Thursday, 30 November 2017

میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے متعلق کچھ سوالوں کے مختصر جواب

میلاد کسے کہتے ہیں  اور عید میلاد النبی کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

میلاد  ایک خوشی کا موقع ہے جو مسلمان اپنے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وعلیٰ وآلہ و صحبہ وسلم کی یاد میں مناتے ہیں ،حالانکہ خصوصی طور پر یہ 12 ربیع الاول کو منایا جاتا ہے جس میں مسلمان بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں یہ ایک قدیم مسلم روایت ہے جو کہ شروع سے ہی جاری و ساری ہے شرعی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ یہ کسی بھی تاریخ کو منایا جاسکتا ہے لیکن چونکہ جمہور آئمہ حدیث اور سلف صالحین علیہم الرّحمہ کا اس پر اجماع رہا ہے کہ معتبر شہادت بہ ولادت ِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وعلیٰ وآلہ و صحبہ وسلم 12 ربیع الاوّل ہی ہے (مدارج النبوت) اسی لیئے خصوصی طور پر سال میں ایک بار اور عمومی طور پر کسی بھی نیک کام کے شروعات میں برکت ڈالنےکے لیئے کیا جاسکتا ہے ۔ جیسے شادیوں کے موقع پر بجائے غیر شرعی کاموں کے میلا د کی محافل رکھنا بہتر ہے اور مستحب عمل ہے ۔ اسی طرح کوئی نیا کاروبار شروع کرتے وقت جیسے قرآن کریم کا ختم رکھا جاتا ہے ویسے ہی ذکرِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وعلیٰ وآلہ و صحبہ وسلم کی محافل بھی کی جاتی ہیں ۔

میلاد کی محافل میں آخر ہوتا کیا ہے ؟

اس میں تلاوت ِ قرآن ،نعت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وعلیٰ وآلہ و صحبہ وسلم کے ساتھ ساتھ علماء کی تقاریر بھی سیرت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وعلیٰ وآلہ و صحبہ وسلم اور دیگر اہم اسلامی تعلیمات پر ہوتی ہیں جن سے ہر خاص و عام مستفید ہوتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ اللہ کا ذکر بھی ہوتا ہے حمد و ثناء اور اسکے پاک محبوب کی زندگی اور تعلیمات پر روشنی ڈالنے کے لیئے ۔ آخر میں صلاۃ وسلام کی محفل ہوتی ہے جس میں بھرپور طریقے سے مسلمان اپنے آقا پر درود و سلام کے نذرانے بھیجتے ہیں اللہ کی نعمت کو ہم مسلمانوں پر جاری کرنے پر اللہ کی نعمت کی خوشی آخر کس قانون کے تحت بدمذہبوں نے بدعت قرار دی ہے ؟ اولاََ تو یہ بدعت نہیں دوسرا یہ کہ ایک لمحے کو اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ بدعت ہے تو پھر یہ بدعت ِ حسنہ کے زمرے میں آتی ہے اور ہزارہا بدعات ِ حسنہ و قبیحہ دونوں کے مرتکب خود میلاد کے منکر بھی ہوئے ہیں یہ صرف عامۃ الناس کو گمراہ کرنے اپنی مذہبی دکانداری چمکانے اور جہالت کے سبب اس کے منکر ہوتے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ آخر عید کہاں سے آئی ؟

تفصیلی جواب ہم دے چکے ہیں مختصرا عرض پے کہ : یہ سوال بذات ِ خود ایک جہالت ہے اور عربی زبان سے مکمل طور پر لاعلمی اور یا پھر منافقت کی وجہ سے حق کو نہ ماننا ہوا ۔ کیونکہ (عید میلاد) کا مطلب قاموس اور لغات العرب میں (سالگرہ) کے معنوں میں آیا ہے ۔ یعنی مثال کے طور پر اگر عبدالرحمٰن کی سالگرہ کا دن ہے تو وہ عیدِ میلاد عبدالرحمٰن کہلائی گی عربی زبان میں اس میں یہ کوئی سوال نہیں بنتا کہ ایک عید ہے یا دو ہے یا تین ہیں اور عید فرحت یعنی خوشی کے دن کو کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے یوم ولادت سے بڑھ کر اور کون سا خوشی کا لمحہ یا دن ہے ۔ یاد رہے یہ عید شرعی نہیں عید فرحت ہے (یعنی خوشی کا دن) ۔

 کیا میلاد منانے کا حکم قرآن ِ مجید یا احادیث میں موجود ہے ؟

آیئے قرآنی آیات اور احادیث کا بغور مطالعہ کرتے ہیں جس سے یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے گا کہ عیدِ میلاد منانا نہ صرف قرآن کی نص سے ثابت ہے بلکہ اس کے حق میں سلف صالحین اور ائمہ محدیثین علیہم الرّحمہ کے اقوال کے علاوہ امت کا اجماع بھی رہا ہے اور آج تک اکثریت اسکو مناتی ہے ۔ لہٰذا اسکا انکار کرنا اسلام کا انکار کرنا ہے اور یہ صریحاََ گناہ عظیم ہے جو انسان کو ایمان سے خارج کردیتا ہے ۔

قرآن مجید میں اللہ فرماتا ہے : ترجمہ: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں (ف۱۲) دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیریوں سے (ف۱۳) اجالے میں لا، اور انھیں اللہ کے دن یاد دلا (ف۱٤) بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر بڑے صبرے والے شکر گزار کرو۔
آخر یہ (اللہ کے دن) ہیں کونسے؟ امام بیہقی رحیمہم اللہ اپنی مشہور تصنیف شعب الایمان میں رقم طراز ہیں کہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے دن اُس کے انعامات اور نشانیاں ہیں ۔ (تفسیر روح المعانی زیر تحت آیت 14:5
ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے: (ترجمہ معارف القرآن) :  یہ (رسول کے ذریعہ سے گمراہی سے نکل کرہدایت کی طرف آنا ) خدا کا فضل ہے وہ فضل جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔
ترجمہ (کنز الایمان) ۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا [٨] ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں تفاسیر القرآن الحکیم میں آیا ہے کہ : قاموس (یعنی لغات) میں (اللہ کے دن) سے مراد نعمت ِ خداوندی ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابی بن کعب، مجاہد اور قتادہ (رضوان اللہ تعالیٰ علہیم اجمعین) کا بھی اپنی اپنی تفاسیر میں یہی معنیٰ مندرج ہے۔مقتل کے مطابق (اللہ کے دنوں) سے مراد ہر وہ اہم واقعہ ہے جو اللہ کی طرف سے ظاہر ہوا۔کچھ مفسرین کرام کا فرمانا ہے کہ (ایام اللہ) سے مراد اس طرح کے دن ہیں جن میں اللہ نےا پنی نعمت (یعنی انعامات اور فضل) اپنے عبد یعنی بندوں پر بھیجے ہوں جیسے مثال کے طور پر وہ دن جب بنی اسرائیل پر (من و سلوٰی) کی نعمت نازل ہوئی، یا وہ دن جب دریائے نیل دو حصوں میں منقسم ہوا (یعنی جب موسیٰ علیہ الصلوٰہ والسلام) بنی اسرائیل کو فرعون سے بچا کر اللہ کے حکم سے چل پڑے)۔ جیسا کہ (خازن ، تفسیر مدارک اور مفرداتِ غیب) میں منقول ہے۔ ان تمام دنوں میں افضل ترین نعمت جو اللہ کی طرف سے انسانوں کو عنایت ہوئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا میں تشریف آوری (یعنی میلاد) کا دن ، آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا معراج  شریف اور دیگر اسی قرآنی آیت کی نص سے ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح کے اور دن جیسے کہ 10 ویں محرم کا روزہ ، واقعہ ہائلہ وغیرہ سب انہیں (ایام اللہ) میں شامل ہیں۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (واللہ ذو فضل العظیم) کے معنی بیان فرماتے ہیں کہ : اسکے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم پر اسلام اور نبوت کی جو نعمت عطا فرمائی ہے۔ اور یہ معنی بھی بیان فرمائے ہیں کہ مسلمانوں پر اسلام کی نعمت،اور یہ بھی فرمایا کہ (یعنی یہ نعمت یہ بھی ہے) کہ آپ علیہ السلام کو نازل فرمایااور (انکے ) ذریعے قرآن مجید عطا فرمایا ۔ (تنویر المقباس من تفسیر ابن العباس)

قرآن کریم کی قدیم ترین تفاسیر اور سلف صالحین کے اقوال تو آپ پڑھ ہی لیں گے اس آرٹیکل میں ساتھ ساتھ یہ کہ اس کے ہی آخر میں تجزیہ بھی دیا جائے گا جس سے اپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ دیوبندی وہابی منکرین کس طرح اپنی مرضی کی قرآنی تشریحات کرتے ہیں اور غلط معنی اخذ کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال تفسیر ِ مدنی کبیر ہے۔جو کہ وہابی دارالسلام اشاعتی ادارہ چھاپتا ہےاور اسی طرح کے دیگر سلفی دیوبندی مکتبہ یہی نسخہ چھاپتے اور تقسیم کرتے ہیں ۔ پھر فیصلہ آپ کے ایمان پر چھوڑتے ہیں کہ آیا آپ کو پرانی تفاسیر قرآن اور سلف صالحین کی مستند تفاسیر اور تراجم منظور ہین یا یہ جدید دھرم کے خودساختہ ۔ یہ واضح ثبوت ہے کہ دیوبندی وہابی نہ صرف اسلام سے خارج ہیں بلکہ پرلے درجے کے منافق بھی ہیں ۔

اب اس غلط ترجمے اور معنی (جو کہ اس اوپر دیئے گئے سکین ) میں آپ نے پڑھا ہے ۔ اس کا رد ہم نہ صرف سنی تراجم بلکہ خود انکے ہی دیوبندی اور وہابی پرانے تراجم سے نیچے دے رہے ہیں ملاحظہ کیجیئے کہ یہ نیچے دیئے گئے تراجم انکے (مخالفین) کے دھرم کا پول کھولنے کے لیئے کافی ہیں۔ انصاف کا تقاضہ بڑھنے والے پر۔ ہمارا کام صرف محنت سے آپ تک یہ ساری معلومات پہنچانا ہے ۔

ترجمہ: ہم اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں ۔ اسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں تاریخِ الٰہی 8 کے سبق آموز واقعات سنا کر نصیحت کر ۔ ان واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں 9 ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو ۔ 10
اور بھیجا تھا ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دیکر کہ نکال اپنی قوم کو اندھیروں سے اجالے کی طرف اور یاد دلا ان کو دن اللہ کے ، البتہ اس میں نشانیاں ہیں اس کو جو صبر کرنے والا ہے شکر گزار ۔ اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو (کفر کی) تاریکیوں سے (ایمان کی) روشنی کی طرف لاؤ اور ان کو الله تعالیٰ کے معاملات (نعمت اور نقمت کے) یاد دلاؤ بلاشبہ ان معاملات میں عبرتیں ہیں ہر صابر شاکر کے لیے ۔ (تراجم محمود الحسن ، معارف القرآن و تھانوی)
تفسير تفسير الجلالين/ المحلي و السيوطي (ت المحلي 864 هـ)۔ {وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِئَايَٰتِنَا } التسع وقلنا له { أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ } بني إسرائيل { مِنَ ٱلظُّلُمَٰتِ } الكفر { إِلَى ٱلنُّورِ } الإِيمان { وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ ٱللَّهِ } بنعمه { إِنَّ فِى ذَلِكَ } التذكير { لأَٰتٍ لّكُلِّ صَبَّارٍ } على الطاعة { شَكُورٍ } للنعم.
یہ تفسیرات کھلا ثبوت ہیں کہ مخالفین کی مخالفت محظ لاعلمی ، بے دینی، اور منافقت پر مبی ہے جس کا صحیح اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم کو مسلمانوں کو یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ بھائی اپنے آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وعلیٰ وآلہ و صحبہ وسلم  سے محبت کرو، انکی دنیا میں تشریف آوری پر قرآنی حکم کے مطابق شکر ادا کرو اس نعمت ِ عظیمہ کا ۔ (طالب دعا : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...