Monday, 27 November 2017

اصولِ وہابیہ و دیابنہ کے مطابق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی بدعتی ہیں

اصولِ وہابیہ و دیابنہ کے مطابق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی بدعتی ہیں

ایک حوالہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا پیش کرتا ہوں جن کا انکار وہابی حضرات بھی نہیں کر سکتے۔امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : ما وضعت فی کتابی (الصحیح) حدیثا الا اغسلت قبل ذالک وصلیت رکعتین‘‘میں نے بخاری میں ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل بھی کیا اور دو رکعت نفل بھی پڑھے ہیں۔(سیر اعلام النبلاء۱۰/۲۸۳۔مدارج النبوت جلد ۲ )۔

امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا یہی طریقہ تھا کہ : پہلے غسلکرتے اس کے بعد دو رکعت نفل پڑھتے پھر اس حدیث کی صحت کے بارے میں استخارہ کرتے اس کے بعد اس حدیث کو اپنی صحیح میں درج کرتے۔(مقدمہ بخاری صفحہ ۲۴ عبد الحکیم ۔مقدمہ فتح الباری شرح صحیح البخاری ص۵۔ابن حجر عسقلانی)۔

غیر مقلدین اہلحدیث محمد داؤد راز نے صحیح بخاری کا اردو ترجمہ و تشریح تحریر کیا جس کو مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے شائع کیا۔اس کے صفحہ34 پر بھی امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا مذکورہ عمل لکھا ہوا ہے۔

تو معلوم ہوا کہ امام المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف میں جو بھی حدیث لکھی اس سے پہلی(1)غسل کیا(2)دورکعت نفل نماز پڑھی (3) استخارہ کیا۔

یاد رہے نفل نماز اللہ کی عبادت اور اجر و ثواب کی نیت ہی سے ہی ادا کی جاتی ہے۔تو علماء وہابیہ کے مطابق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہر حدیث لکھنے سے قبل ایک من گھڑت عبادت کی تھی۔اب ہم دیابنہ اور وہابیہ سے سوال کرتے ہیں کہ :

(1) کیا قرآن پاک میں کہیں ایسا حکم موجود ہے کہ حدیث رسول لکھنے سے قبل غسل کرنا، دو رکعت نماز نفل پڑھنا اور استخارہ کرنا پھر اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی حدیث کتاب میں لکھنا ؟

(2) کیا کسی حدیث شریف میں نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کاایسا حکم موجود ہے کہ میری حدیث لکھنے سے قبل ایسا عمل کرنا ؟

(3) کیا خلفاء راشیدین( ابو بکرو عمر عثمان و علی علہیم الرضوان اجمعین )سے ایسا عمل ثابت ہے؟یا کسی کو ایسا عمل سکھایا ؟

(4) کیا کسی صحابی نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی حدیث لکھنے سے قبل مذکورہ طریقوں پر عمل کیا ؟

(5) کل بدعۃ ضلالۃ سے بقول وہابیہ دیابنہ جب ہر نیا عمل گمراہی ٹھہرا تو پھرامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اپنا یہ عمل اسی حدیث سے گمراہی ٹھہرا کہ نہیں ؟
اگر نہیں تو وجہ بیان کریں۔اور اگر ان کا یہ عمل بدعت ٹھہرا تو پھر ان کو بھی بدعتی قرار دو۔(معاذ اللہ عزوجل)

(6) جب بقول وہابیہ ہر نیا عمل گمراہی اوراس پرعمل کرنے والابدعتی ہے تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بدعتی قرار پائے کہ نہیں؟ اور حدیث’’جو کسی بدعتی کی توقیر کرے اس نے دین اسلام کے ڈھانے پر مدد کی‘‘کے مطابق امام بخاری کو جو کوئی اپنا امام و بزرگ تسلیم کرے وہ مسلمان اس وعید کا مستحق ٹھہرا کہ نہیں ؟

(7) ۔۔۔اصول وہابیہ سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا عمل بدعت ضلالہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بدعتی اور بدعتی کی مذحمت پر جو احادیث ہیں ان سب وعیدوں کے مستحق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہٹھہرے کہ نہیں ؟
تو اگر مخالفین کے اصول کے مطابق ہر نیا اچھا کام گمراہی اور دین میں اضافہ ہے تو پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی بدعتی و جہنمی قرار پائیں گے ۔ معاذ اللہ عزوجل!!
کیا قرآن و حدیث میں بدعت کی تعریف ہے ؟

فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی عرض کرتا ہے کہ بدعت کی شرعی تعریف نہ ہی قرآن کی کسی آیت سے ثابت ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی کسی حدیث میں بدعت کی شرعی تعریف بیان کی گئی ہے ۔اگر کسی مخالف میں ہمت ہے تو :

وہ قرآن کی کسی آیت سے بدعت کی شرعی تعریف پیش کرے ۔

یا نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے فرمان سے ’’بدعت ‘‘کی تعریف پیش کریں ۔

یاخلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے فرمان سے ’’بدعت ‘‘کی تعریف پیش کریں ۔

سب جھگڑا ہی ختم ہو جائیگا ۔ لیکن قیامت تک کوئی وہابی بدعت کی تعریف قرآن و حدیث سے پیش نہیں کر سکتا ۔ بلکہ ہزاروں لاکھوں کوشوں کے باوجود وہابی مجبور ہو کر کہے گا کہ فلاں محدث ، فلاں مفسیر ،فلاں اکابر ، فلاں مولانا نے اپنی کتاب میں بدعت کی فلاں شرعی تعریف بیان کی ہے ۔

تو اب وہابیوں سے کوئی پوچھے کہ فلاں مفسر ، محدث یا جو بھی ہو ، اس نے جو بدعت کی شرعی تعریف پیش کی کیا یہ قرآن کی کسی آیت سے ثابت ہے ؟

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی کسی حدیث میں ان الفاظ کا ثبوت ہے؟یا کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے فرمان سے ثابت ہے ؟

اگر نہیں اور یقیناًنہیں تو پھر ایسی تعریف توخود اصول وہابیہ کے تحت من گھڑت ٹھہری ۔

پھر مزید ایک چھوٹا سا مطالبہ کرتے ہیں کہ دیابنہ اور وہابیہ ’’ شرعی بدعت‘‘ کی جو بھی تعریف بیان کریں بس وہ بدعت شرعی کی حتمی و جامع تعریف ہو ،اس کے بعد مزید اس کی وضاحت ، تبصرے کی حاجت نہ رہے ۔ اور اس تعریف پر مخالفین کے تمام علماء و اکابرین متفق ہوں ۔ جواب کا منتظر : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...