دیابنہ کے اصول بدعت کے مطابق جشن دیوبند بدعت ہے مگر منایا گیا آخر کیوں ؟
دنیا جانتی ہے کہ علماے دیوبند نے اپنے دار العلوم دیوبند کا صد سالہ جشن منایا ،اور اس میں ہندو عورت اِندرا گاندھی کو اسٹیج پر بیٹھایا:’’روزنامہ جنگ کراچی بدھ ۸؍جمادی الاول ۱۴۰۰ھ مطابق ۲۶؍ مارچ ۱۹۸۰ء کے مطابق مدرسہ دار العلوم دیوبند میں ایک ہندو عورت اِندرا گاندھی ساڑھی پہن کر صدارت کیلئے آئی ۔ اورایک ہندوں جگ جیون رام نے دیوبندی اجلاس سے خطاب کیا۔ ’’روز نامہ ایکسپرس ہفتہ ۱۷؍ ربیع الثانی۱۴۲۰ھ/ ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء کے مطابق ایک ہندو عورت سونیا گاندھی نے اجلاس کنونشن میں خطاب کیا ۔
نئی دہلی 21۔ مارچ (ریڈیو رپورٹ،اے آئی آر)دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات شروع ہو گئیں بھارت کی وزیر اعظم مسز اِندرا گاندھی نے تقریبات کا افتتاح کیا۔
(روزنامہ مشرق۔ نوائے وقت لاہور 22، 23۔ مارچ 1980ء )
اس پر ہمارے سوال ؟
کوئی ایک آیت و حدیث ایسے جشن کے جواز پر پیش کرو جس میں ایک غیر مسلم بے پردہ عورت شامل ہو،لیکن اس کے باوجود ایسے جشن کو جائز قرار دیا گیا ہو ؟
ہم پوچھتے ہیں کہ کیا [معاذاللہ عزوجل] نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم ایسا جشن منایا جس میں غیر مسلم بے پردہ عورت اسٹیج یا اجتماع کی زینت بنی ہو ؟
کیا [معاذاللہ عزوجل] صحابہ[ کرام علہیم الرضوان اجمعین] نے ایسا جشن منایا جس میں غیر مسلم بے پردہ عورت اسٹیج یا اجتماع کی زینت بنی ہو ؟
کیا [معاذاللہ عزوجل] تابعین[ علہیم الرضوان اجمعین] نے ایسا جشن منایا جس میں غیر مسلم بے پردہ عورت اسٹیج یا اجتماع کی زینت بنی ہو ؟
کیا [معاذاللہ عزوجل] تابع تابعین[ علہیم الرضوان اجمعین] نے ایسا جشن منایا جس میں غیر مسلم بے پردہ عورت اسٹیج یا اجتماع کی زینت بنی ہو ؟
اچھا چلو اسے عورت کو بھی نکال باہر کرو
صرف اتناہی بتا دوکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم نے مدرسہ صفاء قائم فرمایا تھاتو بعد میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے اس کا کسی قسم کا جشن منایا تھا ؟
چلو کسی تبع تابعین ہی کا حوالہ پیش کر دو کہ انہوں نے صدسالہ جشن منایا ؟
کوئی ایک حوالہ بتا دو۔ لیکن ان شاء اللہ اپنے اس جشن کو اپنے اصول بدعت کی موجودگی میں ہرگز ہرگز ثابت نہیں کر سکتے ۔
بعض علمائے دیوبند نے جشن دیوبند کو بدعت کہا
علمائے دیوبند کے علامہ عبد الحق خان بشیر چیئر مین حق چار یار اکیڈمی گجرات کی کتاب میں اپنے ہی دیوبندی مولوی بندیالوی کو کہتے ہیں کہ : ’’بندیالوی صاحب کی طبع نازک پر اگر گراں نہ گزرے تو ہم ان سے پوچھنے کی جسارت کریں گے کہ آپ نے دار العلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے اپنی جماعت کے نائب امیر حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب ؒ کا تذکرہ تو کیا لیکن اپنی جماعت کے امیر سید عنا یت اللہ شاہ صاحب بخاری کا تذکرہ نہیں کیا جنہوں نے اپنی متعدد تقاریر میں ان تقریبات کی مخالفت کرتے ہوئے بر ملا اس بات کا اظہار کیا کہ ہم جشن میلاد کی مخالفت کرتے ہیں اور قاری طیب جشن دیوبند کی بدعت اختیار کر رہا ہے‘‘۔
(علماء دیوبند کا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم اور مولانا عطا اللہ بندیالوی ص70)
معلوم ہوا کہ خود بعض دیوبندی علمائے نے بھی جشن دیوبند کی مخالفت کی اور اس کو بدعت قرار دیا، لیکن سوال تو یہ ہے کہ دیوبند جو کے علماے دیوبند کا مرکز ہے وہاں اس بدعت کو کس دلیل سے جائز قرار دے کر داخل کیا گیا تھا ؟
یہاں دیوبندی حکیم الامت تھانوی صاحب کا حوالہ دوبارہ یاد کریں کہ ’’جو لوگ متبع سنت ہیں اور اپنی ہی جماعت [دیوبندی] کے ہیں اُن کے یہاں بھی بس یہی دو چار چیزیں تو بدعت ہیں جیسے مولد کا قیام۔ عرس ۔ تیجا ۔دسواں ۔اس کے علاوہ جو اور چیزیں بدعت کی ہیں اُنہیں وہ بھی بدعت نہیں سمجھتے ۔چاہیے وہ بدعت ہونے میں اُن سے بھی اشد ہوں۔(الافاضات الیومیہ ج۱۰:ملفوظ۱۱۹ )
معلوم ہوا کہ جہاں، جس چیز کو چاہیں یہ علماء جائز قرار دیں اور جہاں چاہیں بدعت و گمراہی کہہ کر انکار کر دیں، ذات مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم کا معاملہ آتا ہے تو ان کو خوابوں میں بھی بدعت نظر آتی ہے لیکن خود جو مرضی ہے کرتے ہیں ۔ لاحول ولاقو ۃ الاباللہ ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment