دیابنہ اور وہابیہ کے اصولِ بدعت کے مطابق دیابنہ اور وہابیہ کا ختم بخاری بدعت ہے
دیوبند کے امام رشید احمد گنگوہی نے ختم بخاری کو جائز قرار دیا، اورآج بھی علماے دیوبند کے مختلف مدارس و مساجد میں’’ ختم بخاری ‘‘کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ایک سائل نے اسی ختم بخاری کے بارے میں دیوبندی امام سے پوچھا کہ :
سوال: کسی مصیبت کے وقت بخاری شریف کا ختم کرانا قرون ثلاثہ سے ثابت ہے یا نہیں اور بدعت ہے یا نہیں ۔
جواب: قرون ثلاثہ میں بخاری تالیف نہیں ہوئی تھی مگر اس کا ختم درست ہے کہ ذکر خیر کے بعد دعا قبول ہوتی ہے اس کا اصل شرع سے ثابت ہے بدعت نہیں ۔ (فتاوی رشیدیہ صفحہ ۱۶۶)
دیابنہ اور وہابیہ سے ہمارے سوال ؟
کیا قرآن و حدیث میں کہیں ایسا حکم موجود ہے کہ مصیبت کے وقت حدیث کا ختم کیاکرو؟یا ایسا ختم کرکے دعا کرنے کا حکم موجود ہے ؟
کیا مصیبت کے وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم نے کبھی حدیث کا ختم کیا تھا ؟
کیاخلفاے راشیدین(حضرت ابو بکرو عمر عثمان و علی علہیم الرضوان اجمعین ) سے ایسا ختم، اور ختم کے بعد دعا کرنا ثابت ہے ؟
کی اکسی صحابی رضی اللہ عنہ نے مصیبت کے وقت ختم حدیث کروایا ؟
کیا خیر القرون میں کسی ایک بزرگ نے بھی ختم حدیث کرایا ؟کسی ایک متفقہ بزرگ ہستی کا عمل دکھا دو ؟
’’کل بدعۃ ضلالۃ‘سے ( بقول وہابیہ اور دیابنہ ) جب ہر نیا عمل گمراہی ٹھہرا تو پھر مصیبت کے وقت ختم بخاری اسی حدیث سے گمراہی ٹھہرا کہ نہیں ؟
اگر نہیں تو وجہ بیان کریں اور اگر یہ عمل بدعت ہے تو پھر اس کو ذکرخیر کہنے والوں پر بھی بدعتی و جہنمی ہونا کا فتوی جاری کریں ؟
جب دین مکمل ہو چکا تو پھر دین میں ایسا عمل جاری کرنا اور اس کو ذکر خیر قرار دینا، دین میں دخل اندازی اور دین کو ناقص قرار دینے کے مترادف ہے کہ نہیں ؟
کہاں گیا آج علماے وہابیہ کا اصول ؟
گنگوہی صاحب نے کہا یہ ذکر خیر ہے تو کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم ،صحابہ اکرام یا تابعین عظام[علہیم الرضوان اجمعین ] کو اس خیر کا علم نہ تھا؟اور تم اس کو ذکر خیر قرار دے کر ان مقدس ہستیوں سے خود کوزیادہ سمجھ دار و عقل مند قرار نہیں دے رہے؟کہاں گیا آج وہ اصول ؟
بحرحال ختم بخاری ( خواہ اس کو حدیث کا ختم کہو ) اس کا ذکر نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم ،صحابہ ،تابعین و تابع تابعین ( علہیم الرضوان اجمعین ) کسی سے بھی نہیں ملتا ۔لہٰذا علماے وہابیہ کو چاہیے کہ جس طرح سنیوں کی محافل پر بدعت کے فتوے لگاتے ہیں یہاں بھی بدعت کے فتوے لگائیں ۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment