نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین مؤمن موحد تھے
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین کا وصال زمانہ فترت میں ہوا، آپ خالص توحید پرست تھے، قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاًo
(الْإِسْرَاء - - بَنِيْ إِسْرَآءِيْل ، 17 : 15)
اور ہم ہرگز عذاب دینے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ہم (اس قوم میں) کسی رسول کو بھیج لیںo
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و امہات کے مومن ہونے پر پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ.(الْبَقَرَة ، 2 : 221)
’’اور یقینًا مشرک مرد سے مومن غلام بہتر ہے‘‘۔
یہ مسئلہ قطعی ہے کہ مسلمان چاہے حسب و نسب میں کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو وہ اعلیٰ قوم و اولیٰ نسب والے مشرک سے بدر جہا بہتر اور افضل ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بعثت من خير قرون بنی آدم قرنا فقرنا حتی کنت من القرن الذی کنت منه.(صحيح بخاری، باب صفة النبی صلی الله عليه وآله وسلم، رقم : 3364)
’’مجھے ہر قرن و طبقہ میں تمام قرون آدم کے بہتر میں سے بھیجا گیا یہاں تک کہ اس قرن میں ہوا جس سے پیدا ہوا‘‘
اب اس حدیث کو آیۃ مذکورہ سے ملایا جائے تو دعوی بالکل واضح ہوجائے گا۔ آیت میں فرمایا گیا ہے کہ مشرک سے مومن غلام بہتر ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے پتہ چلا کہ میں خیر قرون سے ہوں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ میں ایمان والوں کی پشت سے ہوں۔
حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت ختم ہو چکی تھی، لہذا اللہ تعالی کا یہ اصول ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کسی نبی کو مبعوث نہ فرمائے اور لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوں تو جب تک کوئی نئی شریعت نہیں آتی اس وقت تک صرف توحید کا ماننا ضروری ہوتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نکاح کے ساتھ متولد ہوا نہ کہ غیر شرعی طریقہ پر اور میرا یہ نسبتی تقدس حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ رضی اللہ عنہما تک برقرار رہا۔ (اور زمانہ جاہلیت کی بد کرداریوں اور آوارگیوں کی ذرا بھر ملاوٹ میری نسبت میں نہیں پائی گئی)۔(السنن الکبریٰ، 7 : 190)
اسی طرح ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں پاک نسبوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل ہوا ہوں،
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:فی الارض سبعة مسلمين فصاعدا فلولا ذالک لهلکت الارض ومن عليها.(اخرجه عبدالرزاق، بسند صحيح علی شرط الشيخين)
’’روئے زمین پر ہر زمانے میں کم سے کم سات مسلمان رہے ہیں، ایسا نہ ہوتا تو زمین و اہل زمین سب ہلاک ہوجاتے‘‘۔
اب ان دونوں حدیثوں کو صغریٰ، کبریٰ کے طریق پر ملایا جائے تو ان دونوں کو ملانے کے نتیجے کے طور پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و امہات کا ایمان ہی ثابت ہوتا ہے۔ اول حدیث میں صاف طور پر فرمایا گیا کہ ’’میں خیر قرون سے ہوں‘‘ اور دوسری حدیث نے بتایا کہ ’’روئے زمین پر ہمیشہ کم از کم سات مسلمان رہے ہیں‘‘ اور آیۃ مذکورہ۔ ولعبد مومن خير من مشرک، سے نتیجہ یہ نکلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور ہمیشہ خیر سے خیر کی طرف منتقل ہوتا رہا اور چونکہ خیر، مومن ہے، مشرک و کافر، خیر نہیں۔ لہذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ نسب مومنین سے ہے مشرکین سے نہیں۔
صغریٰ پر دلیل کی طرف امام جلیل، جلال الدین سیوطی نے ارشاد فرمایا:والمعنی ان الکافر لا اهل شرعا ان يطلق انه من خير القرون.
’’شرعاً کافر ہرگز اس کا اہل نہیں ہوسکتا کہ وہ خیر قرن سے ہو‘‘۔
خیر قرن سے مومن ہی ہوسکتا ہے لہذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصول (آباء و امہات) سب مومن قرار پائے۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ.(التَّوْبَة، 9 : 28)
’’مشرکین تو سراپا نجاست ہیں‘‘۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:لم ازل انقل من اصلاب الطاهرين الی ارحام الطاهرات (رواه ابو نعيم فی دلائل النبوه عن ابن عباس رضی الله عنه)
’’میں ہمیشہ پاک مردوں کی پشتوں سے پاک بیبیوں کی طرف منتقل ہوتا رہا‘‘۔
ان مندرجہ بالا آیت و حدیث کو آپس میں ملایا جائے تو مطلب بالکل واضح ہوجائے گا کیونکہ قرآن عظیم نے بلاشبہ مشرکین کے نجس ہونے کا فیصلہ فرمایا اور حدیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آباء و امہات کو طیب و طاہر فرمایا۔ مشرکین نجس ہیں کبھی طاہر نہیں ہوسکتے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصول (آباء و امہات) طاہر ہیں کبھی نجس نہیں ہوسکتے۔ پس لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اجداد اور امہات و جدات مومن موحد تھے کبھی مشرک و کافر نہیں ہوسکتے۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ.
(الْمُنَافِقُوْن، 63 : 8)
’’حالاں کہ عزّت تو صرف اللہ کے لیے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اور مومنوں کے لیے ہے مگر منافقین (اس حقیقت کو) جانتے نہیں ہیں‘‘۔
اس آیت کریمہ میں عزت و اکرام کا ’’حصر‘‘، اللہ تعالیٰ نے مومنین میں فرمایا۔ کافر چاہے جتنی اونچی قوم کا کیوں نہ ہو وہ ذلیل ولئیم ٹھہرا۔ نبی کا کسی ذلیل ولئیم کے پشت اور نسب سے ہونا کوئی مدح نہیں حالانکہ اس آیت کریمہ کو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام مدح میں نازل فرمایا۔ پس معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد اشرف تھے اور کافر و مشرک ہرگز عزت و شرف والے نہیں ہوسکتے۔ مومن موحد ہی اشرف و اکرم ہوسکتا ہے۔
کسی ذلیل و رذیل شخص کا نسب میں فخر کرنا عقلاً اور عرفاً باطل ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فضائل کریمہ کے بیان میں رجز اور مدح میں متعدد دفعہ اپنے آبائے کرام و امہات طیبات کا ذکر فرمایا۔ جنگ حنین میں جب کچھ دیر کے لئے کفار نے غلبہ پایا اور چند لوگ پناہ رسالت میں باقی رہے تو اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جلالیت طاری ہوئی اور فرمایا:انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب.(صحيح بخاری باب الرکوب علی الدآبة)
’’میں نبی ہوں کچھ جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کابیٹا ہوں‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ رجز پڑھتے ہوئے سواری سے نزول فرمایا۔ دست مبارک میں ایک مٹھی خاک لے کر کافروں کی طرف پھینکی۔ وہ خاک تمام کافروں کی آنکھ میں پہنچی اور سب کے منہ پھر گئے۔ بعض روایات میں رجز کا آخر یہ ہے کہ:انا ابن العواتک من بنی سليم.(الفردوسی بماثور الخطاب، ج : 1، رقم : 114)
’’میں بنی سلیم سے ان چند خواتین کا بیٹا ہوں جن کا نام عاتکہ تھا‘‘۔
بعض علماء کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جدات میں 9 بیبیوں کا نام عاتکہ تھا اور بعض کے نزدیک 12 خواتین کا نام عاتکہ تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا نسب نامہ اپنے فضائل کریمہ میں 21 پشت تک بیان فرمایا کہ میں نسب میں سب سے افضل اور باپ میں سب سے افضل ہوں۔ کسی مشرک یا کافر باپ دادا پر فخر کرنا جب نہ تو عقلاً جائز ہے اور نہ ہی عرفاً تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ معاذ اللہ آپ مشرک یا کافر باپ دادا کے نسب پر فخر فرمائیں پس بحکم نصوص ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و امہات مسلمین و مسلمات تھے۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ.(هُوْد، 11 : 46)
’’اے نوح! بے شک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیوں کہ اس کے عمل اچھے نہ تھے‘‘۔
آیۃ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مومن و کافر کا نسب قطع فرما دیا۔ اور حدیث میں ہے:نحن بنو نضر بن کنانه لا منتقی من ابيينا.(رواه احمد و ابن ماجه والطبرانی وغيره)
’’ہم نضر بن کنانہ کے بیٹے ہیں، ہم اپنے باپ سے اپنا نسب جدا نہیں کرتے‘‘۔
اگر معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ نسب میں کوئی کافر تھا یا مشرک تو نہ صرف اس نسبت کا اعلان کرنا بلکہ ان پر فخر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و امہات سب موحد مومن تھے لہذا ان پر فخر کرنا، ان کا نسب باقی رکھنا اپنی جگہ بالکل درست اور بجا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ بناکر دعا کی تھی:وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ.
(الْبَقَرَة، 2 : 128)
’’اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا۔‘‘۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ.(الْبَقَرَة، 2 : 129)
’’اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا۔
ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) مبعوث فرما‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوری ہوئی۔ اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلم جماعت سے پیدا ہوئے اور اسی بات کو ہم ثابت کررہے ہیں۔
ارشاد فرمایا:لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ.(التَّوْبَة ، 9 : 128)
’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے‘‘۔
ایک قراۃ میں اَنْفُسِکُمْ کی ’’ف‘‘ کو فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جاتا ہے یعنی اَنْفَسِکُمْ، جس کے معنی یہ ہوئے کہ تمہارے پاس یہ عظمت والے رسول نفیس ترین جماعت میں سے تشریف لائے۔ کافر چونکہ نفیس نہیں بلکہ خسیس ہیں۔ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد ماجدین اور جدات طاہرات اعلیٰ قسم کے مومن تھے۔ وہ کفر و شرک کے تمام انواع سے پاک و مبراء تھے۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُo وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَo(الشُّعَرَآء، 26 : 218. 219)
’’جو آپ کو (رات کی تنہائیوں میں بھی) دیکھتا ہے جب آپ (نمازِ تہجد کے لیے) قیام کرتے ہیں اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے‘‘۔
امام رازی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کا معنی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور پاک ساجدوں سے ساجدین کی طرف منتقل ہوتا رہا۔ یہ آیت اس پر دلیل ہے کہ سب آباء کرام مسلمین تھے۔ امام سیوطی، ابن حجر مکی اور علامہ زرقانی نے اس تقریر کی تائید و توثیق فرمائی۔
ارشادفرمایا:وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى.(الضُّحٰی ، 93 : 5)
’’اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجاہت اجابت کا تو یہ عالم ہے کہ ان کے حق میں رب فرماتا ہے:سنرضی امتک ولا نسوک به.
’’قریب ہے کہ ہم تجھے تیری امت کے بارے میں راضی کردیں گے اور تیرا دل برا نہ کریں گے‘‘۔ (رواہ مسلم)
امت کے معاملے میں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت پروردگار رد نہ فرمائے تو کیا والدین کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ گوارہ ہوگا کہ وہ معاذ اللہ جہنم میں رہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ کے ایمان کے حوالے سے بعض لوگ اس سوچ کے حامل ہیں کہ آپ نے اسلام قبول نہ کیا تھا۔ یہ احباب اپنے موقف کی تائید میں احادیث مبارکہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے اس اختلاف سے قطع نظر ان کی طرف سے ایمان ابو طالب رضی اللہ عنہ کی نفی میں پیش کی جانے والی احادیث سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و امہات کے ایمان پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ آیئے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:وجدته غمرات من النار فاخرجته الی ضحضاح.(صحيح مسلم، باب اهون اهل النار عذابا، رقم : 209)’میں نے ابو طالب کو سراپا آگ میں ڈوبا پایا تو کھنچ کر ٹخنوں تک آگ سے نکال دیا۔
دوسری روایت ہے کہ صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ابوطالب رضی اللہ عنہ نے آپ کی بہت خدمت کی، کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کو کوئی فائدہ ہوا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ولو لا انا لکان فی الدرک الاسفل من النار.(صحيح مسلم، باب اهون اهل النار عذابا، ، رقم : 209)
’’اگر میں نہ ہوتا تو ابو طالب جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں ہوتا‘‘۔
ظاہر ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو قرب والدین کریمین کو ہے حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کو اس سے کوئی نسبت نہیں۔ اگر حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نسبت اور آپ کی خدمت کی بناء پر یہ فائدہ پہنچ رہا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ والدین کریمین اس سے محروم ہوں۔
والدین کریمین کے ایمان کے حوالے سے یہ عذر بھی معقول ہے کہ نہ تو انہیں دعوت اسلام پہنچی اور نہ ہی انہوں نے زمانہ نبوت پایا۔ وہ دین ابراہیمی پر تھے، ان کے لئے عقیدہ توحید ہی کافی ہے۔ کسی ضعیف حدیث یا تاریخ سے ان کی طرف شرک کی نسبت ثابت نہیں۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے:وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً.(الْإِسْرَاء - بَنِيْ إِسْرَآءِيْل ، 17 : 15)’’ہم ہرگز عذاب دینے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ہم (اس قوم میں) کسی رسول کو بھیج لیں‘‘۔
معلوم ہوا کہ جب والدین کریمین کو دعوت ہی نہیں پہنچی تو عذاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ حضرات دین ابراہیمی پر تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہ نے جو اشعار بوقت رحلت ارشاد فرمائے، ان سے ان کے ایمان کی دلیل ملتی ہے۔ جب والدہ ماجدہ نے اپنے فرزند جلیل سید مرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر حسرت سے نظر کی اور ان کی یتیمی کا خیال آیا تو فرمایا:
بارک الله فيک من غلام
يا انبی الذی من حرمة حمام
نجا بعون الملک المنام
فوری عدة انضرب باالسهام
بماته من الابل السوام
وان صح ماالبصرت فی المنام
فانت مبعوث الی الانام
تبعث فی الحل والحرام
تبعث فی التحقيق والاسلام
دين ابيک البر ابراهام
فاالله انهاک عن الاصنام
ان لا تو اليها مع اقوام
ترجمہ اشعار : اے لڑکے اللہ تجھ میں برکت رکھے، اے ان کے بیٹے جنہوں نے موت سے گھر سے نجات پائی۔ بڑے انعام والے بادشاہ اللہ عزوجل کی مدد سے جس صبح کو قرعہ ڈالا گیا۔ سو بلند اونٹ ان کے فدیہ میں قربان کئے گئے اگر وہ ٹھیک ٹھہرا جو میں نے خواب میں دیکھا ہے تو سارے جہاں کی طرف تو پیغمبر بنایا جائے گا جو تیرے نیکو کار باپ ابراہیم کا دین ہے۔ میں اللہ کی قسم دے کر تجھے بتوں سے منع کرتی ہوں کہ قوموں کے ساتھ ان کی دوستی نہ کرنا‘‘۔
حضرت آمنہ خاتون رضی اللہ عنہا کی فراق دنیا کے وقت اپنے ابن کریم کو یہ مبارک وصیت توحید و رد شرک میں فرق کے اعتبار سے آفتاب سے زیادہ روشن ہے اور اس کے ساتھ ملت ابراہیمی کا بھی پورا اقرار و ایمان ہے اور وہ بھی بیان بعثت عامہ کے ساتھ۔
ارشاد فرمایا:اللّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ.(الْأَنْعَام، 6 : 124)
’’اﷲ خوب جانتا ہے کہ اسے اپنی رسالت کا محل کسے بنانا ہے‘‘۔
اللہ رب العزت سب سے زیادہ معزز و محترم جگہ وضع رسالت کے لئے انتخاب فرماتا ہے لہذا کبھی کمتر قوموں اور رزیلوں میں رسالت نہیں رکھی۔ کفر و شرک سے زیادہ رذیل کونسی چیز ہوسکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کیوں کر اس نور رسالت کو اس میں ودیعت کرے۔ کفار محلِ غضب و لعنت ہیں اور نورِ رسالت کے وضع کو محلِ رضا و رحمت درکار ہے۔ پس معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور اصلاب طیبہ سے ارحام طاہرہ کی طرف گردش کرتا ہوا حضرت عبداللہ اور آمنہ رضی اللہ عنہما کے درمیان ظاہر ہوا۔ وہ سب کے سب کفر و شرک، الحاد و بے دینی کی آلودگیوں سے پاک و منزہ تھے۔
قرآن پاک میں ہے کہ:إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُوْلَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِo إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِo(الْبَـيِّـنَة ، 98 : 6. 7)’بے شک جو لوگ اہلِ کتاب میں سے کافر ہوگئے اور مشرکین (سب) دوزخ کی آگ میں (پڑے) ہوں گے وہ ہمیشہ اسی میں رہنے والے ہیں، یہی لوگ بد ترین مخلوق ہیں بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہی لوگ ساری مخلوق سے بہتر ہیں‘‘۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:انا محمد بن عبدالله بن عبدالمطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مره بن کعب بن لؤی بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن کنانه بن خزيمه بن مدرکه بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان مافترق الناس فرقتين الاجعلنی الله فی خير بهما فا خرجت من بين ابوی فلم يمسسنی شی من عهد الجاهلية وخرجت من نکاح ولم يمسنی من سفاح اخرج من آدم حتی انتهيت نکاح ابی وامی فانا خيرکم نفسا وخيرکم ابا.
’’میں ہوں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم۔۔۔ (یوں اکیس پشت تک نسب نامہ مبارک بیان کرکے فرمایا) کبھی لوگ دو گروہ نہ ہوئے مگر یہ کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بہتر گروہ میں پیدا کیا تو میں اپنے ماں باپ سے اس طرح پیدا ہوا کہ زمانہ جاہلیت کی کوئی بات مجھ تک نہ پہنچی اور میں خالص نکاح صحیح سے پیدا ہوا۔ آدم سے لے کر اپنے ابوین تک تو میرا نفس کریم سب سے افضل اور میرے باپ تم سب کے آباء سے بہتر‘‘۔
آیت مذکورہ میں رب العزت نے کفار اور مشرکین کو شرالبریہ فرمایا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اناخيرکم ابا ونفسا ’’میں تم میں سے ذات اور باپ کے اعتبار سے اچھا ہوں‘‘۔ پس یہ بات روز روشن سے بھی زیادہ عیاں اور روشن ہوگئی کہ سلسلہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی کافر مشرک داخل نہیں ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیر اب ہونا کس طرح ثابت ہوسکتا ہے۔
علامہ جلال الدین سیوطی و دیگر محدثین فرماتے ہیں:ان آبا النبی صلی الله عليه وآله وسلم غير الانبياء وامهاته الی آدم وحوا ليس فيهم کافر لايقال فی حقه انه مختار ولا کريم ولا طاهر بل نجس وقد صدقت الا احاديث بانهم مختارون وان الآباء کرام والامهات طاهرات وايضا قال تعالی وتقلبک فی الساجدين علی احد التفاسير فيه ان المراد فننقل نوره من ساجدالی ساجد.
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ نسب غیر انبیاء میں (کیونکہ جتنے انبیاء ہیں وہ تو انبیاء ہی ہیں) جس قدر آباء و امہات آدم و حوا تک ہیں ان میں کوئی کافر نہ تھا کہ کافر کو پسندیدہ، کریم یا پاک نہیں کہا جاسکتا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و امہات کی نسبت حدیثوں میں تصریح کی گئی ہے کہ وہ سب پسندیدہ بارگاہ الہٰی ہیں، آباء سب معزز اور بزرگی والے ہیں، مائیں سب پاکیزہ ہیں اور آیۃ کریمہ وتقلبک فی الساجدین کی بھی ایک تفسیر یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور ایک ساجد سے دوسرے ساجد کی طرف منتقل ہوتا آیا‘‘۔
اب اس سے صاف ثابت ہورہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین ماجدین اہل جنت ہیں کیونکہ ساجد مشرک و کافر نہیں ہوتے بلکہ مومن و موحد ہی ہوتے ہیں۔
قرآن مجید کی آیت اور احادیث سے پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین حق پرست تھے، تو حید پرست تھے، البتہ اگر کوئی ان کو (معاذ اللہ) جہنمی کہتا ہے تو وہ خود جہنمی ہے۔ کسی مسلمان کا یہ عقیدہ نہیں ہو سکتا۔ جو ایسا کہتا ہے وہ اس کی دلیل پیش کرے، کہ کس آیت یا حدیث میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین جہنمی ہیں۔ (نعوذ باللہ من ذلک)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment