نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادتِ مبارکہ کا دن بھی عید ہے
قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىِٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَ١ۚ وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ ۔ (سورۃ الماائدہ آیت 114)
ترجمہ :عیسٰی ابن مریم نے عرض کی اے اللہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لئے عید ہو ، ہمارے اگلے پچھلوں کی ، اور تیری طرف سے نشانی ، اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے ۔
یعنی ہم اس کے نُزول کے دن کو عید بنائیں ، اس کی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں ، تیری عبادت کریں ، شکر بجا لائیں ۔
اس سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ تعالٰی کی خاص رحمت نازل ہو اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں منانا ، عبادتیں کرنا ، شکرِ الٰہی بجا لانا طریقۂ صالحین ہے۔
اور کچھ شک نہیں کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تشریف آوری اللہ تعالٰی کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے ، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادتِ مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکرِ الٰہی بجا لانا اور اظہارِ فرح اور سرور کرنا مستحَسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ۔
امام ملا علی قاری رحمۃُ اللہ فرماتے ہیں امام سخاوی رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا:اہل مکّہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم عید سے بڑھ کر مناتے تھے ۔ (الموردالروی فی المولد النبوی صفحہ 30)
جہاں تک بات ہے مروجہ طریقے سے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم منانے یا جلوس نکالنے کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا رہا لوگ ہر چیز احسن سے احسن طریقے سے کرتے رہے، پہلے مساجد بالکل سادہ ہوتی تھیں اب اس میں فانوس، ٹائلز اور دیگر چراغاں کرکے اسے مزین کرکے بنایا جاتا ہے، پہلے قرآن پاک سادہ طباعت میں ہوتے تھے اب خوبصورت طباعت میں آتے ہیں ۔ اسی طرح پہلے میلاد سادہ انداز میں ہوتا تھا، صحابہ کرام اور تابعین ،تبع تابعین اپنے گھروں پر محافل منعقد کیا کرتے تھے اور صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے۔
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا ۔ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ۔(سورۃ یونس. آیت 58 )
ترجمہ؛تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں ،وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے ۔
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالٰی کی عطا کردہ نعمت کا چرچا کرنے اور اس پر خوشی منانے کا واضح حکم موجود ہے۔
یاد رہے خدا تعالیٰ کی بے مثال، یکتا ، لاثانی ،بے مثل نعمتِ عظمٰی حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہیں۔ میلاد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم منانے کا جو انکار کرتے ہیں ۔۔۔۔وہ اس آیت کی روشنی میں اپنی اصلاح کریں۔
وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ ۔ ( سورۃ ابراھیم آیت 5 )
ترجمہ : اور انہیں اللہ کے دن یاد دِلا
قاموس میں ہے کہ ایّامُ اللہ سے اللہ کی نعمتیں مراد ہیں ۔
حضرت ابنِ عباس و اُبی بن کعب و مجاہد و قتادہ نے بھی ایّامُ اللہ کی تفسیر (اللہ کی نعمتیں) فرمائیں ۔
مقاتل کا قول ہے کہ ایّامُ اللہ سے وہ بڑے بڑے وقائع مراد ہیں جو اللہ کے امر سے واقع ہوئے ۔
بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ ایّامُ اللہ سے وہ دن مراد ہیں جن میں اللہ نے اپنے بندوں پر انعام کئے جیسے کہ بنی اسرائیل کے لئے مَن و سلوٰی اتارنے کا دن ، حضرت موسٰی علیہ السلام کے لئے دریا میں راستہ بنانے کا دن ۔ ( خازن و مدارک و مفرداتِ راغب)
ان ایّامُ اللہ میں سب سے بڑی نعمت کے دن سیدِعالَم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ، ان کی یاد قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے۔
اسی طرح اور بزرگوں پر جو اللہ تعالٰی کی نعمتیں ہوئیں یا جن ایّام میں واقعاتِ عظمیہ پیش آئے جیسا کہ دسویں محرم کو کربلا کا واقعہ ہائلہ ، ان کی یادیں قائم کرنا بھی تذکیر بِایّامِ اللہ میں داخل ہے ۔
بعض لوگ میلاد شریف معراج شریف اور ذکرِ شہادت کے ایّام کی تخصیص میں کلام کرتے ہیں انہیں اس آیت سے نصیحت پذیر ہونا چاہیے ۔
اعتراض : دور نبوت میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم منانے کا کوئی ثبوت نہیں۔
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے خود اپنا میلاد منایا ،
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم : آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : یَومَ وُلِدْتُ و یَومَ اُنْزَلُ عَلَیَّ
اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی ۔
(صحیح مسلم،2/819،رقم:1162/امام بیہقی: السنن الکبری،4/286، رقم:8182)
نیز حدیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنی ولادت کی خوشی کے اظہار کیلئے بکرا ذبح فرمایا ۔
(امام سیوطی:الحاوی للفتاوٰی، 1/196/حسن المقصد فی عمل المولد، 65/امام نبہانی: حجۃ اللہ علی العالمین، 237)
اس سے معلوم ہوا کہ میلاد منانا سنت رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment