خواتین اور محافلِ میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
محترم قارئینِ کرام : خواتین کی محافل میلاد میں شرکت دو طر ح کی ہوتی ہے ، ایک یہ کہ ایک ہی محفل میلاد میں خواتین کےلیے پردے کا علیحدہ انتظام ہوتا ہے ایسی محافل درحقیقت مردوں ہی کےلیے ہوتی ہیں تاہم پردے کا اہتمام کر کے عورتوں کو بھی شرکت کا موقع دیا جاتا ہے ۔ سب سے پہلے یہ بات یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا میلاد منانا کثیر برکات و حسنات کا موجب ہے ۔ اس کی فضیلت و برکت قرآن پاک سے بھی خوب ظاہر ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اپنی رحمت و فضل پر خوشی منانے کاحکم ارشاد فرمایا ہے ۔ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا هُوَ خَیْرٌمِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ۔
ترجمہ : تم فرماؤ : اللہ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہيے کہ خوشی کریں ، وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے ۔ (سورۂ یونس آیت نمبر 58)
اس آیت کریمہ میں اللہ عزوجل اپنی رحمت پر خوشی منانے کا حکم ارشاد فرما رہا ہے اور بلاشک و شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں ، جن کواللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کےليے رحمت بنا کر بھیجا اور ان کے مبعوث فرمانے پراحسان بھی جتلایا ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام جہانوں کےلیے رحمت ہونے کے بارے میں اللہ رب العزت کافرمانِ ہے : وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ ۔
ترجمہ : اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا ، مگر رحمت سارے جہاں کےلیے ۔ (سورۃ الانبیاء آیت نمبر 107)
دوسری جگہ ارشادفرمایا : لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا ۔
ترجمہ : بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا ۔ (سورۂ آل عمران آیت نمبر 164)
پہلی آیت کریمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رحمت ہونے اور دوسری میں نعمت ہونے کا ذکر ہے ۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم رحمت و نعمت ہیں ، توان کا میلاد منانا یعنی ان کے فضائل میں محافل کا اہتمام کرنا ، اس میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اظہار و چرچا کرنا ہے اور خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اظہارِ نعمت اور اس کا چرچا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے : چنانچہ قرآن مجید میں ہے : وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ۔
ترجمہ : اور اپنے رب کی نعمت کاخوب چرچا کرو ۔ (سورہ والضحی آیت نمبر 11)
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا میلاد منانا ایسی عظمت و فضیلت والا کام ہے کہ اس کی برکتیں نہ صرف مسلمانوں ، بلکہ کافروں کو بھی پہنچتی ہیں ۔ جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے : ثویبۃ مولاۃ لأبی لھب کان أبو لھب أعتقھا ، فأرضعت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، فلما مات أبو لھب أریہ بعض أھلہ بشر حیبۃ، قال لہ : ما ذا لقیت ؟ قال أبو لھب : لم ألق بعدکم غیر أنی سقیت فی ھذہ بعتاقتی ثویبۃ ۔
ترجمہ : ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھی ۔ ابولہب نے اسے آزاد کر دیا اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دودھ پلایا ، توجب ابولہب مرا، اس کے بعض گھروالوں نے اسے بُرے حال میں دیکھا ۔ اس نے ابولہب سے کہا کہ تم نے (ہم سے جداہونے کے بعد) کیا پایا ؟ ابولہب نے کہا : تمہارے بعد میں نے کوئی بھلائی نہیں پائی ، سوائے اس کے کہ مجھے اس انگلی سے ثویبہ لونڈی کوآزاد کرنے کے بدلے میں پانی پلایا جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 270 مطبوعہ لاهور،چشتی)
صحیح بخاری کی اس روایت کے تحت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس حدیث میں میلاد شریف والوں کےلیے حجت ہے کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شبِ ولادت میں خوشیاں مناتے اور مال خرچ کرتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ باوجودیکہ ابولہب کافر تھا اور اس کی مذمت قرآن میں نازل ہو چکی ہے ، جب اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میلاد کی خوشی کی اور اس نے اپنی باندی کودودھ پلانے کی خاطر آزاد کردیا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے حق تعالیٰ نے اسے اس کا بدلہ عنایت فرمایا ۔ (مدارج النبوۃ جلد 2 صفحہ 34 مطبوعہ ضیاء القرآن)
جہاں تک عورتوں کا میلاد کی محافل و مجالس میں نعتیں ، بیانات وقرآن پاک پڑھنے کی بات ہے ، توان کا میلاد و دیگر ذکر و اذکار کی محافل منعقد کرنا بھی جائز و موجبِ اجر و ثواب ہے ، لیکن اس میں اس بات کالحاظ رکھا جائے کہ عورت کی آواز نا محرموں تک نہ جائے ، ورنہ یعنی اگر عورت کی آواز اتنی بلند ہوکے غیر محرموں کواس کی آواز پہنچے گی ، تو اس کا اتنی بلند آواز سے پڑھنا ناجائز وگناہ ہو گا ، خواہ اس کایہ پڑھنا گلی میں ہو یا کھلے کمرے یا کسی اورجگہ کہ عورت کی خوش الحانی اجنبی سنے ، محلِ فتنہ ہے اور اسی وجہ سے ناجائز ہے ۔ حضرت امام احمد رضاخان قادری رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : نا جائز ہے کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے اورعورت کی خوش الحانی کہ اجنبی سنے محل فتنہ ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 22 صفحہ 240 رضا فاؤنڈیشن لاهور،چشتی)
دوسرے مقام پر اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عورت کا خوش الحانی سے بآواز ایسا پڑھنا کہ نامحرموں کو اس کے نغمہ کی آواز جا ئے ، حرام ہے ۔ نوازل امام فقیہ ابو اللیث میں ہے : نغمۃ المرأۃ عورۃ ‘‘ یعنی عورت کا خوش آواز کر کے کچھ پڑھنا عورت یعنی محلِ ستر ہے ۔ کافی امام ابو البرکات نسفی میں ہے : لا تلبی جھراًلان صوتھا عورۃ ‘‘ یعنی عورت بلند آواز سے تلبیہ نہ پڑھے ، اس لیے کہ اس کی آواز قابلِ ستر ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 22 صفحہ 242 رضا فاؤنڈیشن لاهور)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا : 1 : واعظ یا میلاد خوان اگر عالم سُنی صحیح العقیدہ ہو ۔ 2 : اس کا وعظ و بیان صحیح و مطابق شرع ہو ۔ 3 : جانے میں پوری احتیاط اور کامل پردہ ہو ۔ 4 : کوئی احتمال فتنہ نہ ہو ۔ 5 : مجلس رجال سے ان کی نشست دور ہو تو حرج نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 22 صفحہ 239)
یعنی ایسی محافل میلاد میں شرکت کےلیے مذکورہ بالا شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ورنہ عوتوں کو ایسی محافل میں جانے کی اجازت نہیں۔ جہاں مرد و زن میں بے پردگی کا اندیشہ ہو ۔ خواہ وہ محافل میلاد ہو یا اس قسم کی دیگر محافل عرس و گیارہویں شریف ۔
امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ چند عورتیں ایک ساتھ مل کر گھر میں میلاد شریف پڑھتی ہیں اور آواز باہر سُنائی دیتی ہے یہ جائز ہے یا نہیں؟ آپ نے جواب میں لکھا کہ ناجائز ہے کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے ۔ عورت کی خوش الحانی کو اجنبی سے محل فتنہ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ) ۔ ایسے ہی ایک اور سوال کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا : عورتوں کا اس طرح (مولود شریف) پڑھنا کہ ان کی آواز نامحرم سُنیں ، باعثِ ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے ۔ دیگر مجالس کی طرح محافل میلاد میں شرکت تب ہی جائز ہے جب اس میں خلافِ شرع امور کا ارتکاب نہ ہو اگر وہ شرعی احکام کی خلاف ورزی اور ناپسندیدہ بدعات سے پاک نہ ہو تو اس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 133،چشتی)
اور جب مجلس میلاد منکراتِ شرعیہ سے خالی ہو تو اس میں شرکت کرنا عظیم سعادت ہے ۔ اگر محافل میلاد منکرات شرعیہ سے پاک ہوں اور ان میں آداب کا لحاظ رکھا گیا ہو تو ایسی محافل موجب برکت اور ان میں شرکت ذریعہ سعادت ہے اور اگر ان میں امور مکروہہ کا ارتکاب ہو تو وہ موجب خسارہ اور ان میں شرکت باعث ہلاکت ہوتی ہے ۔ ہم سب کےلیے ضروری ہے اس موقع (میلاد النبی) پر ایسی محافل کے انعقاد کو فروغ دیں جن میں آداب کو لحاظ رکھا گیا ہو اور وہ ہر قسم کی منکرات شرعیہ ، اورخرافات سے پاک ہوں۔ صرف اسی صورت میں ان محافل کو عوام الناس کےلئے مفید سے مفید تر بنایا جا سکتا ہے ۔
چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ : اگر کوئی مجلس فی نفسہ منکرات شرعیہ پر مشتمل نہ ہو اور نہ ہی اس میں وہ افعال کےے جائیں جو مقاصد کے مختلف ہونے یا حالات کے بدلنے سے حسن و قبیح میں مختلف ہو جائیں مثلاً سماعِ مجروہ (بغیر مزامیر کے قوالی) اور نہ ہی ایسی باتیں ہوں جو دقت اور گہرائی کی وجہ سے ناقص فہم لوگوں کےلئے فتنہ کا باعث بنیں جیسے وحدت الوجود کے دقیق مسائل اور تصوف کے مشکل دقائق یعنی وہ مجلس خال اور مال ہر لحاظ سے تمام تر منکرات اور فتنوں سے خالی ہو تو اس میں عموم اذن (اجازت عام ہونا) اور شمول دعوت (دعوت میں شامل ہونا) میں حرج نہیں بلکہ مجلس وعظ و پند میں شرعی حدود کی پابندی جس قدر عام (اور زیادہ ہو گی) اسی قدریہ مجلس نفع کے لحاظ سے تام (کامل اور مفید تر) ہو گی ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 147-148)
محفل میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں گفتگو اس قصیدے کی مانند ہے کہ جس کا چرچا و شہرہ ہر سال ہر موسم میں پڑھا جائے پھر بھی لوگ اس سے اکتاہٹ محسوس نہ کریں بلکہ یہ ان کے قلوب و اذہان کی تازگی و شادمانی کا باعث بنے ۔ ملک عزیز پاکستان میں ربیع الاول کا مہینہ آتے ہی ہر طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مطہرہ کی خوشی میں عوام الناس کے مذہبی جذبات چھلکتے نظر آتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ویسے تو سارا سال ہی محافل میلاد کا انعقاد بہت عقیدت و احترام سے کیا جاتا ہے مگر ربیع الاول کے مہینے میں یہ سماں کچھ اور ہی ہوتا ہے کیونکہ زمانہ ایک دوسرے سے مربوط ہوتا ہے موجودہ موقع کو دیکھ کر لوگ تاریخ گذشتہ کو یاد کرتے ہیں اور حاضر کو پاکر غائب کی طرف توجہ کرتے ہیں ۔ بلاشبہ یہ محافل میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم توجہ الی اللہ اور توجہ الی الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں ۔ اس موقع پر مبلغین، ، مبلغات ، خطباء اور علماء کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کے بیان کے ذریعے امتِ مسلمہ کو خیر و فلاح کی دعوت دیں ۔ محفلِ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شرعی حیثیت اس کے تقاضے و آداب کے موضوعات پر خطابات کے ذریعے عوام الناس کو درست نہج پر آگاہی فراہم کریں تاکہ اس میں غیر شرعی رسومات کا خاتمہ کیا جا سکے ۔
بدقسمتی سے اس حوالے سے بہت سی خرافات نے ان مقدس و بابرکت محافل کی حیثیت کو مشکوک بنا دیا ۔ امتِ مسلمہ اس حوالے سے دو طبقات میں بٹ گئی ۔ ایک طبقہ یہ اعتراض اٹھاتا ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محافل عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں منعقد نہیں کی جاتی تھیں لہٰذا یہ بدعت ہیں ۔ تو اس کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا میلاد تو فرش پر ہی نہیں بلکہ عرش پر بھی منایا گیا ۔ تمام کتب فضائل و سیر میں ہمیں اس قسم کی روایات ملتی ہیں کہ خود اللہ عزوجل نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت پر سارا سال خوشی منائی ۔ پورا سال بطور جشن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد پر ساری زمیں کو سرسبز کر دیا اور قحط سالی کا خاتمہ ہوا گلے سڑے درختوں کو بھی پھل لگے ۔ رزق کی اتنی کشادگی دی کہ وہ سال خوشی و فرحت کا سال کہلایا ۔ اس سال ولادت میں حاملہ ماؤں کو بیٹوں کی نعمت نصیب فرمائی ۔ محض بدعت کہہ کر اسے ناپسندیدہ کہہ دینا ہٹ دھرمی و تنگ نظری ہے ۔ بدعت کی دو اقسام ہیں ۔ بدعت سیۂ اور بدعت حسنہ۔ بدعت حسنہ وہ نیا کام ہے جو دین کی اصل روح کو مسخ نہ کرے بلکہ دین کے فروغ کا باعث بنے اور دین کے فہم میں مددگار ثابت ہورہا ہو اور یہ اعتراض کہ ظاہری عہد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہیں منایا گیا تو اس کا جواب یہی ہے کہ جس طرح موجودہ صورتِ حال میں محافل میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منعقد کی جاتی ہیں ۔ نعتیہ اشعار ، اذکار ، فضائل و کمالات بیان کئے جاتے ہیں تو یہ اپنی اصل میں بالکل نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت مطہرہ ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظاہری زمانہ میں بھی محافلِ میلاد منعقد کی جاتی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم محفل میں بیٹھتے تھے اور محفلِ نعت منعقد کرواتے تھے ۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ اشعار کہتے تھے ۔ آپ دعا فرماتے : اے اللہ! جب تک حسّان میری نعت پڑھتا رہے جبرائیل امین کو اس کی مدد کےلیے مقرر فرمادے ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 908)
دوسرا طبقہ وہ ہے جس میں بعض لوگ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام پر خرافات و منکرات و بدعات و محرمات کو نادانی میں انجام دے رہے ہیں اور بے ادبی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ صد افسوس کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جشن منانے والے اور جلوس و میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اہتمام کرنے والے ایک طرف تو اتنی محبت کا اظہار کریں اور میلاد کی خوشیوں کو جزو ایمان سمجھیں دوسری طرف شرعی تقاضوں کو نظر انداز کر کے بے ادبی و گناہ کے مرتکب ہوں ۔ عمومی طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ 12 ربیع الاول کے موقع پر بعض شہروں میں نقلی پہاڑیاں ، مذہبی مقامات کے ماڈلز بنائے جاتے ہیں ۔ ان کی تزئین و آرائش پر بے تحاشہ خرچہ کیا جاتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ ان پہاڑیوں پر ڈسکو میوزک پر باقاعدہ نوجوان رقص کرتے ہیں ۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ خواتین جوق در جوق بہت شوق کے ساتھ ان جگہوں پر بے پردہ آتی ہیں ۔ یہ بے حجابانہ اختلاط سراسر گناہ کا باعث ہے اور ڈھول ڈھمکے ، فلمی گانے سب حرام اور ناجائز امور ہیں ۔ جب تک ان محافل میں وقار اور سادگی کو پیدا نہ کیا جائے گا یہ محافل اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضا سے محروم رہیں گی ۔ ان محافل میں آداب سے پہلو تہی کی جائے گی تو رحمت خداوندی اور اس کے فرشتوں کا نزول نہیں ہوگا ۔
قابلِ افسوس پہلو یہ ہے کہ اس برائی کے خلاف کسی بھی طبقے سے آواز نہیں اٹھائی جاتی بالعموم مذہبی طبقے کی خاموشی بھی معنی خیز ہے ۔ ہماری امتِ مسلمہ کے حوالے سے یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس عظیم ہستی کے یوم ولادت کے تقاضوں کو سمجھیں اور اپنے کردار کا جائزہ لیں محفل میلاد کو نہایت سادگی ، وقار ، صدق اور اخلاص سے منعقد کریں ۔ مرد و زن کے آزادانہ اختلاط کی بجائے علیحدہ علیحدہ محافل گھر گھر منعقد کی جائیں ۔ بازاروں اور گلیوں کو ضرور سجائیں ، چراغاں کریں مگر فضول خرچی نہ کریں ان گھروں کی طرف بھی ایک نظر ڈالی جائے کہ جس گھر میں روشنی نہیں جو اپنے بچوں کے پیٹ بھرنے سے قاصر ہیں ۔ قرض اٹھا کر بڑی بڑی محافل نہ سجائی جائیں ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں حسب توفیق جو بھی پیش کیا جائے گا وہ ان شاء اللہ قبول ہوگا ۔
حکومتِ وقت ، علما و مشاٸخ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھے بلکہ اس موقع پر میلاد کے نام پر جو میلے ، تھیٹر ، سرکس اور اوباش لوگوں کے رقص و سرور پر سختی کا مظاہرہ کرے اور اصلاحی تدابیر عمل میں لائے ۔ ان محافل کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خصائص و فضائل کو بیان کرنا ہے نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کی خلاف ورزی مگر افسوس : ⬇
حقیقت خرافات میں کھوگئی
یہ امت روایات میں کھوگئی
اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سچا عاشق اور سنت پر عمل پیرا ہونے والا سچا مسلمان بنائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment