للدین دین ، ’فی الدین اور لغوی بدعت کی تاویل کا جواب
بدعت کے دوروں میں مبتلا لوگ ایک من گھڑت قاعدہ بیان کرتے ہیں کہ : ’’للدین‘‘ (یعنی دین کے لئے) نیا اچھا کام جائز ہے اور’’فی الدین‘‘(دین میں بدعت) نیا اچھا کام ایجاد کرنا ناجائز ہے۔یا پھر ’’لغوی بدعت ‘‘کہہ کر اپنے جدید کاموں کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ ذکر میلاد النبی ﷺ،صلوۃ وسلام اورایصال ثواب کی محافل وغیرہ کو بدعت کہتے ہیں ۔
جواب
(1) سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ وہابی حضرات اپنے اصول کے مطابق ’’للدین ‘‘اور’’فی الدین‘‘ کایہ قاعدہ نبی کریم ﷺسے ثابت کریں یا صحابہ کرامعلہیم الرضوان اجمعین سے ثابت کریں یا تابعین و تابع تابعین علہیم الرضوان اجمعین سے ثابت کریں۔عجیب بات ہے کہ ہم سنیوں سے تو ہر ہربات پر ثبوت مانگا جاتا ہے لیکن خود اتنے بڑے قاعدے جس پر شریعت کا دارومدار قائم کیا اس پر وہابی کوئی ایک بھی دلیل پیش نہیں کر سکتے لہذا ہم وہابیوں سے اس قاعدے کے ثبوت کا مطالبہ کرتے ہیں۔
(2) دوسری بات یہ ہے کہ منکرین تو حدیث ’’کل بدعۃ ضلالہ‘ ‘( ہرنیا کام گمراہی ہے ) کے تحت کہتے ہیں کہ یہاں ’’کل‘‘ عمومیت کیلئے ہے لہذا ہر نیا کام گمراہی ہے۔تو اب ہم وہابیوں سے سوال کرتے ہیں کہ ’’للدین‘‘’’یا’’ لغوی بدعت‘‘ وغیرہ کہہ جن نئے کاموں کو وہابی جائز قرار دیکر انہیں اختیار کرتے ہیں ۔وہ سب اس ’’کل‘‘کی عمومیت سے کس طرح خارج ہو گئے ہیں؟ جب ہر بدعت (نیا کام)گمراہی ہے تو پھریہ کہاں لکھا ہے کہ دین اسلام کے لئے (للدین)گمراہی نکالنا جائز ہے ؟گمراہی تو بہر صورت گمراہی ہے اور یہ بات حدیث شریف میں قطعاََ نہیں کہ دین کے لئے’’للدین‘‘ گمراہی جائز و ضروری ہے۔اور اُس گمراہی پر عمل کرنا درست ہے۔ پس یا تو وہابیوں کے اس قاعدے میں خرابی ہے یا کہ(معاذ اللہ ) اِس دین میں ،جسکی تقویت لئے گمراہی پر عمل کی ضرورت پڑے۔اب دین (اسلام ) میں تو ہر گز ہرگز خرابی نہیں اس لئے ماننا پڑے گا کہ وہابیہ کے اس من گھڑت قاعددے میں خرابی ہے ۔
(3) تیسری بات یہ ہے کہ پورا ماہِ رمضان تروایح با جماعت پڑھنے کا حکم حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وصال کے بعد حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے دیا اور پھر اس کے بارے میں فرمایا ’’نعمۃ البدعۃِ ھذا‘‘(یعنی) یہ اچھی بدعت ہے‘‘(بخاری شریف باب فصل من قام رمضان،مشکوۃ شریف جلد اول باب قیام شھر رمضان ص ۲۷۶)
تو اب ہم بدعت کے دوروں میں مبتلا لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ یہ تراویح کا طریقہ نماز ’’للدین‘‘ہے یا ’’فی الدین‘‘؟اب وہابی جو بھی جواب دیں اس کا ثبوت پیش کریں۔اگر للدین ہے تو کیا اس کو عبادت کا درجہ دینا اور کار ثواب سمجھنا جائز ہو گا؟اور اگر یہ عمل ’’فی الدین‘‘ہے تو کیا یہ ’’کل بدعۃ ضلالہ‘‘کے مخالف ہے کہ نہیں؟اور دین میں اضافہ ہے کہ نہیں ؟
اسی طرح وہابی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ نماز تراویح کا مذکورہ عمل ’’لغوی بدعت ‘‘ہے تو ناچیز یہ سوال کرتا ہے کہ بالفرض یہی مان لیا جائے تو کیا یہ لغوی بدعت ’’عبادت ‘‘ہے کہ نہیں؟اس پر اجر و ثواب ملے گا کہ نہیں؟اور اسی طرح اگر کوئی محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو للدین سمجھ کر اختیار کرتا ہے تو یہ عمل بدعت ضلالہ سے خارج ہو کر جائز قرار پائے گا کہ نہیں ؟
(4) چوتھی بات یہ ہے کہ مخالفین کا یہ خود ساختہ قاعدہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم پر عدم اعتماد کا مظہر ہے۔کیونکہ نبی پاکﷺ تو فی الدین (دین اسلام میں)کو مستحسن فرما رہے ہیں اور جو دین اسلام میں نہ ہو للدین سے منع فر ما رہے ہیں۔ چنانچہ حضورصلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایاکہ’من سن فی الاسلامہ سنہ حسنہ فلہ اجرھا و اجر من عمل بھا من بعد ہ من غیر ان ینقض من اجور ھم شئی‘‘جو کوئی (دین)اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے گا اِس کو اُس (نئے طریقہ کے جاری کرنے پر) ثواب ملے گا۔اور اُس کو بھی جو اس پر عمل کریں گے۔اور ان کے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا۔(صحیح مسلم کتاب الزکوۃ ۱/ ۳۲۷۔ترمذی کتاب العلم ۲/۹۲۔نسائی ۱/۱۹۱۔ابن ماجہ شریف ۱۸)
لہذاحضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم تودین اسلام میں نیا طریقہ، اچھے نئے کام کو ایجاد کرنے پر اجر و ثواب کی خوشخبری سنا رہے ہیں لیکن اعتراض کرنے والے نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی مخالفت کرتے ہوئے’’فی الاسلام‘‘(یعنی دین اسلام میں) ایجاد ات کو منع کر رہے ہیں ۔ اب خود سوچئے حضور فی الدین( دین اسلام میں نئے کاموں)کو جائز فرما رہے ہیں اور اعتراض کرنے والے فی الدین(دین اسلام میں نئے کاموں) کو گمراہی و جہالت کہہ رہے ہیں۔معاذ اﷲیہ کلیہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے خلاف ہوا کہ نہیں ؟ کیا یہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی مخالفت نہیں کی جا ر ہی ؟
اور پھریہ لوگ جو فی الدین سے خارج ہو اس کو’’للدین ‘‘(دین اسلام کے لئے) کانام دیکر اچھا قرار دیتے ہیں جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فی دین سے خارج کو بُرا فرماتے ہیں جیسا کہ خود پیارے آقا صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا’ما لیس منہ‘‘جو دین میں سے نہ ہو‘‘یعنی جس کی اصل دین میں ثابت نہ ہو وہ رد ہے۔پس ان فی الدین کے منکروں کو ’’جو دین میں سے نہ ہو‘‘کے الفاظ پر غور کر نا چاہیے۔
نہ معلوم ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جو دین میں نہ ہو’’یعنی جس کو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم رد فر ما رہے ہیں ‘‘اُس’’مردود‘‘کویہ منکر ’’للدین کا نام دیکر اچھا کہہ رہے ہیں اور جس کو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ’’سنہ حسنہ ‘‘کہہ کر ’’فی الاسلام‘‘میں داخل کر کے رہے ہیں اس کو یہ منکر ’’فی الدین‘‘ کا نام دے کر ناجائز قرار دے رہے ہیں۔گو کہ جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اچھا فرما رہے ہیں اس کو یہ ناجائز کہہ رہے ہیں اور جس کو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم مردود فرما رہے ہیں اس کویہ منکرین جائز کہہ رہے ہیں۔ معاذاﷲ ! ! لہذااعتراض کرنے والوں کا یہ کلیہ سراسر ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے خلاف ہے اس لئے وہابیہ کا’’للدین ‘‘ کایہ قاعددہ، کلیہ مخالف حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہونے کے باعث مردودوباطل ٹھہرا۔
(5) پھر بدعت کے دوروں میں مبتلا لوگوں کے نزدیک صرف میلاد ،عرس ، ذکر ، صلوۃ وسلام ہی ایسے کام ہیں جو فی الدین ہیں اور باقی وہابیوں کی محافل ،جلسے جلوس ، اجتماعات کو وہابی حضرات’’ للدین‘‘ کہہ کر جائز قرار دیتے ہیں؟للدین اور فی ا لدین کا یہ معیار کسی اصولِ شریعت کے مطابق نہیں اگر ایسا ہوتا تو وہ اصول
شریعت بتایا جاتا محض للدین اور فی الدین کی لفاظی کا چکر نہ چلایا جاتا۔
خدا را انصاف فرمائیے!شرک و بدعت کی اس خانہ ساز شریعت میں میلاد و عرس جیسے کام( جن میں عظمتِ انبیاء علیہم السّلام کرام و اولیاء عظام علیہم الرّحمہ ہے) بدعت و حرام ہیں ۔اور ان پر اپنی طرف سے فی الدین کا چکر چلاتے ہیں لیکن ان کے علاوہ ان کے اپنے من گھڑت نئے کام بدعات کے کی فہرست سے نکل کرجائز ہو جاتے ہیں۔کیا کتاب و سنت سے کوئی ایسا حوالہ پیش کیا جا سکتا ہے جس میں میلاد و عرس وغیرہ کو تو بدعت و حرام قرار دیا ہو اور دیگر متذکرہ امور کو سنت و جائز قرار دیا ہو؟ھا تو ابرھانکم ان کنتم صدیقین۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment