Monday, 27 November 2017

بدعت کی تعریف ایک غیر مقلد وھابی عالم کے قلم سے اور ہمارا تبصرہ









بدعت کی تعریف ایک غیر مقلد وھابی عالم کے قلم سے اور ہمارا تبصرہ
غیر مقلد وھابی عبدالرحمن مبارک پوری بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسیم بیان کرتے ہوئے ’’تحفة الأحوذی بشرح جامع الترمذی’’میں لکھتا ہے : بقوله صلی الله عليه وآله وسلم : کل بدعة ضلالة والمراد بالبعة ما أحدث مما لا أصل له فی الشريعة يدل عليه واما ما کان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا و إن کان بدعة لغة فقوله صلی الله عليه وآله وسلم : کل بدعة ضلالة من جوامع الکلم لا يخرج عنه شی وهو أصل عظيم من أصول الدين واما ما وقع فی کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنّما ذلک فی البدع اللغوية لا الشرعية فمن ذلک قول عمر فی التراويح (نعمت البدعة هذه) و روي عنه أنه قال إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة ومن ذٰلک أذان الجمعة الأول زاده عثمان لحاجة الناس إليه و اقره عليٌّ واستمر عمل المسلمين عليه و روی عن ابن عمر أنه قال هو بدعة و لعله اَراد ما أراد ابوه فی التراويح.( مبارک پوری، جامع الترمذی مع شرح تحفة الاحوذی، 3 : 378)
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کل بدعة ضلالة (ہر بدعت گمراہی ہے) - میں بدعت سے مراد ایسی نئی چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے اور وہ چیز جس کی اصل شریعت میں موجود ہو جو اس پر دلالت کرے اسے شرعاً بدعت نہیں کہا جا سکتا اگرچہ وہ لغتاً بدعت ہو گی کیونکہ حضور علیہ السلام کا قول کل بدعة ضلالة جوامع الکلم میں سے ہے اس سے کوئی چیز خارج نہیں ہے۔ یہ دین کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور اَسلاف کے کلام میں جو بعض بدعات کو مستحسنہ قرار دیا گیا ہے تو یہ بدعت لغویہ ہے، شرعیہ نہیں ہے۔ اور اسی میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نماز تراویح کے بارے میں فرمان نعمت البدعة هذه ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کیا گیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ان کانت هذه بدعة فنعمت البدعة’’ (اگر یہ بدعت ہے تو یہ اچھی بدعت ہے)۔ اور جمعہ کی پہلی اذان بھی اسی میں سے ہے جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر شروع کیا تھا اور اسے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے قائم رکھا اور اسی پر مسلمانوں نے مداومت اختیار کی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ بدعت ہے کا شاید ان کا ارادہ بھی اس سے وہی تھا جو ان کے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کا نماز تراویح میں تھا (کہ باجماعت نماز تراویح ’’نعمت البدعۃ’’ ہے)۔( مبارک پوری، جامع الترمذی مع شرح تحفة الاحوذی، 3 : 378)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس پر ہمارا وضاحتی تبصرہ : تقسیمِ بدعت کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ بعض اوقات ایک کام محض لُغوی اِعتبار سے بدعت ہوتا ہے شرعی اِعتبار سے نہیں۔ بعض لوگ بدعتِ لغوی کو ہی بدعتِ شرعی سمجھ کر حرام کہنے لگتے ہیں۔ لفظِ بدعت، چونکہ بَدَعَ سے مشتق ہے جس کے معنی ’’نیا کام’’ کے ہیں۔ اس لئے لُغوی اعتبار سے ہر نئے کام کو خواہ اچھا ہو یا برا، صالح ہو یا فاسد، مقبول ہو یا نامقبول بدعت کہہ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء اسلام نے اِس اِبہام سے بچنے کے لیے بدعت کی ایک اُصولی تقسیم یہ کی ہے کہ اسے بنیادی طور پر بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی، دو اقسام میں تقسیم کر دیا ہے۔ اور بدعت کو بلا اِمتیاز و بلا تفریق صرف ایک ہی اکائی سمجھ کر ہر نئے کام کو جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہدِ صحابہ کے بعد ایجاد ہوا یا رواج پذیر ہوا، مذموم، حرام اور باعث ضلالت قرار نہیں دیا بلکہ کسی نئے کام کو ’’بدعۃِ لغویہ’’ کے زمرے میں رکھا ہے اور کسی کو ’’بدعۃِ شرعیۃ’’ کے زمرے میں۔ اس طرح صرف بدعتِ شرعیہ کو ہی بدعتِ ضلالت قرار دیا ہے جبکہ بدعتِ لغویہ کو بالعموم بدعتِ حسنہ تصور کیا ہے۔
اس تقسیم کو صراحتاً بیان کرنے والوں میں منجملہ کثیر ائمہ دین اور علماء اعلام کے ابنِ تیمیہ (728ھ)، ابنِ کثیر (774ھ)، ابنِ رجب حنبلی (795ھ)، علامہ شوکانی (1255ھ) اور علامہ بھوپالی(1307ھ) سے لے کر شیخ عبد العزیز بن باز (1421ھ) تک، ایک خاص نقطہ نظر رکھنے والے علماء بھی شامل ہیں۔ ان میں سے بعض علماء اور محدّثین جو اپنے آپ کو ’’سلفی’’ کہتے ہیں، سوادِ اَعظم سے اپنے آپ کو جدا قرار دیتے ہیں اور کسی لحاظ سے بھی بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی تقسیم جائز نہیں سمجھتے وہ بھی بدعت کو بدعتِ لُغوی اور بدعتِ شرعی میں تقسیم کرتے ہیں۔ جب کہ ہم بدعتِ حسنہ اور سیئہ کے ساتھ بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسیم کو بھی مانتے ہیں کیوں کہ ہمارے نزدیک ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جس کو وہ بدعتِ شرعی کہتے ہیں ہم اسے بدعتِ سیئہ، بدعتِ ضلالہ یا بدعتِ قبیحہ بھی کہتے ہیں اور جس کو وہ بدعتِ لُغوی کہتے ہیں ہم اسے بدعتِ حسنہ، بدعتِ صالحہ اور بدعتِ خیر سے بھی موسوم کرتے ہیں۔ لہٰذا کسی بھی نئے عمل کی حلت وحرمت کو جانچنے کے لئے اسے دلیلِ شرعی کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اگر وہ عمل موافقِ دلیل ہو تو ’’بدعتِ حسنہ’’ کہلائے گا اور اگر مخالفِ دلیل ہو تو ’’بدعتِ سیئہ’’ یا ’’بدعتِ مذمومہ۔’’
مختصراً یہ کہ بدعت کے در اصل دو اِطلاقات ہیں : ایک شرعی اور دوسرا لغوی۔ شرعی اِطلاق میں بدعت ’’محدثات الامور’’ کو شامل ہے اور یہی ’’بدعتِ سیّئہ’’ ہے۔ سو اس معنی میں ’’کل بدعة ضلالة’’ درست ہے، کیونکہ اس کا معنی و مراد ہی ’’کل بدعةٍ سيّئةٍ ضلالةٌ’’ ہے لیکن لغوی اِطلاق میں بدعت کی تقسیم ہوگی۔ وہ اِس طرح کہ اگر وہ مخالفِ دلیلِ شرعی یا منافی و ناسخِ سنّت ہو تو خود بخود ’’بدعت شرعی’’ ہو جائے گی اور وہی ’’بدعتِ سیّئہ’’ ’’بدعتِ مذمومہ’’ یا ’’بدعتِ ضلالہ’’ ہوگی لیکن اگر مخالفِ شریعت نہ ہو اور نہ ہی ناسخِ سنّت ہو تو وہ مباح اور جائز ہو گی۔
بدعتِ حسنہ کی اَہمیت و ضرورت اور افادیت و مصلحت کے اعتبار سے اس کی مزید درجہ بندی کی گئی ہے سو یا وہ فقط بدعتِ مباحہ ہوگی، یا بدعتِ مندوبہ (مستحبّہ) ہو گی یا بدعتِ واجبہ یعنی صورۃً وھیئۃً تو وہ کوئی نیا کام ہوگا مگر اصلًا و دلالتاً اَمرِ خیر اور اَمرِ صالح ہوگا جسے شریعتِ اِسلامیہ کے عمومی دلائل و اَحکام کی اُصولی تائید میسّر ہوگی۔ اِسی لئے تمام اَئمہ و محدّثین اور فقہاء و محققین نے ہر زمانے میں بدعت کی یہ تقسیم بیان کی ہے۔اگر ہر نیا کام محض اپنے نئے ہونے کی وجہ سے ناجائز قرار پائے تو لامحالہ تعلیماتِ دین اور فقہ اسلامی کا بیشتر حصہ ناجائز کے زمرے میں آ جائے گا۔ اِجتہاد کی ساری صورتیں، قیاس اور استنباط کی جملہ شکلیں ناجائز کہلائیں گی۔ اسی طرح دینی علوم و فنون اور ان کو سمجھنے کے لئے جملہ علومِ خادمہ جو فہمِِ دین کے لئے ضروری اور عصری تقاضوں کے مطابق لابدی ہیں ان کا سیکھنا، سکھانا بھی حرام قرار پائے گا کیونکہ یہ سب علوم و فنون اپنی موجودہ شکل میں نہ عہدِ رسالت میں موجود تھے نہ ہی عہدِصحابہ کرام میں۔ انہیں تو بعد میں ضرورت کے پیش نظر وضع اور مرتب کیا گیا۔ یہ تمام علوم و فنون اپنی ہیئت، اُصول، اِصطلاحات، تعریفات اور قواعد و ضوابط کے اعتبار سے نئے ہیں لہٰذا بلا شک و شبہ یہ سب بدعتِ لُغوی کے زمرے میں آتے ہیں۔ مزید برآں اگر ہر نیا کام بدعتِ شرعی اور ضلالت و گمراہی قرار پائے تو دینی مدارس کی مروجہ تعلیم و تدریس اور نصابات کا بیشتر حصّہ بھی گمراہی قرار پائے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ درس نظامی کے نصابات کے طریق پر درس و تدریس نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں تھی اور نہ ہی اس طرح کسی صحابی نے تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کا طریقہ نہایت سادہ تھا۔ یہ فقط قرآن و حدیث کے سماع و روایت پر مبنی تھا۔ لہٰذا قرآن حکیم کی موجودہ شکل میں طباعت و زیبائش سے لے کر حرمِ کعبہ اور مساجد کی پختہ تعمیر اور تزئین و آرائش تک بہت سے معاملات کا جواز بھی مجروح اور ساقط ہو جائے گا۔ اس ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ اِشکال دور کرنے کے لیے بدعت کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم ناگزیر ہے۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...