Saturday, 18 November 2017

میلاد کسے کہتے ہیں ؟ اور میلاد عید کیوں ؟













میلاد کسے کہتے ہیں ؟ اور میلاد عید کیوں ؟ کا جواب ﻣﯿﻼﺩ ﮐﮯ ﻟﻐﻮﯼ ﻭ ﺍﺻﻄﻼﺣﯽ ﻣﻌﻨﯽ-: ﻣﯿﻼﺩ ﮐﮯ ﻟﻐﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﭽﮧ ﺟﻨﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺻﻄﻼﺡ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﺁﭘﮑﮯ ﻣﻌﺠﺰﺍﺕ ﻭ ﺧﺼﺎﺋﻞ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺮﺕ ﻭ ﺷﻤﺎﺋﻞ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﺤﺎﻓﻞ ﻣﻨﻌﻘﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﯿﻼﺩ ﮐﺎ ﺗذﮐﺮﮦ ﮐﺮﻧﺎ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﯿﻼﺩ ﻣﻨﺎﯾﺎ-:ﺣﻀﺮﺕ ﻗﺘﺎﺩﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ : ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺁﭖ ﭘﯿﺮ ﮐﺎ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ؟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺍﺱ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﺩﻥ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﻭﺣﯽ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯽ ۔ (ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ2/819 ﺭﻗﻢ116)(ﺑﯿﮩﻘﯽ ﺍﻟﺴﻨﻦ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ 4/286 ﺭﻗﻢ8182) ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺟﺐ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﮑﮧ ﺳﮯ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺗﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﭘﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺮﺩ ﻭ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﭼﮭﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮔﺌﮯ ﺍﮮ ﺑﭽﮯ ﺧﺪﺍﻡ ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﮑﮭﺮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺳﺐ ﻧﻌﺮﮮ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ : ﯾﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﯾﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ۔ (ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﺭﻗﻢ 2009 ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﺰﮬﺪ) ﻧﻌﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﻮﺱ ﻧﮑﺎﻟﻨﺎ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺍ ﻣﮕﺮ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻣﻨﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻧﮧ ﺩﻑ ﺑﺠﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﮧ ﻧﻌﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺍﮨﻞ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺗﮩﻮﺍﺭ ﮨﮯ ﻧﮧ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ ﻧﮧ ﻭﺍﺟﺐ ﺑﻠﮑﮧ ﺳﻨﺖ ﻭ ﻣﺴﺘﺤﺐ ﮨﮯ ﺳﻨﺖ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﺱ ﺩﻥ ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮭﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ اوپر ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ۔ قرآن کریم میں ہے : ﻋﯿﺴٰﯽ ﺍ ﺑﻦ ﻣﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﺍﮮ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﺍﮮ ﺭﺏ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﻢ ﭘﺮ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺍﻥ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﻋﯿﺪ ﮨﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﮔﻠﮯ ﭘﭽﮭﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻧﺸﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺭﺯﻕ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﺭﻭﺯﯼ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ۔(ﭘﺎﺭﮦ 7 ﺳﻮﺭﮦ 5 ﺳﻮﺭﮦ ﺍﻟﻤﺎﺋﺪﮦ ﺁﯾﺖ 114) ﯾﻌﻨﯽ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧُﺰﻭﻝ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮐﻮ ﻋﯿﺪ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﻈﯿﻢ ﮐﺮﯾﮟ ، ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﻣﻨﺎﺋﯿﮟ ، ﺗﯿﺮﯼ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﺮﯾﮟ ، ﺷﮑﺮ ﺑﺠﺎ ﻻﺋﯿﮟ ۔ ﻣﺴﺌﻠﮧ : ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺭﻭﺯ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﯽ ﺧﺎﺹ ﺭﺣﻤﺖ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮ ﺍﺱ ﺩﻥ ﮐﻮ ﻋﯿﺪ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﻣﻨﺎﻧﺎ ، ﻋﺒﺎﺩﺗﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ، ﺷﮑﺮِ ﺍﻟٰﮩﯽ ﺑﺠﺎ ﻻﻧﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧٔ ﺻﺎﻟﺤﯿﻦ ﮨﮯ ۔ قرآن کریم میں ہے : ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺩﻥ ﯾﺎﺩ ﺩﻻﺑﯿﺸﮏ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﺸﺎﻧﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﮨﺮ ﺑﮍﮮ ﺻﺒﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﺷﮑﺮ ﮔﺰﺍﺭ ﮐﮯ ﻟیئے ۔ (ﭘﺎﺭﮦ 13 ﺳﻮﺭﮦ 14 ﺳﻮﺭﮦ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺁﯾﺖ 5) ﮐﯿﺎ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ﺍﯾﺎﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﻗﺼﯿﺪﮦ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺟﺸﻦ ﻭﻻﺩﺕ ﻣﻨﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ : ﺳﺮﮐﺎﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺧﻮﺩ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺴﺎﻥ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﻣﻨﺒﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐر ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﻓﺨﺮﯾﮧ ﺍﺷﺎﺭ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻋﺎ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ۔(ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ) عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مطلب ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کے وقت یا زمانے کی خوشی ۔ اسلام میں شرعا دو عیدیں ہی ہیں جنہیں عیدالفطر اور عیدالاضحی کہتے ہیں ۔ کسی اور دن کے ساتھ لفظ عید لگانے میں شرعا کوئی ممانعت نہیں۔ اگر ممانعت ہے تو آپ وہ ممانعت قرآن و حدیث سے ثابت کردیں۔ اب رہا یہ سوال کہ کیا صحابہ کرام کسی اور دن کو عید کا دن کہتے تھے ؟ تو اس کا جواب ۔ غیرمقلدین کے وحیدالزماں بخاری کی شرح بنام تیسیرالبخاری کی جلد6ص 104پر ایک حدیث لکھی ہےجو اصل کتاب بخاری شریف کی جلد2ص662پر موجود ہے۔حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں یہودی لوگ(مثلا کعب احبار)حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے۔تم(انپے قرآن مجیدمیں)ایک ایسی آیت پڑھتے ہواگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید"(خوشی کا دن )مقرر کرلیتے ۔حضرت عمر نے پوچھا وہ کون سے آیت ہے ،انہوں نے کہا ۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسْلٰمَ دِیۡنًاحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں خوب جانتا ہو ں یہ آیت مبارکہ کب اتری اور کہاں اتری؟اور جس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئي تو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہاں تھے؟ یہ آیت مبارکہ عرفہ کے دن نازل ہوئي اس وقت اللہ تبارک و تعالی کی قسم ۔ہم میدان عرفات میں تھے۔حضرت سفیان ثوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں مجھ کو شک ہوا اس دن جمعہ تھا یا کوئی اور دن ۔ اس حدیث کو لکھنے کے بعد وحید الزماں نے لکھا ہے قیس بن سلمہ کی روایت میں بالیقین مذکور ہےکہ وہ جمعہ کا دن تھا تو اس دن دوہری عید ہوئی ۔ (تیسیرالبخاری ج6ص104 من و عن) دوہری سے مراد "یوم عرفہ" اور" یوم جمعہ" ہے یعنی جمعۃ المبارک بھی "عید" کا دن ہے ۔ مشکوۃ ص 121،رواہ الترمذی۔میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت موجود ہے۔جس میں آپ نے یہودی کو جوابا ارشاد فرمایا کہ اس دن ہماری دو عیدیں تھیں۔ مراد "یوم عرفہ" اور" یوم جمعہ"حضرت عبداللہ کے جواب کا مقصد یہودی کو یہ بات سمجھانا اور باور کروانا تھا کہ تم ایک"عید" کی بات کرتے ہو جب یہ آیت نازل ہوئی ان دن ہماری دو عیدیں تھیں۔یعنی یوم عرفہ اور جمعہ۔ حضرت عبید بن سباق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جمعوں میں ایک جمعہ میں فرمایا :"اے مسلمانوں کے گروہ یہ وہ دن ہے جسے اللہ تعالی نے "عید" بنایا ہے ۔تو غسل کرو اور جس کے پاس خوشبو ہو تو اسے لگانے میں کوئی نقصان نہیں ۔مسواک لازم پکڑو۔(مشکوۃ ص123،ابن ماجہ ص7 ہمارے نزدیک تو تمام "عیدیں " عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا صدقہ ہیں۔اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پیدا نہ ہوتے تو نہ عیدالفطر ہوتی اور نہ عیدالاضحی ہوتی ۔یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت با سعادت کی "عید"کے صدقہ میں ہمیں عطا ہوئيں۔ خالصتا دینی چیز ہے۔۔۔۔ یہ کیا ڈھکوسلا ہے ؟؟ دینی اور غیر دینی؟؟ جب قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنی ہوتی ہیں تو پمفلٹ پر لکھتے ہو۔میرا سب کچھ اللہ کیلئے ہے۔میرا جینا ،میرامرنا،سونا جاگنا سب کچھ اللہ کیلئے ہے۔اور جب مسلمانوں کو دھوکہ دینا ہوتا ہے تو دینی اور غیر دینی الگ الگ کردیتے ہو۔ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ تم فرماؤ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللّٰہ کے لئے ہے جو رب سارے جہان کا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوۡا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِؕ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۲۰۸﴾ اے ایمان والو اسلام میں پورے داخل ہو (ف۳۹۵) اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ مسلمان کا ہر عمل دین میں داخل ہے غالبا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب ہے کہ آپ نے کسی کافر کو فرمایا کہ مسلمان کو اس کے ہر عمل پر ثواب ملتا ہے۔چاہے استنجاء کرے،چاہے بیوی سے صحبت کرے۔ اچھی نیت کے ساتھ اور سنّت پر عمل کرنے کیلئے کرے گا تو اس پر ثواب دیا جائے گا۔اور بروز قیامت مسلمان اپنے ہر عمل کا جواب دہ ہے۔ پاکستان کاجشن آزادی منانا کیا کوئي عمل نہيں؟اگرکوئی عمل نہیں تو لھوولعب میں شمار ہوگا۔اگر عمل ہے پھر یا اچھا ہوگا یا برا۔اگر برا ہے تو سزا دیا جائے گا اور اگر اچھا ہے تو جزا دیا جائے گا۔یہ اچھا عمل دین میں داخل نہیں؟؟ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے کا عمل دین میں داخل نہیں؟؟؟ تو اگر کوئی فوجی ملک پاکستان کیلئے سرحد پراپنی جان قربان کرتا ہے تو اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا؟؟ تمہارے نزدیک ثواب اسی خودکش بمبار کو ملے گا جو جشن میلاد کے جلوس میں بمب باندھ کر خود کو اڑا لے؟؟؟اور پچاس ساٹھ مسلمانوں کو شہید کردے۔ اور اسے ملے گا جو محرم کے جلوس میں بمب باندھ کر اپنے آپ کو اڑا لیتا ہے؟؟اور وہ تمہارے عقیدے کا ہے اس لئے اس کیلئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔حوریں خدمت کیلئے آجاتی ہیں۔ لَایُسْ۔َٔلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسْ۔َٔلُوۡنَ ۔ اس سے نہیں پوچھا جاتا جو وہ کرے اور ان سب سے سوال ہوگا ۔ کیونکہ وہ مالکِ حقیقی ہے جو چاہے کرے ، جسے چاہے عزّت دے جسے چاہے ذلّت دے ، جسے چاہے سعادت دے جسے چاہے شقی کرے ، وہ سب کا حاکم ہے کوئی اس کا حاکم نہیں جو اس سے پوچھ سکے ۔ کیونکہ سب اس کے بندے ہیں مملوک ہیں ، سب پر اس کی فرمانبرداری اور اطاعت لازم ہے ۔ اس سے توحید کی ایک اور دلیل مستفاد ہوتی ہے جب سب مملوک ہیں تو ان میں سے کوئی خدا کیسے ہو سکتا ہے اس کے بعد بطریقِ استفہام تو بیخاً فرمایا ۔ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَالْفُؤَادَکُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُلًا ﴿۳۶﴾ بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے (ف۸۴)(ف84) کہ تم نے ان سے کیا کام لیا ۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ایک کتاب لکھی ۔جس کا نام ہے الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔اس میں نقل فرماتے ہیں۔میرے والد نے مجھے خبر دی فرمایا کہ میں میلاد پاک کی خوشی میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روز کھانا پکوایا کرتا تھا، ایک تھا میں اتنا تنگ دست تھا کہ میرے پاس کچھ نہ تھا مگر بھنے ہوئے چنے ،وہی میں نے لوگوں میں تقسیم کئے تو کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روبرو وہ بھنے ہوئے چنے رکھے ہوئے ہیں۔اور آپ ہشاش بشاش ہیں۔ ایہہ دھرتی نہ ہوندی نہ اسمان ہوندا جے پیدا نہ عرشاں دا مہمان ہوندا جب تم قرآن کی نہ سنو اللہ کا کذب تم ممکن گنو مگر جان کی آفت گلے کی غل تویہ ہے کہ جناب حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحب علیہ الرحمہ نے نقل فرمائیں ، یہ امام الطائفہ مولوی اسماعیل کے نسب کے، شریعت کے باپ، طریق کے دادا ۔ اب انہیں نہ مشرک کہے بنتی ہے نہ کلام الہٰی پر ایمان لانے کو روٹھی وہابیت ملتی ہے ، نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن (نہ رہنے کا یارا ، نہ چلنے کی تاب۔ دوگونہ رنج وعذاب است جان لیلی را بلائے صحبت مجنوں وفرقت مجنوں (لیلی کی جان کو دوقسم کا دکھ اورعذاب ہے ،مجنوں کی صحبت اوراس کی جدائی کی مصیبت) ہاں اب ذراگھبرا ئے دلوں ، شرمائی چتونوں سے لجائی انکھڑیاں اوپر اٹھائیے اوربحمد اللہ وہ سنئے کہ ایمان نصیب ہوتوسنی ہوجائیے ، حضرت شاہ عبدالعزیزصاحب رحمۃ اللہ علیہ تحفہ اثنا عشریہ میں لکھتے ہیں : حدیث آخر ابو نعیم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور مالک غیور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی تھیں :لما خرج من بطنی فنظرت الیہ فاذا انابہ ساجد ثم رایت سحابۃ بیضاء قد اقبلت من السماء حتی غشیتہ فغیب عن وجھی ، ثم تجلت فاذا انابہ مدرج فی ثوب صوف ابیض وتحتہ حریرۃ خضراء وقد قبض علی ثلٰثۃ مفاتیح من اللؤلوء الرطب واذا قائل یقول قبض محمد علی مفاتیح النصرۃ ومفاتیح الربح ومفاتیح النبوۃ ثم اقبلت سحابۃ اخرٰی حتی غشیتہ فغیب عن عینی ثم تجلت فاذا انابہ قد قبض علی حریرۃ خضراء مطویۃ واذقائل یقول بخٍ بخٍ قبض محمد علی الدنیا کلھا لم یبق خلق من اھلھا الادخل فی قبضتہ ۔ (الخصائص الکبرٰی بحوالہ ابو نعیم عن ابن عباس باب ماظہر فی لیلۃ مولدہ مرکز اہلسنت گجرات الہند ۱ /۴۸)۔ھذا مختصر۔والحمدللہ رب العالمینجب حضور میرے شکم سے پیداہوئے میں نے دیکھا سجدے میں پڑے ہیں ،پھر ایک سفید ابر نے آسمان سے آکر حضور کو ڈھانپ لیا کہ میرے سامنے سے غائب ہوگئے ، پھر وہ پردہ ہٹا تو میں کیا دیکھتی ہوں کہ حضورایک اونی سفید کپڑے میں لپٹے ہیں اورسبز ریشمیں بچھونا بچھا ہے اورگوہر شاداب کی تین کنجیاں حضور کی مٹھی میں ہیں اورایک کہنے والا کہہ رہا ہے کہ نصرت کی کنجیاں ، نفع کی کنجیاں، نبوت کی کنجیاں، سب پر محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قبضہ فرمایا ۔ پھر اور ابر نے آکر حضور کو ڈھانپا کہ میری نظر سے چھپ گئے ۔ پھر روشن ہوا تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک سبز ریشم کا لپٹا ہوا کپڑا حضور کی مٹھی میں ہے اورکوئی منادی پکار رہا ہے واہ واہ ساری دنیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مٹھی میں آئی زمین وآسمان میں کوئی مخلوق ایسی نہ رہی جو ان کے قبضہ میں نہ آئی ۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ آج کل نبی پاک کی ولادت کی خوشی میں محافل منعقد ہوتی ہیں۔جلسے جلوس ہوتے ہیں ،یہ کیا اجتماع ہے ؟ جو اجتماع قیامت کو قائم ہونے والا ہے ۔اور اس میں جب سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان بیان کی جائے گی۔ فقط اتنا سبب ہے انعقاد بزم محشر کا کہ ان کی شان محبوبی دکھائی جانے والی ہے حافظ ابو سعید عبدالملک بن عثمان کتاب شرف النبوۃ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اذا کان یوم القیٰمۃ وجمع اللہ الاولین والاٰخرین یؤتی بمنبرین من نور فینصب احدھما عن یمین العرش والاٰخر عن یسارہٖ ویعلوھما شخصان فینادی الذی عن یمین العرش معاشر الخلائق من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا رضوان خازن الجنۃ ان اللہ امرنی ان اسلم مفاتیح الجنۃ الی محمد وان محمدا امرنی ان اسلّمھا الی ابی بکر وعمر لیدخلا محبیھما الجنۃ الا فاشھدوا ثم ینادی الذی عن یسار العرش معشر الخلائق من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا مالک خازن النار ان اللہ امرنی ان اسلم مفاتیح النار الی محمد ومحمد امرنی ان اسلمھا الی ابی بکر وعمرلیدخلا مبغضیھما النار الا فاشھدوا۱؂۔او ردہ ایضاً فی الباب السابع من کتاب الاحادیث الغررفی فضل الشیخین ابی بکرٍوعمر من کتاب الاکتفاء ۔روز قیامت اللہ تعالٰی سب اگلوں پچھلوں کو جمع فرمائے گا دو منبر نور کے لاکر عرش کے داہنے بائیں بچھائے جائیں گے ان پر دو شخص چڑھیں گے ، داہنے والا پکارے گا : ترجمہ : اے جماعات مخلوق! جس نے مجھے پہچانا اس نے پہچانا اورجس نے نہ پہچانا تو میں رضوان داروغہ بہشت ہوں مجھے اللہ عزوجل نے حکم دیا کہ جنت کی کنجیاں محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سپردکروں اورمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر وعمر (رضی اللہ تعالٰی عنہما)کو دوں کہ وہ اپنے دوستوں کو جنت میں داخل کریں۔ سنتے ہوگواہ ہوجاؤ۔ پھر بائیں والا پکارے گا : اے جماعات مخلوق! جس نے مجھے پہچانااس نے پہچانا اورجس نے نہ پہچانا تو میں مالک داروغہ دوزخ ہوں مجھے اللہ عزوجل نے حکم دیا کہ دوزخ کی کنجیاں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سپرد کروں اور محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر وعمر (رضی اللہ تعالٰی عنہما)کو دوں کہ وہ اپنے دشمنوں کو جہنم میں داخل کریں ، سنتے ہو گواہ ہوجاؤ ۔ (اس کو بھی کتاب الاکتفاء میں کتاب الاحادیث الغررفی فضل الشیخین ابی بکر وعمر میں باب ہفتم میں بیان کیا۔ )۔(ماخوذ فتاویٰ رضویہ)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...