امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے اسماعیل دہلوی پر کفر کا فتویٰ کیوں نہیں دیا ؟
امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ الرضوان نے ابو الوہابیہ مولوی اسماعیل دہلوی کی مختلف عبارات پر لزومِ کفر کا فتویٰ دیا مگر مولوی اسماعیل دہلوی کو کافر نہ کہا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ ....”لزوم والتزام میں فرق ہے، اقوال کا کلمہ کفر ہونا اور بات اور قائل کو کافر مان لینا اور بات، ہم احتیاط برتیں گے، سکوت کریں گے جب تک ضعیف سا ضعیف احتمال ملے گا ،حکم کفر جاری کرتے ڈریں گے“.... (تمہید ایمان، ص50)
یہ بات دیوبندی اور غیر مقلدین کو سمجھ نہ آئی اور وہ تحریر وتقریر میں امام احمد رضا رحمۃ اﷲ کے خلاف اس احتیاط کو الزام سمجھ کر پیش کرتے رہے ، بار ہا جواب پاکر بھی پروپیگنڈا سے باز نہ آئے، اُن کے پروپیگنڈا سے متاثر ہوکر بعض بھولے بھالے اہل سنت بھی متاثر نظر آنے لگے، ان حالات کی وجہ سے میں نے یہ مناسب سمجھا کہ اس موضوع کو کھول کر بیان کردیا جائے تاکہ اپنوں کو اطمینان مزید ملے اور مخالفین پر ایک بار پھر حجت تمام کردی جائے ۔ وما توفیقی الا باﷲ ۔
لزوم والتزام کی تعریف
”لزومِ کفر “کے معنی ہیں کسی بات پر کفر کا لازم آنا، اور ” التزامِ کفر “کے معنی ہیں کسی شخص کا کفر کو اپنے اوپر لازم کرلینا، اس کی وضاحت یوں سمجھئے کہ کسی مسلمان کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے جو ازروئے شرع کفر ہے ، تو یہ لزومِ کفر ہے، اب اس مسلمان کو بتایا جائے کہ تیری اس بات پر لزومِ کفر آتا ہے اور وہ شخص توبہ کرنے کی بجائے اپنی بات پر اَڑ جائے تو یہ التزامِ کفر ہوگا اور اب اُس شخص کو کافر ماننا پڑے گا۔ ہاں اگر وہ اَڑ جانے اور ضد کرنے کی بجائے توبہ کرلے تو وہ مسلمان ہوگا کیونکہ التزامِ کفر ثابت نہ ہوا ، حالتِ اکراہ، حالتِ سُکر، غلبہ حال ، نیند اور جنون بھی التزامِ کفر کے منافی ہیں ، یعنی ان حالتوں میں بھی لزومِ کفر والی بات منہ سے نکل جائے تو التزامِ کفر ثابت نہیں ہوتا ، اس لئے صاحبِ کلام کافر نہیں ہوتا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس بات کی مثالوں سے وضاحت
(1) ۔ مشکوٰۃ شریف میں باب الاستغفار والتوبہ میں بحوالہ مسلم شریف حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ جب توبہ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس توبہ سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے، اُس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا جس کا اونٹ جنگل میں اس سے بھاگ گیا اور اُس پر اُس کا کھانے پینے کا سامان بھی تھا، وہ شخص اپنے اونٹ سے مایوس ہوگیا، ایک درخت کے سائے میں آکر سستانے کے لئے لیٹا اور بے شک وہ اونٹ سے مایوس تھا کہ اچانک اُس کا اونٹ سازوسامان سمیت اُس کے سامنے تھا، پھر اُس شخص نے اُونٹ کی مہار پکڑلی اور قال من شدۃ الفرح اللھم انت عبدی وانا ربک یعنی کہا اُس نے خوشی کے غلبہ سے مغلوب الحال ہوکر کہ ”اے اﷲ تو بندہ ہے میرا اور میں خدا ہوں تیرا“، اخطاءمن شدۃ الفرح یعنی اُس نے خطا کی بہ سبب غلبہ حال خوشی کے ۔
ملاحظہ کیجئے اس حدیث شریف میں یہ الفاظ (اے اﷲ تو بندہ ہے میرا اور میں خدا ہوں تیرا) کفر ہیں اور اس کلام پر کفر لازم آتا ہے، مگر صاحبِ کلام اپنے غلبہ حال کے سبب اس لزومِ کفر سے بے خبر اور لاعلم ہے، اس لئے اُس کا التزامِ کفر ثابت نہ ہوا، لہذا وہ صرف خطاکار ٹھہرا۔
(2) بعض مشرکین نے حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہ کو پکڑا اور جناب رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کوسبّ اور اپنے بتوں کی تعریف کے الفاظ جبراً کہلوائے، حضرت عمار نے سارا واقعہ نبی پاک صلی اﷲ علیہ کی خدمت اقدس میں عرض کیا، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا تمہارا دل کس حال میں تھا؟ عرض کی ایمان کے ساتھ کامل طور پر مطمئن، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں تسلّی دی، سورۃ النحل کی آیت نمبر 106 کی ایک شان نزول یہ بھی ہے، آیت ملاحظہ ہو من کفر باﷲ من بعد ایمانہ الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان .... الخ ، یعنی جو ایمان لا کر اﷲ کے ساتھ کفر کرے سوا اُس کے جو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو ، ہاں وہ جو دل کھول کر کافر ہو ان پر اﷲ کا غضب ہے اور ان کو بڑا عذاب ہے۔
ملاحظہ کیا آپ نے ! مشرکوں نے جو کلمات کہلوائے ہوں گے وہ یقیناًلزومِ کفر کے کلمات تھے، مگر حالتِ اکراہ کے سبب صحابی کا التزامِ کفر ثابت نہیں ہوتا، اور اس بات کی تصدیق اﷲ جل جلالہ اور اس کے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرما کر صحابی کو مطمئن کردیا۔
(3) مثنوی مولانا روم میں درج ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ایک چرواہے کو دیکھا جو محبت الٰہی کے غلبہ ¿ حال میں کہہ رہا تھا کہ خدا تو کہاں ہے میں تیرا خادم بننا چاہتا ہوں، میں تیری جوتیاں سینا چاہتا ہوں، تیرے سر میں کنگھا کرنا چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ تیرے کپڑے سی دوں، تیری جوئیں ماروں، تیرے لئے دودھ لاﺅں، تو بیمار ہو تو تیمارداری کروں، تیرے ہاتھ چوموں اور پاﺅں دباﺅں ، تیری خواب گاہ صاف کروں، گھی اور شربت، پنیر اور پراٹھے تجھے دوں، میرا کام یہ چیزیں لانا ہو اور تیرا کام یہ چیزیں کھانا ہو، الغرض وہ ایسی باتیں کررہا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اُسے ٹوکا اور پوچھا کس کو کہہ رہے ہو؟ بولا اپنے خدا کو :
گفت موسیٰ ہائے خیرہ سرشدی
خود مسلماں ناشدہ کافر شدی
(موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہائے تو دیوانہ ہوگیا، تو مسلمان نہ رہا کافر ہوگیا)
وہ شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرمان سننے کے بعد سخت پریشان ہوا ، اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور روتا ہوا جنگل کو نکل گیا، موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی آئی اور آپ کو اس مغلوب الحال پر حکم لگانے سے روکا گیا، واضح ہوچکا ہے کہ اُس شخص کے کلمات پر لزومِ کفر آتا تھا مگر صاحبِ کلام کو اُس کے غلبہ حال اور لا علمی نے التزام کفر سے بچالیا۔
ایک د یوبندی عالم کی گواہی
مولانا حمد اﷲ الداجوی پشاوری فاضل سہارنپور لکھتے ہیں:
فنقول انہ فرق بین لزوم الکفر والتزامہ فان التزام الکفر واما لزوم الکفر فلیس بکفر.... قال فی المواقف من یلزمہ الکفر فلا یعلم بہ فلیس بکافر ۔
”اور ہم کہتے ہیں کہ بے شک فرق ہے لزومِ کفر اور التزامِ کفر میں، پس بے شک التزامِ کفر تو کفر ہے، مگر لزومِ کفر کفر نہیں ہے، مواقف میں ہے کہ جس پر کفر لازم آئے اور وہ بے خبر ہو تو کافر نہیں ہے“ ۔
وذکر المفسر الالوسی .... فلو قال شخصاومن برسالۃ ولا ادری البشرام جنی ولا ادری امن العرب او من العجم فلا شک فی کفرہ لتکذیبہ القرآن.... فلو کان غیبا لا یعرف ذلک وجب تعلیمہ ایاہ فان جحد بعد ذلک حکمناہ بکفرہ۔ انتھیٰ
فانظر الی العلماءالمحققین المحتاطین فی امرالتکفیر وکذا یعلم من الحدیث المعروف الذی فیہ( اللھم انت عبدی وانا ربک) فھذہ کلمۃ کفر لا التزام فیہ۔
(البصائر لمنکر التوسل باھل المقابر، صفحہ 18،19، مطبوعہ استنبول، ترکی)
”اور مفسر آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ نے ذکر کیا کہ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو رسول مانتا ہوں مگر نہیں جانتا کہ کہ آپ بشر ہیں یاجن؟ عربی ہیں یا عجمی؟ تو اُس کے کفر میں شک نہیں ، قرآن جھٹلانے کے باعث اور اگر وہ غبی یہ بات نہیں جانتا تو اُس کو بتانا لازم ہے، پھر بھی اگر وہ ضد کرے اور اڑا رہے تو ہم اس کے کفر کا حکم جاری کریں گے، بات ختم، پس امر تکفیر میں تو محقق ومحتاط علماءکا رویّہ دیکھ، اور یہی پتہ چلتا ہے اُس مشہور حدیث سے جس میں ”اے اﷲ تو بندہ ہے میرا اور میں خدا ہوں تیرا“ ، تو یہ کلام کفر ہے مگر التزامِ کفر یہاں ثابت نہیں“۔
احتمال کی قسمیں اور لزوم والتزامِ کفر ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
احتمال کی تین قسمیں ممکن ہیں جو کہ درج ذیل ہیں
نمبر 1 احتمال فی الکلام
یعنی کلام میں کوئی جائز توجیہ وتاویل ہوسکتی ہو، یہ احتمال لزومِ کفر کی نفی کرتا ہے ، یاد رہے کہ صریح بات میں تاویل نہیں سنی جاتی ورنہ کوئی بات بھی کفر نہ رہے۔
نمبر2۔ احتمال فی التکلّم
یعنی اس بات میں شُبہ آجائے کہ قائل نے وہ کفری کلمہ بولا یا نہیں ، یہ احتمال جب آئے گا تو قائل کا التزامِ کفر ثابت نہ ہوسکے گا۔
نمبر 3۔ احتمال فی المتکلم
یعنی خود قائل کے متعلق شُبہ ہو کہ اُس نے بے خیالی وبے خبری میں یا حالتِ سُکر یا غلبہ حال میں یہ کلام کہا اور اس کی قباحت پر آگاہ نہ کیا گیا یا کوئی ضعیف قول اُس کی توبہ کا مل جائے تو بھی قائل کاالتزامِ کفر ثابت نہ ہوگا۔
احتمال کی قسمیں اور مولوی اسماعیل دہلوی
نمبر1۔ احتمال فی الکلام
مولوی اسماعیل دہلوی کے کلمات پر لزومِ کفر آتا ہے، اُن میں تاویل کی گنجائش نہیں ملتی، وہ صریح کفر ہیں۔
نمبر2۔ احتمال فی التکلّم
بعض دیوبندی حضرات کا موقف یہ ہے کہ مولوی اسماعیل دہلوی نے تقویۃ الایمان نامی کتاب نہیں لکھی، چنانچہ مولوی حسین احمد مدنی نے مکتوبات میں اور صاحب تفسیر الاقوام نے اپنی تفسیر میں یہی موقف اختیار کیا ہے، اُن سے مولوی حق نواز جھنگوی نے مناظرہ جھنگ میں یہی موقف نقل کیا اور اسی موقف کو اختیار کیا، مولوی احمد رضا بجنوری اپنی کتاب”انوار الباری“ جلد11، صفحہ 107 پر مولوی حسین احمد مدنی کا موقف بیان کرتے ہیں اور اسی کی تائید کرتے ہیں۔
مولانا حکیم عبدالشکور مرزا پوری کے حوالے سے حضرت محقق زید ابوالحسن فاروقی مجددی دہلوی علیہ الرحمہ، متوفی 1414ھ/ 1993ء(خانقاہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں،دہلی)اپنی کتاب”مولانا اسماعیل اور تقویۃ الایمان“ میں لکھا ہے کہ صراط مستقیم، تنویر العین اور ایضاح الحق الصریح ، آپ کی تالیفات میں سے نہیں ہیں اور تقویۃ الایمان بھی محرف اور غیر معتبر ہے۔
(مولانا اسماعیل اور تقویۃ الایمان ،مطبوعہ شاہ ابوالخیر اکاڈمی دھلی1984ئ، ص47)
مولوی سرفراز صفدردیوبندی(گوجرانوالہ، پاکستان)نے اپنی کتاب”عباراتِ اکابر“میں صراط مستقیم کی متنازعہ فیہ مشہور عبارت کو مولوی اسماعیل دہلوی کی ذاتی عبارت ماننے میں شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اسی طرح بعض غیر مقلد بھی کررہے ہیں، اگرچہ دلائل و شواہد کی روشنی میں یہ ایک ضعیف ترین قول ہے جو اکثر کے خلاف ہے اور بالکل شاذ قول ہے، تاہم اس سے التزامِ کفر میں تو احتمال آگیا، لہذا یہاں امام احمد رضا کے موقف کی تائید ان حضرات کی زبان سے ہی ہوگئی ہے۔
نمبر3۔ احتمال فی المتکلم
مولوی اسماعیل دہلوی کے بارے میں یہ احتمال دو طرح سے ممکن ہے، اولاً احتمال ہے کہ اُسے اپنے کلمات کے کفریہ ہونے کا علم ہی نہ ہوا ہو، اور اپنے خلاف لگائے گئے فتوائے کفر کا اُسے علم ہی نہ ہوا ہو، ”تحقیق الفتویٰ“ اس کے سامنے پیش ہونا مجھے معلوم نہ ہوسکا، مناظرہ دھلی میں مسائل زیرِ بحث لائے گئے تھے، اُس کی کفریہ عبارات پر بحث نہیں ہوئی تھی، لہذا یہ احتمال عقلاً ممکن ہے، اور التزامِ کفر میں احتمال ہے۔
ثانیاً” افکار وسیاسیات علماءدیوبند“ صفحہ 38پر مولانا محمد شریف نوری نے کتاب ”ہدایت الصالحین بر حاشیہ توقیر الحق“ مصنفہ نواب قطب الدین دہلوی، صفحہ 87 کے حوالہ سے لکھا ہے کہ مناظرہ پشاور میں مولوی اسماعیل دہلوی کو ایسی عبرت ناک ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کہ توبہ کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا تو مجبوراً اپنے عقائد سے توبہ کا اعلان کردیا، چنانچہ مولوی رشید احمد گنگوہی کے زمانے میں اُن سے ایک سوال ہوا جس میں ذکر ہے کہ” ایک بات مشہور ہے کہ مولوی اسماعیل صاحب شہید نے اپنے انتقال کے وقت بہت سے آدمیوں کے روبرو بعض مسائل تقویۃ الایمان سے توبہ کی ہے“، مولوی گنگوہی صاحب نے جواب دیا کہ ”توبہ کرنا اُن کا بعض مسائل سے محض افتراءاہل بدعت کا ہے“۔ (فتاویٰ رشیدیہ، صفحہ 84، 85)
ظاہر بات ہے کہ اہل بدعت کا لفظ یہ حضرات اہل سنت کے لئے استعمال کرتے ہیں ، تو اہل سنت میں یہ قول کہیں نہ کہیں مل جاتا تھا کہ اسماعیل دہلوی نے اپنے غلط مسائل سے توبہ کی تھی(یعنی توبہ کرنے کی بات مشہور تھی)، یہاں اگرچہ کفریہ عبارات سے توبہ کی صراحت تو نہیں ہے مگر احتمال تو ہے اور وہی اُس کے التزامِ کفر میں احتمال ہے۔
بعض شبہات کا ازالہ
نمبر1۔ مولانا فضل حق خیر آبادی اور سترہ دیگر علماءنے 1240ھ/ 1825ءمیں تقویۃ الایمان کی ایک عبارت پر فتویٰ لگاتے ہوئے لکھا کہ ”اس بیہودہ کلام کا قائل ازروئے شریعت کافر اور بے دین ہے اور ہرگز مسلمان نہیں ہے.... جو اس کے کفرمیں شک وتردد لائے.... کافر بے دین اور نا مسلمان ولعین ہے“۔ یہ فتویٰ مولانا احمد رضا خاں کے خلاف ہے کیونکہ اس میں لزوم والتزام کی تاویلات کا دروازہ بند کردیا گیا ہے۔
× جواباً عرض ہے کہ یہ فتویٰ مولانا احمد رضا خاں کے بالکل خلاف نہیں ہے ، بلکہ امام احمد رضا خاں کا بھی یہی فتویٰ ہے ، معترض کو یہ علم نہیں ہے کہ جس کا التزام کفر ثابت نہ ہو وہ حقیقتاً قائل قرار نہیں دیا جاتا اگرچہ بظاہر قائل وہی ہو، اس کی مثالیں ہم پیش کرچکے ہیں، اور التزامِ کفر سے بچنے کا دروازہ توبہ ہے جسے موت بند کرتی ہے، مفتی کا فتویٰ بند نہیں کرتا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نمبر2۔ 1240ھ میں مناظرہ دہلی میں اسماعیل دہلوی نے کفریہ عبارات سے توبہ نہیں کی۔جناب اس مناظرہ میں کفریہ عبارات کو زیر بحث ہی کب لایا گیا تھا، وہاں تو چند دیگر اختلافی مسائل کو زیر بحث لایا گیا تھا۔
نمبر 3۔ 1246ھ/ 1831ئ میں مرتے وقت تک اسماعیل دہلوی نے گستاخانہ عبارات سے توبہ نہیں کی، ورنہ بعد کے علماءاہل سنت مثلاً مولانا قاضی فضل احمد لدھیانوی وغیرہ اسماعیل دہلوی کی تکفیرنہ کرتے۔
جواباً عرض ہے کہ ”تحقیق الفتویٰ“ کے چھ سال بعد تک مولوی اسماعیل دہلوی زندہ رہا، کیا ہمارے مہربانوں کو مولوی اسماعیل دہلوی کی اس عرصے کی وہ ڈائری مل گئی ہے جو کراماً کاتبین نے لکھی تھی اور اُس میں توبہ مذکور نہیں ہے، کیونکہ نفی کے مدعی کو علم محیط درکار ہے، اور واقعاتِ نادرہ میں اثباتِ واقعہ کا قول نفی پر مقدم ہوتا ہے، ممکن ہے کہ مذکورہ علماءتک یہ قول نہ پہنچا ہو، یہاں یہ احتمال بھی ہے کہ توبہ کا قول تو ان تک بھی پہنچا ہو مگر شرعی فقہی پیمانے پر پورا نہ اُترنے کی وجہ سے انہوں نے اس قول کو تسلیم نہ کیا ہو، اور توبہ کا شبہ صرف احتیاط کی ترغیب دیتا ہے اور امام احمد رضا کسی کو احتیاط پر مجبور نہیں کرسکتے۔
نمبر4۔ اسماعیل دہلوی کے کفر کو یزید کے کفر سے تشبیہ دینا غلط ہے کیونکہ یزید کے ساتھ مناظرے نہیں ہوئے۔
جواباً عرض ہے کہ تشبیہ کا من کل الوجوہ ہونا لازمی نہیں، جس طرح یزید کو بعض مسلمان، بعض کافر کہتے ہیں، بعض توقف کرتے ہیں، یہی حال اسماعیل دہلوی کا ہے، من بعض الوجوہ تشبیہ یہاں ثابت ہے، اس سے انکار کرنا تاریخ سے آنکھیں چرانا ہے۔
نمبر5۔ لزوم والتزامِ کفر اور اسماعیل دہلوی کے سوال پر اہل سنت کا مناظر نہایت بے چارگی اور بے بسی محسوس کرتا ہے۔
جواباً عرض ہے کہ اہل سنت کا مناظر یہاں قطعاً بے چارگی اور بے بسی محسوس نہیں کرتا، وہ تو اس سوال کا منتظر بیٹھا ہوتا ہے ، جونہی سوال آتا ہے وہ پوری وضاحت کے ساتھ معترض کا منہ بند کردیتا ہے ، راقم نے مناظرہ بریلی، مناظرہ ادری، مناظرہ جھنگ اور مناظرہ بنگال وغیرہ کی روئیداد پڑھی ہیں، کئی مناظروں کی کیسٹس بھی سنی ہیں، ہمیں تو اس مسئلے میں دیوبندی مناظر ہر جگہ دبکا ہوا نظر آیاہے، ان بے چاروں کو تو اس مسئلہ میں بات بھی کرنی نہیں آتی، اور انہیں لزوم والتزامِ کفر کا فرق بھی معلوم نہیں ہوتا، چنانچہ مناظرہ ¿ جھنگ میں دیوبندی مناظر حق نواز جھنگوی نے مولانا محمد اشرف سیالوی سے پوچھا تھا کہ”باقی رہی ایک بات یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ مولانا احمد رضا خاں صاحب نے لزوم والتزام کی وجہ سے کافر نہیں کہا، آپ بتائیں کہ لزوم کے لفظ کون سے ہوتے ہیں اور التزام کے کون سے ہوتے ہیں؟“(مناظرہ جھنگ، مطبوعہ مکتبہ فریدیہ، ساہیوال، ص107)جو بے چارے اتنا بھی نہیں جانتے کہ لزوم والتزام میں لفظ ایک ہی ہوتے ہیں یا لفظوں میں فرق ہوتا ہے، اُن مناظرین کا میدانِ مناظرہ میں ہونے والا حشر کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، یہی وجہ ہے کہ دیوبندی مناظرین اپنے اکابر کی گستاخانہ عبارات پر مناظرہ سے ہر جگہ کنی کتراتے ہیں، یقین نہ آئے تو چیلنج دے کر دیکھ لیجئے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نمبر6۔ مفتی خلیل خاں بجنوری(دیوبندی) نے اپنی کتاب”انکشافِ حق“ میں لزوم والتزام اور احتمال کے انہی لفظوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دیگر اکابرِ دیوبند کی کفریہ عبارات کی بنا پر انہیں کافر کہنے سے احتیاط اور کفِ لسان کا قول کیا ہے۔
جواباً عرض ہے کہ مفتی مذکور کی کتاب”انکشافِ حق“ میں نے پڑھی ہے، جن اکابر ِ دیوبند کو وہ بچانا چاہتا ہے ، نہ اُن کی عبارات میں اسلامی احتمال دکھا کر انہیں لزوم کفر سے بچا سکا ہے اور نہ ہی اُن افراد کے التزامِ کفر کی نفی پر کوئی دلیل یا احتمال دکھا سکا ہے، کتاب کو قواعد یا نظائر سے ضخیم بنانے کی کوشش کی گئی ہے، مگر ہر جگہ قیاس مع الفارق سے کام لیا گیا ہے، فی الحال اتنا اجمال کافی ہے۔
نمبر7۔ جب اسماعیل دہلوی کو مولانا احمد رضا خاں نے مسلمان کہا ہے تو اُس کی عبارات دیوبندیوں اور اہل حدیثوں کے خلاف کیوں پیش کرتے ہو؟
جواباً عرض ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاںعلیہ الرحمہ کا موقف، توقف کرنا ہے وہ نہ اُسے مسلمان کہتے ہیں اور نہ ہی احتیاطاً اسے کافر کہتے ہیں، البتہ اس کی گستاخانہ عبارات کو دیوبندی وہابی اور غیر مقلد وہابی درست اور حق مانتے ہیں، اس لئے اُس کی کفریہ عبارات کو درست اور اسلامی مان کر یہ التزامِ کفر کے مرتکب قرار پاتے ہیں، چنانچہ دیوبندیوں کے شیخ الکل مولوی رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں:” کتاب تقویۃ الایمان نہایت عمدہ کتاب ہے اور ردّ شرک وبدعت میں لاجواب ہے، استدلال اس کے بالکل کتاب اور احادیث سے ہیں، اُس کا رکھنا اور پڑھنا اور عمل کرنا عین اسلام ہے“۔ (فتاویٰ رشیدیہ، صفحہ 78) ، ”بندہ کے نزدیک سب مسائل اس کے صحیح ہیں “، (فتاویٰ رشیدیہ، ص85)
لہذا مولوی رشید احمد گنگوہی اور ان کے پیرو کار تو تقویۃ الایمان کے کفریات کا التزام کرچکے ہیں، رہ گئے غیر مقلد وہابی تو وہ تو تقویۃ الایمان اور اس کے مصنف پر فدا ہیں، یقین نہ آئے تو مولوی ثناءاﷲ امرتسری کے یہ الفاظ ملاحظہ فرمالیجئے ” تقویۃ الایمان اور اس کا مصنف عالی شان اسماعیل وما ادرک ما اسماعیل، آج کل بعض اخباروں میں مجاہدفی اﷲ شہید فی سبیل اﷲمولانا اسماعیل رضی اﷲ عنہ کی تقویۃ الایمان پر ذکر اذکار ہورہا ہے.... مختصر یہ کہ شہید مرحوم نے جو کچھ لکھا ہے قرآن حدیث اور اقوال صوفیاءکے بالکل مطابق ہے“ ۔(فتاویٰ ثنائیہ، ج1،ص101 )
اندریں حالات مولوی اسماعیل دہلوی کا التزام کفر محتمل وظنی بھی ہوجائے تو بھی مذکورہ دیوبندی اور غیر مقلد حضرات کو تقویۃ الایمانی کفریات کا التزامِ کفر قطعی غیر محتمل اور صریح قرار پاتاہے۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment