رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا پیغام امت کے نام
ہر قوم اور مذہب کے پیرو کار اپنے پیشوائوں اور رہنمائوں کی وصیتوں اور نصیحتوں کا خاص خیال رکھتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کو ہر حال میں لازم سمجھتے ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیںکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے محبوب ﷺکی شکل میں جیسا اعلیٰ ،ارفع،اشرف،اکرم ،اعلم رہنما عطا فرمایا دنیا کی کسی قوم کو نہ ملا اور نہ ہی ممکن ہے۔اور یہ حقیقت ہے کہ ہم اپنے رب کریم کے اس فضل وعطا کا شکر اپنی تمام تر کائنات ،جان اورمال واولاد لٹا کر بھی ادا نہیں کر سکتے۔
تو کم از کم اتنا ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ :کچھ نہ سہی تو اپنے اس محبوب پیغمبر ﷺ ،جن کے صدقے ہمیں دوجہاں کی خیرات وبر کات حاصل ہوئیں ۔ جن کی نظر کرم کے ہم دو جہاں میں سائل و محتاج ہیں ،جو ہماری امیدوں اور آرزئوں کے مرکز ہیںاورمصائب وآلام میں ہماری جائے پناہ ہیں ۔ان کی وصیتوں اور نصیحتوں پر حتی المقدورعمل کر کے ان کی نظر رحمت کے مستحق بنیں۔اسی غرض سے ہم ذیل میں آپ ﷺکی کچھ وصیتیں اور نصیحتیں پیش کر نے کی سعادت حاصل کرتے ہیں تا کہ ہر مسلمان ان پر عمل کر کے دنیا اور آخرت کی کامیا بیوں سے بہرہ ور ہو سکے۔
عورتوں کے فتنے سے بچنے کی وصیت:آپ ﷺنے جہاں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا تا کیدی حکم دیا وہیں ان کے فتنے سے بچنے کی بھی بڑی تا کید فر مائی اور اپنی امت کو ان سے ڈرایا۔چنانچہ آپ ﷺنے ارشاد فر مایا:میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہ چھوڑا۔(ابن ماجہ ،حدیث: ۳۹۹۸)
اور ارشاد فرمایاکہ:جو مجھے اپنی ان دو چیزوں کی ضمانت دے جو اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان ہے اور جو دونوں ٹانگوں کے درمیان میں ہے(یعنی زبان اور شرم گاہ)تو میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔(ترمذی،حدیث:۲۴۰۸،بخاری،حدیث:۶۴۷۴)
آج اگر ہم عورتوں کے ساتھ ناجا ئز تعلقات اور ان کے ساتھ خلط ملط رکھنے کے نقصانات کا اندازہ لگائیں تو یہ ہمارے لئے ناممکن ہے۔عورتوں کی بے حیائی و ننگا پن اور مردوں کی بے راہ روی نے پوری دنیا کو گنا ہوں سے بھر دیا ہے ۔لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بر باد ہو چکی اور ہو رہی ہیں ۔آپ کبھی کبھی سو چتے ہوں گے کہ آج ۵۷؍مسلم ممالک ہونے کے باوجود بھی دنیا میںمسلمانوں کی حالت اتنی ابتر کیوں ہے؟تو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آپ صرف ایک نظر ان مسلم حکمرانوں کے نجی زندگی پر ڈال لیں ۔معاملہ سمجھ میں آجائے گا۔شا ید کوئی ایسا مسلم حکمراں آپ کو نظر آئے جو یہودی ، عیسائی اور غیر محرم دو شیزائوں کے ساتھ داد عیش نہ دے رہے ہوں۔اسی لئے آپ ﷺنے اس کے بارے میں خاص تا کیدی حکم ارشاد فرمایاکہ: الا!فاتقوا الدنیا واتقوا النسائ۔خبردار!تم دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو۔
(ابن ماجہ،حدیث:۴۰۰۰)
اور ارشاد فر مایا: ہر صبح کواللہ کے دو فرشتے پکار کر کہتے ہیں:ویل للرجال من النساء وویل للنساء من الرجال۔بر بادی ہے مردوں کے لئے عورتوں سے اور عورتوں کے لئے مردوں سے۔(ابن ماجہ،حدیث:۳۹۹۹)
مال و دولت کے فتنے سے بچنے کی وصیت: مال و دولت کا فتنہ بھی بڑا عظیم فتنہ ہوتا ہے ۔ایک انسان مال و دولت کے لالچ میں پھنس کر وہ تمام کام کر گزر تا ہے جو اس کی دنیا اور آخرت دونوں کی بر بادی کا سبب بن جاتا ہے۔اس لئے آقائے کریم ﷺ نے دنیا سے رحلت کرنے سے چنددن پہلے اس فتنہ سے بچنے کا خا ص حکم ارشاد فر مایا۔اور اس کے انجام سے ڈرایا۔چنانچہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایاکہ: مجھے اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ تم لوگ میرے بعد شرک کرنے لگو گے ہاں !مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تم دنیا کو جمع کرنے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کروگے ۔اس وجہ سے تم ہلاک ہوگے جس طرح پہلی قومیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔(مسلم،حدیث:۲۲۹۶۔ابن ماجہ،حدیث:۳۹۹۷)
حضور ﷺنے اپنی نگاہ نبوت سے مستقبل کے حالات کو دیکھتے ہوئے جس امت کے بارے میں ارشاد فر مایا تھا کہ:مجھے یہ اندیشہ نہیں کہ تم میرے بعدشرک کروگے۔آج کچھ جاہل لوگوں کووہ پوری امت سوائے مٹھی بھر لوگوں کے شرک میں ڈوبی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
بہر حال حضور ﷺنے اپنے الوداعی پیغام میں اپنی امت کو مال ودولت کے فتنے سے بچنے کا حکم دیا اور ایک دوسرے موقع پر ارشاد فر مایا کہ:لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ اس بات کی پرواہ نہیں کریں گے کہ یہ مال حرام ذریعے سے آیا یا حلال ذریعے سے۔
اور آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:ان لکل امۃ فتنۃ وان فتنۃ امتی المال۔ہر امت کے لئے ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔(المستدرک للحاکم،حدیث:۷۸۹۶)
آج آپ اپنی نگاہوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ مال ودولت کی لالچ میں پھنس کر کیسے کیسے جرائم انجام دے رہے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ لوگ اس کی وجہ سے اپنا ایمان بھی بیچ دے رہے ہیں۔ان سب باتوں سے در اصل آپ ﷺاپنی امت کو ان فتنوں سے دور رہنے کی وصیت فر ما رہے تھے۔اس لئے ان تمام لوگوں پر جو حضور کی امت کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔لازم ہے کہ اپنے آقا ﷺکی ان وصیتوں پر عمل کریں۔آپ ﷺنے ان دنیاوی لذتوں سے بچنے کا ایک عظیم نسخہ اپنی امت کو عطا کرتے ہوئے فر مایا کہ:اکثرو اھازم اللذات الموت۔لذتوں کو ختم کرنے والی چیز کو کثرت سے یاد کرو۔یعنی موت کو۔(المستدرک للحاکم،حدیث:۷۹۰۹)
کتاب و سنت پر عمل کرنے اور اہل سنت و جماعت کے ساتھ رہنے کی وصیت: آپ ﷺ نے بار بار اپنی امت کو اس بات سے آگاہ کیا کہ میرے بعد لوگ مختلف فر قوں میں بٹ جائیں گے ۔اور اپنی گونا گوں گمرا ہیوں کے باعث جہنم میں جائیں گے۔اس لئے تم ہر حال میں کتاب و سنت پر عمل کرنا اور اہل سنت وجماعت کے ساتھ رہنااور اپنے دین کو دنیا کے تھوڑے روپئے پیسے کے بدلے میں نہ بیچنا کیو نکہ یہی وہ مسلک ہوگا جس کے پیروی کرنے والے راہ راست پر ہوں گے اور جنت میں جائیں گے۔
چنانچہ آپ ﷺنے کتاب وسنت کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے ارشاد فر مایا:اے لوگو! میںنے تم میں دو چیزیں چھوڑا ہے اگر تم ان کا دامن مضبوطی سے تھامے رہوگے تو تم کبھی گمراہ نہ ہوگے۔(ان میں سے ایک)اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے(اور دوسری)تمہارے نبی کی سنت ہے۔یہ حدیث صحیح ہے۔(المستدرک للحاکم ۔کتاب الایمان۔حدیث:۳۱۸۔۳۱۹)
سنت کے ساتھ ساتھ آپ ﷺنے جماعت کے ساتھ رہنے کا بھی تاکیدی حکم دیا چنانچہ ارشاد فر مایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں محمد(ﷺ)کی جان ہے۔میری امت ضرور تہتر فر قوں میں بٹ جائے گی تو ان میں سے ایک جنتی ہوگااور باقی بہتر فرقے جہنمی ہوں گے۔پو چھا گیا کہ:یارسول اللہ ﷺ! وہ (یعنی جنتی )کون ہوگا؟۔آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا:وہ جماعت ہے۔یہ حدیث صحیح ہے۔(ابن ماجہ ،حدیث:۳۹۹۲۔۳۹۹۳)
اسی طر ح سے آپ ﷺنے ایک دوسرے موقع پر ارشاد فر مایا:اتبعوا السواد الاعظم فانہ من شذ شذ فی النار۔تم مسلمانوں کی بڑی جماعت کی پیروی کرو۔کیو نکہ جو الگ ہوگا وہ جہنم میں ڈالا جائے گا۔اور ارشاد فر مایا کہ:من فارق الجماعۃ شبرا فقد خلع رقبۃ الاسلام من عنقہ۔جو شخص ایک بالشت بھر بھی مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوا اس نے اسلام کی رسی کو اپنی گردن سے اتار پھینکا۔
حضرت عرفجہ اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اکرم ﷺنے فر مایا:میرے بعد ایسے ایسے لوگ ہوں گے۔جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو جماعت سے الگ ہو رہے ہو ںتو تم انہیں قتل کردو کیو نکہ جماعت سے الگ ہونے والا ایسا ہے گویا میری امت سے الگ ہو گیا ۔بے شک اللہ کی حمایت جماعت کے ساتھ ہے اور جماعت سے جدا ہونے والے کے ساتھ شیطان ہے۔(شعب الایمان، حدیث :۷۱۰۶)
خود اللہ رب العزت نے بھی مسلمانوں کے جماعت کے ساتھ رہنے اور اتباع سنت کرنے کو صحیح راستہ قرار دیا چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔اور جو مخالفت کرے رسول کی اس کے بعد کہ ہدایت ظاہر ہو چکی اور عام مومنوں کے راستے کے علاوہ کسی دوسرے راستے کی پیروی کرے تو اس کو ہم پھیر دیں گے جدھر وہ پھرا اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ کیا ہی بری جگہ ہے۔(سورہ نساء ،آیت:۱۱۲۔۱۱۵)
ان تمام تر آیت و احادیث سے ظاہر ہو گیا کہ :سنت کی اتباع کے ساتھ مسلمانوں کی عام جماعت جو بڑی جماعت ہے اس کے ساتھ ہی رہنے میں ہمارے لئے عافیت ہے اور جو عام مسلمانوں کی روش سے ہٹ کر طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ گمراہی اور جہنم میں جانے کا سبب ہے۔فقہی مذاہب کے معر ض وجود میں آنے کے بعد سے لیکر آج تک دنیا بھر کے مسلمان کسی نہ کسی امام کے مقلد رہے ہیں چنانچہ ہر آدمی اپنی آنکھوں سے ہر ملک کے مسلمانوںکے حالات کا مطالعہ کر سکتا ہے اور آج بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔پوری دنیا کے مسلمان کسی نہ کسی امام کی تقلید کر رہے ہیں یہاں تک کہ سعودی عرب کے لوگ بھی اپنے آپ کو غیر مقلد نہیں کہتے۔اس لئے اب جو غیر مقلدیت کا نعرہ لگاکر مسلمانوں کے عام طریقے کی خلاف ورزی کرتا ہے ، بزرگان دین کی شان میں بکواس کرتاہے اس سے مسلمانوں کو دور رہنا نہایت ضروری ہے۔حضور ﷺنے ارشاد فر مایاکہ:ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ اپنے دین کو دنیا کے تھوڑے سے فائدے کے بدلے بیچ دیں گے۔(المستدرک للحاکم،حدیث:۸۳۵۴)اس لئے خوب ہو شیار رہنے کی ضرورت ہے۔
تقویٰ اور حسن اخلاق اختیار کرنے کی نصیحت: امام بیہقی نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ:حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم ﷺسے عرض کیا کہ:یا رسول اللہ مجھے نصیحت فر مایئے۔آپ ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:میں تمہیں تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں اس سے تمہارے سارے کام سنور جائیں گے۔
ایک دوسری حدیث میں آیا کہ :آپ ﷺ نے فر مایا کہ:اے ابو ذر !تم جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرتے رہو۔(المستدرک للحاکم ،حدیث:۱۷۸)
اور ارشاد فر مایا کہ:جس کی وجہ سے اکثر لوگ جنت میں جائیں گے وہ تقویٰ اور حسن اخلاق ہے اور جس کی وجہ سے اکثر لوگ جہنم میں جائیں گے وہ زبان اور شرم گاہ ہے۔(ترمذی،ابن ماجہ،المستدرک للحاکم ،حدیث:۷۹۱۹)
اخلاص عمل کی نصیحت: حضرت عمرو بن مرہ الجملی سے روایت ہے کہ:جب حضور نبی کریم ﷺنے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف (حاکم بنا کر)بھیجا تو انہوں نے بارگاہ رسالت میں عر ض کیا :یارسول اللہ ﷺ! مجھے وصیت فر مایئے۔آپ ﷺنے ارشا د فر مایا:تم اپنے دین کوخالص کر لو تو تھوڑا عمل بھی تمہارے لئے کافی ہوگا۔(المستدرک:کتاب الرقاق،حدیث:۷۸۴۴)
یعنی تم مخلص بن جائو۔کسی کے ساتھ بھلائی کرو یا کسی کمزور کا سہارا بنو یا کسی محتاج کی حاجت روائی کرو یا اس کے علاوہ تم جو کچھ بھی کرو تو اس کا بد لہ یا خود اپنے لئے دوسروں سے ایسے ہی سلوک کی امید میں نہ کرو بلکہ تمہارے ہر کام کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو تم اپنے دشمن کو اس وجہ سے مت روکو کہ اس سے تمہاری ذاتی دشمنی ہے بلکہ یہ دیکھو کہ اس کو دینے سے ہمارا رب خوش ہوتا ہے یا نہیں اگر خوش ہوتا ہے تو اپنی پرواہ مت کرو اسے اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لئے ضرور دو۔جب تم ایسا کروگے تو تمہارے پاس نوافل کی کثرت نہ ہونے کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ تمہیں کامیابی اور سرخروئی عطا فرمائے گا۔
پانچ چیزوں کو غنیمت سمجھنے کی نصیحت: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو۔اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔اپنی صحت وتندرستی کو بیماری سے پہلے۔اپنی مالداری کو مفلسی سے پہلے۔اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے۔اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔(المستدرک للحاکم ، کتاب الرقاق ،حدیث:۷۸۴۶)
اسی طر ح سے ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺنے فر مایا:اے طارق! استعد للموت قبل نزول الموت۔موت کی تیاری کر لو موت آنے سے پہلے۔(المستدرک،کتاب الرقاق،حدیث:۷۸۶۸)
زہد اختیار کرنے کی نصیحت: حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور ﷺنے ایک شخص کو نصیحت فر مایا تو کہاکہ:ازھد فی الدنیا یحبک اللہ عزو جل وزاہد فیما فی ایدی الناس یحبک الناس۔تم دنیا طلبی سے پر ہیز کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت فر مائے گا۔اور ان چیزوں کے طلب کرنے سے باز آجائو جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہے تو لوگ تم سے محبت کریں گے۔(المستدرک للحاکم ،حدیث:۷۸۷۳)
اسی طرح آپ ﷺنے زہد کی نصیحت فر ماتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے کاندھے پر اپنا دست اقدس رکھ کر فر مایا کہ:کن فی الدنیا کانک غریب او عابرسبیل۔تم دنیا میں ایسے رہوجیسے کہ تم اجنبی ہو یا راستہ طے کرنے والے مسافر ہوں۔(بخاری، کتاب الرقاق، حدیث:۶۴۱۶)
اور حضور ﷺنے خود اپنے بارے میں ارشاد فر مایا کہ:میری اور دنیا کی مثال ایسے ہے جیسے کہ گرمی کے مہینے میں سفر کرنے والا مسافر کہ وہ سفر کرتا رہتا ہے پھر دوپہر کو تھوڑی دیر کسی درخت کے سائے میں آرام کر لیتا ہے پھر اٹھ کر اپنی منزل کی طرف چل پڑ تا ہے۔(المستدرک،کتاب الرقاق،حدیث:۷۸۵۸)
اور حضور ﷺنے فر مایا کہ:جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے محبت فر ماتا ہے تواسے دنیا سے ایسے بچاتا ہے جیسے تم اپنے بخارکے مریض کو پانی سے بچاتے ہو۔
(المستدرک،کتاب الرقاق،حدیث :۷۸۵۷)
خواہشات نفسانی سے اجتناب کی نصیحت: حضور اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:جہنم خواہشات سے گھِری ہوئی ہے اور جنت ناگوار کاموں سے۔(بخاری ،حدیث :۶۴۸۷)یعنی خواہشات نفسانی کی پیر وی کرنا جہنم میں جانے کا سبب ہے اورناگوار کام کو انجام دینا جنت میں جانے کا سبب ہے ۔جیسے سخت ٹھنڈی کے موسم میں وضو کرنا،نماز کی پابندی کرنا،نا جائز طریقے سے مال قبول نہ کرنا،خوبصورت عورتوں کی طرف نظر کرنے سے بچنا،گناہ نہ کرنا اپنی محنت کی کمائی غریبوں کو دینا ،کھانا ہوتے ہوئے روزہ رکھناوغیرہ جو ایک انسان کو بظاہر ناگوار معلوم ہوتا ہے ۔ایسے ہی کاموں سے جنت گھرا ہوا ہے۔جو شخص ان نیک اعمال کے راستے میں پیش آنے والی رکاوٹوں اور بندشوں کو توڑے گا اور ان پر عمل کرے گا تو یہی سب کام اس کے جنت میں جانے کا سبب بن جائیںگے۔اور ارشاد ربانی ہے۔اور جس نے اپنے نفس کو غلط خواہشات سے روک لیا اللہ کے خوف سے تو اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔
اس کے علاوہ کتب احادیث میں اور بہت ساری وصیتیں اور نصیحتیں مذکور ہیں ۔ہم نے مختصرا ان میں سے کچھ آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔تفصیل کے لئے کتب احادیث کا مطالعہ کریں۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment