Thursday 16 November 2017

محافل میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے آداب

0 comments
محافل میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے آداب

جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِہتمام کرنا یقیناً مستحسن اور باعثِ اَجر و ثواب عمل ہے لیکن اِس موقع پر اگر اِنعقادِ میلاد کے بعض قابلِ اِعتراض پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُنہیں برقرار رہنے دیا جائے تو ہم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض و برکات سے محروم رہیں گے۔ جب تک اس پاکیزہ جشن میں طہارت، نفاست اور کمال درجہ کی پاکیزگی کا خیال نہیں رکھا جائے گا سب کچھ کرنے کے باوجود اِس سے حاصل ہونے والے مطلوبہ ثمرات سمیٹنا تو درکنار ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی مول لیں گے۔ محفلِ میلاد ہو یا جلوسِ میلاد، یہ سارا اِہتمام چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کے سلسلہ میں ہوتا ہے، لہٰذا اس کا تقدس برقرار رکھنا اُسی طرح ضروری ہے جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس کے آداب ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ماحول کی پاکیزگی کو خرافات اور خلافِ شرع بے ہودہ کاموں سے آلودہ نہ ہونے دیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ جشنِ میلاد کے موقع پر محفلیں منعقد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا، جانی و مالی، علمی و فکری غرضیکہ ہر قسم کی قربانی کا جذبہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ صبح و شام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے علاوہ اپنی اُمت کے دوسرے نیک و بد اَعمال بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے کام دیکھ کر خوشی کا اظہار فرماتے ہیں اور برائی دیکھ کر ناراضگی اور اَفسوس کا اظہار کرتے ہیں۔( بزار، البحر الزخار (المسند)، 5 : 308، 309، رقم : 1925)(ابن ابی اسامۃ نے اِسے صحیح سند کے ساتھ ’’مسند الحارث (2 : 884، رقم : 953)‘‘ میں روایت کیا ہے۔)(حکيم ترمذي، نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلي الله عليه وآله وسلم، 4 : 176)(ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 183، رقم : 686)(قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم، 1 : 19)(ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (9 : 24)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث بزار نے روایت کی ہے اور اِس کے تمام رجال صحیح ہیں۔)(ابن کثير، البداية والنهاية، 4 : 257)(ابو الفضل عراقی نے ’’طرح التثریب فی شرح التقریب (3 : 297)‘‘ میں اس روایت کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔)

ربیع الاول وہ ماہِ ذی شان ہے جس کی مبارک ساعتوں کو اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزماں کی ولادت اور ورودِ مسعود کےلئے منتخب کیا ۔ اس ماہ کا چاند نویدِ مسرت بن کر اہل ایمان کے قلوب و اذہان کوجوشِ محبت سے معمور کر دیتا ہے۔ اس لئے کہ یہی وہ گھڑی تھی جب سب کہہ اٹھے!

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

ماہِ ربیع الاول کے ایام میں اہلِ اسلام کے خواص و عوام کا صدیوں سے معمول ہے کہ وہ محافل میلاد کا اہتمام کرتے ہیں، کثرت سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور عقیدت و مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔

مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ شیطان کے پیروکار، بعض دنیا دار نیکی کے ان کو مواقع ضائع کر دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے اطوارِ زمانہ کے ساتھ ساتھ محافل میلاد بھی ایسی خرافات کا شکار ہوتی نظر آ رہی ہیں اور ایسے مشاغل و معمولات کو فروغ مل رہا ہے جو جشن میلاد کے تقدس کے منافی اور شریعت مطہرہ کی روح سے متصادم ہیں۔ مثلاً بعض علاقوں میں جلوس میلاد میں غیر شرعی و غیر اخلاقی حرکات ڈھول، باجے، دھمال، لُڈی جیسے قبیح افعال رواج پکڑ رہے ہیں جس سے ان جلوسوں کا تقدس مجروح ہو رہا ہے۔

”بعض غیر معتدل لوگ ہر نیک اور اچھے کام میں حرص و ہوس کے تقاضے سے بُرائی کے راستے نکال لیتے ہیں اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض شہروں میں عید میلاد کے جلوس کے تقدس کو بالکل پامال کر دیا گیا۔ جلوس تنگ راستے سے گزرتا ہے اور مکانوں کی کھڑکیاں اور بالکونیوں سے نوجوان لڑکیاں اور عورتیں شرکاءجلوس پر پھول وغیرہ پھینکتی ہیں۔ اوباش نوجوان خلاف اخلاق حرکتیں کرتے ہیں۔ جلوس میں مختلف گاڑیوں پر فلمی گانوں کی ریکارڈنگ ہوتی ہے اور نوجوان لڑکے فلمی گانوں کی دُھن پر ناچتے ہیں اور مساجد میں نماز کے اوقات کا کوئی احترام نہیں کیا جاتا، جلوس چلتا رہتا ہے۔

محافل میلاد سے متعلقہ چند اہم مسائل ۔ فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں

(1)  محافل میلاد اور جلوس میلاد وغیرہ میں ڈھول باجے وغیرہ لے جانا جائز نہیں اور جن محافل میں ایسے آلات لہو و لعب کا استعمال ہو، ان میں جانا جائز نہیں، خواہ انہیں محافل میلاد (عرس، گیارہویں وغیرہ) کا نام ہی کیوں نہ دیا جاتا ہو۔
(2) جس شخص کی نسبت معروف و مشہور ہو کہ معاذ اللہ وہ حرام کار ہے اس سے میلاد شریف پڑھوانا، اسے سٹیج پر بٹھانا منع ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ شہرت صحیح ہو، جھوٹی بے معنی تہمت نہ ہو کیونکہ آج کل اکثر ناخدا ترس محض جھوٹے وہم کی وجہ سے مسلمان پر تہمت لگا دیتے ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 737)

بالکل اسی طرح ہماری یہ میلاد کی خوشیاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اگر ان میں صدق و اخلاص شامل نہیں ہوگا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری ایسی محفلوں کے انعقاد سے کیا مسرت ہوگی؟ اور اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر کی جانے والی اس تقریب کو کیوں کر شرفِ قبولیت سے نوازے گا ؟ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ صدقہ و خیرات میں کثرت اور اِظہارِ مسرت کے لیے بڑے بڑے جلسے جلوس اُس بارگاہ میں باعثِ شرف و قبولیت نہیں جب تک کہ ظاہری عقیدت میں اخلاصِ باطن اور حسنِ نیت شامل نہ ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت اور ادب و تعظیم ہی ہمارے ہر عمل کی قبولیت کی اَوّلیں شرائط میں سے ہیں۔

محفل میلاد کے تقاضوں میں خلوص و تقویٰ کے ساتھ ساتھ ظاہری و باطنی طہارت بھی انتہائی ضروری ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چوں کہ خود صفائی کو انتہائی پسند فرماتے تھے، اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں ہر طرح کی صفائی، طہارت اور پاکیزگی کا خیال رکھا جاتا تھا اُسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے منعقد ہونے والی محافل و مجالس میں بھی ہمیں کمال درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر چاہیں تو اپنے غلاموں کی ان محافل میں اپنے روحانی وجود کے ساتھ تشریف لاتے ہیں۔ یہاں اسی سلسلہ میں ایک مثال سے اس اَمر کی توثیق کی جاتی ہے : مولانا عبد الحئ فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ حقہ پیتے تھے۔ ایک دفعہ محفل میلاد منعقد تھی۔ حقہ پی کر جلدی سے بغیر کلی کیے محفل میں چلے آئے، بیٹھے بیٹھے اونگھ آگئی۔ خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمانے لگے : ’’عبد الحئ! تمہیں اِحساس نہیں کہ ہماری محفل میں حقہ پی کر اسی بدبودار منہ کے ساتھ آگئے ہو؟

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت مبارکہ اتنی پاک، منزہ اور لطیف تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لہسن اور پیاز وغیرہ کھا کر مسجد میں آنے سے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو منع فرماتے تھے۔(مسلم، الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب نهي من أکل ثوماً أو بصلاً أو کراثاً أو نحوهما، 1 : 394، رقم : 561)(أبو داود، السنن، کتاب الأطعمة، باب في أکل الثوم، 3 : 160، 161، رقم : 3824، 3825)

ایسے کئی واقعات ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاص غلاموں کو جس طرح ظاہری حیاتِ طیبہ میں ایسی بدبودار اشیاء استعمال کرنے سے روکتے تھے بعداَز وصال بھی اسی طرح حکماً یا اشارتًا منع فرماتے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1114۔ 1174ھ) ’’الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کی اٹھائیسویں حدیث میں اپنے والد گرامی شاہ عبد الرحیم (1054۔ 1131ھ) کے حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں : دو صالح آدمیوں۔ جن میں سے ایک عالم بھی تھا اور عابد بھی، جب کہ دوسرا عابد تھا عالم نہ تھا۔ کو ایک ہی وقت اور ایک ہی حالت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں صرف عابد کو بیٹھنے کی اجازت دی گئی، عالم اس سے محروم رہا۔ چنانچہ اس عابد نے بعد میں لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا ماجرا ہے؟ اس عالم کو اس سعادت سے کیوں محروم رکھا گیا؟ تو اُسے بتایا گیا کہ وہ حقہ پیتا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقہ ناپسند فرماتے ہیں۔ دوسرے دن یہ عابد اس عالم کے پاس گیا تو دیکھا کہ عالم اپنی اس محرومی پر زار و قطار رو رہا ہے۔ جب عابد نے حقیقتِ حال سے اُسے آگاہ کیا اور محرومی کا اصل سبب بتایا تو عالم نے اسی وقت تمباکو نوشی سے توبہ کرلی۔ پھر اگلی شب دونوں نے اسی طرح بیک وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور اِس بار عالم کو مجلس میں نہ صرف حاضری کا شرف بخشا گیا بلکہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے پاس بٹھایا۔ (الدر الثمين في مبشرات النبي الأمين صلي الله عليه وآله وسلم : 43، 44)

خواتین کی محافل میلاد

عورتوں کی محافل میلاد میں شرکت دو طر ح کی ہوتی ہے، ایک یہ کہ ایک ہی محفل میلاد میں خواتین کےلئے پردے کا علیحدہ انتظام ہوتا ہے ایسی محافل درحقیقت مردوں ہی کے لئے ہوتی ہیں تاہم پردے کا اہتمام کر کے عورتوں کو بھی شرکت کا موقع دیا جاتا ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلویؒ سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا توآپ نے جواباً ارشاد فرمایا:واعظ یا میلاد خوان اگر عالم سُنی صحیح العقیدہ ہو 2۔ اس کا وعظ و بیان صحیح و مطابق شرع ہو 3۔ جانے میں پوری احتیاط اور کامل پردہ ہو 4۔ کوئی احتمال فتنہ نہ ہو 5۔ مجلس رجال سے ان کی نشست دور ہو تو حرج نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 22 صفحہ 239) ۔یعنی ایسی محافل میلاد میں شرکت کےلئے مذکورہ بالا شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ورنہ عوتوں کو ایسی محافل میں جانے کی اجازت نہیں۔ جہاں مرد و زن میں بے پردگی کا اندیشہ ہو۔ خواہ وہ محافل میلاد ہو یا اس قسم کی دیگر محافل عرس و گیارہویں شریف۔

امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلویؒ سے سوال کیا گیا کہ چند عورتیں ایک ساتھ مل کر گھر میں میلاد شریف پڑھتی ہیں اور آواز باہر سُنائی دیتی ہے یہ جائز ہے یا نہیں؟ آپ نے جواب میں لکھا کہ ناجائز ہے کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے۔ عورت کی خوش الحانی کو اجنبی سے محل فتنہ ہے۔ (فتاویٰ رضویہ) ۔ایسے ہی ایک اور سوال کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا: ”عورتوں کا اس طرح (مولود شریف) پڑھنا کہ ان کی آواز نامحرم سُنیں، باعثِ ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے۔“

 دیگر مجالس کی طرح محافل میلاد میں شرکت تب ہی جائز ہے جب اس میں خلافِ شرع امور کا ارتکاب نہ ہو اگر وہ شرعی احکام کی خلاف ورزی اور ناپسندیدہ بدعات سے پاک نہ ہو تو اس میں شرکت نہیں کرنی چاہےے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 133) اور جب مجلس میلاد منکراتِ شرعیہ سے خالی ہو تو اس میں شرکت کرنا عظیم سعادت ہے۔

اگر محافل میلاد منکرات شرعیہ سے پاک ہوں اور ان میں آداب کا لحاظ رکھا گیا ہو تو ایسی محافل موجب برکت اور ان میں شرکت ذریعہ سعادت ہے اور اگر ان میں امور مکروہہ کا ارتکاب ہو تو وہ موجب خسارہ اور ان میں شرکت باعث ہلاکت ہوتی ہے۔
 ہم سب کیلئے ضروری ہے اس موقع (میلاد النبی) پر ایسی محافل کے انعقاد کو فروغ دیں جن میں آداب کو لحاظ رکھا گیا ہو اور وہ ہر قسم کی منکرات شرعیہ، اورخرافات سے پاک ہوں۔ صرف اسی صورت میں ان محافل کو عوام الناس کےلئے مفید سے مفید تر بنایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ ”اگر کوئی مجلس فی نفسہ منکرات شرعیہ پر مشتمل نہ ہو اور نہ ہی اس میں وہ افعال کےے جائیں جو مقاصد کے مختلف ہونے یا حالات کے بدلنے سے حسن و قبیح میں مختلف ہو جائیں مثلاً سماعِ مجروہ (بغیر مزامیر کے قوالی) اور نہ ہی ایسی باتیں ہوں جو دقت اور گہرائی کی وجہ سے ناقص فہم لوگوں کےلئے فتنہ کا باعث بنیں جیسے وحدت الوجود کے دقیق مسائل اور تصوف کے مشکل دقائق یعنی وہ مجلس خال اور مال ہر لحاظ سے تمام تر منکرات اور فتنوں سے خالی ہو تو اس میں عموم اذن (اجازت عام ہونا) اور شمول دعوت (دعوت میں شامل ہونا) میں حرج نہیں بلکہ مجلس وعظ و پند میں شرعی حدود کی پابندی جس قدر عام (اور زیادہ ہو گی) اسی قدریہ مجلس نفع کے لحاظ سے تام (کامل اور مفید تر) ہو گی۔“ (فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 147-148)

المختصر علماءاسلام پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو اس مجلس میں درپیش آنے والے تمام قبائح و منکرات سے آگاہ کریں اور جہاں خلافِ شرع امور کا ارتکاب ہو وہاں جانے سے روکیں۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔