دیابنہ کے اپنے اصول کے مطابق علمائے دیوبند کی بدعت دعا بعد عیدین
حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں کہ : بعد نماز عیدین کے (یا بعد خطبہ کے) دعا مانگنا، گو نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور انکے صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے منقول نہیں مگر چونکہ ہر نماز کے بعد دعا مانگنا مسنون ہے اس لئے بعد نماز عیدین بھی دعا مانگنا مسنون ہو گا۔
(بہشتی زیور ، گیارہواں حصہ ،عیدین کی نماز کا بیان ،مسئلہ نمبر ۴)
معلو م ہوا کہ خود تھانوی کو اس بات کا اقرار ہے کہ یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور ان کے صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین [علہیم الرضوان اجمعین] سے منقول نہیں۔
دار العلوم دیوبند کا بھی یہی فتویٰ ہے چنانچہ فتاوی دار العلوم دیوبند میں یہ فتویٰ موجود ہے کہ : عیدین کی نماز کے بعد مثل دیگر نمازوں کے دعا مانگنا مستحب ہے ،خطبہ کے بعدد عا مانگنے کا استحباب کسی روایت سے ثابت نہیں ہے اور عیدین کی نماز کے بعد دعا کرنا استحباب ان ہی حدیثوں و روایات سے معلوم ہوتا ہے جن میں عموماََ نمازوں کے بعددعا مانگنا وار ہوا ہے اور دعا بعد الصلوۃ مقبول ہوتی ہے۔حصن حصین میں وہ احادیث مذکور ہیں اور ہمارے حضرات اکابر کا یہ ہی معمول رہا ہے ۔بندہ کے نزدیک جو علماء عیدین کی نماز کے بعددعا مانگنے کو بدعت یا غیر ثابت فرماتے ہیں وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ عموماََ نمازوں کے بعد دعا کا استحباب ثابت ہے پھر عیددین کی نمازوں کا استثناء کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔۔۔ الخ
(فتاوی دار العلوم دیوبند مدلل و مکمل جلد پنجم :کتاب الصلوۃ ص ۱۶۴)
اسی طرح دیوبندیوں کے استاد مولوی خالدمحمود نے اپنی کتاب میں دار العلوم دیوبند کے دو فتوے درج کیے ۔چنانچہ لکھتے ہیں کہ : ہمارے حضراتِ اکابر مثل حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ اور حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی اور دیگر حضراتِ اساتذہ مثل حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب مدرس سابق مدرسہ ہذا اَورحضرت مولانا محمود الحسن صاحب صدر مدرس مدرسہ ہذا وغیرہم کا یہی معمول رہا ہے کہ بعدعیدین کے بھی مثل تما م نمازوں کے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے تھے اور احادیث میں بھی مطلقاََنمازوں کے بعد دعا مانگنا ثابت ہے اس میں عیدین کی نماز بھی داخل ہے ۔لہٰذا رَاحج ہمارے نزدیک یہی ہے کہ دعا بعد نماز عیدین بھی مستحب ہے اور مولانا عبد الحئی صاحب ؒ کا فتوے بندہ نے بھی دیکھا تھا کہ محض اس وجہ سے کہ عیدین کی نماز کے بعد دعا کا ذکر نہیں ہے ،دعا کا نہ ہونا معلوم نہیں ہوتا اور دیگر احادیث سے سب نمازوں کے بعددعا ہونا ثابت ہے بس اس کو بھی اس پر محمول کیا جائے گا کیونکہ جب کلےۃ استجباب ،دعا بعد صلوت کے ثابت ہو گیا تو اب یہ ضرور نہیں کہ ہر ہر نماز کے بعد تصریح وارد ہو ،کما ھو ظاھر اور بہشتی گوہر میں بھی غالباََ مولانا عبد الحئی صاحب ؒ کے فتویٰ کے اتباع سے ایسا لکھا گیا ہے ۔بندہ کے نزدیک وہ مسلم نہیں ۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم ۔کتبہ عزیز الرحمن عفی عنہ
(عبقات ص ۱۱۳ مصنف خالد محمود )
اسی کتاب میں خالد محمود دیوبندی نے دیوبندی مفتی محمد شفیع صاحب کا فتویٰ پیش کیا ،انہوں نے لکھا کہ : احادیث قولیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے باسانیدصحیحہ ہر نماز کے بعد جس میں نماز عید بھی داخل ہے ،دعا مانگنے کی فضلیت اور ثواب منقول ہے ،اگر چہ احادیث فعلیہ میں عمل کی تصریح نہیں، مگر نفی بھی منقول نہیں۔ اس لئے احادیثِ قولیہ پر عمل کرنا اور ہر نماز کے بعد اور عیدین کے بعد دعا مانگنا جائز و مستحب ہو گاالخ ۔ (عبقات ص ۱۱۳ : خالد محمود دیوبندی)
معلوم ہوا کہ علماے دیوبند کے نزدیک بعد نماز عیدین و خطبہ کے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مستحب یعنی ثواب کا عمل ہے ۔
آگے چلنے سے پہلے بتاتا چلوں حدیث شریف میں دعا کو عبادت بھی کہا گیا ہے ۔ ’’الدعاء ھو العبادۃ ‘‘الحدیث رواہ احمد والترمذی وابوداود النسائی وابن ماجۃ وغیرہ ۔
نماز عیدین و خطبہ کے بعد اس عبادت یعنی دعا کے بارے میں علماے دیوبند ہی کے اصول و قوانین کے مطابق مختصراََ گفتگو آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔
دیابنہ کے اصول بدعت کی روشنی میں اس پر ہمارے چند سوال
حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی ، علامہ خالد محمود اور دار العلوم دیوبند کے مفتیوں کے بقول بعد عیدین (و خطبہ) کے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مستحب ہے ۔ لہٰذا اب ہم علماے دیوبند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ :
کون سی حدیث میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے بعد نماز عیدین و خطبہ کے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ؟
کیا خلفاے راشدین علہیم الرضوان اجمعین نے بعد نماز عیدین و خطبہ کے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ؟
کیا صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین میں سے کسی نے بعد نماز عیدین و خطبہ کے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ؟
کیا تابعین کرام علہیم الرضوان اجمعین میں سے کسی نے بعد نماز عیدین و خطبہ کے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ؟
کیا تبع تابعینکرام علہیم الرضوان اجمعین میں سے کسی نے بعد نماز عیدین و خطبہ کے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ؟
ہم سنیوں سے دلیل خاص کا مطالبہ کرنے والے تمام دیوبندی حضرات اپنے مطالبے کے مطابق ایسی روایت بیان کریں جس میں عید( یا خطبہ) کا ذکر بھی ہو ،دعا کا بھی اور ہاتھ اٹھانے کا ذکر بھی موجود ہو ۔
علماے دیوبند کے استدلال کے مطابق بعد نمازجنازہ دعا
تھانوی صاحب نے صاف لکھا کہ مذکورہ عمل ’’منقول نہیں مگر چونکہ ہر نماز کے بعد دعا مانگنا مسنون ہے اسلئے بعد نماز عیدین بھی دعا مانگنا مسنون ہو گا۔‘‘(بہشتی زیور)دار العلوم دیوبند کے فتوے کے مطابق ’’احادیث میں بھی مطلقاََنمازوں کے بعد دعا مانگنا ثابت ہے اس میں عیدین کی نماز بھی داخل ہے ‘‘(عبقات)
تو اب ہم کہتے ہیں کہ اسی اصول کے مطابق بعد نماز جنازہ کی دعا بھی ثابت ہوئی کہ نہیں؟جب بقول علماے دیوبند کے مطلقاََ نمازوں کے بعد دعا والی احادیث میں عیدین کی نماز کی دعا بھی داخل ہے تو پھر نماز جنازہ اس مطلق سے کیوں کر خارج ہے؟لہٰذ ا علماے دیوبند کے اس استدلال سے بعد نماز جنازہ دعا کرنا بھی مستحب ثابت ہوا۔ لیکن نمازِ جنازہ کے بعددعا کے بارے میں تو دیوبندی حضرات اس قدر متشدد ہیں کہ دعا کرنے والوں سے جھگڑے کرتے ہیں ،دعا کے موقع پر جان بوجھ کر دنیاوی باتوں وگپوں میں مشغول ہو جاتے اور دوسرے لوگوں کو بھی کرتے ہیں تاکہ دعا میں شمولیت نہ ہو جائے ۔لاحول ولاقوۃ الاباللہ ۔
پھر نماز جنازہ کے بعدد عاکے بارے میں تو دیوبندی حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ عمل نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ،صحابہ ،تابعین و تبع تابعین سے منقول نہیں اس لیے بدعت ہے لیکن عیدین کے بعددعا کے بارے میں باوجود اس اقرار کہ یہ منقول نہیں اس کو جائز و مستحب بتلاتے ہیں، یہاں منقول نہ ہونے کو بدعت نہیں کہتے ۔یہ تضاد نہیں تو اور کیا ہے ؟
پھر دار العلوم دیوبند کے مفتی صاحب کے مطابق ’’ احادیث سے سب نمازوں کے بعددعا ہونا ثابت ہے بس اس کو بھی اس پر محمول کیا جائے گا کیونکہ جب کلےۃ استجباب ،دعا بعد صلوت کے ثابت ہو گیا تو اب یہ ضرور نہیں کہ ہر ہر نماز کے بعد تصریح وارد ہو‘‘(عبقات)
جناب جب یہ ضروری نہیں تو پھر نماز جنازہ کے بعد دعا کی تصریح کیوں ضروری ٹھہری ؟
آخر وہ کون سا اصول ہے جس کے مطابق عیدین کے بعد دعا کے لیے یہی مذکورہ اصول تسلیم کیا جائے اور نماز جنازہ کے بعد دعا پر یہ اصول لاگو نہ ہو ؟
لہٰذا علماے دیوبند کے بدلتے رنگ ،اپنے بیگانے کا فرق ہی ہے جس کی بناء پر وہ اہل سنت و جماعت پر تو بدعت بدعت کے فتوے لگاتے چلے جاتے ہیں لیکن خود جو مرضی ہے کریں ،خود ہی اصول گھڑیں ،کبھی اس کو قبول کریں تو کبھی رد کر دیں ،خود پر آئے تو مستحب و مسنون جب کہ مخالفین کے لیے حرام و بدعت قرار دینے کا یہ کھیل انتہائی مذاق خیر ہے ۔ جواب کا منتظر : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
No comments:
Post a Comment