دیوبندیوں اور وہابیوں کے اصول کے مطابق پانچواں و چھٹا کلمہ بدعت ہے
یہ بات ایک چھوٹ اسا بچہ بھی جانتا ہے کہ پاک و ہند میں بچوں کو چھ کلمے یاد کروائے جاتے ہیں خود دیابنہ اور وہابیہ بھی اپنے بچوں کو چھ کلمے یاد کرواتے ہیں۔ لیکن کوئی ایک آیت و حدیث ایسی نہیں جس میں مروجہ ترتیب و ہیئت کے ساتھ چھ کلموں کے نام، ترتیب اور ان چھ کلموں کو یاد کرنے کی ترغیب موجود ہو۔ پھر پانچواں اور چھٹا کلمہ تو مروجہ صورت و ہیئت میں منقول ہی نہیں۔
پانچواں کلمہ اِستغفار : اَسْتَغْفِرُ اﷲَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُہُ عَمَدًا اَوْ خَطَاً سِرًّا اَوْ عَلَانِیَۃً وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِیْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِیْ لَآ اَعْلَمُ ط اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُیُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ . (ہماری نمازص ۱۰ محمد فاروق دیوبندی مبین ٹرسٹ اسلام آباد )
چھٹا کلمہ ردِّ کفر : اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیْءًا وَّاَنَا اَعْلَمُُ بِہِ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَآ اَعْلَمُ بِہِ تُبْتُ عَنْہُ وَتَبَرَّاْتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ وَالْکِذْبِ وَالْغِیْبَۃِ وَالْبِدْعَۃِ وَالنَّمِیْمَۃِ وَالْفَوَاحِشِ وَالْبُہْتَانِ وَالْمَعَاصِیْ کُلِّہَا وَاَسْلَمْتُ وَاَقُوْلُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ..(ہماری نمازص۱۰ )
اب دیابنہ اور وہابیہ کو چاہیے کہ مذکورہ ہیئت و ترکیب کے ساتھ پانچویں اور چھٹا کلمے کا ثبوت نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم یا صحابہ و تابعین علیہم الرضوان اجمعین سے پیش کریں، یا پھر ان کے لکھنے و الوں کو بدعتی و جہنمی قرار دیں۔
ہمارے کچھ سوال ؟
کون سی حدیث میں ان چھ کلموں کی تعداد اور ان چھ کو یاد کرنے کا حکم موجودآیا ہے ؟
ان چھ کلموں کوفرض، واجب، سنت، مستحب و مباح کیا سمجھ کر یاد کروایا جاتا ہے ؟
کیا کسی حدیث میں مروجہ پانچواں و چھٹا کلمہ اسی ترکیب سے ثابت ہے ؟
بدعت بدعت کی رٹ لگانے والے اپنے اصول بدعت کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دینے کی کوشش کریں ۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی یہ کہہ دے کہ یہ دونوں کلمے مختلف دعاؤں کا مجموعہ ہیں ، اور یہ سب الفاظ مختلف احادیث سے ثابت ہیں۔ تو ہم عرض کرتے ہیں علمائے دیابنہ اور وہابیہ میلا د النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم و دیگرمعمولات اہل سنت و جماعت کو بدعت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دیکھو دین مکمل ہو چکا : ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ‘‘میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا(پارہ 6المائدہ۳)
جب دین مکمل ہو چکا اور حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنی پوری زندگی میں فلاں عمل اختیار نہیں فرمایا۔ تو اب کوئی نیا عمل اختیار کرنا دین کو ناقص سمجھنا ہے اور خود کو اللہ و رسول سے بڑا اور سمجھ دار قرار دینے کا دعوی ہے۔ اور اگر اس جدید کام میں کسی قسم کی بھلائی یا اچھائی ہوتی تو اللہ عزوجل نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی طرف وحی فرما دیتا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اس کو ضرور اختیار فرماتے ۔لہٰذا’’ کل بدعۃ ضلالہ ‘‘ یہ تمام نئے کام بدعت ضلالہ ہیں ۔
تووہابی اور دیوبندی اپنے اصول کے مطابق یہاں بھی یہی فتوے جاری کریں کہ اگر ان کلموں ( مختلف دعاؤں کے مجموعے ) میں کچھ اچھائی بھلائی ہوتی تو اللہ عزوجل لازمی بتا دیتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم لازمی بتا دیتے اور صحابہ و تابعین علہیم الرضوا ن اجمعین لازمی اختیار فرماتے ۔ دین مکمل ہو چکا تھا لیکن کہیں اس کا ثبوت نہیں کسی نے حکم نہیں دیا تو اب صدیوں بعد ان کلموں کو ایجاد کرنا دین میں اضافہ ،دین کو ناقص سمجھنا ،خود کو اللہ عزوجل وحضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ، صحابہ و تابعین کرام علہیم الرضوان اجمعین سے زیادہ سمجھ دار سمجھنا ہے۔ اور ان کلموں کو لکھنے والے ،پڑھنے والے ،پڑھانے والے سب بدعتی و جہنمی ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی کہہ دے کہ پھر تو تم سنی بھی بدعتی ہو تو میں عرض کر دوں کہ ہم سنی تو بدعت حسنہ کے قائل ہیں لہٰذا ہم پر تو اعتراض ہی نہیں کیا جاسکتا، اور یہاں گفتگو علمائے دیابنہ اور وہابیہ کے اصول و تعریفوں کے تحت پیش کی جا رہی ہے ۔ جواب کا منتظر : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
No comments:
Post a Comment