ضعیف حدیث فضائل کے باب میں قابل عمل ہے وہابی علماء سے ثبوت ۔ حدیث کو ضعیف کہہ کر حدیث کا انکار کرنے والے غیر مقلدین جدید فتنہ منکرین حدیث کو پہچانیئے ۔
حدیثِ ضعیف کی حجیت، استدلال اور اس پر عمل کرنے کا حکم
حدیثِ ضعیف کا حکم
اصول حدیث میں حدیثِ ضعیف کے حکم، حدیث ضعیف سے استدلال، حدیث ضعیف کی حجیت اور اس پر عمل کرنے کے حوالے سے ائمہ، محدثین، اصولیین نے درج ذیل 3 اقوال بیان کئے :
1۔ حدیث ضعیف مطلقاً قابل عمل نہیں
یہ قول کمزور ترین ہے اور اس پر کبار ائمہ میں سے کسی کی تصریح نہیں ملتی، یہ قول جن ائمہ نے بیان کیا انہوں نے اسے اپنے فہم سے سمجھا ہے۔
لَا يُعْمَلُ بِه مُطْلَقًا لَا فِی الْاَحْکَامِ وَلَا فِی الْفَضَائِل.
’’حدیث ضعیف پر احکام اور فضائل دونوں ابواب میں مطلقاً عمل نہیں کیا جائے گا (یہ حجت نہیں ہے)‘‘۔
حدیث ضعیف کو کلیتاً رد کرنے والے علماء غالباً اس قول کے پیروکار ہیں مگر یہ قول علمی اور اصولی اعتبار سے ایک کمزور ترین قول ہے۔ یہ وہ قول ہے جس قول کے ثبوت میں کوئی پختہ دلیل ہی نہیں ہے۔ اسے ’’ابن سید ناس‘‘ نے ’’عیون العصر‘‘ میں روایت کیا اور اسے امام ابو بکر بن الغربی کی طرف منسوب کیا ہے۔ ظاہراً ان کا کہنا یہ ہے کہ امام بخاری و امام مسلم کا حدیثِ ضعیف کے حکم کے متعلق یہی مذہب ہے۔
میں علم حدیث کا ایک طالب علم ہوں مگر اس موقع پر میں ایک طالب علمانہ بات مگر بڑی پختگی، وثوق، یقین، اعتماد اور اپنی پوری ذمہ داری سے کہنے لگا ہوں کہ یہ بات کہ ’’حدیث ضعیف مطلقاً قابل قبول نہ ہوگی، احکام اور فضائل میں اس پر عمل نہیں کیا جائے گا ‘‘یہ بات حجت نہیں ہے۔ یہ الفاظ / قول جسے امام بخاری و امام مسلم کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے، شیخین نے پوری زندگی میں نہ یہ بات کبھی کہی ہے اور نہ اپنی کسی تصنیف میں لکھا ہے۔ ادھر اُدھر سے کوئی بات منسوب کر دینے سے اس بات کو امام بخاری و امام مسلم کی بات نہیں کہا جا سکتا۔ اگر یہ امام بخاری و مسلم کا مذہب ہوتا تو یہ ان کی کسی کتاب میں ذکر ہوتا۔ حتی کہ کسی معتبر و معتمد امام نے بھی اس طرح کی کوئی بھی عبارت امام بخاری و امام مسلم کی طرف منسوب نہیں کی کہ
قال البخاری هکذا او قال المسلم هکذا.
پس امام بخاری و امام مسلم کا حدیثِ ضعیف کے متعلق یہ مذہب ہونا کہ مطلقاً قابل عمل نہیں، ہرگز ثابت شدہ نہیں ہے۔
آیئے اس امر کی طرف کہ امام بخاری و امام مسلم کی طرف یہ مذہب منسوب کرنے والوں کو یہ مغالطہ کہاں سے پیدا ہوا؟
اس حوالے سے گذارش ہے کہ ان احباب کو امام بخاری و امام مسلم کے متعلق یہ مغالطہ صرف ایک بات سے پیدا ہوا اور وہ یہ کہ امام بخاری و امام مسلم نے اپنی صحیح بخاری و صحیح مسلم میں کسی ضعیف حدیث کو روایت نہیں کیا۔ ان کے اس عمل سے انہوں نے یہ اخذ کیا کہ اگر امام بخاری و امام مسلم ضعیف حدیث کو حجت سمجھتے اور قبول کرنے کے قائل ہوتے تو صحیح بخاری و مسلم میں ضعیف احادیث کو بھی درج کرتے چونکہ انہوں نے ضعیف حدیث کو روایت نہیں کیا لہذا ان کا مذہب یہ ہے کہ وہ ضعیف حدیث کو مطلقاً قبول نہیں کرتے۔ یہ بات ان لوگوں کا اپنا فہم و ادراک ہے اور سراسر غلط ہے کیونکہ امام بخاری و امام مسلم کی طرف منسوب یہ قول صریحاً امام بخاری و امام مسلم سے زبانی / تحریری ثابت نہیں ہے۔
رہ گئی یہ بات کہ انہوں نے صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ضعیف حدیث درج نہیں کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان ائمہ کو ضعیف حدیث لینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ امام بخاری خود فرماتے ہیں کہ مجھے ایک لاکھ احادیث صحیحہ یاد تھیں اور 2 لاکھ احادیث غیر صحیحہ یاد تھیں، انہوں نے تو لاکھ صحیحہ احادیث بھی صحیح بخاری میں درج نہیں کیں بلکہ ان میں سے صرف 4 ہزار درج کی ہیں۔ 96 ہزار احادیث صحیحہ بھی چھوڑ دی ہیں۔ مزید یہ کہ اگر شواہد، متابعات، اقوال تابعین، اقوال صحابہ کو بھی الگ کر دیا جائے، مکررات کو بھی حذف کر دیا جائے اور صرف مرفوع الی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احادیث کو لیا جائے تو صرف 2750 احادیث صحیح بخاری میں باقی رہ جاتی ہیں اور بعض احباب نے تو گنتی کر کے 2500 احادیث کا ذکر کیا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن امام بخاری نے 1 لاکھ صحیح احادیث میں سے جامع الصحیح میں 4 ہزار احادیث کا تذکرہ کیا ہے اور 96 ہزار صحیح احادیث طوالت کے خوف سے درج ہی نہیں کیں تو انہیں ’’صحیح‘‘ کے مرتبہ سے نیچے والی حدیث’’ضعیف‘‘ کو لینے کی کیا ضرورت تھی۔ ضعیف حدیث تو اس وقت صحیح بخاری میں درج کرتے جب اس موضوع پر صحیح حدیث میسر ہی نہ ہوتی۔ مثلاً اگر قرآن کوئی صریح فیصلہ کر دے اور وہ حکم / فیصلہ واضح ہو، اس میں تفسیر و مجمل، مطلق و مقید، عام و خاص کی حاجت ہی نہ ہو تو یہ قرآنی فیصلہ / حکم کافی ہوتا ہے۔ اس طرح اگر کسی معاملہ میں حدیث سے واضح اور صریح راہنمائی میسر ہو تو اجماع کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اگر کسی معاملہ پر اجماع ہو جائے تو پھر فرد واحد کے قیاس و اجتہاد کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پس اس طرح جس موضوع پر حدیثِ صحیح مل جائے تو نچلے درجے کی ضعیف حدیث کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
مزید یہ کہ امام بخاری نے اپنی کتاب کا نام ہی ’’الجامع الصحیح‘‘ رکھا ہے کہ انہوں نے اس میں صرف احادیث صحیحہ میں سے کچھ احادیث جمع کی ہیں۔ امام بخاری نے تو عنوان ہی صحیح کا قائم کیا ہے لہذا ضعیف احادیث کو کیوں درج کریں۔
یہی امام مسلم کا حال ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے 6 لاکھ احادیث میں کچھ احادیث صحیح مسلم میں درج کی ہیں۔ گذشتہ گفتگو میں ہم امام بخاری و امام مسلم کے حوالے سے کئی کتابوں میں منقول ان کے اقوال کا مطالعہ کر چکے ہیں جن میں ان ائمہ کرام نے کہا ہے کہ ہم نے اپنی کتاب میں جو صحیح احادیث درج کی ہیں وہ تعداد میں کم ہیں اور جو احادیثِ صحیحہ طوالت کے خوف سے چھوڑ دی ہیں وہ اس درج شدہ تعداد سے کئی زیادہ ہیں۔
پس جب ان دو کتابوں کی خاصیت ہی یہ ہے کہ ان میں احادیث صحیحہ کو جمع کرنے کا التزام کیا گیا ہے نیز یہ واحد دو وہ کتابیں ہیں جنہوں نے صحیح احادیث کو جمع کرنے کا اہتمام کیا تو پھر ان میں ضعیف احادیث کو کیونکر روایت کیا جاتا۔ لہذا روایت نہ کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کا یہ مذہب ہے کہ حدیث ضعیف کسی درجے میں بھی مقبول نہیں، اس پر تو انہوں نے گفتگو کی ہی نہیں۔ اگر صحیحین میں ضعیف احادیث شامل نہ کرنے سے یہ معنی نکلتا ہے تو باقی 96 ہزار احادیث جو امام بخاری نے چھوڑ دیں اور لاکھوں صحیح احادیث جو امام مسلم نے چھوڑ دیں، ان کے بارے میں کیا کہا جائے گا۔ پس یہ ثبوت درست نہیں۔ صریح اس مذہب کے حق میں کبار ائمہ میں سے کسی ایک کا قول بھی نہیں۔
2۔ حدیثِ ضعیف، مطلقاً قابلِ عمل ہے
جس طرح قول اول ضعیف حدیث کی عدم قبولیت کے حوالے سے انتہا پر ہے کہ ضعیف حدیث مطلقاً قبول نہ کی جائے گی نہ احکام میں نہ فضائل میں، اسی طرح قول ثانی بھی دوسرے اعتبار سے اپنی انتہا پر ہے کہ ضعیف حدیث فضائل اور احکام ہر ایک کے حوالے سے قبول کی جائے گی۔
يُعْمَلُ بِالْحَدِيْثِ الضَّعِيْف مُطْلَقًا اَیْ فِیْ الْاَحْکَامِ وَفِی فَضَائِلِ الْاَعْمَال.
’’حدیث ضعیف کو مطلقاً قبول کیا جائے گا خواہ احکام شریعت ہوں خواہ فضائل ہوں‘‘۔
ضعیف حدیث کو مطلقاً قبول کرنا اور اسے احکام، فضائل اور اعمال میں حجت ماننے کے حوالے سے ائمہ کے صریح اقوال میسر ہیں۔
امام ابو داؤد کا ضعیف حدیث کے حوالے سے یہی مذہب ہے۔ ۔ ۔ امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے اور اسے مجموع الفتاویٰ میں علامہ ابن تیمیہ نے جلد 18، صفحہ 52 پر بیان کیا ہے۔
امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے عبداللہ بن احمد روایت کرتے ہیں :
سَمِعْتُ اَبِیْ يَقُوْلُ اَلْحَدِيْثُ الضَّعِيْفُ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنَ الرأیِ.
’’میں نے اپنے والد (امام احمد بن حنبل) سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے رائے سے کئی زیادہ حدیثِ ضعیف محبوب ہے‘‘۔
یہ وہ مذہب ہے کہ اگر کسی ایک موضوع پر حدیث صحیح دستیاب نہ ہو تو خواہ احکام کا مسئلہ ہو، خواہ فضائل کا مسئلہ ہو تو اس موضوع پر حدیث ضعیف کو قبول کرلیا جائے گا کیونکہ حدیث ضعیف سے اوپر والے درجے کی حدیث ’’صحیح‘‘ یا ’’حسن‘‘ اس موضوع پر میسر نہیں ہے کیونکہ جب صحیح حدیث میسر نہ ہو تو پھر دو ہی صورتیں ہیں۔
1۔ حدیث ضعیف کو قبول کیا جائے۔
2۔ اپنی رائے پر فتویٰ دیا جائے۔
پس اس صورت حال میں ان دو صورتوں میں سے امام ابو داؤد اور امام احمد بن حنبل رائے کے مقابلے میں حدیث ضعیف کو قبول کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
امام مالک کا بھی حدیث ضعیف کے حوالے سے یہی مذہب ہے۔ ’’عمدۃ الاصول‘‘ میں متاخرین مالکیہ نے توثیق کے ساتھ اس کو بیان کیا ہے۔
امام نسائی کا بھی یہی قول ہے۔ ۔ ۔ امام ابن ابی حاتم کا بھی یہی مذہب ہے۔ ۔ ۔ امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ ۔ ۔ امام سرخسی (احناف) کا بھی یہی قول ہے۔ ۔ ۔ امام شافعی کا قول، امام نووی نے ’’کتاب الاذکار‘‘ کے اندر درج کیا ہے۔ ۔ ۔ ابن ہمام نے فتح القدیر میں اس کو بیان کیا ہے۔ ۔ ۔ ملا علی قاری نے حنفیہ کا مذہب بیان کیا ہے۔ ۔ ۔ امام سخاوی نے فتح المغیث میں اسے امام احمد بن حنبل کا مذہب قرار دیا ہے اور امام شافعی کا بھی یہ قول وہاں درج کیا ہے۔ قول اول پر تصریح کسی ایک بھی بڑے امام کی نہیں ہے جبکہ قول ثانی پر کئی کبار ائمہ کی تصریح موجود ہے۔
3۔ حدیثِ ضعیف، فضائل میں قابل عمل ہے
قول اول میں ایک انتہا تھی اور قول ثانی میں دوسری انتہا تھی، ارجح مسلک و مذہب جو اعتدال و توازن پر مبنی ہے وہ تیسرا قول ہے۔ محدثین، ائمہ فن کی اکثریت اس قول ثالث کی طرف گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ حدیث ضعیف پر احکامِ شریعت میں عمل نہیں کیا جائے گا۔ یعنی فرائض، واجبات، حلال و حرام اور اس درجے کے احکام کو چھوڑ کر صحابہ، اہل بیت، اولیاء کے فضائل و مناقب ہوں یا فضائل اعمال ہوں، ترغیب و ترہیب کا معاملہ ہو یا وعظ و نصیحت اور رشد کا معاملہ ہو، تذکیرالی الآخرۃ کا معاملہ ہو یا زہد و رقائق کا معاملہ ہو، ان امور میں حدیث ضعیف پر بالاتفاق عمل کیا جائے گا۔ علامہ جمال الدین قاسمی نے لکھا ہے کہ
وَهٰذَا هُوَ الْمُعْتَمَدُ عِنْدَ الْائمه.
’’اور ائمہ کے نزدیک یہ مذہب معتمد ترین مذہب ہے‘‘۔
اور یہی ہمارا مذہب ہے۔ اس سے قبل قول ثانی میں جن 10 کبار ائمہ کے حوالے دیئے وہ حدیث ضعیف کو قبول کرنے کے حوالے سے ہمارے اس مذہب سے بھی آگے ہیں یعنی ان کے نزدیک اگر صحیح حدیث میسر نہ ہو تو حدیث ضعیف کو احکام میں بھی قبول کیا جائے گا۔ ہمارا موقف اس سے بھی زیادہ اعتدال پر مبنی ہے کہ حلال و حرام اور فرائض و واجبات کے احکام، ضعیف حدیث کی بنیاد پر قبول نہ ہوں گے مگر ثواب و عقاب، ترغیب و ترہیب، فضائل و مناقب، وعظ و تذکیر، زہد و رقائق جیسے تمام امور میں حدیث ضعیف پر عمل کیا جاتا ہے اور عمل کرنا جائز ہے۔
امام نووی نے اس موقف / قول کو ’’الاذکار‘‘ میں جملہ محدثین اور فقہاء کی طرف سے منسوب کیا ہے۔
اس قول کو حافظ ابن عبدالبر نے بھی روایت کیا ہے۔ اس موقع پر میں اس قول کی تائید میں ائمہ کرام کے نام بتانا چاہوں گا اور اس کی ابتداء امام بخاری و امام مسلم سے بھی کہیں پہلے کے ائمہ سے کرتا ہوں جن کا شمار شیخین کے شیوخ کے بھی شیوخ میں ہوتا ہے۔
1۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
امام اعظم ابوحنیفہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ امام حاکم نے اپنی کتاب میں حدیث کی قبولیت اور عدم قبولیت کے باب میں اصول درج کئے ہیں کہ اگر حدیثِ صحیح میسر نہ ہو تو امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک ’’رائے‘‘ سے زیادہ بہتر ہے کہ مرسل اور ضعیف حدیث کو قبول کیا جائے۔ جس امام پر رائے کا الزام لگتا ہے، اس امام نے رائے کو سب سے آخر میں رکھا ہے، کوئی نص نہ ملے تو رائے کی طرف گئے وگرنہ امام اعظم نے حدیث ضعیف تک کو مقدم جانا۔
2۔ امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ
یہی مذہب امام سفیان ثوری کا ہے اور آپ امیرالمومنین فی الحدیث ہیں۔ آپ امام مالک (94ھ) کے زمانے میں (97ھ) میں پیدا ہوئے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم سمیت کل صحاح ستہ ان کی مرویات سے بھری پڑی ہیں۔ امام سفیان ثوری فرماتے ہیں :
لَا تَاْخُذُ هٰذَا الْعِلْمَ فِی الْحَلَالِ وَالْحَرَام اِلاَّمِنَ الرَّؤُوْساءِ الْمَشْهُوْرِيْنَ وَلَا بَحْثَ بِمَا سِوآء ذٰلِکَ مِنَ الْمشائِخ.
’’حلال و حرام کے معالے میں بڑے ائمہ کے سواء کسی اور سے یہ علم (روایتِ حدیث) قبول نہ کرو‘‘۔ اور اگر دیگر معاملات ہوں تو ان رؤوساء مشہورین کے علاوہ دیگر چھوٹے مشائخ ہیں (جن پر گفتگو اور طعن بھی ہو جاتی ہے) ان سے بھی حدیث قبول کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔ (الکفایہ فی علم الروایہ، خطیب بغدادی)
وہ حدیث جس کو ’’لابحث‘‘ کہا وہ حدیث ضعیف ہوتی ہے۔
3۔ امام سفیان بن عیینہ
امام سفیان بن عیینہ (107ھ) کا بھی یہی قول ہے۔ وہ احباب جن پر ضعف کا الزام تھا ان کا نام لے کر امام سفیان بن عیینہ نے کہا : وَاسْمَعُوْا مِنْه مَاکَانَ فِی ثَوَابٍ وَغَيْرِه.
’’فلاں فلاں راوی جن پر ایسا طعن ہے جس سے حدیث کی سند ضعیف ہو جاتی ہے، ان سے سماع کر لیا کرو، ان کی حدیث قبول کر لیا کرو اگر ثواب، عقاب اور اس طرح کے دیگر مسائل پر روایت کریں‘‘۔
4۔ امام عبدالرحمن بن مہدی رحمۃ اللہ علیہ
امام عبدالرحمن بن مہدی (136ھ) کا قول بھی یہی ہے اور آپ امام بخاری و مسلم کے رجال ائمہ میں سے ہیں۔ فرماتے ہیں :
اِذَا رَوَيْنَا فِی الثَّوَابِ وَالْعِقَابِ وَفَضَائِلِ الْاَعْمَال تَسَاهَل فِی الْاَسَانِيْد وَسَمَّحْنَا فِی الرّجَال.
جب ہم فضائل اعمال، ثواب و عتاب کے باب میں روایت کرتے تو اسانید کے معاملے میں ڈھیل اختیار کرتے، نرمی کرتے، سختی نہیں کرتے تھے اور رجال پر جرح و تعدیل کے معاملے میں نرمی سے کام لیتے تھے، چھوٹی چھوٹی چیزوں سے درگزر کرتے تھے، ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے درگزر کرنے سے حدیث کی سند ضعیف بنتی ہے۔
وَاِذَا رَوَيْنَا فِی الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ وَالْاَحْکام تَشَدَّدْنَا فِی الْاَسَانِيْد وَانْتَقَدْنا الرِّجَال.
’’اور جب حلال و حرام اور احکام کا مسئلہ آتا تو اس میں ہم اسانید کے معاملے میں سخت ہو جاتے اور رجال پر جرح و تعدیل کے معاملے میں سختی کرتے‘‘۔
پس ائمہ کے ان اقوال سے ثابت ہوا کہ فضائل اور ترغیب و ترہیب میں حدیث ضعیف کو قبول کرنا اور حجت ماننا ائمہ کا معتمد علیہ مذہب ہے۔
5۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ
امام احمد بن حنبل کا قول بھی یہی ہے۔ حنبلی اہل سنت میں سب سے زیادہ سخت مذہب تصور کیا جاتا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ بھی کم و بیش انہی کے مقلد ہیں، وہ خود کو مجتہد کہتے ہیں مگر ان کا رجحان انہی کی تابعیت میں ہیں۔ حافظ ابن کثیر، علامہ ابن القیم، شیخ محمد بن عبدالوہاب النجدی بھی اسی حنبلی مذہب پر تھے۔
امام حاکم ’’المدخل‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل ضعیف حدیث کے حوالے سے فرماتے ہیں :
اِذِا رَوَيْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم فِی الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ تَشَدَّدْنَا وَاِذَا رَوْيْنَا عَن النبی فِی الْفَضَائِل الاعْمَال وَمَالا يَضَعُ حُکْمًا وَلَا يَرْفَعُ تَسَاهَلْنَا فِی الْاَسَانِيْد.
ہم اگر حلال و حرام کے احکام کو روایت کرتے تو اسانید میں سختی اختیار کرتے اور اگر فضائل کو بیان کرتے تو ہم اسانید اور رجال میں نرمی اور ڈھیل دیتے۔
6۔ امام ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ
امام ابن حجر عسقلانی کا بھی یہی مذہب ہے مگر آپ نے 3 شرائط لگائی ہیں۔
حدیث ضعیف سے شریعت میں اصول قائم نہ ہوں گے۔
حدیث ضعیف اس وقت قابل قبول ہوگی جب شریعت کے خلاف نہ ہو۔
اس کے ضعف میں ضعفِ شدید نہ ہو۔
ایک لطیف بات امام عسقلانی یہ بھی فرماتے ہیں کہ حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے گا مگر یہ عقیدہ نہ رکھا جائے کہ اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل یا قول ثابت ہوگیا بلکہ احتیاط کا عقیدہ رکھا جائے کہ اگرچہ حدیث ضعیف ہے لیکن اگر اس پر عمل نہ کیا تو ممکن ہے فضیلت ترک نہ ہو جائے۔ ترک فضیلت سے بچنے کے لئے عقیدہ احتیاط کے ساتھ عمل کیا جائے۔ ثبوت کا عقیدہ نہ ہو، احتیاط کا عقیدہ ہو کہ کہیں فضیلت سے محروم نہ رہ جائیں کیونکہ دونوں امکان ہیں، ممکن ہے فرمایا ہو، ممکن ہے نہ فرمایا ہو۔
7۔ علامہ ابنِ تیمیہ
علامہ ابن تیمیہ نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ فتاویٰ ابن تیمیہ جلد 18، ص 26 قسم الحدیث میں علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ
’’اگر کوئی ضعیف راوی ہے، کثرت غلط کی بنیاد پر اپنی روایت میں غلط ہے پھر بھی غالب امر اس کا حدیث کو روایت کرنے کا صحیح ہے تو اس پر بھی اعتبار کیا جائے گا، حدیث قبول کی جائے گی اور اس کی تائید کے ساتھ ضعیف طریق بھی اٹھ کر حسن کے درجے میں چلا جائے گا۔
یہی مذہب امام ابو ذکریا العنبری کا ہے۔
یہی مذہب امام حاکم نیشا پوری کا ہے۔
یہی مذہب امام بیہقی کا ہے۔
یہی مذہب امام ابن الکتان کا ہے۔
یہی مذہب امام شافعی کا ہے۔
امام سِلَفِیْ کا مذہب بھی یہی ہے۔
امام حاکم کا مذہب بھی یہی ہے۔
امام سیوطی کا مذہب بھی یہی ہے جسے التدریب میں روایت کیا ہے۔
امام ابن الصلاح کا مذہب بھی یہی ہے۔
امام نووی کا مذہب بھی یہی ہے۔
امام نسائی کا بھی یہی مذہب ہے۔
امام سخاوی کا بھی یہی مذہب ہے۔
امام ابن القیم کا بھی یہی مذہب ہے۔
امام جلال الدین دوانی کا بھی یہی مذہب ہے۔
وہ ائمہ جن کا مذہب قول ثانی ہے یعنی جن کے نزدیک صحیح حدیث نہ ملنے پر حلال و حرام اور احکام میں بھی ضعیف حدیث قبول کی جائے گی۔ یہ مذہب رکھنے والے تمام ائمہ بھی اسی قول ثالث میں بھی خود بخود آجاتے ہیں کیونکہ وہ اس موقف / مذہب سے بھی ایک قدم آگے کھڑے ہیں۔ یہ تیسرا مذہب تو معتدل و متوازن ہے کہ حلال و حرام میں نہیں بلکہ فضائل میں حدیث ضعیف کو قبول کیا جائے گا۔
پس درج بالا ائمہ کرام اور وہ ائمہ جو کہ حدیث ضعیف کے حوالے سے قول ثانی میں درج مذہب رکھتے ہیں، یہ تمام ائمہ، حدیث ضعیف کی حجیت اور فضائل اعمال اور مناقب میں حدیث ضعیف پر عمل کرنے کے حق میں ہیں۔
یہ اصل مذہب مختار ہے اس لئے بہت سی چیزیں جو فضائل کے باب میں آتی ہیں حدیثِ ضعیف کی بنیاد پر اُن پر عمل کرنا جائز ہے۔ مثلاً حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم پاک پر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھنا، یہ حدیث بھی ضعیف ہے، ’’موضوع‘‘ نہیں ہے۔ فضائل اور ترغیب و ترہیب میں چونکہ حدیثِ ضعیف قبول کیا جاتا ہے۔ لہذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم گرامی کو سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھنا جائز ہے۔
2۔ انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھنے سے کئی احباب اختلاف کرتے ہیں مگر اس تناظر میں وہ وضوکے دوران گردن پر مسح کرنے کے حوالے سے کیا کہیں گے۔ تمام مسالک کے ماننے والے وضو کے دوران گردن پر مسح کرتے ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں مگر یہ حدیث ضعیف سے ثابت ہے جبکہ گردن پر مسح کرنا، احکام کا مسئلہ ہے۔ فضائل کا مسئلہ نہیں ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ عمل کرنے پر آئیں تو حدیث ضعیف پر احکام میں بھی عمل ہو رہا ہے اور اگر تنقید کرنے پر آئیں تو فضائل میں بھی تنقید کر رہے ہیں۔
3۔ زکوۃ کے تفصیلی نصاب جس حدیث میں بیان ہوئے ہیں اس حدیث کی سند ضعیف ہے حالانکہ یہ بھی احکام میں سے ہے۔ آپ تو زکوۃ بھی بالتفصیل ادا نہ کر سکیں، زکوۃ کے نصاب کی تفصیل ہمیں نہ ملے اگر سند ضعیف کا اعتبار ختم ہو جائے۔
اس طرح کی سینکڑوں مثالیں احکام، فضائل، مناقب، شرعی امور اور ثواب و عقاب کے باب میں موجود ہیں جن کی احادیث اسناداً ضعیف ہیں لیکن مضموناً، متناً صحیح ہیں اس لئے کہ ان کے توابع اور شواہد ہیں جس سے ان کو تائید ملتی ہے۔(طالب دعا : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment