Monday 27 November 2017

الأصل في الأشياء الإباحة ۔ اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے

0 comments

الأصل في الأشياء الإباحة ۔ اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے دینی و دنیوی لحاظ سے زندگی کا کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق اسلام نے رہنمائی نہ کی ہو اشیاء کی تحلیل و تحریم (حلال و حرام قرار دینا) کے حوالے سے اسلام نے جو اصول تشریع مقرر کئے ہیں ان میں پہلا اصول یہ مقرر کیا ہے کہ اللہ تعالی کی پیداکردہ تمام چیزیں مباح ہیں۔ حرام اور واجب صرف وہ چیزیں ہیں جن کی حرمت یا وجوب کے بارے میں صحیح اور صریح نص وارد ہو چکی ہو، اگر کسی شئے کی حرمت و وجوب کے حوالے سے صحیح اور صریح نص نہ پائی جاتی ہو تو وہ چیز مباح تصور کی جائے گی۔ یہ اصول صرف اسلام کے نظام قانون کا ہی اصول نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام نظام قانون کا ایک بنیادی اصول ہے کہ اشیاء و افعال اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور جائز ہیں، پھر ان اشیاء میں سے جو لازمی طورپر مطلوب یا ممنوع ہوتی ہیںخود ان کویا ان کی علت کو نصوص میں بیان کر دیا جاتا ہے ان کے علاوہ باقی اشیاء کو مباح کے طورپر مطلق چھوڑدیا جاتا ہے ۔ایسی مباح اشیاء کے کرنے یا نہ کرنے بارے میں لوگوں کو آزادی اوراختیار ہوتا ہے،اور ان کے کرنے یا نہ کرنے پر قانونی لحاظ سے کوئی مواخذہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ قوانین کی تشکیل میںکہیں بھی مباح امور کا احاطہ نہیں کیا جاتا بلکہ صرف لازمی وحرام امور کا احاطہ کیاجاتا ہے۔
اسلام آسان دین ہے، قدم قدم پربنی نوع انسان کو آسانیاں اور سہولتیں عطا کرتا ہے اس کے قانون سازی کے اصولوں میں قلت تکلیف ایک بنیادی اصول ہے یہی وجہ ہے اس میں محرمات و واجبات کا دائرہ مباح اور جائز امور کے مقابلے میں تنگ اور محدود ہے، کیونکہ محرمات اور واجبات وہ امور ہوتے ہیں جن کا انسان لازمی طور پر پابند ہوتا ہے ۔فطری طور پر انسان چونکہ آزاد منش پیدا ہوا ہے ،زیادہ پابندیوں سے کتراتا ہے اور آسانیوںکی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، اس لئے اسلام نے واجبات و ممنوعات کے احکام کا غیر ضروری بوجھ انسان پر نہیں ڈالا بلکہ چند محدود اشیاء و امور جن کا کرنا یا نہ کرنا انسان کی دینی و دنیوی فلاح کے لئے نہایت ضروری تھا کا پابند ٹھہرایا اور باقی اشیاء کو انسانی اختیار پر چھوڑتے ہوئے مباح قرار دے دیا ہے ۔ یعنی اسلام کے مطابق زمین و آسمان کی تمام اشیاء بنی نوع انسان کے انتفاع کے لئے تخلیق کی گئی ہیں جس کا تقاضہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام اشیاء مباح الاصل ہوں سوائے ان اشیاء کے جن کے کرنے یا نہ کرنے کا انسان کو پابند ٹھہرایا گیا ہے۔ اس تصور کو نظریہ اباحت اصلیہ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
جامع ترمذی کتاب الباس : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ هَارُونَ الْبُرْجُمِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ، فَقَالَ: " الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ الْمُغِيرَةِ، وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَى سُفْيَانُ، وَغَيْرُهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَوْلَهُ، وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ الْمَوْقُوفَ أَصَحُّ، وَسَأَلْتُ الْبُخَارِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: مَا أُرَاهُ مَحْفُوظًا رَوَى سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، مَوْقُوفًا، قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَسَيْفُ بْنُ هَارُونَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، وَسَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَاصِمٍ ذَاهِبُ الْحَدِيثِ.
ترجمہ : سلمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی، پنیر اور پوستین (چمڑے کا لباس) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا، اور حرام وہ ہے، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کر دیا اور جس چیز کے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کر دیا ہے ۔
یعنی اس کا استعمال جائز اور مباح ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے یہ اصول اپنایا کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے حلال و مباح ہیں، اس کی تائید اس آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے ۔ هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی حرمت سے متعلق کوئی دلیل نہ ہو، کیونکہ حرمت کی دلیل آ جانے کے بعد وہ حرام ہو جائیں گی ۔ حدیث پاک میں وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ شارع نے جن کا ذکر نہیں کیا وہ مباح اور جائز ہیں لہٰذا محض ترک ذکر سے کسی چیز پر حرمت کا فتوٰی نہیں لگایا جاسکتا ۔
مباح بدعت کی قبولیت اور قرآن
ہماری اس بات کی تائید خود قرآن پاک کی اس آیت سےہوتی ہے۔۔۔ارشاد باری ہی۔
ثم قفینا علی اثارھم برسلنا وقفینا بعیسی بن مریم واتینہ الانجیل وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبانیۃ ن ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الابتغا رضوان اللہ فما رعوھا حق رعیا یتھا فاتینا الذین اٰمنو منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون۔الحدید ۔
ترجمہ ۔ پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاںمگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے۔
اس آیت کےالفاظ اور معنٰی پر غور کرنےسےہماری بات کی تائید ہوتی ہےکہ کوئی ایساکام کہ جس کےکرنےکانہ تو اللہ پاک نےحکم دیا ہو اور نہ اس کےرسول نےاور لوگ محض حصول ِرضائےالہٰی کےلیےاس عمل کو اختیارکرلیں تو انھیں اس عمل پر ثواب بھی ملتا ہےدیکھیےآیت کےالفاظ میں ابتدعوھابدعت سےمشتق ہی۔یہ الفاظ بتارہےہیں کہ شریعت عیسوی میں اصلا رہبانیت مشروع نہ تھی بلکہ امت عیسوی نےخود بطور بدعت اس کو اختیار کر لیا تھا۔دیکھیےماکتبنٰھا کےالفاظ کیسےواشگاف انداز میں یہ اعلان کررہےہیں کہ اس بدعت یعنی رہبانیت کا کوئی حکم اللہ پاک نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کےرسول نےکوئی ایسا کام کرنےکا کہا تھا۔اس لیےاللہ پاک نےامت عیسوی سےرہبانیت کی فرضیت کی نفی تو اس آیت میں کی ہےلیکن اس کی مشروعیت کی نفی نہیں کی یعنی اس کو حرام و ناجائز نہیں ٹھرایا۔یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازااور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔ ہماری اس بات کی تائید ایک حدیث مبارکہ پر غور کرنےسےبھی ہوتی ہےکہ جس میں نبی کریم نےفرمایا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں۔یہ اس لیے فرمایا کہ پہلی شریعت میں رہبانیت تھی اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ اگر پہلی شریعت میں رہبانیت تھی تو کہاں سےآئی کیا اللہ پاک نےحکم دیا تھا مگر اللہ پاک تو فرما رہےہیں کہ ماکتبنھا علیھم یعنی کےہم نےان پر فرض نہ کی۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ہر وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کےرسول نےکسی ایسےعمل سےروکا بھی نہ ہو اسےاگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہےبلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے۔
جیسا کہ رھبانیت امت عیسوی میں۔ اگر آپ الابتغاءرضوان اللہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہی بات سمجھ میں آئےگی کہ عیٰسی علیہ السلام کےپیرو کاروں نےوہ عمل یعنی رھبانیت حصول رضائےالہٰی کےلیےہی ایجاد کی تھی اسی لیےاللہ پاک نےاس امر کو مستحسن قرارد ےکر کر قبول کرلیا پس ثابت ہوا کہ کوئی عمل فی نفسہ اگر بدعت بھی ہو تو وہ تب بھی رضائے الٰہی کےحصول کا زریعہ بن سکتا ہے۔ اب اگر آپ اسی آیت کےاگلےالفاظ پر غور کریں جوکہ یہ ہیں کہ ۔ فما رعوھا حق رعایتھا یعنی انھوں نےاس عمل یعنی رھبانیت کا اس طرح حق ادا نہیں کیا جیسا کےاسکا تقاضہ تھا۔
تو آپ کو یہ بات بھی بڑی واضح طور پر سمجھ میں آجائےگی کہ اگر امت کسی مستحسن عمل کو اپنا لیتی ہےمگر پھر اس کو ادا کرنےکوتاہی سےکام لیتی ہےتو پھر اللہ پاک ناراض بھی ہوتے ہیں اس اس آیت کےان الفاظ نے رھبانیت کی بدعت کی فی نفسہ مذمت نہیں کی بلکہ اس بدعت کو ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنےکی مذمت کی۔۔۔۔اس سے آگےکہ الفاظ واشگاف اعلان کررہےہیں کہ جن لوگوں نےا س یعنی بدعت رھبانیت کےتقاضےکو پورا کیا اللہ پاک نےنہ صرف انھیں شرف قبولیت بخشا بلکہ اجر بھی عطا فرمایا دیکھیے ۔ فاتینا الذین امنو منھم اجرھم میں منھم کےالفاظ بتا رہےہیں کہ انھی میں سےجن لوگوں نےاس بدعت رھبانیت کےجملہ تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک نبھایا اللہ پاک نے انہیں اجر بھی عطا کیا ۔
مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں تصور بدعت کےمتعلق دو امور بڑے نمایاں ہوکر سامنے آتےہیں ۔ ایک یہ کہ اگر رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسےعرف عام میں بدعت کہا جائےاور جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہےبلکہ امر مستحسن کےطور پر اس پر اجر وثواب کا بھی عندیہ دیتا ہےاور ایسےامور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انھیں مطلقا ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دیا زیادتی کے مترادف ہے۔ دوسری بات جو اس آیت کی روشنی میں ہمیں سمجھ میں آتی ہےوہ یہ کہ جس مقصد کے لیے وہ بدعت حسنہ وضع کی گئی ہو اس سے وہ مقصد بجا طور پر پورا ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ بدعت حسنہ کا سہارا لیکر کسی کام کو روا تو رکھ لیا جائےمگر اسکی اصل روح مقصدیت اور افادیت کو نظر انداز کردیا جائےاور اسےمحض رسمیت کےطور پر روا رکھا جائےجیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا۔
ان دونوں آیات سےہمارے بیان کردہ قرآنی اصول کی بڑی وضاحت کےساتھ تصریح ہوتی ہےکہ جس چیز کو قرآن نےحرام کیا اس کی فہرست یعنی تفصیل کردی اور اس کےسوا چونکہ باقی چیزوں کی فہرست نہیں اس لیے وہ سب مباح یعنی جائز قرار پائیں گی، پس ثابت ہوا کہ ترک ذکر حرمت کی نہیں بلکہ اباحت کی دلیل ہے۔ اور اسی اصول کی وجہ سےکسی بھی چیز کو حرام ٹھرانے والے کے لیے ضروری ہےکہ وہ اسکی دلیل لائے اور اسی لیے فقہا نےلکھا کہ دلیل ہمیشہ حرمت کی طلب کی جائےگی کیونکہ اصل تمام اشیاءمیں اباحت ہے ۔
نظریہ اباحت اصلیہ کو اصول فقہ اور قواعدفقہ کی کتابوں میں درج ذیل الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے : الأصل في الأشياء الإباحة. ترجمہ:اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے۔
ابن عبد البر، التمهيد، 4: 67، 143، مغرب (مراکش)، وزات عموم الاوقاف والشوون الإسلامية ۔ سيوطي، الأشباه و النظائر: 60، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية ۔ ابن عابدين شامي، رد المحتار، 1: 105، بيروت: دار الفکر ۔
ان الاصل في الاشياء الإباحة وان الحرمة بالنهي عنها شرعا.
ترجمۃ : اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے اور حرمت (ممانعت) صرف شرعی دلیل سے ہوگی ۔ سرخسي، المبسوط، 24: 77، بيروت: دار المعرفة
الأشياء علی الإباحة حتی يرد الشرع بالمنع.
ترجمہ : چیزیں اس وقت تک جائز ہیں جب تک شرعی ممانعت نہ ہو۔
ابن عبدالبر، التمهيد، 17: 95 ۔ عسقلاني، فتح الباري، 13: 263، لاهور، پاکستان،دار نشر الکتب الاسلامية ۔ ابن حزم، المحلی، 1: 177، بيروت، لبنان: دار الآفاق الجديده
الأصل في الأشياء الحل . ’’اشیاء میں اصل جواز ہے۔‘‘
زرکشی، المنثور فی القواعد، 1: 306، کويت: وزارة الاوقاف والشون الاسلاميه
مبارک پوری، تحفة الاحوذی في شرح جامع الترمذي، 4: 331، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية ۔
الأصل في الأعيان الحل . ’’اشیاء میں اصل جواز ہے۔‘‘
زرکشي، البحر المحيط في اصول الفقه، 4: 325، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية
الحل هو الأصل في الأشياء.
’’اشیاء میں جواز ہی اصل ہے۔‘‘
ابن همام، شرح فتح القدير، 7: 3، بيروت، لبنان: دار الفکر ، ابن عابدين، ردالمحتار، 4: 167 ۔
أصل الأفعال الإباحة.
’’اصلی اصول ہر کام میں جواز ہے۔‘‘
إبن قيم، اعلام الموقعين عن رب العالمين، 2: 387، بيروت، لبنان: دار الجيل
الأمور أصلها الإباحة حتی يثبت الحظر
’’جب تک ممانعت شرعی ثابت نہ ہو، تمام امور میں جواز ہی اصل ہے۔‘‘
ابن عبدالبر، التمهيد، 9: 205 ۔
الأصل في المنافع الإذن و في المضار المنع.
’’مفید چیزوں میں اصل اجازت ہے اور نقصان دہ چیزوں میں اصل ممانعت ہے۔
رازي، المحصول في علم الأصول، 6: 131، رياض، سعودی عرب: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية
نظریہ اباحت کی مذکورہ بالا تمام تعبیرات کے الفاظ اور ان کی ترتیب میں اگرچہ تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے، مگر سب کا مقصود ایک ہی ہے کہ جب تک کسی شے کی حرمت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہ ہو تو وہ حلال متصور ہوگی۔
اگر ہم روز مرہ زندگی میں بھی دیکھیں تو یہی قاعدہ قابل عمل ہے ورنہ تو انسان کے لئے زندگی کا ہر ہر قدم مشکل بن کر رہ جائے۔ مثلاً ہم گھر سے نکلیں تو گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر یہ لکھا ہوا تلاش کرنا شروع کر دیں کہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ ہم یہاں سے گزر سکتے ہیں یا نہیں؟ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہاں کہیں کہیں یہ لکھا ہوا ضرور مل جائے گا کہ یہ راستہ فلاں مقام کی طرف جا رہا ہے یا پھریہ الفاظ اور علامات ملیں گی کہ یہ شارع عام نہیں ہے، No entry، یہاں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند ہے، بغیر اجازت اندر آنا منع ہے وغیرہ وغیرہ یا پھر گیٹ یا کسی بھی رکاوٹ سے راستہ بند کر دیا جاتا ہے۔ یعنی ہر اس راستے سے گزرنے کی اجازت ہوتی ہے جہاں ممانعت کا کوئی نشان نہ پایا جائے۔
لہٰذا شریعت میں بھی کسی کام کے نہ کرنے کے لئے ممانعت کی دلیل ہونا ضروری ہے۔
شریعت اسلام اور تصور حلال و حرام
کسی عمل کو محض بدعت کہہ دینےسے وہ حرام نہیں ہوجاتا کیونکہ لغوی اعتبار سے کسی عمل کا بدعت ہونا فقط اتنا ثابت کرئے گا کہ اس پر قرآن و حدیث اور عمل صحابہ سےکوئی سند نہیں ہے لہذا ایسا ہر عمل اباحت کے دائرےمیں آجائےگا پس ثابت ہوا کہ کسی عمل کا محض نیا ہونا حرمت کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ کسی بھی نئےعمل کی حلت و حرمت کو جاننے کےلیےاسےدلیل شرعی کی طرف لوٹایا جائےگا اگر وہ عمل موافق شرع ہو تو بدعت حسنہ اور اگر خلاف شرع ہوتو بدعت سئیہ نبی کریم ور صحابہ کا کسی کام کو نہ کرنا اس کی حرمت کی دلیل نہیں ہوتا۔
مشہور غیر مقلد عالم وحید الزمان بدعت کی اقسام کے بارے میں لکھتاہے ’’اما البدعۃ اللغویہ فھی تنقسم الی مباحۃ ومکروھۃ وحسنۃ وسئیۃ ‘‘ بہر حال باعتبار لغت کے بدعت کی حسب ذیل اقسام ہیں بدعت مباح ،بدعت مکروہ ،بدعت حسنہ او ربدعت سیۂ ۔( ہدیتہ المہدی 117مطبوعہ میور پریس دہلی )
او رنواب صدیق حسن بھوپال جو غیرمقلد ین کے بہت بڑے عالم تھے انہوں نے کہا کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہوجائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔( ھدیتہ المھدی )
مشھو رنجدی عالم قاضی شوکانی فتح الباری سے نقل کر کے اقسام بدعت کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ لغت میں بدعت اس کا م کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو او راصطلاح شرح میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتاہے اس لئے یہ مذموم ہے او رتحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تویہ بدعت سیۂ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے او ربلاشبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں ۔( نیل الاوطار325/3مکتبۃ الکلیات الازہریۃ ) اسی طرح شیخ عثمانی دیوبندی نے بھی علامہ نووی کے حوالہ سے بدعت کہ یہ پانچ اقسام ذکر کیں ہیں ۔ ( فتح الملھم 406/2 مطبوعہ مکتبۃ المجار کراچی )
مخالفین کی ان عبارتوں سے معلوم ہے کہ ان کے نزدیک بھی ہر بدعت گمراہی نہیں ہے جیسا کہ علامہ ابن منظور افریقی نے علامہ ابن اثیر کے حوالہ سے یہ لکھاہے کہ حدیث مبارکہ میں جو ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے ا س نئے کام سے مراد وہ کام ہے جو خلاف شریعت ہو لکھتے ہیں ۔’’ و علی ھذالتاویل یحمل الحدیث الاٰخر کل محدثۃ بدعۃ انما یرید ما خالف اصول الشریعہ ولم یوافق السنۃ‘‘
( مجمع بحارالانوار 80/1مطبوعہ نو لکشورہند) یعنی ان دلائل کی بنا پر حدیث ’’ ہر نیا کام بدعت ہے ‘‘ کی تاویل کی جائے گی او راس نئے کام سے مراد وہ کام ہیں جو اصول شریعت کے مخالف ہوں اورسنت کے موافق نہ ہوں ۔اگر آج کل کا وہابی ہربدعت کو گمراہی کہے تووہ خود بھی نہیں بچ سکے گا کیونکہ اسلام کی کوئی عبادت بدعت حسنہ سے خالی نہیں ۔مثلا مسلمان کا بچہ بچہ ایمان مجمل اور مفصل یاد کرتاہے ہر ایمان کی دوقسمیں او ران کا نام دونوں بدعت ہیں قرون ثلاثہ میں اس کا پتہ نہیں اسی طرح چھے کلمہ او ران کی ترتیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا ہے او ران کے یہ نام ہیں سب بدعت ہیں جن کا پہلے کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے اسی طرح قرآن شریف کے تیس پارہ بنانا۔ان میں رکوع قائم کرنا ،اس پر اعراب لگانا سب بدعت ۔احادیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا ،اس کی قسمیں بنانا کہ یہ صحیح ہے حسن ہے یا ٖضعیف ہے یہ سب بدعت ہے اسی طرح نماز میں زبان سے نیت کرنا بدعت ہر رمضان میں بیس رکعت تراویح پر ہمیشگی کرنا بدعت یہاں تک کہ خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نعمت البدعۃ ھذہ یہ بڑی اچھی بدعت ہے ۔بسوں ،گاڑیوں او رموٹروں میں عرفات شریف جانا بدعت جبکہ ا س زمانہ پاک میں یہ سواریاں نہ تھی نہ ان کے ذریعے ہوتاتھا ۔پھریہ کہنا کہ ہر دینی کا بدعت ہے دنیاوی نہیں یہ کیسے صحیح ہوسکتاہے کیونکہ دینی کام کرنے پر ثواب ملتاہے او ردنیا کا جائز کام بھی نیت خیر سے کیاجائے تو ا سپربھی ثوا ب ملتاہے جیسا کہ مشکوہ فضل الصدقہ میں ص 167پر حدیث پاک میں آتاہے کہ ’’مسلمان سے خندہ پیشانی سے ملنا صدقہ کا ثواب رکھتاہے اپنے بچوں کو پالنا نیت خیر سے ثواب ہے یہاں تک کہ جو لقمہ اپنی زوجہ کے منہ میں دے وہ بھی ثواب لہذا مسلمان کا ہر دنیاوی کا م دینی ہے ۔پھر دینی کام کی قید لگانے سے وہابی خود بھی بدعت کے مرتکب ہوئے کیونکہ وہابیوں کا مدرسہ وہاں کا نصاب دورہ حدیث تنخواہ لے کرپڑھانا مصیبت کے وقت ختم بخاری کرنا ان سب کیلئے چندہ اکٹھا کرنا سب ہی دینی کام ہیں اور بدعت ہیں کیونکہ حضور نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ کے زمانے میں ان سے کوئی کام نہ ہواتھا ۔ پس معلوم ہو اکہ ہربدعت گمراہی نہیں ہے اللہ تعالی سمجھ عطافرمائے (آمین )۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
بدعت بدت کی رٹ لگانے والوں کو دعوت فکر قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ ۔ ( سورۂ المائدہ آیت ١٠١ پارہ ٧ ) ترجمہ : اے ایمان والو مت پوچھو ایسی باتیں کہ اگر تم پر کھولی جاویں تو تم کو بری لگیں اور اگر پوچھو گے یہ باتیں ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہورہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جاویں گی اللہ نے ان سے در گزر کی ہے اور اللہ بخشنے والا تحمل والا ہے. ( ترجمہ شیخ الہند دیوبند محمود الحسن دیوبندی ) بانی جماعت اسلامی مودودی دیوبندی لکھتے ہیں : نبیصلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے بعض لوگ عجیب عجیب قسم کے فضول سوالات کیا کرتے تھے جن کی نہ دین کے کسی معاملہ میں ضرورت ہوتی تھی اور نہ دنیا ہی کے کسی معاملہ میں۔ مثلاً ایک صاحب بھرے مجمع میں آپ سے پوچھ بیٹھے کہ میرا اصلی باپ کون ہے؟ اسی طرح بعض لوگ احکام شرع میں غیر ضروری پوچھ گچھ کیا کرتے تھے اور خوامخواہ پوچھ پوچھ کر ایسی چیزوں کا تعین کرانا چاہتے تھے جنہیں شارع نے مصلحتاً غیر معین رکھا ہے۔ مثلاً قرآن میں مجملاً یہ حکم دیا گیا تھا کہ حج تم پر فرض کیا گیا ہے ایک صاحب نے حکم سنتے ہی نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے دریافت کیا کیا ہر سال حج فرض کیا گیا ہے؟ آپ نے کچھ جواب نہ دیا انہوں نے پھر پوچھا آپ پھر خاموش ہوگئے تیسری مرتبہ پوچھنے پر آپ نے فرمایا تم پر افسوس ہے اگر میری زبان سے ہاں نکل جائے تو حج ہر سال فرض قرار پا جائے پھر تم ہی لوگ اس کی پیروی نہ کر سکو گے اور نہ فرمانی کرنے لگو گے۔ ایسے ہی لایعنی اور غیر ضروری سوالات سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم خود بھی لوگوں کو کثرت سوال سے اور خوامخواہ ہر بات کی کھوج لگانے سے منع فرماتے رہتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں ہے . إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا، مَنْ سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُحَرَّمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَحُرِّمَ عَلَيْهِمْ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ ۔ مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال چھیڑا جو لوگوں پر حرام نہ کی گئی تھی اور پھر محض اس کے سوال چھیڑنے کی بدولت وہ چیز ٹھہرائی گئی۔ ایک دوسری حدیث میں ہے : إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى فَرَضَ فَرَائِضَ فَلاَ تُضَيِّعُوهَا ، وَحَدَّ حُدُودًا فَلاَ تَعْتَدُوهَا ، وَحَرَّمَ أَشْيَاءَ فَلاَ تَنْتَهِكُوهَا ، وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ رَحْمَةً بِكُمْ ، غَيْرَ نِسْيَانٍ ، فَلاَ تَبْحَثُوا عَنْهَا ۔ اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ان کے پاس نہ پھٹکو کچھ حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے کہ اسے بھول لاحق ہوئی ہو لہذا ان کی کھوج نہ لگاؤ۔ ان دونوں حدیثوں میں ایک اہم حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے جن امور کو شارع نے مجملاً بیان کیا ہے اور ان کی تفصیل نہیں بتائی یا جو احکام بر سبیل اجمال دیئے ہیں اور مقدار یا تعداد یا دوسرے تعینات کا ذکر نہیں کیا ہے ان میں اجمال اور عدمِ تفصیل کی وجہ یہ نہیں ہے کہ شارع سے بھول ہوگئی تفصیلات بتانی چاہیئے تھیں مگر نہ بتائیں۔ بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شارع ان امور کی تفصیلات کو محدود نہیں کرنا چاہتا اور احکام میں لوگوں کیلئے وسعت رکھنا چاہتا ہے۔( تفہیم القرآن جلد1 صفحہ507.508 ) حیران کن امر یہ ہے کہ جب اللہ عز و جل اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے وسعت عطا فرما دی اور جب تک منع کا حکم نہ آئے ممانعت نہیں تو ںھر اس اصول اور ضابطہ کو ہم اہلسنت پر فتویٰ داغنے کے وقت مدنظر کیوں نہیں رکھا جاتا ؟ محافل میلاد , ایصال ثواب کے جلسے , کھانے پر قرآن پڑھنا . اذان کے اول آخر برکت کیلئے درود شریف پڑھنا وغیرہ معمولات اہلسنت کو بدعت کہتے وقت علماء دیوبند یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب تک ممانعت کا حکم نہ ہو ممانعت نہیں اور جس کام کے کرنے اور نہ کرنے کے متعلق اللہ عز و جل اور اس کے مکرم رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم خاموش ہوں وہ عمل جب شرعاً مباح ہے تو پھر شریعت کے اس قاعدے کو مانتے سے کونسی چیز مانع ہے جب کہ یہ اصول تو خود علماء دیوبند کو بھی مسلّم ہے ۔ طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
بدعت بدعت کی رٹ لگانے والوں  کو ان کے شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی صاحب ،کا جواب آپ لکھتے ہیں :ہر چیز میں اصل اباحت ہے  یعنی ہر چیز اصل میں جائز ہے

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ ( سورۂ المائدہ آیت ١٠١ پارہ ٧ )
( ترجمہ علامہ محمود الحسن دیوبندی ) : اے ایمان والو مت پوچھو ایسی باتیں کہ اگر تم پر کھولی جاویں تو تم کو بری لگیں اور اگر پوچھو گے یہ باتیں ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہورہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جاویں گی اللہ نے ان سے در گزر کی ہے اور اللہ بخشنے والا تحمل والا ہے.
دیوبندی عالم علامہ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں : پچھلے دو رکوع کا حاصل احکام دینیہ میں غلو اور تساہل سے روکنا تھا یعنی جو طیبات خدا نے حلال کی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام مت ٹھہراؤ اور جو چیزیں خبیث و حرام ہیں خواہ وہ دائمی طور پر یا خاص احوال و اوقات میں ان سے پوری طرح اجتناب کرو۔
ان آیات میں تنبیہ فرما دی کہ جو چیزیں شارع نے تصریحاً بیان نہیں فرمائیں ان کے متعلق فصول اور دورازکار سوالات مت کیا کرو جس طرح تحلیل و تحریم کے سلسلہ میں شارع کا بیان موجب ہدایت و بصیرت ہے اس کا سکوت بھی ذریعہ رحمت و سہولت ہے۔
خدا نے جس چیز کو کمال حکمت و عدل سے حلال یا حرام کردیا وہ حلال یا حرام ہوگئی اور جس سے سکوت کیا اس میں گنجائش اور توسیع رہی۔
مجتہدین کو اجتہاد کا موقع ملا عمل کرنے والے اس کے فعل و ترک میں آزاد رہے اب اگر ایسی چیزوں کی نسبت خوامخواہ کھود کرید اور بحث و سوال کا دروازہ کھولا جائے گا بحالیکہ قرآن شریف نازل ہورہا ہے اور تشریح کا باب مفتوح ہے تو بہت ممکن ہے کہ سوالات کے جواب میں بعض ایسے احکام نازل ہو جائیں جن کے بعد تمہاری یہ آزادی اور گنجائشِ اجتہاد باقی نہ رہے۔
پھر سخت شرم کی بات ہوگی کہ جو چیز خود مانگ کر لی ہے اس کو نباہ نہ سکیں.
پھر آگے لکھتے ہیں : یا تو مراد یہ ہے کہ ان اشیاء سے درگزر کی یعنی جب خدا نے ان کے متعلق کوئی حکم نہ دیا تو انسان ان کے بارے میں آزاد ہے خدا ایسی چیزوں پر گرفت نہ کرے گا ۔ چنانچہ اسی سے بعض علماء اصول نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے. (یعنی ہر چیز اصل میں جائز ہے)۔( تفسیر عثمانی جلد اوّل صفحہ 577  مطبوعہ دارالاشاعت کراچی )
معلوم ہوا کہ جب تک وحی نازل نہ ہو تو نہ کوئی چیز لازم ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی چیز منع اور جن چیزوں کے متعلق شریعت مطہرہ نے حکم دیا ہے یا ترغیب دی ہے وہ فرض , واجب , سنت اور مستحب (علی حسب الحکم) قرار پاگئیں جن چیزوں کے متعلق شریعت مطہرہ نے ممانعت فرمائی یا ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے وہ حرام , مکروہ تحریمی , مکروہ تنزیہی اور اسائت (علی حسب الحکم) قرار پاگئیں اور جن چیزوں کے متعلق شریعت مطہرہ نے سکوت فرمایا یعنی نہ حکم و ترغیب نہ ہی ممانعت و ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا وہ سب چیزیں بلاشبہ جائز ہیں ۔
(یعنی محافل میلاد شریف , ایصال ثواب کے جلسے , اذان سے قبل یا بعد درود و سلام , دعا بعد نماز جنازہ وغیرہ)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔