جو دیوبندی حضرات علماء دیوبند کی صریح توہینی عبارتوں میں توہین نہیں مانتے ان کی خدمت میں مخلصانہ گزارش ۔ از استاذی المکرّم غزالی زماں علامہ سیّد احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ ۔ ترتیب و پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی
جو دیوبندی حضرات علماء دیوبند کی صریح توہینی عبارتوں میں توہین نہیں مانتے ان کی خدمت میں مخلصانہ گزارش ہے کہ آپ کے علماء کی عبارات کے مقابلے میں مودودی صاحب کی وہ عبارتیں توہین کے مفہوم سے بہت دور ہیں جن سے خود آپ کے علماءدیوبند نے توہین کا مفہوم نکال کر مودودی صاحب پر الزامات توہین عائد کئے ہیں۔ اگرچہ ہمارے نزدیک دونوں میں کوئی فرق نہیں لیکن عبارات میں صراحت و وضاحت توہین کے بین تفاوت کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم مودودی صاحب کی ان عبارات میں سے صرف ایک عبارت بلا تشریح تحریر کرتے ہیں جس کی بنا پر علماءدیوبند نے مودودی صاحب کو توہین خدا اور رسول کا مجرم گردانا ہے۔ اسی طرح اس عبارت کے مقابلے میں تین عبارتیں اکابر علماءدیوبند کی بھی بلا تشریح پیش کرتے ہیں جن سے علماءاہل سنت نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی توہین سمجھی ہے اور یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں کہ مفہوم توہین میں کس کی عبارت زیادہ واضح اور صریح ہے۔
مودودی صاحب کی وہ عبارت جس سے علماءدیوبند نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی توہین اخذ کر کے مودودی صاحب پر خدا اور رسول کی توہین کا الزام عائد کیا ہے
’’حضور کو اپنے زمانے میں یہ اندیشہ تھا کہ شاید دجال آپ کے عہد میں ظاہر ہو جائے یا آپ کے بعد کسی قریبی زمانے میں ظاہر ہو لیکن کیا ساڑھے تیرہ سو برس کی تاریخ نے یہ ثابت نہیں کر دیا کہ حضور کا یہ اندیشہ صحیح نہ تھا۔ اب ان چیزوں کو اس طرح نقل و روایت کئے جانا کہ گویا یہ بھی اسلامی عقائد ہیں نہ تو اسلام کی صحیح نمائندگی ہے اور نہ اسے حدیث ہی کا صحیح مفہوم کہا جا سکتا ہے جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں۔ اس قسم کے معاملات میں نبی کے قیاس و گمان کا درست نہ نکلنا ہرگز منصب نبوت پر طعن کا موجب نہیں ہے۔‘‘ (ماخوذ از ترجمان القرآن)
رسالہ ’’حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب‘‘ مؤلفہ مولوی احمد علی صاحب امیر انجمن خدام الدین دروازہ شیرانوالہ لاہور ص ۱۸
اب ملاحظہ ہوں اکابر علماءدیوبند کی وہ عبارات جن سے علماءاہل سنت نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی توہین سمجھ کر ان پر توہین خدا اور رسول کا حکم لگایا ہے
۱۔ ’’اور انسان خود مختار ہے اچھے کام کریں یا نہ کریں اور اللہ تعالیٰ کو پہلے سے کوئی علم بھی نہیں ہوتا کہ کیا کریں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کو ان کے کرنے کے بعد معلوم ہو گا اور آیاتِ قرآنی جیسا کہ ’’وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ‘‘ وغیرہ بھی اور احادیث کے الفاظ اس مذہب پر منطبق ہیں۔‘‘ (بلغۃ الحیران، مصنفہ مولوی حسین علی صاحب، ص ۱۵۷۔ ۱۵۸)
۲۔ ’’پھر دروغ صریح بھی کئی طرح پر ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک کا حکم یکساں نہیں۔ ہر قسم سے نبی کو معصوم ہونا ضروری نہیں۔‘‘(تصفیۃ العقائد ص ۲۵ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی)
۳۔ ’’بالجملہ علی العموم کذب کو منافی شانِ نبوت بایں معنی سمجھنا کہ یہ معصیت ہے اور انبیاء علیہم السلام معاصی سے معصوم ہیں خالی غلطی سے نہیں۔‘‘(تصفیۃ العقائد ص ۲۸ مولوی محمد قاسم نانوتوی بانی مدرسہ دیوبند)
مودودی صاحب اور علماءدیوبند دونوں کی اصل عبارات بلا کم و کاست آپ کے سامنے موجود ہیں۔ اگر آپ نے خوفِ خدا کو دل میں جگہ دے کر پوری دیانت داری سے بنظر انصاف غور فرمایا تو آپ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ مودودی صاحب کی عبارت کے مقابلہ میں علماءدیوبند کی عبارات مفہوم توہین میں زیادہ صریح ہیں۔
دیوبندی حضرات کا علماء اہل سنت پر ایک اعتراض اور دیوبندی عالم کی تحریر سے اس کا جواب : دیوبندی حضرات علماءاہل سنت پر اعتراض کرتے ہیں کہ علماءدیوبند پر اعتراض کرنے والے ان کی عبارتوں کے سیاق و سباق کو نہیں دیکھتے۔ جو فقرہ قابل اعتراض ہوتا ہے فقط اس کو پکڑ لیتے ہیں اور صرف اسی فقرہ کے باعث علماءدیوبند پر طعن و تشنیع شروع کر دیتے ہیں۔
برادرانِ اسلام! سیاق و سباق سے دیوبندی حضرات کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اگلی پچھلی عبارتوں کو دیکھ کر پھر اعتراض ہو تو کرنا چاہئے۔
جواباً عرض ہے۔ مودودی صاحب پر اعتراض کرنے والے دیوبندیوں پر بعینہٖ یہی اعتراض انہیں الفاظ میں مودودیوں کی طرف سے آپ کے مولوی احمد علی صاحب دیوبندی نے اپنے رسالہ ’’حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب‘‘ کے صفحہ ۸۰ پر نقل کیا ہے اور اس کا جواب بھی اسی صفحہ پر دیا ہے۔ ہم بعینہٖ وہی جواب نقل کئے دیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے
’’اگر دس سیر دودھ کسی کھلے منہ والے دیگچے میں ڈال دیا جائے اور اس دیگچہ کے منہ پر ایک لکڑی رکھ کر ایک تاگہ میں خنزیر کی ایک بوٹی ایک تولہ کی اس لکڑی میں باندھ کر دودھ میں لٹکا دی جائے پھر کسی مسلمان کو اس دودھ میں سے پلایا جائے وہ کہے گا کہ میں اس دودھ سے ہرگز نہ پیوں گا کیونکہ سب حرام ہو گیا ہے۔ پلانے والا کہے گا کہ بھائی دس سیر دودھ کے آٹھ سو تولے ہوتے ہیں آپ فقط اس بوٹی کو کیوں دیکھتے ہیں۔ دیکھئے اس بوٹی کے آگے پیچھے، دائیں بائیں اور اس کے نیچے چار انچ کی گہرائی میں دودھ ہی دودھ ہے۔ وہ مسلمان یہی کہے گا کہ یہ سارا دودھ خنزیر کی ایک بوٹی کے باعث حرام ہو گیا۔ یہی قصہ مودودی صاحب کی عبارتوں کا ہے۔ جب مسلمان مودودی صاحب کا یہ لفظ پڑھے گا کہ خانہ کعبہ کے ہر طرف جہالت اور گندگی ہے۔ اس کے بعد مودودی صاحب اس فقرہ سے توبہ کر کے اعلان نہیں کریں گے، مسلمان کبھی راضی نہیں ہوں گے جب تک خنزیر کی یہ بوٹی اس دودھ سے نہیں نکالیں گے۔(ص ۸۰۔ ۸۱)
پس دیوبندی حضرات یہی جواب ہماری طرف سے سمجھ لیں اور خوب یاد رکھیں کہ علماءدیوبند کی عبارات میں محبوبانِ حق تبارک و تعالیٰ کی ہزار تعریفیں ہوں مگر جب تک وہ توہین آمیز فقروں سے توبہ نہ کریں گے اہل سنت ان سے کبھی راضی نہیں ہوں گے۔
ایک بات قابل ذکر یہ ہے کہ بعض حضرات توہین آمیز عبارات کے صریح مفہوم کو چھپانے کے لئے علماءدیوبند کی وہ عبارات پیش کر دیتے ہیں جن میں انہوں نے توہین و تنقیص سے اپنی برات ظاہر کی ہے یا حضور ﷺ کی تعریف و توصیف کے ساتھ عظمت شان نبوت کا اقرار کیا ہے۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ وہ عبارات انہیں قطعاً مفید نہیں جب تک ان کی کوئی ایسی عبارت نہ دکھائی جائے کہ ہم نے فلاں مقام پر جو توہین کی تھی اب اس سے ہم رجوع کرتے ہیں۔ مثلاً مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے تحذیر الناس میں خاتم النبیین کے معنی منقول متواتر آخر النبیین کو عوام کا خیال بتایا ہے۔ اب اگر ان کی دس بیس عبارتیں بھی اس مضمون کی پیش کر دی جائیں کہ حضور ﷺ آخری نبی ہیں یا حضور ﷺ کے بعد مدعی نبوت کافر ہے تو اس سے کچھ فائدہ نہ ہو گا تاوقتیکہ مولوی محمد قاسم صاحب کا یہ قول نہ دکھایا جائے کہ میں نے جو خاتم النبیین کے معنی منقول متواتر آخر النبیین کا انکار کیا تھا اب میں اس سے توبہ کر کے رجوع کرتا ہوں۔ دیکھئے مرزائی لوگ مرزا غلام احمد کی برات میں جو عبارتیں مرزا صاحب کی کتابوں سے پیش کیا کرتے ہیں ان کے جواب میں مولوی مرتضیٰ صاحب دربھنگی ناظم تعلیمات مدرسہ دیوبند نے بھی یہی لکھا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے اشد العذاب مطبوعہ مطبع مجتبائی جدید دہلی صفحہ ۱۵ سطر ۱۶، ۱۷
جو عبارات مرزا صاحب اور مرزائیوں کی لکھی جاتی ہیں جب تک ان مضامین سے صاف توبہ نہ دکھائیں یا توبہ نہ کریں تو ان کا کچھ اعتبار نہیں۔
دیوبندیوں کی توہین آمیز عبارات کے اظہار کی ضرورت : بعض دیوبندی حضرات کہا کرتے ہیں کہ علماء دیوبند کی ان عبارات کے اظہار و اشاعت کی کیا ضرورت ہے جن سے آپ لوگ توہین سمجھتے ہیں۔ اس زمانے میں ان عبارات کی اشاعت بلاوجہ شور و شر، فتنہ و فساد کا موجب ہے اور یہ بڑی ناانصافی ہے کہ علماء دیوبند کے ساتھ لڑائی مول لی جائے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ علماءدیوبند کی توہینی عبارتوں کے اظہار کی وہی ضرورت ہے جو مولوی احمد علی صاحب کو مودودیوں کا پول کھولنے کے لئے پیش آئی کہ علماءدیوبند نے تمام مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف اللہ تعالیٰ اور انبیاء و اولیاء کی مقدس شان میں وہ شدید اور ناقابل برداشت حملے کئے ہیں جنہیں کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔ مولوی احمد علی صاحب اس ضرورت کو حسب ذیل عبارت میں بیان فرماتے ہیں
’’کیا جب ڈاکو کسی کے گھر میں گھس آئے تو گھر والا ڈاکو سے مقابلہ کر کے اپنا مال اور اپنی جان نہ بچائے اور اگر مال اور جان بچانے کے لئے ڈاکو سے مقابلہ کرے تو پھر کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ گھر والا بڑا ہی بے انصاف ہے کہ ڈاکو سے لڑ رہا ہے۔‘‘(رسالہ مذکور مولوی احمد علی صاحب ص ۸۴)
علماءدیوبند کی تہذیب کا ایک مختصر نمونہ : دیوبندی حضرات عام طور پر کہتے ہیں کہ بریلوی مولوی علماءدیوبند کو گالیاں دیا کرتے ہیں۔ اس الزام کی حقیقت تو ہمارے اسی رسالہ سے منکشف ہو جائے گی اور ہمارے ناظرین کرام پر روشن ہو جائے گا کہ جس شائستگی اور تہذیب سے ہم نے علمائے دیوبند کے خلاف یہ رسالہ لکھا ہے اس کی مثال ہمارے مخالفین کی ایک کتاب سے بھی پیش نہیں کی جا سکتی لیکن مزید وضاحت کے لئے بطور نمونہ ہم مولوی حسین احمد صاحب صدر مدرس مدرسہ دیوبند کی کتاب ’’الشہاب الثاقب‘‘ سے چند وہ عبارات پیش کرتے ہیں جن میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز کو شدید ترین قسم کی دلآزار گالیاں دی گئی ہیں۔ ان عبارات کو پڑھ کر ہمارے ناظرین کرام علماءاہل سنت اور فضلاء دیوبند کی تہذیب کا مقابلہ کر لیں۔ ملاحظہ فرمایئے۔
۱۔ پھر تعجب ہے کہ مجدد بریلوی آنکھوں میں دھول ڈال رہا ہے اور کذب خالص مشہور کر رہا ہے۔ ’’لعنۃ اللّٰہ تعالٰی فی الدارین۔‘‘ اٰمین۔ یعنی لعنت کرے اللہ تعالیٰ اس (مجدد بریلوی) پر دونوں جہانوں میں‘‘ (الشہاب الثاقب ص ۸۱)
۲۔ ’’آپ حضرات ذرا انصاف فرمائیں اور اس بریلوی دجال سے دریافت کریں۔‘‘ (الشہاب الثاقب ص ۸۶)
۳۔ ’’مجدد الضالین فرماتے ہیں۔‘‘
۴۔ ’’ہم آگے چل کر صاف طور پر ظاہر کر دیں گے کہ دجال بریلوی نے یہاں پر محض بے سمجھی اور بے عقلی سے کام لیا ہے۔‘‘ (ص ۹۵)
۵۔ ’’اس کے بعد مجدد الضالین علیہ ما علیہ الخ‘‘ ( ص ۱۰۳)
۶۔ ’’سلب اللّٰہ ایمانک وسود وجہک فی الدارین وعاقبک بما عاقب بہٖ ابا جہل و عبد اللّٰہ بن ابی یا رئیس المبتدعین۔ اٰمین‘‘ یعنی اے بدعتیوں کے سردار (مجدد بریلوی) سلب کرے اللہ تعالیٰ تیرا ایمان اور دونوں جہان میں تیرا منہ کالا کرے اور تجھے وہی عذاب دے جو ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی کو دیا تھا۔ اٰمین‘‘ (ص ۱۰۴،۱۰۵)
۷۔ ’’مگر تہذیب علم کوئی لفظ مجدد بریلوی کے شایانِ شان قلم سے نہیں نکلنے دیتی۔‘‘ (ص ۱۰۵)
۸۔ ’’فسود اللّٰہ وجہہٗ فی الدارین واسکنہٗ بحبوحۃ الدرک الاسفل من النار مع اعداء سید الکونین علیہ الصلٰوۃ والسلام۔ اٰمین یا رب العٰلمین۔‘‘ (ص ۱۱۹) یعنی اللہ تعالیٰ اس (مجدد بریلوی) کا دونوں جہان میں منہ کالا کرے اور اسے حضور کے دشمنوں کے ساتھ جہنم کے سب سے نیچے گڑھے میں رکھے۔
۹۔ ’’یہ سب تکفیریں اور لعنتیں بریلوی اور اس کے اتباع کی طرف لوٹ کر قبر میں ان کے واسطے عذاب اور بوقت خاتمہ ان کے لئے موجب خروج ایمان و ازالہ تصدیق و ایقان ہوں گی اور قیامت میں ان کے جملہ متبعین کے واسطے اس کی موجب ہوں گی کہ ملائکہ حضور ﷺ سے کہیں گے ’’اِنَّکَ لَا تَدْرِیْ مَا اَحْدَثُوْا بَعْدَکَ‘‘ اور رسول مقبول ﷺ دجال بریلوی اور ان کے اتباع کو سحقاً سحقاً فرما کر اپنے حوض مورود و شفاعت محمود سے کتوں سے بدتر کر کے دھتکار دیں گے اور امت مرحومہ کے اجر و ثواب و منازل و نعیم سے محروم کئے جاویں گے۔‘‘
’’سود اللّٰہ وجوہہم فی الدارین وجعل قلوبہم قاسیۃ فلا یؤمنوا حتّٰی یروا العذاب الالیم۔‘‘ (الشہاب الثاقب ص ۱۲۰) یعنی ان بریلویوں کا منہ دونوں جہان میں کالا کرے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تو وہ ایمان نہ لائیں یہاں تک کہ عذابِ الیم کو دیکھ لیں۔
ان تمام بد دعاؤں اور گالیوں کے جواب میں صرف اتنا عرض ہے کہ الحمد للّٰہ! اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ تو ہرگز اس بدگوئی کے مصداق نہیں ہو سکتے۔ البتہ بمقتضائے حدیث اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ جیسی مقدس ہستی کے حق میں ایسے ناپاک کلمے بولنے والا ان شاء اللہ دنیا اور آخرت میں اپنے کلمے کا خود مصداق بنے گا۔ وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے جو علماءدیوبند کی عبارات پر علماء حرمین طیبین سے کفر کے فتوے حاصل کر کے ’’حسام الحرمین‘‘ میں شائع کئے اس کے جواب میں علماءدیوبند نے ’’حسام الحرمین‘‘ کے خلاف تائید میں علماءحرمین طیبین کے فتوے ’’المہند‘‘ میں چھاپے اور تمام ملک میں اس کی اشاعت کی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مولانا احمد رضا خان صاحب نے علماءدیوبند کی عبارات کو توڑ مروڑ کر غلط عقائد ان کی طرف منسوب کئے تھے۔ جب علماءدیوبند کی اصل عبارات اور ان کے اصلی عقائد سامنے آئے تو علماء حرمین طیبین نے ان کی تصدیق و تائید فرما دی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ پر یہ الزام قطعاً بے بنیاد ہے کہ انہوں نے دیوبندیوں کی عبارتوں میں رد و بدل کیا ہے یا غلط عقائد ان کی طرف منسوب کئے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ حسام الحرمین کے شائع ہونے کے بعد دیوبندی حضرات نے اپنی جان بچانے کے لئے اپنی عبارتوں کی خود قطع و برید کی اور اپنے اصل عقائد چھپا کر علمائے عرب و عجم کے سامنے اہل سنت کے عقیدے ظاہر کئے جس پر علمائے دین نے تصدیق فرمائی چونکہ اس مختصر رسالہ میں تفصیل کی گنجائش نہیں اس لئے صرف ایک دلیل اپنے دعویٰ کے ثبوت میں پیش کرتا ہوں ملاحظہ کیجئے۔
محمد بن عبد الوہاب نجدی کے بارے میں دیوبندیو ںکا اعتقاد یہ ہے کہ وہ بہت اچھا آدمی تھا۔ اس کے عقائد بھی عمدہ تھے۔ دیکھئے فتاویٰ رشیدیہ ص ۵۵۱ پر مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے لکھا کہ
’’محمد بن عبد الوہاب کے مقتدیوں کو نجدی کہتے ہیں۔ ان کے عقائد عمدہ تھے۔ مذہب ان کا حنبلی تھا۔ البتہ ان کے مزاج میں شدت تھی مگر وہ اور ان کے مقتدی اچھے ہیں۔ مگر ہاں جو حد سے بڑھ گئے ہیں ان میں فساد آ گیا اور عقائد سب کے متحد ہیں۔ اعمال میں فرق، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کا ہے۔‘‘ (رشید احمد گنگوہی)
ناظرین کرام نے فتاویٰ رشیدیہ کی اس عبارت سے معلوم کر لیا ہو گا کہ دیوبندیوں کے مذہب میں محمد بن عبد الوہاب نجدی کے عقائد عمدہ تھے اور اچھا آدمی تھا لیکن جب علماء حرمین طیبین نے دیوبندیوں سے سوال کیا کہ بتاؤ محمد بن عبد الوہاب کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ وہ کیسا آدمی تھا؟ تو حیلہ سازی سے کام لے کر اپنا مذہب چھپا لیا اور لکھ دیا ’’ہم اسے خارجی اور باغی سمجھتے ہیں۔‘‘(ملاحظہ ہو المہند ص ۱۹، ۲۰)
ہمارے نزدیک ان کا حکم وہی ہے جو صاحب در مختار نے فرمایا ہے۔ اس کے چند سطر بعد مرقوم ہے کہ علامہ شامی نے اس کے حاشیہ میں فرمایا ہے جیسا کہ ہمارے زمانے میں محمد بن عبد الوہاب کے تابعین سے سرزد ہوا کہ نجد سے نکل کر حرمین شریفین پر متغلب ہوئے۔ اپنے کو حنبلی مذہب بتاتے تھے مگر ان کا عقیدہ یہ تھا کہ بس وہی مسلمان ہیں اور جو ان کے عقیدہ کے خلاف ہو وہ مشرک ہے اور اسی بناء پر انہوں نے اہل سنت اور علماءاہل سنت کا قتل مباح سمجھ رکھا تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شوکت توڑ دی۔ (انتہیٰ)
دیکھئے یہاں اپنے مذہب کو کیسے چھپایا اور فتاویٰ رشیدیہ کی عبارت کو صاف ہضم کر گئے۔ یہ تو ایک نمونہ تھا۔ تمام کتاب کا یہی حال ہے کہ جان بچانے کے لئے اپنے مذہب پر پردہ ڈال دیا۔ اپنی عبارات کو بھی چھپا دیا۔ اب ناظرین کرام خود فیصلہ فرما لیں کہ خیانت کرنے والا کون ہے؟
آخری سہارا : اس بحث میں ہمارے مخالفین (حضرات علماءدیوبند) کا ایک آخری سہارا یہ ہے کہ بہت سے اکابر علماء کرام و مشائخ عظام نے علماءدیوبند کی تکفیر نہیں کی۔ جیسے سند المحدثین حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب مجددی رام پوری رحمۃ اللہ علیہ اور قبلہ عالم حضرت سید پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ اسی طرح بعض دیگر اکابر امت کی کوئی تحریر ثبوت تکفیر میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس کے متعلق گزارش ہے کہ تکفیر نہ کرنے والے حضرات میں بعض حضرات تو وہ ہیں جن کے زمانے میں علماءدیوبند کی عبارات کفریہ (جن میں التزام کفر متیقن ہو) موجود ہی نہ تھیں۔ جیسے مولانا ارشاد حسین صاحب رام پوری رحمۃ اللہ علیہ ایسی صورت میں تکفیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور بعض وہ حضرات ہیں جن کے زمانے میں اگرچہ وہ عبارات شائع ہو چکی تھیں مگر ان کی نظر سے نہیں گزریں اس لئے انہوں نے تکفیر نہیں فرمائی۔ ہمارے مخالفین میں سے آج تک کوئی شخص اس امر کا ثبوت پیش نہیں کر سکتا کہ فلاں مسلم بین الفریقین بزرگ کے سامنے علماءدیوبند کی عبارات متنازعہ فیہا پیش کی گئیں اور انہوں نے ان کو صحیح قرار دیا یا تکفیر سے سکوت فرمایا۔ علاوہ ازیں یہ کہ جن اکابر امت مسلم بین الفریقین کی عدم تکفیر کو اپنی برات کی دلیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ انہوں نے تکفیر فرمائی ہو اور وہ منقول نہ ہوئی ہو کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ کسی کی کہی ہوئی ہر بات منقول ہو جائے۔ لہٰذا تکفیر کے باوجود عدم نقل کے احتمال نے اس آخری سہارے کو بھی ختم کر دیا ہے۔ وللّٰہ الحمد!
ایک تازہ شبہ کا ازالہ : ایک مہربان نے تازہ شبہ یہ پیش کیا ہے کہ کسی کو کافر کہنے سے ہمیں کتنی رکعتوں کا ثواب ملے گا۔ ہم خواہ مخواہ میں کسی کو کافر کیوں کہیں۔ توہین آمیز عبارات لکھنے والے مر گئے۔ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ حدیث شریف میں وارد ہے ’’اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ‘‘ ’’تم اپنے مردوں کو خیر کے ساتھ یاد کرو۔‘‘
پھر یہ بھی ممکن ہے کہ مرتے وقت انہوں نے توبہ کر لی ہو۔ حدیث شریف میں ہے ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ‘‘ ’’اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے۔‘‘
ہمیں کیا معلوم کہ ان کا خاتمہ کیسا ہوا؟ شاید ایمان پر ان کی موت واقع ہوئی ہو۔
اس کا جواب یہ ہے کہ کفر و اسلام میں امتیاز کرنا ضروریاتِ دین سے ہے۔ آپ کسی کافر کو عمر بھر کافر نہ کہیں۔ مگر جب ان کا کفر سامنے آ جائے تو بربنائے کفر اسے کافر نہ ماننا خود کفر میں مبتلا ہونا ہے۔ بے شک اپنے مردوں کو خیر سے یاد کرنا چاہئے مگر توہین کرنے والوں کو مومن اپنا نہیں سمجھتا۔ نہ وہ واقع میں اپنے ہو سکتے ہیں۔ اس لئے مضمون حدیث کو ان سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ خاتمہ پر اعمال کا دارو مدار ہے۔ مگر یاد رکھئے دم آخر کا حال اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اس کا عمل بھی اس کی طرف مفوض ہے۔ احکام شرع ہمیشہ ظاہر پر مرتب ہوتے ہیں اس لئے جب کسی شخص نے معاذ اللہ علانیہ طور پر التزام کفر کر لیا تو وہ حکم شرعی کی رو سے قطعاً کافر ہے تاوقتیکہ توبہ نہ کرے۔ اگر کوئی مسلمان ایسے شخص کو کافر نہیں سمجھتا تو کفر و اسلام کو معاذ اللہ یکساں سمجھنا کفر قطعی ہے۔ لہٰذا کافر کو کافر نہ ماننے والا یقینا کافر ہے اور اگر بفرض محال ہم یہ تسلیم کر لیں کہ حضور ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخیاں کرنے والوں کو کافر نہ کہنا چاہئے اس لئے کہ شاید انہوں نے توبہ کر لی ہو اور ان کا خاتمہ بالخیر ہو گیا ہو تو اسی دلیل سے مرزائیوں کو کافر کہنے سے بھی ہمیں زبان روکنی پڑے گی کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے متبعین سب کے لئے یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ شاید ان کا خاتمہ بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان پر مقدر فرما دیا ہو تو ہم انہیں کس طرح کافر کہیں لیکن ظاہر ہے کہ مرزائیوں کے بارے میں یہ احتمال کارآمد نہیں تو گستاخانِ نبوت کے حق میں کیونکر مفید ہو سکتا ہے۔
ایک ضروری تنبیہ : بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ توہین آمیز عبارات پر سخت نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور بسا اوقات مجبور ہو کر اقرار کر لیتے ہیں کہ واقعی ان عبارات میں حضور ﷺ کی توہین ہے لیکن جب ان عبارات کے قائلین کا سوال سامنے آتا ہے تو ساکت اور متامل ہو جاتے ہیں اور اپنی استادی، شاگردی، پیری، مریدی یا رشتہ داری و دیگر تعلقات دنیوی خصوصاً کاروباری، تجارتی نفع و نقصان کے پیش نظر ان کو چھوڑنا، ان کے کفر کا انکار کرنا ہرگز گوارہ نہیں کرتے۔ ان کی خدمت میں مخلصانہ گزارش ہے کہ وہ قرآن مجید کی حسب ذیل آیتوں کو ٹھنڈے دل سے ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
’’یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا اٰبَائَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَائَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَo‘‘ (توبہ : ۲۳)
’’اے ایمان والو! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلے میں کفر کو عزیز رکھیں تو ان کو اپنا رفیق نہ بناؤ اور جو تم میں سے ایسے باپ بھائیوں کے ساتھ دوستی کا برتاؤ رکھے گا تو یہی لوگ ہیں جو خدا کے نزدیک ظالم ہیں۔‘‘
’’قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَاؤُکُمْ وَاَبْنَاؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِاقْتَرَ فْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَo‘‘ (توبہ : ۲۴)
’’اے نبی ﷺ! آپ مسلمانوں سے فرما دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبہ دار اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جس کے مندا پڑ جانے کا تم کو اندیشہ ہو اور مکانات جن میں تم رہنے کو پسند کرتے ہو اگر یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے تم کو زیادہ عزیز ہوں تو ذرا صبر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ اپنے حکم کو لے آئے اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔‘‘
ان دونوں آیتوں کا مطلب واضح ہے کہ عقیدے اور ایمان کے معاملے میں اور نیکی کے کاموں میں بسا اوقات خویش و اقارب کنبہ اور برادری محبت اور دوستی کے تعلقات حائل ہو جایا کرتے ہیں۔ اس لئے ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں کو ایمان سے زیادہ کفر عزیز ہے ایک مومن انہیں کس طرح عزیز رکھ سکتا ہے۔ مسلمان کی شان نہیں کہ ایسے لوگوں سے رفاقت اور دوستی کا دم بھرے۔ خدا اور رسول کے دشمنوں سے تعلقات استوار کرنا یقینا گنہ گار بننا اور اپنی جانوں پر ظلم کرنا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ اور اعلاء کلمۃ الحق سے اگر یہ خیال مانع ہو کہ کنبہ اور برادری چھوٹ جائے گی۔ استادی شاگردی یا دنیاوی تعلقات میں خلل واقع ہوگا۔ اموال تلف ہوں گے یا تجارت میں نقصان ہو گا۔ راحت اور آرام کے امکانات سے نکل کر بے آرام ہونا پڑے گا تو پھر ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے عذاب کے حکم کا منتظر رہنا چاہئے جو اس نفس پرستی، دنیا طلبی اور تن آسانی کی وجہ سے ان پر آنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس واضح اور روشن ارشاد کو سننے کے بعد کوئی مومن کسی دشمن رسول سے ایک آن کے لئے بھی اپنا تعلق برقرار نہیں رکھ سکتا۔ نہ اس کے دل میں حضور ﷺ کی توہین کرنے والوں کے کافر ہونے کے متعلق کوئی شک باقی رہ سکتا ہے۔
حرفِ آخر : دیوبندی مبلغین و مناظرین اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم خیال علماء کی بعض عبارات بزعم خود قابل اعتراض قرار دے کر پیش کیا کرتے ہیں۔
اس کے متعلق سردست اتنا عرض کر دینا کافی ہے کہ اگر فی الواقع علماء اہل سنت کی کتابوں میں کوئی توہین آمیز عبارت ہوتی تو علماء دیوبند پر فرض تھا کہ وہ ان علماء کی تکفیر کرتے جیسا کہ علماءاہل سنت نے علماءدیوبند کی عبارات کفریہ کی وجہ سے تکفیر فرمائی لیکن امر واقع یہ ہے کہ دیوبندیوں کا کوئی عالم آج تک اعلیٰ حضرت یا ان کے ہم خیال علماء کی کسی عبارت کی وجہ سے تکفیر نہ کر سکا نہ کسی شرعی قباحت کی وجہ سے ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناجائز قرار دے سکا۔ دیکھئے دیوبندیوں کی کتاب قصص الاکابر ملفوظات مولوی اشرف علی صاحب تھانوی شائع کردہ کتب خانہ اشرفیہ ص ۹۹، ۱۰۰ پر ہے ۔
ایک شخص نے پوچھا کہ ہم بریلی والوں کے پیچھے نماز پڑھیں تو نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ فرمایا (حضرت حکیم الامت مدظلہ نے) ہاں ہم ان کو کافر نہیں کہتے۔ اس کے چند سطر بعد مرقوم ہے، ہم بریلی والوں کو اہل ہوا کہتے ہیں، اہل ہوا کافر نہیں۔
اس سلسلے میں مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کا ایک اور مزیدار ملفوظ ملاحظہ فرمایئے۔ الافاضات الیومیہ جلد پنجم مطبوعہ اشرف المطابع تھانہ بھون ص ۲۲۰ پر ملفوظ نمبر ۲۲۵ میں مرقوم ہے
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ دیوبند کا بڑا جلسہ ہوا تھا تو اس میں ایک رئیس صاحب نے کوشش کی تھی کہ دیوبندیوں میں اور بریلویوں میں صلح ہو جائے۔ میں نے کہا ہماری طرف سے کوئی جنگ نہیں۔ وہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہم پڑھ لیتے ہیں۔ ہم پڑھاتے ہیں وہ نہیں پڑھتے تو ان کو آمادہ کرو (مزاحاً فرمایا کہ ان سے کہو کہ آ، مادہ! نر آ گیا) ہم سے کیا کہتے ہو۔
اس عبارت سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ علماءاہل سنت (جنہیں بریلوی کہا جاتا ہے) دیوبندیوں کے نزدیک مسلمان ہیں اور ان کا دامن ہر قسم کے کفر و شرک سے پاک ہے۔ حتیٰ کہ دیوبندیوں کی نماز ان کے پیچھے جائز ہے۔ عبارت منقولہ بالا سے جہاں اصل مسئلہ ثابت ہوا وہاں علماءدیوبند کے مجدد اعظم حکیم الامت مولوی اشرف علی صاحب کی تہذیب اور مخصوص ذہنیت کا نقشہ بھی سامنے آ گیا۔ جس کا آئینہ دار مولوی اشرف علی صاحب کے ملفوظ کا یہ جملہ ہے کہ
ان (بریلویوں) سے کہو کہ آ، مادہ، نر آ گیا۔
دیوبندی حضرات کو چاہئے کہ اس جملہ کو بار بار پڑھیں اور اپنے عارف ملت و حکیم کے ذوق حکمت و معرفت سے کیف اندوز ہو کر اس کی داد دیں ۔ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کے ملفوظ منقول الصدر سے یہ امر بھی واضح ہو گیا کہ بعض اعمال عقائد مختلف فیہا کی بنا پر مفتیانِ دیوبند کا اہل سنت (بریلویوں) کو کافر و مشرک قرار دینا اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناجائز یا مکروہ کہنا قطعاً غلط باطل محض اور بلا دلیل ہے۔ صرف بغض و عناد اور تعصب کی وجہ سے انہیں کافر و مشرک کہا جاتا ہے۔ ورنہ درحقیقت اہل سنت (بریلوی) حضرات کے عقائد و اعمال میں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی جس کی بنا پر انہیں کافر و مشرک قرار دیا جا سکے یا ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ کہا جا سکے۔(دعا گو و طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment