Monday, 13 November 2017

زنا سے پیدا ہونے والے بچے کا شرعی حکم

زنا سے پیدا ہونے والے بچے کا شرعی حکم

جب کسی مرد اور عورت کی غیر شرعی یا غیر قانونی مباشرت سے عورت کو حمل ٹھہر جائے تو جس مرد کے ساتھ زنا سے حمل ٹھہرا ہے دورانِ حمل اسی کے ساتھ نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ زانی اور زانیہ کا نکاح کروا دیا جائے کیونکہ زانیہ کو حمل ٹھہرنے کی صورت میں کوئی دوسرا اس کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اگر کوئی نکاح کر بھی لے تو کئی طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اگر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنا ہے تو وضع حمل (بچے کی پیدائش) کے بعد کیا جائے گا۔

زنا سے ٹھہرنے والے حمل سے جو پچہ پیدا ہوگا وہ ناجائز ہی ہے تاہم اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت والدین ہی کے ذمہ ہے۔ وہ ناپاک نہیں ہے، اور اسی محبت کا مستحق ہے جو اولاد کے ساتھ کی جاتی ہے۔ زنا کا گناہ زانی اور زانیہ پر ہے نہ کہ اس بچے پر جو زنا سے پیدا ہوا۔ شرعاً اس کا نسب غیرقانونی باپ سے ثابت نہیں ہوگا، خواہ عورت نے اس مرد سے شادی کرلی ہو۔ ناجائز اولاد صرف ماں کی وارث ہوگی۔

ولد زنا يعنى زنا سے پيدا شدہ اولاد كے متعلق احاديث ميں مذمت آئى ہے ليكن ان ميں اكثر احاديث ضعيف ہيں جو صحيح ثابت نہيں.سنن ابو داود اور مسند احمد ميں حديث مروى ہے كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" زنا سے پيدا شدہ بچہ تينوں ميں سے سب سے زيادہ برا ہے "يعنى وہ اپنے والدين جنہوں نے زنا كيا تھا سے بھى برا اور شرير ہے.(سنن ابو داود ( 4 / 39 ) مسند احمد ( 2 / 311 ).

اس حديث كى علماء كرام نے كئى ايل توجيہات كى ہيں جن ميں سے مشہوريہ ہے: حضرت سفيان ثورى رحمہ اللہ فرماتے ہيں:اگر وہ اپنے والدين جيسا عمل كرتا ہے تو وہ تينوں ميں سب سے برا اور شرير ہو گا.

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بھى يہ روايت كيا جاتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" جب وہ اپنے والدين جيسا عمل كرے تو وہ تينوں ميں سب سے برا ہے ۔
يعنى اگر زنا سے پيدا شدہ بچہ والدين والا عمل كرتا ہے تو وہ تينوں ميں سب سے برا ہے، اگرچہ اس كى سند ضعيف ہے ليكن بعض سلف نے اسے اس معنى پر ہى محمول كيا ہے جيسا اوپر بيان ہوا ہے.
اس شرح كى تائيد اس روايت سے ہوتى ہے جو امام حاكم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنى سند كے ساتھ روايت كى ہے : عام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" زنا سے پيدا شدہ بچے پر اس كے والدين كے گناہ ميں سے كوئى گناہ نہيں، اور كوئى بھى جان كسى دوسرے كا بوجھ نہيں اٹھائيگى ۔ (مستدرك الحاكم ( 4 / 100 )

اور بعض علماء كہتے ہيں كہ يہ حديث اس پر محمول ہے كہ زنا سے پيدا شدہ اولاد غالب طور پر شرير اور برى ہى ہوتى ہے كيونكہ وہ ايك خبيث اور حرام نطفہ سے پيدا ہوئے ہيں، اور غالب طور پر خبيث اور حرام نطفہ سے كبھى پاكيزہ اور اچھا پيدا نہيں ہوتا، لہذا اگر اس نطفہ سے كوئى اچھا شخص پيدا ہو گيا تو وہ جنت ميں جائيگا، اور حديث عام مخصوص ميں شامل ہو گى. (المنار المنيف ( 133 ).

علامہ ابن تيميہ لكھتے ہيں: اگر ولد زنا يعنى زنا سے پيدا شدہ ايمان لے آئے اور نيك و صالح اعمال كرے تو وہ جنت ميں داخل ہو گا، وگرنہ اسے اسى طرح كا بدلہ ديا جائيگا جو اس نے عمل كيے ہونگے جس طرح دوسروں كے ساتھ ہوتا ہے، اور پھر بدلہ تو اعمال كے ساتھ ہوتا ہے نہ كہ حسب و نسب كے مطابق، زنا سے پيدا شدہ بچے كى مذمت تو اس ليے ہوتى ہے كہ عام طور يہى خيال ہوتا ہے كہ وہ بھى غلط اور خبيث و گندے عمل كريگا جيسا كہ اكثر ہوتا ہے، جس طرح اچھے نسب كى تعريف ہوتى ہے كيونكہ ان كے متعلق خير و بھلائى كا خيال ہوتا ہے.اور جب عمل ظاہر ہو جائيں تو اس كے مطابق ہى بدلہ ملے گا، اور پھر اللہ كے ہاں تو سب سے عزت والى مخلوق سب سے زيادہ متقى و پرہيزگار ہے ۔ ( الفتاوى الكبرىٰ تیمیہ ( 5 / 83 ).

جب زنا سے پيدا شدہ بچہ دين اسلام پر فوت ہو تو وہ جنت ميں داخل ہو گا، اور ابن زنا ہونا اس پر كوئى اثرانداز نہيں ہو گا، كيونكہ يہ اس كا عمل نہيں بلكہ كسى دوسرے كا عمل ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:﴿ اور كوئى بھى جان كسى دوسرے كا بوجھ نہيں اٹھائيگى ﴾.
اور اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:﴿ ہر شخص اپنے اعمال كا گروى ہے ﴾.
اور اس طرح كى دوسرى آيات بھى ہيں، ليكن جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ روايت كيا جاتا ہے كہ:" زنا كى اولاد جنت ميں داخل نہيں ہو گى "
يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت نہيں، اور حافظ ابن الجوزى رحمہ اللہ نے اسے الموضوعات ميں ذكر كيا ہے اور يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ روايات ميں شامل ہوتى ہے .

اور زنا سے پيدا شدہ بچے كے ساتھ شادى كرنے كے متعلق يہ ہے كہ فقہاء علیہم الرّحمہ ميں كسى بھى معتبر فقيہ نے اس كى حرمت بيان نہيں كى، بلكہ حنابلہ كے ہاں اس كے كفو ہونے ميں كچھ اختلاف پايا جاتا ہے كہ آيا نسب كے اعتبار سے يہ لڑكى كا كفو بنتا ہے يا نہيں كچھ تو اسے كفو نہيں سمجھتے كيونكہ عورت كو اس كى عار دلائى جائيگى اور اس كے خاندان والوں كو بھى عار اٹھانا پڑيگى اور پھر يہى چيز آگے بڑھ كر اس كى اولاد كو بھى طعنہ كا باعث بنے گى ۔ ( المغنى 7 / 28 ) اور الموسوعۃ الفقھيۃ ( 24 / 282 ).

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( بچہ بستر والے ( یعنی خاوند ) کے لیے ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2053 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1457 ) ۔

ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے : علماء کرام کا اجماع ہے کہ اگر بچہ مرد کے بستر پر پیدا ہواورکوئ دوسرا شخص اس کا دعوی کرے تو بچے کی نسبت دعوی کرنے والے کی طرف نہیں کی جاۓ گی ، لیکن اگر بچہ بستر کے علاوہ ( شادی کے بغیر ) پیدا ہو تواس میں اختلاف ہے ۔
اگر عورت بیوی نہ ہو اورزنا سے بچہ پیدا ہوجاۓ اورزانی اس کا دعوی کرے توکیا اس بچے کی نسبت اس کی طرف کی جاۓ گی ؟
جمہور علماء کرام کا کہنا ہے کہ اس حالت میں بچہ کی نسبت اس کی طرف نہیں کی جاۓ گی ۔
حسن اورابن سیرین اورعروہ ، امام نخعی ، اسحاق ، سلیمان بن یسار رحمہم اللہ سے منقول ہے کہ بچہ اس ( زانی کی طرف منسوب ہوگا ۔(المغنی)

لقیط اس بچہ کو کہا جاتا ہے جو راستہ میں پڑا ہوا ملے اور جس کے والدین کا پتہ نہ ہو.فقہی اصطلاح میں لقیط اس بچہ کو کہا جاتا ہے جس کا نسب معلوم نہ ہو کیونکہ اس کے گھر والوں نے زنا کی تہمت سے بچنے کے لیے یا کسی اور وجہ سے اُسے پھینک دیا ہو۔ لہٰذا جب راستہ میں یا کسی public place پر گرا پڑا بچہ ملے تو اُسے زمین سے اٹھانا، اس کے ساتھ شفقت برتنا اور اس کی حفاظت کرنا اللہ تعالیٰ کے اس قول کی روشنی میں واجب ہو جاتا ہے :(المعجم الوسيط، 2 : 41، ماده : لقط)

وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا.
ترجمہ : اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا۔(سورۃ المائده، 5 : 32)

کیونکہ بچہ کو زمین، راستہ سے اٹھانا ہی اُسے زندگی دینا ہے اور یہ اسی طرح واجب ہے جس طرح حالتِ اِضطرار میں صرف زندگی بچانے کی حد تک حرام کھانے کی اجازت مل جاتی ہے۔

ثانیاً لقیط کا یہ بھی حق ہے کہ وہ آزاد ہوتا ہے۔ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اﷲ عنھما نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ اگر ملتقط (بچہ کو اُٹھانے والا) یا کوئی اور شخص یہ دعویٰ کرے کہ بچہ اس کا غلام ہے تو بغیر گواہوں کے اس کا دعویٰ نہ سنا جائے گا کیونکہ اس کی حریت و آزادی اس کے ظاہر حال سے ثابت ہے اس لیے بغیر دلیل کے اس کے ظاہر کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔( بدائع الصنائع، 6 : 197، 198)

ثالثاً لقیط کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا خرچہ بیت المال سے کیا جائے۔ اگر اُس کے ساتھ کچھ مال بندھا ہو پایا گیا تو وہ اسی کا متصور ہوگا مثلا اس کے جسم پر موجود کپڑے یا اگر وہ جانور پر بندھا ہوا پایا گیا تو وہ جانور اس کا ہوگا۔ اس صورت میں خرچہ اس کے اپنے مال میں سے کیا جائے گا کیونکہ بیت المال میں سے خرچہ ضرورت کی بناء پر ہوتا ہے اور جب اس کے پاس مال ہو تو ضرورت ثابت نہیں ہوتی۔ ( بدائع الصنائع، 6 : 198، 199)

اہل علم سے گذارش ہے کچھ احباب کے بار بار اسرار پر یہ مضمون جلدی میں ترتیب دیا گیا ہے اگر کہیں غلطی پائیں تو ضرور اصلاح فرمائیں فقیر ان تمام احباب کا شکر گذار ہوگا جزاکم اللہ خیرا ۔ دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...