Wednesday, 22 November 2017

حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی اشعری الشافعی علیہ الرحمہ کے بہنوئی شاہ ابوسعید المظفر کوکبری المعروف شاہ اربل علیہ الرحمہ کا جشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ابن وہاب نجدی خارجی گمراہ کے پیروکاروں کے جھوٹ کا جواب

حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی اشعری الشافعی علیہ الرحمہ کے بہنوئی شاہ ابوسعید المظفر کوکبری المعروف شاہ اربل علیہ الرحمہ کا جشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ابن وہاب نجدی خارجی گمراہ کے پیروکاروں کے جھوٹ کا جواب

خوارجی عناصر، جب میلاد پر اپنے جاہلانہ اعتراضات کے جواب میں کچھ نہیں پاتے تو پھر عام سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کی خاطر شوشا چھوڑتے ہیں کہ (حضرت سلطان ابوسعید مظفرالدین کوکبری رح) تو شیعہ تھے ،اور یہ کہ بہت ہی فاسق فاجر تھے۔ (معاذ اللہ)۔ ان کی اسی جاہلانہ خرافات بھری جھوٹی کذبانہ بکواس کی پوسٹس کو ان کے جاہل پیروکار پھر آگے پروموٹ کرکے جہالت میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ذیل میں ان کے بارے میں تاریخھائے اسلام سے مستند ترین ثبوت پیش کیئے جارہے ہیں۔حضرت سلطان صاحب سے خوارج کی یہ تکلیف سمجھ میں آتی ہے کیونکہ انہوں نے میلادِ مصطفیٰ علیہ التحیہ والثناء کو ہرسال رائج فرما کر ایک (بدعتِ حسنہ) بقول شافعی حضرات اور ایک مستحسن قدم بقول جمہور مسلمانان شروع کیا تھا۔ جسکی بنا پر یہ اب ان جدید دور کے خارجی عناصر کے تخت مشق کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ذیل میں ان کا مکمل مستند رد پیش خدمت کیا جارہا ہے بمع ثبوتوں کے تاکہ تمام حضرات کماحقہ فائدہ اٹھا سکیں۔
حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی اشعری الشافعی علیہ الرحمہ کے بہنوئی شاہ ابوسعید المظفر کوکبری المعروف شاہ اربل علیہ الرحمہ کا جشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم
شاہ ابوسعید المظفر (متوفی 630ہجری) عظیم فاتح سلطان صلاح الدین ایوبی (532۔ 589ہجری / 1138۔ 1193عیسوی) کے بہنوئی تھے۔ سلطان کی حقیقی ہمشیرہ ربیعہ خاتون ملک ابو سعید المظفر کے عقد میں تھیں اور سلطان بادشاہ سے بغایت درجہ محبت رکھتے تھے۔ وہ دونوں خدمتِ اسلام میں ایک دوسرے کے ساتھ دل و جان سے شریک تھے۔ بادشاہ خادمِ اسلام ہونے کے باوصف بہت متقی، پرہیزگار اور فیاض واقع ہوئے تھے۔ بادشاہ کا عظیم دینی و روحانی مقام اور خدمتِ اسلام کی تڑپ دیکھ کر ہی سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی ہمشیرہ ’ حضرت ربیعہ خاتون‘ کی شادی ان سے کی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے حوالے سے ملک ابو سعید المظفرکا یہ تعارف کرانے کے بعد امام ابن کثیر نے تین چار سطور میں موصوف کے سیرت وکردار، تقویٰ و پرہیزگاری اور دریا دلی پر روشنی ڈالی ہے اور میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے تفصیلات شرح و بسط کے ساتھ رقم کی ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر بالتفصیل لکھا ہے کہ بادشاہ کس جوش و جذبہ اور مسرت و سرور سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب کا اہتمام کیا کرتا تھا۔
امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ شاہ مظفر ابو سعید کو کبری بن زین الدین علی بن تبکتکین ایک سخی، عظیم سردار اور بزرگ بادشاہ تھا، جس نے اپنے بعد اچھی یادگاریں چھوڑیں۔ اس نے قاسیون کے دامن میں جامع مظفری تعمیر کروائی۔ وہ برزہ کے پانی کو اس کی طرف لانا چاہتا تھا تو معظم نے اسے اس کام سے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ سفوح کے مقام پر مسلمانوں کے قبرستان سے گزرے گا۔ وہ ماہ ربیع الاول میں میلاد مناتا تھا اور عظیم الشان محفلِ میلاد منعقد کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بہادر، دلیر، حملہ آور، جری، دانا، عالم اور عادل بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے اور اسے بلند رتبہ عطا فرمائے۔
شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ نے اس کے لیے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ’’التنویر فی مولد البشیر والنذیر‘‘ رکھا۔ شاہ نے اس تصنیف پر اُسے ایک ہزار دینار انعام دیا۔ اس کی حکومت حکومتِ صلاحیہ کے زمانے تک رہی، اس نے عکا کا محاصرہ کیا اور اس سال تک وہ قابلِ تعریف سیرت و کردار اور قابلِ تعریف دل کا آدمی تھا۔
سبط نے بیان کیا ہے کہ مظفر کے دستر خوانِ میلاد پر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے کہ اس میں پانچ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں، ایک لاکھ مٹی کے دودھ سے بھرے پیالے اور تیس ہزار مٹھائی کے تھال ہوتے تھے۔‘‘
1. ابن کثیر ، البدایہ والنہایہ جلد 9 صفحہ 18
2. محبی ، خلاصۃ الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر جلد 3 صفحہ 233
3. سیوطی ، حسن المقصد فی عمل المولد صفحہ 42-44
4. سیوطی ، الحاوی للفتاویٰ صفحہ 200
5. احمد بن زینی دحلان ، السیرۃ النبویہ جلد 1 صفحہ 53-54
اِس کے بعد امام ابن کثیر کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :میلاد کے موقع پر اُس کے پاس بڑے بڑے علماء اور صوفیاء حاضر ہوتے تھے، وہ انہیں خلعتیں پہناتا اور عطیات پیش کرتا تھا اور صوفیاء کے لیے ظہر سے عصر تک سماع کراتا تھا اور خود بھی ان کے ساتھ رقص کرتا تھا۔ ہر خاص و عام کے لیے ایک دارِ ضیافت تھا اور وہ حرمین شریفین و دیگر علاقوں کے لیے صدقات دیتا تھا اور ہر سال بہت سے قیدیوں کو فرنگیوں سے چھڑاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس نے ان کے ہاتھ سے ساٹھ ہزار قیدیوں کو رہا کرایا۔اس کی بیوی ربیعہ خاتون بنت ایوب کہتی ہے کہ اس کے ساتھ میرا نکاح میرے حضرت بھائی صلاح الدین ایوبی اشعری الشافعی علیہ الرحمہ نے کرایا تھا۔ اس خاتون کا بیان ہے کہ شاہ کی قمیص پانچ دراہم کے برابر بھی نہ ہوتی تھی۔ پس میں نے اسے اس بارے میں سوال کیا تو وہ کہنے لگے : میرا پانچ درہم کے کپڑے کو پہننا اور باقی کو صدقہ کر دینا اس بات سے بہتر ہے کہ میں قیمتی کپڑا پہنوں اور فقراء اور مساکین کو چھوڑ دوں اور وہ ہر سال محفل میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تین لاکھ دینار اور مہمان نوازی پر ایک لاکھ دینار اور حرمین شریفین اور حجاز کے راستے میں پانی پر خفیہ صدقات کے علاوہ تیس ہزار دینار خرچ کرتا تھا، رحمہ اﷲ تعالی۔ اس کی وفات قلعہ اِربل میں ہوئی اور اس نے وصیت کی کہ اسے مکہ لے جایا جائے، مگر ایسا نہ ہو سکا اور اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اِجتماع گاہ میں دفن کیا گیا۔‘‘
1. ابن کثیر ، البدایہ والنہایہ جلد 9 صفحہ 18
2. سیوطی ، حسن المقصد فی عمل المولد صفحہ 44
3. سیوطی ، الحاوی للفتاوی 200
4. صالحی ، سبل الھدیٰ و الرشاد فی سیرۃ خیرالعباد صلی اللہ علیہ وسلم جلد 1 صفحہ 362-363
5. نبہانی ، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 236
6. دفیات الاعیان صفحہ 536-540
7. البدایہ والنہایہ جلد 13 صفحہ 147
8. العبر فی خبر من غبر جلد 2 صفحہ 224
9. تاریخ الاسلام صفحہ 402-405
10. سیر اعلاء والنبلاء جلد 16 صفحہ 257
11. آثار البلاد واخبار العباد صفحہ 290
12. شذرت الذہب جلد 5 صفحہ 140
13. البراہین الجلیہ صفحہ 92
14. الفتح القسی فی الفتح القدسی صفحہ 51
15. مراۃ الزمان صفحہ 392-393
16. کتاب الروضتین صفحہ جلد 3-9191
17. العسجد السبوک والجواہر المحکوک جلد1 صفحہ 492
18. التکملۃ لوفیات النقلہ جلد 3 صفحہ 354
19. دول الاسلام صفحہ 341
20. الباعث صفحہ 36
حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی اشعری الشافعی علیہ الرحمہ کے بہنوئی صَاحِبُ إِرْبِلَ كُوْكْبُرِي بنُ عَلِيٍّ التُّرُكْمَانِيُّ * کی ” توسیق” مشہور محدث اور اسماء رجال کے بادشاہ امام ( الذهبي (المتوفى : 748هـ) رحمہ اللہ سے اِمام شمس الدین ابو عبد اﷲ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی (1274۔ 1348ء) کا شمار عالمِ اسلام کے عظیم محدثین و مؤرّخین میں ہوتا ہے۔ اُنہوں نے اُصولِ حدیث اور اَسماء الرجال کے فن میں بھرپور خدمات سرانجام دیں اور کئی کتب تالیف کی ہیں، مثلا تجرید الاصول فی احادیث الرسول، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، المشتبۃ فی اسماء الرجال، طبقات الحفاظ وغیرہ۔ فنِ تاریخ میں اُن کی ایک ضخیم کتاب تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والاعلام موجود ہے۔ اَسماء الرجال کے موضوع پر ایک ضخیم کتاب سیر اعلام النبلاء میں رُواۃ کے حالاتِ زندگی پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ یہ کتاب علمی حلقوں میں بلند پایہ مقام رکھتی ہے۔ امام ذہبی نے اس کتاب میں سلطان صلاح الدین ایوبی (532۔ 589ھ / 1138۔ 1193ء) کے بہنوئی اور اِربل کے بادشاہ سلطان مظفر الدین ابو سعید کوکبری (م 630ھ) کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور ان کی بہت تعریف و تحسین کی ہے۔ بادشاہ ابو سعید کوکبری بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والے اور مہمان نواز تھے۔ اُنہوں نے دائمی بیماروں اور اندھوں کے لیے چار مسکن تعمیر کروائے اور ہر پیر و جمعرات کو ان سے ملاقات و دریافت اَحوال کے لیے جاتے۔ اِسی طرح خواتین، یتیموں اور لاوارث بچوں کے لیے الگ الگ گھر تعمیر کروائے تھے۔ وہ بیماروں کی عیادت کے لیے باقاعدگی سے ہسپتال جاتے تھے۔ اَحناف اور شوافع کے لیے الگ الگ مدارس بنوائے اور صوفیاء کے لیے خانقاہیں تعمیر کروائی تھیں۔ اِمام ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ بادشاہ سنی العقیدہ، نیک دل اور متقی تھا۔ اُنہوں نے یہ واقعہ اپنی دو کتب ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ اور ’’تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والاعلام‘‘ میں بالتفصیل درج کیا ہے۔
اِمام ذہبی ملک المظفر کے جشنِ میلاد منانے کے بارے میں لکھتے ہیں : اَلفاظ ملک المظفر کے محفلِ میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کا انداز بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ جزیرۂ عرب اور عراق سے لوگ کشاں کشاں اس محفل میں شریک ہونے کے لیے آتے۔ ۔ ۔ اور کثیر تعداد میں گائیں، اونٹ اور بکریاں ذبح کی جاتیں اور انواع و اقسام کے کھانے پکائے جاتے۔ وہ صوفیاء کے لیے کثیر تعداد میں خلعتیں تیار کرواتا اور واعظین وسیع و عریض میدان میں خطابات کرتے اور وہ بہت زیادہ مال خیرات کرتا۔ ابن دحیہ نے اس کے لیے ’’میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے موضوع پر کتاب تالیف کی تو اس نے اسے ایک ہزار دینار دیئے۔ وہ منکسر المزاج اور راسخ العقیدہ سنی تھا، فقہاء اور محدثین سے محبت کرتا تھا۔ سبط الجوزی کہتے ہیں : شاہ مظفر الدین ہر سال محفلِ میلاد پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا جب کہ خانقاہِ صوفیاء پر دو لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔ اس محفل میں شریک ہونے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اُس کی دعوتِ میلاد میں ایک سو (100) قشلمیش گھوڑوں پر سوار سلامی و اِستقبال کے لیے موجود تھے۔ میں نے اُس کے دستر خوان پر پانچ ہزار بھنی ہوئی سِریاں، دس ہزار مرغیاں، ایک لاکھ دودھ سے بھرے مٹی کے پیالے اور تیس ہزار مٹھائی کے تھال پائے۔‘‘
1. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 16 : 274، 275
2. ذهبي، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (621 – 630ه)، 45 : 402 – 405
حضپ م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذاتِ مقدسہ سے متعلقہ کسی اَمر کو اس کی ذاتی فضیلت کے باوجود امت کی آسانی کے لیے ترک فرما دیتے۔‘‘
1. ابن الحاج، المدخل إلي تنمية الأعمال بتحسين النيات والتنبيه علي کثير من البدع المحدثة والعوائد المنتحلة، 2 : 2 – 4
2. سيوطي، حسن المقصدفي عمل المولد : 57 – 59
3. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 203، 204
4. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 371، 372
بعض لوگ کہتے ہیں شاہ مظفر ابو سعید نے میلاد منانے کی بدعت چھ(6) صدی ہجری میں ایجاد کی۔ یہ غلط ھے ۔ کیونکہ شاہ مظفر ابو سعید (جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی تھے) 549 ہجری میں پیدا ہوئے اور اس سے 52 سال قبل پیدا ھونے والے حجۃ الدین اِمام محمد بن ظفر المکی (497۔ 565ھ) میلاد کے بارے میں کیا لکھتے ہیں غور سے پڑھیں
حجۃ الدین اِمام ابو عبد ﷲ محمد بن عبد ﷲ بن ظفر المکی کہتے ہیں کہ الدر المنتظم میں ہے :’’اہلِ محبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی میں دعوتِ طعام منعقد کرتے آئے ہیں۔ قاہرہ کے جن اَصحابِ محبت نے بڑی بڑی ضیافتوں کا انعقاد کیا ان میں شیخ ابو الحسن بھی ہیں جو کہ ابن قفل قدس ﷲ تعالیٰ سرہ کے نام سے مشہور ہیں اور ہمارے شیخ ابو عبد اللہ محمد بن نعمان کے شیخ ہیں۔ یہ عمل مبارک جمال الدین عجمی ہمذانی نے بھی کیا اور مصر میں سے یوسف حجار نے اسے بہ قدرِ وسعت منعقد کیا۔
اور شاہ مظفر ابو سعید کی پیدائش سے 39 سال قبل پیدا ہوئے علامہ اِبن جوزی (510۔ 579ھ) میلاد النبی منانے کے بارے میں کیا لکھتے ہیں وہ بھی پڑھیئے ۔
علامہ جمال الدین ابو الفرج عبد الرحمٰن بن علی بن جوزی کثیر کتب کے مصنف تھے۔ اُنہوں نے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دو کتب تالیف کیں:
1. بيان الميلاد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم
2. مولد العروس
علامہ ابن جوزی بیان المیلاد النبوي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فرماتے ہیں :’’مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ، مصر، شام، یمن الغرض شرق تا غرب تمام بلادِ عرب کے باشندے ہمیشہ سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفلیں منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ چنانچہ ذکرِ میلاد پڑھنے اور سننے کا خصوصی اہتمام کرتے اور اس کے باعث بے پناہ اَجر و کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔‘‘
حافظ ابن کثیر دمشقی الشافعی کا شاہ مظفر ابوسعید کوکبری کے بارے میں تاثرات لکھتے ہیں (ترجمہ عربی) ۔ یہ بزرگ بادشاہوں، بڑے سربراہوں اور سخی بادشاہوں میں سے ایک ہیں، انہوں نے بہت ہی خوبصورت کام کیئے۔ کوہ قاسیوں میں اہل اسلام کے لیئے بہت عظیم مسجد جامع مظفری تیار کروائی۔ لوگوں کی تمنا تھی کہ اس مسجد میں ذیرہ سے بصورتِ نہر پانی چلایا جائے مگر ملک معظم نے یہ کہتے ہوئے اس سے منع کیا کہ مقام سفوح میں مسلمانوں کا قبرستان ہے اور نہر وہاں سے گزرے گی (یعنی قبرستان کی بے حرمتی مناسب نہیں) یہ ربیع الاول میں محافل ِ میلاد کا اہتمام کرتے ہوئے بڑی محفل سجاتے، اس کے ساتھ ساتھ یہ ذکی، بہادر، حریت فکر، جرات مند، دانشور، فاضل اور بڑے عادل تھے۔ ان کے لیئے ہی شیخ ابوالخطاب بن دحیہ نے مولد نبوی پر (التنویر فی مولد البشیرالنذیر) کتاب لکھی۔ جس پہ انہیں ہزار دینار انعام دیا۔ ان کی بادشاہی کا دور، خاندانِ صلاحیہ کی سلطنت میں کافی طویل ہے۔ مقام عکا میں انہوں نے کفار کو شکست دی اور اس معاملہ (کفار کے ساتھ جہاد) میں وہ نہایت ہی اعلیٰ سیرت و خدمات کے مالک ہیں۔
شیخ سبط نے محفل میلاد کے موقعہ پر ملک مظفر کے دسترخوان پہ بیٹھنے والے ایک آدمی سے بیان کیا کہ اس کے دسترخوان پر پانچ ہزار مرغ، ایک لاکھ دہی کے پیکٹ، تیس ہزار حلوہ اور مٹھائی کی پراتیں ہوتی تھیں۔ ان کی محفلِ میلاد میں اس وقت کے بڑے بڑے علماء و صوفیاء شریک ہوتے۔ انہیں اعلیٰ پوشاک اور انعامات دیتے۔ صوفیاء کے لیئے ظہر سے فجر تک سماع (اچھا کلام) سننے کا اہتمام کرتا اور صوفیہ کے ساتھ خود بھی کلام سن کر وجد و سرور میں آتا۔ انہوں نے ہرطرف سے آنے والے ہرکسی کے لیئے مہمان خانے بنا رکھے تھے۔ تمام فلاحی نیک کاموں و دینی معاملات میں اس کے صدقات کا دائرہ حرمین اور دیگر مقامات تک پھیلا ہوا تھا۔ ہر سال انگریز (فرنگی) سے کثیر قیدیوں کو آزاد کرواتے حتیٰ کہ منقول ہے ان آزاد کردہ لوگوں کی تعداد ساٹھ ہزار ہے۔ ان کی بیوی خاتون ربیعہ بنت ایوب (صلاح الدین ایوبی) کی ہمشیرہ ہیں، ان کا رشتہ مقام عکا پر ان کی خدمات کی وجہ سے انہوں نے کروایات تھا)۔ بتاتی ہیں کہ ان کی قمیص کی قیمت پانچ درہم سے زیادہ نہ تھی جس پہ میں نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ آپ قیمتی لباس کیوں نہیں پہنچے؟ تو فرمانے لگے میرا پانچ درہم کے مساوی لباس پہننا اور باقی رقم کا صدقہ کرنا یہ اس سے کہیں بہتر کہ میں قیمتی لباس پہنوں اور فقراء و مساکین کو حالتِ محتاجی میں چھوڑ دوں، میلاد پر ہرسال تین لاکھ دینار، حرمین اور حجاز میں پانی کے انتظامات پر تیس ہزار درہم خرچ کرتے اور یہ ان کے مخفی و سری صدقات کے علاوہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ان پر خوب رحمتیں ہوں۔ ان کی وفات قلعہ اربل میں ہوئی اور انہوں نے مکہ دفن کرنے کی وصیت کی مگر اس میں کامیابی نہ ہوئی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مزار کے پاس انہیں دفن کیا گیا۔ (البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر جلد ۱۷ صفحات ۲۰۴ تا ۲۰۶ ھجر للطباعۃ والتوزیع بیروت)
امام المحدث زکریا بن محمد بن محمود القزوینی (۶۰۵، ۶۸۲) شہر اربل کے بارے میں لکھتے ہیں، اسکے سربراہ ملک مظفر الدین کوکبری بن زین الدین علی ہیں۔کان ملکاً شجاعاً جواد اغازیا ۔ بہادر ، سخی اور غازی حاکم تھے۔کفار کے خلاف ان کے جہاد کا تذکرہ ان الفاظ مین کرتے ہیں۔لہ نکایات فی الفرنج یتحدث الناس بھا۔۔۔۔ انہوں نے انگریزوں کا جو قلع قمع کیا۔ لوگوں میں وہ معروف ہے۔اہل تصوف کا معتقد تھا۔ ان کے لیئے دو مراکز بنوائے وہاں ۲۰۰ دوسو صوفیا رہتے۔ ہرجمعہ کی شب وہاں کھانا کھاتے اور وجد و سرور میں جھومتے۔ جو بھی اہل تصوف سے آتا اسکی خدمت کرتے اور واپسی پردینار دیتے۔ومن اتاہ من اھل العلم والخیر والصلاح اعطاہ علی قدر رتبتہ اہل علم و خیر اور صاحبِ تقویٰ میں سے جو بھی آتا اسکے رتبہ کے مطابق اسے عطا کرتے۔دس ربیع الاول کے موقعہ پر ان کی طرف سے دعوتِ عامہ اور مہمان نوازی ہوتی۔ اس موقعہ پر کثیر مخلوق جمع ہوجاتی۔ ۱۲ ربیع الاول شریف چونکہ مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دن ہے۔ لہٰذا اس دن عظیم تبلیغ کا سلسلہ ہوتا تمام حاضرین وہاں سے خیروبرکت لے کر لوٹتے ۔ وکان یبعث الی الافرنج اموالا عظیمۃ یشتری بھا الاسری ۔انگریزوں کو مال کثیر دے کر مسلمان قیدیوں کو رہا کرواتے۔انہوں نے طویل عمر پائی اور ۶۲۹ھ میں ان کا وصال ہوا۔
( آثار البلاد و اخبار العباد ۔ ص ۲۹۰۔ دار صادر بیروت)
امام شمس الدین ذھبی (۷۴۸) اس بادشاہ کا تعارف یوں لکھتے ہیں؛۔مظفر الدین صاحب اربل ملک معظم ابوسعید کوکبوری بن امیر زین الدین علی بن کوجک ترکمانی، کوجک کا معنی لطیف قد والا ہے۔ یہ مظفر الدین، مملکت اربل کے اپنے والد کے مرنے کے بعد سن ۵۶۳ھ میں چودہ سال کی عمر میں والی بنے۔ اس پر اتابک مجاھد الدین قیماز نے تعصب برتا اور خلیفہ کو لکھا کہ یہ صغرسنی کی وجہ سے سربراہ مملکت کے اہل نہیں لہٰذا ان کے بھائی یوسف کو سربراہ بنا دیا گیا تو یہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چلے گئے اور وہاں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تو سلطان نے اپنی بہن ربیعہ کا نکاح ان کے ساتھ کردیا۔ اس خاتون نے مدرسہ صاحبہ وقف کیا تھا۔ یہ سلطان کے ساتھ کئی جنگوں و معرکوں میں شریک ہوئے جن میں انہیں اپنی شجاعت اور دشمن کے خلاف جوھر دکھانے کا موقعہ ملا۔ اس وقت وہ حران اور الرھا کے گورنر بھی تھے۔ ان کے بھائی یوسف مقام عکا میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی معاونت کے لیئے آئے ہوئے تھے وہ وہاں فوت ہوئے تو سلطان نے مظفرالدین کو اربل وشہرزور حوالے کرکے حران و الرھا ان سے واپس لے لیئے تاکہ یہ اپنے والد کی جگہ سنبھال سکیں تو اب اس سال ۲۳۰ تک وہی حکمران ہیں۔ یہ بادشاہوں میں نہایت ہی دیندار نیک و صالح، سب سے سخی، کثرت کے ساتھ نیک کام کرنے والے، چھوٹی سلطنت کے باوجود نہایت ہی مشہور ہیں، ہرسال میلاد پر خرچ کرنے میں اپنی مثال تھے۔ انہوں نے خدمت دین کے لیے دو مدارس قائم کئے، چار مہمان خانے بیوگان اور یتامیٰ کے لیئے الگ الگ دارالکفالہ گمشدہ لاوارث اور بوڑھوں کے لیئے مراکز وغیرہ بنائے ان کا وصال ۱۴ رمضان میں ہوا۔ ٰ کتاب؛۔ العبر فی خبر من غبر۔ شیخ الاسلام الحافظ الذھبی رحمتہ اللہ علیہ ج ۳ ص ۲۰۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
سلطان مظفرالدین کوکبوری رحمتہ اللہ علیہ کی اعلیٰ صفات و کردار پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اور ان کے واقعات کے ذکر میں امام ابن خلکان اپنی (وفیات الاعیان یعنی تاریخ الاسلام) میں میلاد کے بارے میں فرماتے ہوئے لکھ رہے ہیں؛۔
ان کی محافل میلاد کا کیا کہنا ، ان کا بیان احاطہ سے باہر ہے۔ موصل، بغداد، سنجار، جزیرہ اور دیگر مقامات سے جو کثیر لوگ ان میں شرکت کے لیئے آتے ہیں ان میں سے اس دور کے فقہاء صوفیاء، واعظین اور شعراء بھی تھے اور یہ آمد کا سلسلہ محرم سے اوائل ربیع الاول (شریف) تک جاری رہتا۔
مزید آگے لکھا ہے؛۔بیس کے قریب لکڑی کے قبے بنائے جاتے۔ ایک اس کا اپنا جبکہ دیگر بڑے بڑے صاحب منصب لوگوں کے لیئے تھے ہر قبہ چار پانچ منزلہ ہوتا۔ ابتداء صفر سے ان قبوں کی زیبائیش شروع ہوجاتی۔ ان میں اچھا کلام پڑھنے والوں، مزامیر، خاکے پیش کرنے والوں کی ایک جماعت بٹھا دی جاتی۔ ان دنوں تفریح کی وجہ سے کاروبار بند رہتا۔ بادشاہ ہر عصر کے بعد آکر ہر قبہ میں جاتا اور اچھا کلام سنتا اور انکے خاکے سن کر خوش ہوتا۔ رات خانقاہ میں بسر کرتا اور بزم سماع کا اہتمام کرتا۔ صبح کے وقت شکار کے لیئے جاتا۔ ظہر سے پہلے قلعہ میں واپس آجاتا۔ ہرروز شبِ میلاد تک اس کا یہ معمول تھا ۔ تاریخ مولد میں اختلاف کی وجہ سے وہ کبھی آٹھ اور کبھی بارہ ربیع الاول کو محفل سجاتا۔ انگنت اونٹ، گائے ، اور بکریاں ، ڈھول اور باجوں کے ساتھ لے کر میدان میں نکلتا انہیں وہاں ذبح کرکے مختلف انداز میں پکایا جاتا۔
( وفیات الاعیان وانباٗ ابناِٗ الزمان ۔ (تاریخ الاسلام لابن خلکان)۔ امام ابی العباس شمس الدین احمد بن محمد بن ابی بکر ابن خلکان۔ (متوفیٰ ۶۸۱ھ)۔ جلد ۴ ص ۱۱۷ ۔ دارصادر بیروت)
یعنی یہ بات ثابت ہوگئی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کے خالص دور میں ان کے قریبی عزیز اور مجاہد سلطان مظفرالدین کوکبوری رحمتہ اللہ علیہ ایسے ریبیع الاول کی خوشیاں مناتے اور میلاد کرتے۔ اگر یہ (بریلویوں) کی کوئی سوکالڈ بدعت ہے تو پھر سلاطین بھی (بریلوی) ہونے چاہیئے تھے۔ ظاہر ہوا کہ امت میں میلاد شریف کا منانا بہت پہلے سے رائج ہے بلکہ جیسا کہ متعدد پوسٹس میں بتایا جاچکا کہ خود اللہ کی یہ سنت ہے اور نبی کریم علیہ السلام و اصحاب و سلف الصالحین سے یہ ثابت شدہ امر ہے۔ اور ظاہر ہے سلطان صلاح الدین ایوبی فاتح فلسطین کو اگر یہ (دیوبندی وہابیوں کے نئے اسلام کی طرح بدعت) لگتی تو وہ اسکو جاری نہ رہنے دیتے۔ یا شاید (خوارجِ وہابیہ دیوبندیہ) کو اپنا ناقص عقیدہ یا اسلام کی سمجھ سلطان اور دیگر سلف الصالحین وغیرہ علمائے اسلام سے زیادہ لگتی ہے۔ اسلیئے امت کو (بریلوی) کا نام دے کر اپنے جہلاء میں اپنے مذہبی کاروبار کی دکانداری چمکائی جاتی ہے ایک جائز مستحسن اور جمہور کی طرف سے تصدیق شدہ امر کو (بدعت) کا نام دے کر۔
اللہ سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ اور (دیوبندی وہابی) بننے کی بجائے مسلمان بننے کی توفیق عطا کرے آمین ۔
امام ذھبی نے اپنی دوسری کتاب سیراعلام النبلاء میں تقریباً یہی سب کچھ لکھا ہے مگر قاضی ابن خلکان کا حوالہ نہیں دیا، کچھ اقتباسات ملاحظہ ہوں
ملک مظفر الدین نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ بڑے بڑے معرکوں میں شرکت کی۔ خصوصاً یوم حطین کے دن ان کی شجاعت پر بادشاہ اسقدر خوش ہوا کہ اس نے حران اور الرھا دونوں اسکے حوالہ کیئے اور اپنی ہمشیرہ ربیعہ (جنہوں نے مدرسہ صاحبہ وقف کیا تھا) کا نکاح بھی ان سے کردیا۔
یہ صدقات کے نہایت ہی محب تھے، ہرروز روٹی کے ذخائر تقسیم کرتے، ہرسال خلق کو کپڑے اور دینار دیتے، معذور اور نابینا لوگوں کے لیئے چار مراکز بنوائے۔ یہ پیر اور جمعرات کو آکر ایک ایک کی ضروریات کے بارے میں پوچھا کرتے۔ بیوگان کے لیئے الگ، یتامیٰ (یتیموں) کے لیے الگ اور لاوارث بچوں کے لیئے الگ مراکز بنوائے۔ بیماروں کے لیے ہسپتال (شفاخانہ) بنوایا اور وہاں خود بھی جاتے۔ ہرآنے والے کے لیئے مہمان خانہ بنوایا اور انہیں حسبِ ضرورت خرچہ دیتے۔ شوافع اور احناف کے لیئے مدرسے قائم کیئے۔ سماع (اچھا کلام سننے) کے لیئے کثرت کے ساتھ بزم سجاتے اور اسے سماع کے سوا کسی شے میں لذت نہ تھی۔
وکان یمنع من دخول منکر بلدہ۔ وہ اپنے علاقہ میں کسی برائی کو داخل نہ ہونے دیا کرتا تھا۔
ہرسال کفار سے (یفتک اسری بجملۃ) قیدی مسلمانوں کو آزاد کرواتا
حجاج کی خدمت کرتا
ویخرج سبیلا للحج ۔ حج کے لیئے سبیل بنوائی
ہرسال حرمین کے خدام کے لیئے پانچ ہزار دینار بھجواتا۔
واجری الماء الی عرفات ۔ میدان عرفات تک پانی کا انتظام کیا۔
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر خوب خرچ کرتے؛۔وقد جمع لہ ابن دحیۃ کتاب المولد فاعطاہ الف دینار۔ ان کے لیئے امام ابن دحیہ کلبی نے کتاب المولد جمع کی تو انہوں نے اسے ہزار دینار دیئے۔
آگے امام ذھبی لکھتے ہیں؛۔ وکان متواضعا خیراً سنیاً ویحب الفقھاء والمحدثین وربما اعطی الشعراء ۔ یہ نہایت ہی متواضع، دیندار اور سنی حاکم تھے۔ فقھاء ومحدثین سے محبت رکھتے اور شعراء کو کم ہی دیا کرتے۔( سیر اعلام النبلاء۔ امام شمس الدین ذھبی۔ ج ۲۲ صفحات ۳۳۴ تا ۳۳۷، ط۔ موسسۃ الرسالۃ بیروت)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...