ہرگز بدعت نہیں بلکہ جزوِ ایمان، اصلِ ایمان اور عینِ توحید ہے۔

میلاد نامۂ یحییٰ علیہ السلام

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کا میلاد نامہ بھی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ جب ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم علیھا السلام کی پرورش کے دوران توسلِ مکانی کرتے ہوئے حجرۂ مریم علیھا السلام میں کھڑے ہوکر دعا کی تو یہ منظر بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِO فَنَادَتْهُ الْمَلآئِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَـى مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَO قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عَاقِرٌ قَالَ كَذَلِكَ اللّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُO قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ إِلاَّ رَمْزًا وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ ۔
ترجمہ : اسی جگہ زکریا نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا : میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہےo ابھی وہ حجرے میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے (یا دعا ہی کر رہے تھے) کہ انہیں فرشتوں نے آواز دی : بے شک اللہ آپ کو (فرزند) یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو کلمۃ اﷲ (یعنی عیسیٰ) کی تصدیق کرنے والا ہوگا اور سردار ہوگا اور عورتوں (کی رغبت) سے بہت محفوظ ہو گا اور (ہمارے) خاص نیکوکار بندوں میں سے نبی ہوگاo (زکریا نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا درآنحالیکہ مجھے بڑھاپا پہنچ چکا ہے اور میری بیوی (بھی) بانجھ ہے؟ فرمایا : اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہےo عرض کیا : اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما؟ فرمایا : تمہارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے سوائے اشارے کے بات نہیں کر سکو گے اور اپنے رب کو کثرت سے یاد کرو اور شام اور صبح اس کی تسبیح کرتے رہو ۔ (آل عمران، 3 : 38 - 14)

واضح رہے کہ ابھی حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت نہیں ہوئی، صرف دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے قبل اَز ولادت ان کے بعض فضائل کا ذکر کر دیا۔ آگے سورۃ مریم میں ان کی ولادت کا مکمل بیان ہے جب کہ پہلے رکوع میں سارا بیان ہی میلادِ یحییٰ علیہ السلام کے لیے مختص ہے۔ اس بیان کو قرآن حکیم یوں شروع کرتا ہے : كهيعصO ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا ۔ ترجمہ : کاف، ہا، یا، عین، صاد (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o یہ آپ کے رب کی رحمت کا ذکر ہے (جو اس نے) اپنے (برگزیدہ) بندے زکریا پر (فرمائی تھی) ۔ ( سورہ مريم، 19 : 1 - 2)
ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ پیغمبر کی ولادت کا ذکر (میلاد نامہ) قرآن مجید کے الفاظ میں اللہ کی رحمت ہوتا ہے۔ جب حضرت یحییٰ علیہ السلام کے میلاد کا ذکر رحمتِ ایزدی ہے تو میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بدرجہ اُولیٰ رحمت کیوں نہ ہوگا۔ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی رحمت اور کیا ہو سکتی ہے، لہٰذا عقلی و منطقی رُو سے بھی میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر، ذکرِ رحمت ہے۔(بقیہ حصّہ دوم میں پڑھیں)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔