Monday, 20 November 2017

قرآن پاک اور ذکر میلاد انبیاء کرام علیہم السّلام حصّہ دوم


قرآن پاک اور ذکر میلاد انبیاء کرام علیہم السّلام حصّہ دوم

قرآن مجید نے آگے ولادتِ یحییٰ علیہ السلام کے ذکرِ رحمت کو تسلسل سے یوں بیان فرمایا ہے : إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّاO قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّاO وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّاO يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّاO يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلاَمٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّاO قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّاO قَالَ كَذَلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًاO قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَ لَيَالٍ سَوِيًّاO فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّاO يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّاO وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّاO وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّاO وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا۔
ترجمہ : جب انہوں نے اپنے رب کو (ادب بھری) دبی آواز سے پکاراo عرض کیا : اے میرے رب! میرے جسم کی ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور بڑھاپے کے باعث میرا سر آگ کے شعلہ کی مانند سفید ہوگیا ہے، اور اے میرے رب! میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہاo اور میں اپنے (رخصت ہوجانے کے) بعد (بے دین) رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں (کہ وہ دین کی نعمت ضائع نہ کر بیٹھیں)، اور میری بیوی (بھی) بانجھ ہے، سو تو مجھے اپنی (خاص) بارگاہ سے ایک وارث (فرزند) عطا فرماo جو (آسمانی نعمت میں) میرا (بھی) وارث بنے اور یعقوب کی اولاد (کے سلسلۂ نبوت) کا (بھی) وارث ہو، اور اے میرے رب! تو (بھی) اسے اپنی رضا کا حامل بنالےo (ارشاد ہوا : ) اے زکریا! بے شک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوش خبری سناتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا، ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی ہم نام نہیں بنایاo (زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوسکتا ہے درآنحالیکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود بڑھاپے کے باعث (انتہائی ضعف میں) سوکھ جانے کی حالت کو پہنچ گیا ہوںo فرمایا : (تعجب نہ کرو) ایسے ہی ہوگا تمہارے رب نے فرمایا ہے یہ (لڑکا پیدا کرنا) مجھ پر آسان ہے، اور بے شک میں اس سے پہلے تمہیں (بھی) پیدا کرچکا ہوں اس حالت سے کہ تم (سرے سے) کوئی چیز ہی نہ تھےo (زکریا نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما، ارشاد ہوا : تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم بالکل تندرست ہوتے ہوئے بھی تین رات (دن) لوگوں سے کلام نہ کر سکو گےo پھر (زکریا علیہ السلام ) حجرۂ عبادت سے نکل کر اپنے لوگوں کے پاس آئے تو ان کی طرف اشارہ کیا (اور سمجھایا) کہ تم صبح و شام (اللہ کی) تسبیح کیا کروo اے یحییٰ! (ہماری) کتاب (تورات) کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اور ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت و بصیرت (نبوت) عطا فرما دی تھیo اور اپنے لطفِ خاص سے (انہیں) درد و گداز اور پاکیزگی و طہارت (سے بھی نوازا تھا)، اور وہ بڑے پرہیزگار تھےo اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بڑی نیکی (اور خدمت) سے پیش آنے والے (تھے) اور (عام لڑکوں کی طرح) ہرگز سرکش و نافرمان نہ تھےo اور یحییٰ پر سلام ہو اُن کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔(مريم، 19 : 3 - 15)
سورہ مریم کا پہلا پورا رکوع میلادِ یحییٰ علیہ السلام کے بیان کے لیے وقف ہے، جس میں پہلے ان کے میلاد کا ذکر ہے کہ کیسے ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام نے ان کی ولادت کے لیے عالمِ پیری میں دعا کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کی خوش خبری سنائی۔ جب انہوں نے تعجب کا اظہار کیا تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا بیان فرمایا۔ الغرض حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کے وقت اﷲ تعالیٰ اور اس کے محبوب پیغمبر کے درمیان جو مکالمہ ہوا قرآن کریم نے تفصیل سے بیان کیا۔ پھر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے روحانی مقامات اور سیرت کے چند خصوصی گوشوں کا بھی تذکرہ کیا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت سے آغاز کرکے ان کی سیرت کے مختلف پہلو بیان کرنے کے بعد بات ان کے یومِ میلاد، یومِ وصال اور یومِ بعثت (قیامت کے دن اٹھائے جانے) پر سلام کے ساتھ ختم کی۔ قرآن حکیم کا ان جزئیات کو بیان کرنے کا مقصد صر ف ایک برگزیدہ نبی حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور پڑھنے والوں کے ذہنوں میں اسے جاگزیں کرنا ہے۔ یہ تھا میلاد نامۂ یحییٰ علیہ السلام جس کی قرآن حکیم میں تلاوت کی جاتی ہے۔

میلاد نامۂ عیسیٰ علیہ السلام
حضرت مریم علیھا السلام کے میلاد نامہ کے بعد ان کے فرزند حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا میلاد نامہ بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ مریم کا ایک مکمل رکوع میلاد نامۂ عیسیٰ علیہ السلام پر مشتمل ہے جس میں ان کی ولادت سے قبل ان کی والدہ ماجدہ کو بیٹے کی خوش خبری دی گئی۔ اس کی تفصیل قرآن مجید یوں بیان کرتا ہے :إِذْ قَالَتِ الْمَلآئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَO وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَمِنَ الصَّالِحِينَO قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ قَالَ كَذَلِكِ اللّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ۔
ترجمہ : جب فرشتوں نے کہا : اے مریم! بے شک اللہ تمہیں اپنے پاس سے ایک کلمۂ (خاص) کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا، وہ دنیا اور آخرت (دونوں) میں قدر و منزلت والا ہوگا اور اللہ کے خاص قربت یافتہ بندوں میں سے ہوگاo اور وہ لوگوں سے گہوارے میں اور پختہ عمر میں (یکساں) گفتگو کرے گا اور وہ (اللہ کے) نیکوکار بندوں میں سے ہوگاo (مریم نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے ہاں کیسے لڑکا ہوگا درآنحالیکہ مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا! ارشاد ہوا : اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، جب کسی کام (کے کرنے) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو اس سے فقط اتنا فرماتا ہے کہ ’ہو جا‘ وہ ہوجاتا ہے ۔ (سورہ آل عمران، 3 : 45 - 47)
اس کے بعد تفصیل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر کرتے ہوئے حسبِ سابق چھوٹی چھوٹی جزئیات بھی بیان ہوئیں کہ کس طرح جبرئیل امین علیہ السلام آئے اور انہوں نے روح پھونکی اور حضرت مریم علیھا السلام اُمید سے ہوئیں۔ وضعِ حمل کے وقت حضرت مریم علیھا السلام کو تکلیف ہوئی، قرآن کریم نے ان کی اس تکلیف کا بھی ذکر کیا اور بہ تقاضائے نسوانیت ان کا شرمانا بھی بیان فرمایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب وہ خلوت گزیں ہوگئیں تو اس کا بھی ذکر کیا۔ پھر یہ بیان کیا کہ کس طرح تکلیف کو رفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے چشمے کا شیریں پانی مہیا کیا، تازہ کھجوریں دیں جن کے کھانے سے تکلیف دور ہو گئی۔ عین لمحۂ ولادت کا ذکر کیا۔ ولادت کے بعد جب وہ نومولود کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے گئیں اور انہوں نے طعنے دیئے، ان طعنوں کا ذکر کیا اور طعن و تشنیع کے جواب میں پنگھوڑے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کلام کرنے کا ذکر کیا۔ یہ سارے اَحوال اﷲ رب العزت نے یوں بیان فرمائے ہیں :وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّاO فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّاO قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَنِ مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّاO قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاَمًا زَكِيًّاO قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّاO قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّاO فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّاO فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّاO فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلاَّ تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّاO وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّاO فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّاO فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُواْ يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّاO يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّاO فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّاO قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّاO وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّاO وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّاO وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّاO ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَO مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَهُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ۔
ترجمہ : اور (اے حبیبِ مکرم!) آپ کتاب (قرآن مجید) میں مریم کا ذکر کیجئے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر (عبادت کے لیے خلوت اختیار کرتے ہوئے) مشرقی مکان میں آگئیںo پس انہوں نے ان (گھر والوں اور لوگوں) کی طرف سے حجاب اختیار کر لیا (تاکہ حسنِ مطلق اپنا حجاب اٹھا دے) تو ہم نے ان کی طرف اپنی روح (یعنی فرشتہ جبرئیل) کو بھیجا، سو جبرئیل ان کے سامنے مکمل بشری صورت میں ظاہر ہواo (مریم نے) کہا : بے شک میں تجھ سے (خدائے) رحمان کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو (اللہ) سے ڈرنے والا ہےo (جبرئیل نے) کہا : میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں (اس لیے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروںo (مریم نے) کہا : میرے ہاں لڑکا کیسے ہوسکتا ہے جب کہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں اور نہ ہی میں بدکار ہوںo (جبرئیل نے) کہا : (تعجب نہ کر) ایسے ہی ہوگا، تیرے رب نے فرمایا ہے : یہ (کام) مجھ پر آسان ہے، اور (یہ اس لیے ہوگا) تاکہ ہم اسے لوگوں کے لیے نشانی اور اپنی جانب سے رحمت بنا دیں اور یہ امر (پہلے سے) طے شدہ ہےo پس مریم نے اسے پیٹ میں لے لیا اور (آبادی سے) الگ ہو کر دور ایک مقام پر جا بیٹھیںo پھر دردِ زہ انہیں ایک کھجور کے تنے کی طرف لے آیا وہ (پریشانی کے عالم میں) کہنے لگیں : اے کاش! میں پہلے سے مرگئی ہوتی اور بالکل بھولی بسری ہو چکی ہوتیo پھر ان کے نیچے کی جانب سے (جبرئیل نے یا خود عیسیٰ نے) انہیں آواز دی کہ تو رنجیدہ نہ ہو، بے شک تمہارے رب نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے (یا تمہارے نیچے ایک عظیم المرتبہ انسان کو پیدا کر کے لٹا دیا ہے)o اور کھجور کے تنا کو اپنی طرف ہلاؤ وہ تم پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرا دے گاo سو تم کھاؤ اور پیو اور (اپنے حسین و جمیل فرزند کو دیکھ کر) آنکھیں ٹھنڈی کرو، پھر اگرتم کسی بھی انسان کو دیکھو تو (اشارے سے) کہہ دینا کہ میں نے (خدائے) رحمان کے لیے (خاموشی کے) روزہ کی نذر مانی ہوئی ہے، سو میں آج کسی انسان سے قطعاً گفتگو نہیں کروں گیo پھر وہ اس (بچے) کو (گود میں) اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آگئیں، وہ کہنے لگے : اے مریم! یقیناً تو بہت ہی عجیب چیز لائی ہےo اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدچلن تھیo تو مریم نے اس (بچے) کی طرف اشارہ کیا، وہ کہنے لگے : ہم اس سے کس طرح بات کریں جو (ابھی) گہوارہ میں بچہ ہےo (بچہ خود) بول پڑا : بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھے نبی بنایا ہےo اور میں جہاں کہیں بھی رہوں اس نے مجھے سراپا برکت بنایا ہے اور میں جب تک بھی زندہ ہوں اس نے مجھے زکوٰۃ اور نماز کا حکم فرمایا ہےo اور اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور اس نے مجھے سرکش و بدبخت نہیں بنایاo اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کے دن اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گاo یہ مریم کے بیٹے عیسیٰ ہیں، (یہی) سچی بات ہے جس میں یہ لوگ شک کرتے ہیںo یہ اللہ کی شان نہیں کہ وہ (کسی کو اپنا) بیٹا بنائے، وہ (اس سے) پاک ہے جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اسے صرف یہی حکم دیتا ہے ’’ہو جا‘‘ پس وہ ہوجاتا ہے ۔( سورہ مريم، 19 : 16 - 35)

میلاد نامۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سابقہ مضمون میں ہم نے ’’میلادنامۂ انبیاء علیھم السلام ‘‘ کے عنوان سے ان انبیاء کرام علیھم السلام کے میلاد نامے بیان کیے جن کا میلاد خواں خود اللہ تعالیٰ ہے۔ قرآن مجید کے حوالے سے ان انبیاء کرام علیھم السلام کے میلاد نامے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انبیاء کرام علیھم السلام کی ولادت کے واقعات، ان کے کمالات و برکات اور ان پر رب کریم کی عنایات کا ذکر کرنا سب سنتِ الٰہیہ اور ان کا بار بار دہرانا قرآنِ مجید کا منشاء ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے انبیاء کرام کا ذکر تو قرآن مجید میں آیا ہے، کیا حضور علیہ السلام کی ولادت کا ذکر بھی قرآن مجید میں ہے؟ اس کا جواب اثبات میں ہے۔ قرآن مجید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا تذکرہ بھی موجود ہے ۔ مطالعۂ قرآن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے برگزیدہ انبیاء کرام علیھم السلام کی ولادت کا ذکر فرما کر ان کی شان کو اجاگر کیا ہے۔ یہی میلادنامۂ انبیاء ہے۔ اگر قرآنی آیات کے مفہوم پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ربِ کریم نے امام الانبیاء حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جتنے بھی انبیاء علیھم السلام کا ذکر کیا وہ فقط ذکرِ ولادت تک محدود تھا، مگر جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا تو اس شانِ امتیاز کے ساتھ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی نسبت سے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہرِ ولادت بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباو واجداد اور خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا : لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ ۔
ترجمہ : میں اس شہر (مکہ) کی قسم (اے حبیبِ مکرم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo (اے حبیبِ مکرم! آپ کے) والد (آدم علیہ السلام یا ابراہیم علیہ السلام ) کی قسم اور (ان کی) قسم جن کی ولادت ہوئی ۔ (سورہ البلد، 90 : 1 - 3)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے شہر مکہ کو اس وجہ سے لائقِ قسم نہیں ٹھہرایا کہ وہاں بیت اللہ، حجرِ اسود، مطاف، حطیم، ملتزم، مقامِ ابراہیم، چشمۂ زَم زَم، صفا و مروہ، میدانِ عرفات، منیٰ اور مزدلفہ ہیں، بلکہ قسم اٹھانے کی وجہ قرآن کی رُو سے یہ ہے کہ اس شہر کو محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے سکونت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے شہر مکہ کی قسم صرف اس لیئے اٹھائی کہ وہ اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسکن ہے، پھر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملہ آباء و اَجداد کی قسم اٹھائی۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کے پیدا ہونے کی قسم نہیں اٹھائی بلکہ صرف ایک ہستی کی ولادت کی قسم اٹھائی ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر یوں کیا ہے : كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ.
ترجمہ : اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے (اپنا) رسول بھیجا۔(البقره، 2 : 151)

لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ ۔ ترجمہ : بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے عظمت والا رسول بھیجا۔ (سورہ آل عمران، 3 : 164)

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَآمِنُواْ خَيْرًا لَّكُمْ.
ترجمہ : اے لوگو! بے شک تمہارے پاس یہ رسول تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تشریف لایا ہے سو تم (ان پر) اپنی بہتری کے لیے ایمان لے آؤ۔ (سورۃ النساء، 4 : 170)

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُواْ عَن كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ۔
ترجمہ:اے اہلِ کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے درگزر (بھی) فرماتے ہیں، بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)(سورۃ المائدة، 5 : 15)

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُواْ مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلاَ نَذِيرٍ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۔
ترجمہ:اے اہلِ کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ آخر الزمان) رسول پیغمبروں کی آمد (کے سلسلے) کے منقطع ہونے (کے موقع) پر تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے (ہمارے احکام) خوب واضح کرتے ہیں، (اس لیے) کہ تم (عذر کرتے ہوئے یہ) کہہ دو گے کہ ہمارے پاس نہ (تو) کوئی خوش خبری سنانے والا آیا ہے اور نہ ڈرانے والا، (اب تمہارا یہ عذر بھی ختم ہو چکا ہے کیونکہ) بلاشبہ تمہارے پاس (آخری) خوش خبری سنانے اور ڈرانے والا (بھی) آگیا ہے، اور اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے ۔(سورۃالمائده، 5 : 19)

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔
ترجمہ : بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول تشریف لائے، تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں ۔(التوبه، 9 : 128)

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ۔ ترجمہ : اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر ۔ ( سورۃ الأنبياء، 21 : 107)

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ۔ ترجمہ : وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک (باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو بھیجا وہ ان پر اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور ان (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بے شک وہ لوگ ان (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔ ( سورۃ الجمعة، 62 : 2)

إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا. ترجمہ : بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا ہے۔ (سورۃ المزمل، 73 : 15)
مذکورہ بالا آیات میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس جہانِ رنگ و بو میں تشریف آوری کا ذکر در حقیقت ذکرِ ولادت ہی ہے۔ ان آیات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ذکر بلا اِستثنا تمام نسلِ انسانی کے لیے کیا ہے۔ اس میں تمام اہلِ ایمان کے علاوہ جمیع اہلِ کتاب اور کفار و مشرکین شامل ہیں۔ ہر ایک کو مطلع کیا گیا کہ حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کو تمام کائنات کے لیے نعمت اور رحمت قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کا ذکر اِس قدر اِہتمام اور تواتر سے کیا ہے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ معمول کی بات ہے۔
ان آیاتِ مقدسہ کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو یہ سمجھا دیا کہ میرے محبوب کی ولادت کا ذکر قیامت تک آنے والی نسلوں پر لازِم ہے۔ لہٰذا یہ سوچ۔ کہ ولادت کا ذکر کرنے کا کیا فائدہ؟۔ قرآن مجید کی سینکڑوں آیات سے انکار کے مترادف ہے کیوں کہ انبیاء علیھم السلام کی ولادت کا ذکر کرنا اور ان کا میلاد نامہ قرآن حکیم میں بیان کر کے اس کی تلاوت کا حکم دینا منشائے خداوندی ہے۔ جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بہ عنوان میلاد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری اور سنت کی ادئیگی کر رہے ہوتے ہیں۔ اگران آیات کے مفہوم پر۔ جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور برگزیدہ بندوں کی ولادت کا بیان کیا ہے۔ غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان آیات میں بیان کردہ واقعات کا اُمتِ مسلمہ کی تعلیم و تربیت سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں سوائے اس کے کہ ان سب کا مقصود میلاد نامہ انبیاء علیھم السلام کا بیان ہے۔
اللہ رب العزت نے اپنے برگزیدہ انبیاء علیھم السلام کی ولادت کا ذکر اس قدر اہتمام سے کیا ہے کہ انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے خیال تک کو بھی بیان کیا۔ میلاد نامہ یحییٰ علیہ السلام پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام مریم علیھا السلام کے حجرہ میں تشریف لے گئے اوران کے پاس بے موسم پھل دیکھے تو اسی جگہ اولاد کے لیے دعا مانگی، پھر جب ان کو خوش خبری ملی کہ بیٹا عطا ہوگا تو دل میں بشری تقاضے کے تحت ایک خیال پیدا ہوا کہ میں اتنا بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہو چکی ہے تو میرے ہاں بیٹا کیسے پیدا ہوگا؟ یہ خیال آتے ہی اللہ کی بارگاہ میں سوال کیا تو قرآن حکیم نے اس خیال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوال کا بھی ذکر کیا، پھر اﷲ تعالیٰ نے اس سوال کا جو جواب دیا اس کا ذکر بھی فرمایا۔
اسی طرح میلاد نامہ عیسیٰ علیہ السلام کا مطالعہ بھی بڑا ایمان افروز اور فکر انگیز ہے۔ اس کی بعض جزئیات پڑھ کر ذہن میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس قدر عام چیزیں بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی : جیسے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے لے کر ولادتِ عیسیٰ علیہ السلام تک لمحہ بہ لمحہ واقعات کا ذکر، دردِ زہ کی تکلیف کا تذکرہ، اور یہ کہ حضرت مریم علیھا السلام نے پریشانی کے عالم میں کہا : ’’اے کاش! میں پہلے سے مرگئی ہوتی اور بالکل بھولی بسری ہوچکی ہوتی۔‘‘ اس قسم کی باتیں ذکر کرکے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُمتِ مسلمہ کو یہ شعور عطا کیا کہ جس طرح قرآن مجید دیگر انبیاء علیھم السلام کی ولادت کے باب میں بہت سے واقعات بیان کرتا ہے اُسی طرح جب حبیب کبریاء سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات آئے اور ان کی ولادت کا ذکر چھڑے تو تم حضرت آدم علیہ السلام سے بات شروع کرتے ہوئے حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ کا ذکر کرو اور سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کی گود سے لے کر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا کے گاؤں تک کے سارے واقعات بیان کرو اور جو کمالات و برکات مشاہدے میں آئے ان کا بھی ذکر کرو، یہی سنتِ الٰہیہ اور منشائے قرآن ہے۔ دیگر انبیاء علیھم السلام کا ذکر تو وحیء الٰہی کے ذریعے حضور علیہ السلام نے کیا اور ظاہر ہے کہ آپ علیہ السلام کا ذکر بعد میں آنے والوں نے ہی کرنا تھا۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور کوئی نبی نہیں آئے گا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر آپ کی امت نے کرنا ہے۔
میلاد نامۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہی واقعات کا بیان ہے جو آقا علیہ السلام کی ولادت باسعادت سے قبل اور ولادت کے وقت ظہور میں آئے۔
نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تک کس طرح پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوتا رہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر کیا کیا احسانات فرمائے۔ عاشقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں توسارا سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے نغمے الاپتے رہتے ہیں لیکن جونہی ماہِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ر بیع الاوّل آتا ہے ان کی محبت شعلہ جوالہ بن جاتی ہے، وہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ عظمیٰ کے حسین تذکروں سے اپنے قلوب و اَذہان منّور کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا پیغام عام کرنے کے لیے محافلِ میلاد کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ ان محافل میں محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ یہ بڑا ایمان افروز سماں ہوتا ہے۔ اس موقع پرکوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زلف و رخسار کی بات کرتا ہے توکوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ فرحت آثار کی، کوئی گنبد خضراء کا حسین منظر بیان کرتا ہے تو کوئی روضہ اقدس کی سنہری جالیوں کی بات کرتا ہے، کوئی شہرِ مدینہ کے گلی کوچوںکی تو کوئی اس شہرِدل نواز کی روشنیوں اور رونقوں کی بات کرتا ہے، کوئی سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کے گھر کا تذکرہ کرتا ہے تو کوئی حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا کے آنے اور آقا علیہ السلام کو ساتھ لے جانے کی بات کرتا ہے، کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن کی بات کرتا ہے تو کوئی لڑکپن کی اور کوئی چودہ سو سال پیچھے پلٹ کر شہر مکہ کی وادی میں آقا علیہ السلام کے خرامِ ناز کا حسین تذکرہ چھیڑ دیتا ہے، الغرض اس مہینے میں فقط محبت کے ترانے گونجتے ہیں، محبت کے تذکرے ہوتے ہیں، آقا علیہ السلام کی ولادت اور بچپن کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے کہ عشق کے یہ ترانے سن کر اہلِ ایمان کے دلوں کے اندر موجود خوابیدہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاگ اٹھے۔

قرآن مجید کے حوالے سے انبیاء علیھم السلام کے میلاد ناموں کے بیان سے اس سوال کا رَدّ ہوجاتا ہے کہ میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان کے تحت یہ بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ کس طرح نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی پشت میں آیا؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کس طرح ہوئی؟ وغیرہ۔ قرآن مجیدمیں مذکور انبیاء کرام علیھم السلام کے احوال و واقعاتِ میلاد پڑھ کر بھی اگر کوئی یہ سوچے اور سمجھے کہ ان چیزوں کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تو یہ معترض کی قرآن حکیم کی صریح آیات سے ناواقفیت، محض ہٹ دھرمی اور کم علمی کی دلیل ہے۔

اِس پوری تفصیل کے ذریعے قرآن مجید کے حوالہ سے یہ نکتہ سمجھانا مقصود ہے کہ انبیاء علیھم السلام کے میلاد ناموں، واقعاتِ ولادت، کمالات و برکات اور ان پر ہونے والی اُلوہی عنایات کا ذکر کرنا اللہ کی سنت ہے۔ انہیں خود قرآن مجید میں بارہا اللہ رب العزت نے کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ اس حوالہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ذکر کرنا بھی سنتِ الٰہیہ کے زمرے میں آتا ہے جسے قیامت تک آنے والے محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بجالاتے رہیں گے۔ یہ ذکر کیسے ہوگا ؟ اس ذکر کا طریقہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے سمجھا دیا ہے۔ جب ہم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات و واقعات کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بھی سابقہ انبیاء علیہم السلام کے ذکرِ میلاد کی طرح اللہ رب العزت کی سنت اور منشائے قرآن کے عین مطابق ہوتا ہے۔ سابقہ مضمون میں ہم نے تفصیل سے بیان کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے انبیاء علیھم السلام کے میلاد نامے بیان کرتے ہوئے معمولی اُمور بھی نظرانداز نہیں کیے۔ اسی طریقہ اور سنتِ اِلٰہیہ کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے آج ہم بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلقت، نورانیت اور ولادت کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زرّیں سلسلۂ نسب بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اَجداد کا تذکرہ کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت رُونما ہونے والے عجائب و غرائب اور ان خصائص و امتیازات کو بیان کرتے ہیں جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کا ذکر آتا ہے تو واقعات کی کڑیاں حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملاتے ہوئے حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے بات شروع کر کے مخدومۂ کائنات سیدہ آمنہ علیھا السلام کی آغوش اور حضرت حلیمہ سعدیہ علیھا السلام کی بستی تک پھیلاتے چلے جاتے ہیں تاکہ اس ذکرِ جمیل کی شیرینی اور حلاوت سے ہمارے قلوب و اَرواح بھی شاد کام ہوسکیں اور اس اَبدی داستانِ حسن و جمال کا پس منظر ہماری لوحِ تخیل پر نقشِ دوام ہو جائے۔ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں منعقد ہونے والی محافل میں بھی اِنہی تذکارِ رِسالت کا بیان ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ایسی محافل کا اِنعقاد (معاذ اﷲ) ناجائز ہے، درست نہیں۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...