اعتراض دیابنہ وہابیہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ظاہری حیات میں ربیع الاول کا مہینہ کم و بیش 63 مرتبہ آیا۔ کس حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم نے اپنی ولادت کا دن منایا ؟ اس کا جواب پڑھیئے
جواب : سب سے پہلے میلاد کا لغوی معنی اور اصطلاحی معنی ملاحظہ فرمائیں :
لفظ میلاد کی لغوی تحقیق : میلاد عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مادہ ’’ولد (و۔ل۔د)‘‘ ہے۔ میلاد عام طور پر اس وقت ولادت کے معنوں میں مستعمل ہے۔ میلاد اسم ظرف زمان ہے۔ قرآن مجید میں مادہ ولد کل 93 مرتبہ آیا ہے اور کلمہ مولود 3 مرتبہ آیا ہے۔
(المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم ص 764-763)
احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم میں لفظ میلاد و مولد کا استعمال
احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم میں مادہ ولد (و۔ل۔د) بے شمار مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اس کی وضاحت المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی میں موجود ہے
(المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی الجز السابع ص 320-308)
اردو میں لفظ میلاد : نور اللغات میں لفظ میلاد مولود۔ مولد کہ یہ معنی درج کئے گئے ہیں ۔
1: میلاد ۔۔۔ پیدا ہونے کا زمانہ، پیدائش کا وقت
2: وہ مجلس جس میں پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی ولادت باسعادت کا بیان کیا جائے۔ وہ کتاب جس میں پیغمبر کی ولادت کا حال بیان کیا جاتا ہے۔
میلاد کا اصطلاحی مفہوم : میلاد کے لغوی مفہوم میں اس بات کی وضاحت ہوچکی ہے کہ اردو زبان میں اب یہ لفظ ایک خاص مفہوم کی وضاحت و صراحت اور ایک مخصوص اصطلاح کے طورپر نظر آتا ہے۔ حسن مثنی ندوی لکھتے ہیں ’’حضور اکرم نور مجسم محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی ولادت باسعادت کے تذکرے اور تذکیر کا نام محفل میلاد ہے۔ اس تذکرے اور تذکیر کے ساتھ ہی اگر دلوں میں مسرت و خوشی کے جذبات کروٹ لیں۔ یہ شعور بیدار ہوکہ کتنی بڑی نعمت سے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں سرفراز کیا اور اس کا اظہار بھی ختم الرسل صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی محبت و اطاعت اور خداوند بزرگ و برتر کی حمدوشکر کی صورت میں ہو اور اجتماعی طور پر ہو تو یہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم ہے ۔ (سیارہ ڈائجسٹ لاہور رسول نمبر 1973ء (جلد دوم) ص 445)
قرآن مجید سے جشن ولادت منانے کے دلائل
ﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ’’اور اپنے رب کی نعمت کے خوب چرچے کرو‘‘ (سورۂ وَٱلضُّحَىٰ :11)
معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ جو تمہیں میں نے نعمتیں دی ہیں، ان کا خوب چرچا کرو، ان پر خوشیاں مناؤ۔ ہمارے پاس اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی بے شمار نعمتیں ہیں۔ کان، ہاتھ، پاؤں، جسم، پانی، ہوا، مٹی وغیرہ اور اتنی زیادہ نعمتیں ہیں کہ ہم ساری زندگی ان کو گن نہیں سکتے۔ خود اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ’’اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے‘‘ (النحل:18)
معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی ہم سے نہیں ہوسکتی۔ تو پھر ہم کن کن نعمتوں کا پرچار کریں۔ عقل کہتی ہے کہ جب گنتی معلوم نہ ہوسکے تو سب سے بڑی چیز کو ہی سامنے رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہی نمایاں ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم سے بھی اﷲ پاک کی نعمتوں کی گنتی نہ ہوسکی تو یہ فیصلہ کیا کہ جو نعمت سب سے بڑی ہے اس کا پرچار کریں۔ اسی پر خوشاں منائیں تاکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہوسکے۔ سب سے بڑی نعمت کون سی ہے؟ آیئے قرآن مجید سے پوچھتے ہیں ترجمہ ’’اﷲ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے‘‘ (سورۂ آل عمران آیت 164)
ﷲ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں مگر کسی نعمت پر بھی احسان نہ جتلایا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کسی اور نعمت پر احسان کیوں نہیں جتلایا۔ صرف ایک نعمت پر ہی احسان کیوں جتلایا؟ ثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت آخری نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم ہیں اور قرآن کے مطابق ہر مسلمان کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی آمد پر خوشیاں منانی چاہئیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمہ ’’تم فرماؤ اﷲ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت، اسی پر چاہئے کہ وہ خوشی کریں۔ وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے‘‘ (سورۃ یونس آیت 58)
لیجئے! اس آیت میں تو اﷲ تعالیٰ صاف الفاظ میں جشن منانے کا حکم فرما رہا ہے۔ کہ اس کے فضل اور رحمت کے حصول پر خوشی منائیں۔ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ نبی کی آمد کا جشن مناؤ کیونکہ اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم سے بڑھ کر کائنات میں کوئی رحمت نہیں۔ خود اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ترجمہ ’’اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے‘‘ (الانبیاء :107)
مسلمان اگر رحمتہ للعالمین کی آمد کی خوشی نہیں منائیں گے تو اور کون سی رحمت پر منائیں گے۔ لازم ہے کہ مسلمان رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی آمد کا جشن منائیں۔
احادیث مبارکہ سے جشن منانے کے دلائل
* اپنی آمد کا جشن تو خود آقا صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم نے منایا ہے۔ تو ان کے غلام کیوں نہ منائیں؟ چنانچہ حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی کہ ’’یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم نے جواب دیا ’’اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی‘‘ (صحیح مسلم شریف جلد 1ص 7، مشکوٰۃ شریف ص 179)
نبی کے غلامو! خوش ہوجاؤ اور خوشی سے اپنے نبی کی آمد کا جشن منایا کرو کیونکہ یہ جشن تو خود آقا صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم نے منایا ہے۔ اس کرہ ارض پر بسنے والے کسی بھی عالم دین (اگرچہ وہ صحیح عالم ہو) سے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کے پیر کے روزے کے متعلق دریافت کیجئے، اس کا جواب یہی ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم نے اپنی ولادت کی خوشی میں روزہ رکھا۔ نبی علیہ السلام اپنی آمد کی خوشی منائے اور نبی علیہ السلام کے غلام اپنے آقا کا جشن نہ منائیں۔ یہ کیسی محبت ہے؟ اسی لئے تو مسلمان ہر سال زمانے کی روایات کے مطابق جشن ولادت مناتے ہیں۔ کوئی روزہ رکھ کر مناتا ہے تو کوئی قرآن کی تلاوت کرکے، کوئی نعت پڑھ کر، کوئی درود شریف پڑھ کر، کوئی نیک اعمال کا ثواب اپنے آقا صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی بارگاہ میں پہنچا کر تو کوئی شیرینی بانٹ کر، دیگیں پکوا کر غریبوں اور تمام مسلمانوں کوکھلا کر اپنے آقا کی ولادت کا جشن مناتاہے۔ یعنی زمانے کی روایات کے مطابق اچھے سے اچھا عمل کرکے اپنے آقا صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی ولادت کا جشن منایا جاتا ہے۔ پس جو شخص نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کو مانتا ہے تو وہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم سمجھ کر اپنے آقا کی ولادت کاجشن منائے گا اور جو شخص نبی کو نہیں مانتا، وہ اس عمل سے دور بھاگے گا۔
* نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کا چچا ابولہب جوکہ پکا کافر تھا۔ جب اسے اس کے بھائی حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کے یہاں بیٹے کی ولادت کی خوشخبری ملی تو بھتیجے کی آمد کی خوشخبری لانے والی کنیز ’’ثویبہ‘‘ کو اس نے انگلی کا اشارہ کرکے آزاد کردیا۔ ابولہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑے برے حال میں ہے تو اس سے پوچھا کیا گزری؟ ابولہب نے جواب دیا ’’مرنے کے بعد کوئی بہتری نہ مل سکی ہاں مجھے اس انگلی سے پانی ملتا ہے کیونکہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزاد کیا تھا‘‘ (بخاری شریف جلد 2ص 764)
اسی روایت کے مطابق ہمارے اسلاف جوکہ اپنے دور کے مستند مفسر، محدث اور محقق رہے ہیں ان کے خیالات پڑھئے اور سوچئے کہ اس سے بڑھ کر جشن ولادت منانے کے اور کیا دلائل ہوں گے؟
(1) ابولہب وہ بدبخت انسان ہے جس کی مذمت میں قرآن کی ایک پوری سورۃ نازل ہوئی ہے لیکن محض اس وجہ سے کہ اس کی آزاد کردہ باندی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کو دودھ پلایا تو اس کا فائدہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کو کچھ نہ کچھ ملتا رہا۔ سہیلی وغیرہ نے اس خواب کا اتنا حصہ اور بیان کیاہے۔ ابولہب نے حضرت عباس سے یہ بھی کہا کہ دوشنبہ پیر) کو میرے عذاب میں کچھ کمی کردی جاتی ہے۔ علماء کرام نے فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی تشریف آوری کی بشارت سنانے پر ثویبہ کو جس وقت ابولہب نے آزاد کیا تھا اسی وقت اس کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے‘‘ (تذکرہ میلاد رسول ص 18)
(2) شیخ محقق حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کا فرمان مبارک:
’’میلاد شریف کرنے والوں کے لئے اس میں سند ہے جوشب میلاد خوشیاں مناتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں۔ یعنی ابولہب کافر تھا اور قرآن پاک اس کی مذمت میں نازل ہوا۔ جب اسے میلاد کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی کے دودھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کے لئے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھرپور ہے اور میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے‘‘ (مدارج النبوۃ دوم ص 26)
(3) حضرت علامہ مولانا حافظ الحدیث ابن الجزری رحمتہ اﷲ علیہ کا فرمان مبارک:
’’جب ابولہب کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک نازل ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی ولادت کی خوشی میں جزا نیک مل گئی (عذاب میں تخفیف) تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی امت کے مسلمان موحد کا کیا حال ہوگا۔ جو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی ولادت کی خوشی مناتا ہو اور حضور کی محبت میں حسب طاقت خرچ کرتا ہو۔ مجھے اپنی جان کی قسم اﷲ کریم سے اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو اپنے فضل عمیم سے جنت نعیم میں داخل فرمائے گا‘‘ (مواہب لدنیہ جلد 1ص 27)
(4) جلیل القدر محدث حضرت علامہ ابن جوزی رحمتہ اﷲعلیہ کا فرمان مبارک:
’’جب ابولہب کافر (جس کی قرآن میں مذمت بیان کی ہے) آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی ولادت پر خوش ہونے کی وجہ سے یہ حال ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی امت کے اس موحد مسلمان کا کیا کہنا جو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی ولادت پر مسرور اور خوش ہے‘‘ (بیان المولد النبوی ص 70 اور ابن وہاب نجدی کے بیٹے کی کتاب مختصر سیرۃ الرسول ص 23)
ان محدثین کرام اور اسلاف کے خیالات سے ثابت ہے کہ جشن ولادت منانا اسلاف کا بھی محبوب فعل رہا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جب کافر محمد بن عبداﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی آمد کی خوشی مناکر فائدہ حاصل کرسکتا ہے تو مسلمان محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی آمد کا جشن مناکر کیوں فائدہ حاصل نہیں کرسکتا؟ بلکہ ابن الجزری نے تو قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ میلاد منانے والوں کی جزا یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں جنت میں داخل فرمادے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں کے شر فتنہ سے بچائے جن کے دلوں میں بغض رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم بھرا ہوا ہے آمین ۔ طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
No comments:
Post a Comment