دین اور دنیا کو الگ کرنا اسلام دشمنوں کی سازش ہے
مسلمان کی دنیا ہی اس کا دین ھے : آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ھے کہ ہم نے دین اور دنیا کو الگ الگ کردیا جسکی وجہ سے سب معاملہ خراب ہوگیا کیونکہ مسلمان کی دین میں دنیا ھے اور دنیا میں دین ھے ۔
آج ہم سے کوئی ہماری مصروفیت پوچھے تو ہم اس سے پوچھتے ہیں کون سی دینی تو نماز روزہ بتاتے ہیں دنیاوی دکان ملازمت یا کاروبار بتاتے ہیں : ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا تھا کہ آپ عبادت کتنی دیر کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا چوبیس گھنٹے تو سائل پریشان ہوگیا اور سوال کیا کہ کیا کھاتے پیتے سوتے کماتے آتے جاتے نہیں ہو ؟ تو فرمایا کہ ہمارا کھانا پینا سونا بیت الخلاء جانا بھی اگر ہم اس طریقے پر کریں جس طرح ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں تو وہ بھی عبادت بن جاتا ھے ۔
دنیا میں چار قسم کے لوگ اور انکا انجام
(1) ایک وہ جسکو اللہ نے مال دیا اور وہ علم بھی رکھتا ھے یعنی دین اور دنیا کو ساتھ چلا رہا ھے اسکے لئے دنیا بھی اچھی اور آخرت میں بھی آرام سکون راحت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین چیزیں خوش بختی خوش نصیبی کی علامات ہیں ( اللہ جسے چاہے دے) نمبر ایک کھلا گھر ، جسکا صحن کھلا ہو ، نمبر دو اچھی سواری یعنی سرکش نہ ہو ، نمبر تین فرمانبردار نیک بیوی ۔(مشکوۃ المصابیح)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مقدمہ آیا صحابہ کرام لے کر آئے کہ : مال والے ہم سے آخرت میں بھی آگے بڑھ گئے نماز روزہ باقی عبادات تو ہم بھی ان کے ساتھ ادا کرتے ہیں مگر ہم صدقہ خیرات نہیں کرسکتے وہ کرتے ہیں ہم غلام آزاد نہیں کرسکتے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وضیفہ بتاتا ہوں کہ تم ان سے بھی بڑھ جاؤ گے فرض نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ تینتیس مرتبہ الحمدلللہ چونتیس مرتبہ اللہُ اکبر جب مال دار صحابہ کو علم ہوا تو وہ بھی پڑھنے لگے تو پہلے والے پھر حاضر ہوئے کہ جی وہ تو سب کرنے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء ۔ ترجمہ : اللہ کا فضل ھے جسے چاھے جتنا دے ، صحابہ کرام دین دنیا کو اکٹھا کرتے تھے ۔ (الترغیب والترہیب ، کنز العمال)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت بخاری شریف میں ہے : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دوسرے صاحب سے معاملہ کر رکھا تھا کہ ایک دن میں کماؤں گا اس دن آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنا مال کو اکٹھا کرکے اس پر اللہ کے احکامات کو لاگو نہ کرنا اصل مسئلہ ھے وبال جان ھے اسی لئے اللہ تعالی نے انبیاء کو بادشاہ بنا کر بھی بھیجا تاکہ لوگ یہ دیکھ لیں اور حجت تام ہوجائے مال داری میں اللہ کے احکامات پورے کرو تو کامیاب ہوجاؤ گے ورنہ ناکام ۔
ہجرت کرکے مدینے پہنچے انصاری صحابی نے کہا کہ گھر مال ودولت سب آدھا آدھا لے لیں دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں ایک سے آپ شادی کرلیں
فرمایا کہ آپ کی اس پیشکش پر اللہ آپ کو اجر دے مجھے بس بازار کا راستہ بتا دیں پھر کچھ عرصہ گزرا کہ مالداروں میں سرفہرست انکا نام آتا تھا ۔
(2) دوسرا وہ کہ جو کہے کہ میرے پاس مال نہیں ھے اگر ہوتا تو میں بھی اللہ کے راہ خرچ کرتا اس کیلئے آخرت میں آسانیاں اور اسکا ملے اجر ۔ عبد اللہ ابن مبارک فوت ہوگئے ایک شخص کوخواب آیا پوچھا کیا بنا فرمایا کہ الحمد للہ اللہ کی رحمت رہی مجھ پر لیکن گلی کی نکر پر جو لوہار رہتا تھا اسکو جو ملا وہ مجھے بھی نہیں ملا یہ سن کر صاحب خواب کو تجسس ہوا کہ پتہ کیا جائے اگلے روز جا کر پتہ کِیا کہ کیا کرتا تھا
بیوی نے سن کر حیرانگی کا اظہار کیا اور کہا کہ صبح سے شام تک لوہا کوٹتا تھا لیکن دو کام کرتا تھا ۔ جب اذان ہوتی تو لوہے کو پھینک دیتا نماز پڑھنے چل دیتا ، اور جب رات کو تھک کر لیٹتا تو سامنے گھر میں بالا خانے میں عبداللہ ابن مبارک کو نماز پڑھتا دیکھتا تو کہتا کہ کاش میرے پاس بھی وقت ہوتا تھکاوٹ نہ ہوتی تو میں بھی ان کی طرح نماز پڑھتا ۔
(3) تیسرا جس کو اللہ نے دنیا دی لیکن اس کے پاس دین کا علم نہیں ھے اسکے لئے یہ وبال جان ھے ۔ اس کی ساری توانائیاں دنیا پر خرچ ہورہی ہوں اور وہ پیسے کو ناحق خرچ کررہا ھے غلط کاموں میں گناہوں میں نافرمانی کے کاموں پر ناچ گانوں پر تو یہ پیسہ بھی اس کیلئے وبال جان بن جائے گا ۔
(4) چار وہ جسکے پاس نہ پیسا ھے نہ علم ھے مگر اسکی چاہت یہ ھے کہ اگر میرے پاس پیسے ہوتے تو میں تیسرے شخص کی طرح اسے ضائع کرتا اللہ کے حق ادا نہ کرتا زکوٰۃ نہ دیتا غرباء کو نہ دیتا تو یہ خواہش ہی اس کے لئے وبال جان بن جائے گی
ہمیں ہر صورت میں اپنے ارادے نیک اور نیکی کیلئے تیار ہونا چاہئے کیونکہ مسلمان کی دین دنیا ایک ہی ھے دونوں میں مقصود اللہ کی رضا ھے ہر حال میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نمونہ ہے.
دین اور دنیا کی تقسیم نے مسلمانوں کو دنیاوی لحاظ سے تو بہت پیچھے چھوڑ ہی دیا، اس کے ساتھ ساتھ دینی لحاظ سے بھی مسلم امہ کے کردار اور اعمال کا بیڑا غرق کر دیا. اسلام نے مذہب اور دنیا کو الگ نہیں کیا. اسلام نے تو ہمیں بتایا تھا کہ اگر دنیا میں امامت کرنی ہے، اور آخرت میں کامیاب ہونا ہے تو دینی اور دنیاوی دونوں علوم و فنون کو ساتھ ساتھ لیکر چلنا ہوگا. دینی علوم سے راہنمائی حاصل کرو اور دنیاوی اسباب کو پوری طرح استعمال کرو، دنیا تمہارے زیر نگیں ہوگی. اسلام کا نقطہ نظر اس معاملے میں دنیا کے تمام مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں سے مختلف ہے. یہاں معاشرت، تمدن، عدالت، سیاست، معیشت، تعلیم غرض دنیوی زندگی کے سارے شعبوں کے ساتھ ساتھ روحانیت کا نور بھی حاصل کیا جا سکتا ہے. یہاں روحانی ترقی کے لیے جنگلوں، پہاڑوں اور عزلت کے گوشوں کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہاں روحانی قدروں کو معاشرے میں رہ کر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے. یہاں تو رشتہ ازدواج سے منسلک ہو کر بھی روحانی بلندیاں حاصل کی جا سکتی ہیں. ہمارے اذہان میں عام تاثر یہی ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں نوافل پڑھتا ہے، قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے یا پھر ذکر و اذکار میں مشغول رہتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ نیک کام کر رہا ہے، اپنی آخرت سنوارنے کی فکر میں لگا ہوا ہے، اور ایسا آدمی نیک اور دیندار شمار ہوتا ہے، اور اگر کوئی شخص اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئی ایسا پیشہ اختیار کرتا ہے جس میں شرعا کوئی قباحت نہ بھی ہو، تب بھی اس کے بارے میں یہ تصور ہوتا ہے کہ یہ تو دنیا کما رہا ہے. دین اور دنیا کی یہ تقسیم اصولی طور پر درست نہیں ہے، اس لیے کہ بندہ مؤمن کا ہر وہ عمل جو شریعت کے مخالف نہ ہو وہ دین ہی ہے.
دین و دنیا کی سیکولر تقسیم کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسلمان اسلام کو نکاح و طلاق، وضو و غسل عبادات واخلاق تک محدود سمجھنے لگے ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل نظریہ حیات ہے جو عبادات و تسبیحات، معاشرت و معیشت، سیاست و عدالت، تعلیم و ثقافت، اخلاق و اقدار، اجتماعیت و انفرادیت غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل رہنمائی دیتا ہے. اسلامی نظریہ کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ دین و دنیا کی تقسیم کو ختم کر کے ان میں وحدت پیدا کرتا ہے، یہاں نہ ترک دنیا اور رہبانیت کی اجازت ہے، نہ دنیا پرستی اور پرستش زر کی۔ اسلام دین و دنیا کی تقسیم کو غیرالٰہی نظریہ قرار دیتا ہے. تجارت ہی کو لے لیں جو عام سوچ کے مطابق بظاہر دنیاوی کام ہے لیکن جب شرعی اصولوں پر ہو تو حدیث پاک میں بشارت آئی ہے کہ سچا اور امانت دار تاجر آخرت میں انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا. جب اتنی بڑی بشارت ہے تو نیکی ہے، جب نیکی ہے تو عبادت ہے، جب عبادت ہے تو معرفت، پھر محبت کا ذریعہ بھی، امانت اور صداقت کی بنا پر اس کو دنیاوی مفادات اور ظاہری فوائد کو قربان کرنا پڑے گا اور قربانی اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے اور یہ صرف تجارت پر موقوف نہیں ہے بلکہ اسلام کی جو نعمت ہمیں نصیب ہوئی ہے، یہ تو جینے کا ایسا مبارک اور دو آتشہ نظام ہے کہ اس نہج پر زندگی کو ڈالو تو پانچوں انگلیاں گھی میں، دنیا کے کام بھی ہوتے رہیں گے اور نامہ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ بھی ہوتا رہے گا. اپنی ضروریات پوری کرتے جاؤ، قرب الہی کے زینے چڑھتے جاؤ، حدیث میں تو یہاں تک آتا ہے کہ بیوی کے منہ میں لقمہ رکھنا صدقہ، بیوی کا بوس و کنار صدقہ، الغرض اسلام کا معاشی نظام عبادت، عدالتی نظام عبادت، تعلیمی نظام عبادت، اور سیاسی نظام بھی عبادت، دین ہی دین، دنیا تو صرف وہ ہے جو شرعی نہج پر نہ ہو. البتہ فرق مراتب کا لحاظ ضروری ہے، آج اگر تجارت کو عبادت اور قرب کا ذریعہ بنایا جاتا تو حرام خوری، سود خوری اور دھوکہ دہی کی وہ کیفیت نہ ہوتی جو اب ہے، نوکری، سیاست اور عدالت کو عبادت کا عنوان ملتا تو شاید کرپشن رستا ہوا ناسور نہ بن پات،ا ہم نے فرق کیا تو دین اور دنیا کی تفریق نے یہ گل کھلائے۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment