عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم حقائق و دلائل کی روشنی میں
غیر مسلموں کے مقابلہ میں ہمیں اسلام نے دو تہوار دیے ہیں ۔جنہیں عید الفطر اور عید الاضحی کہا جاتا ہے۔جبکہ کسی خوشی ،فرط مسرت کے موقع کو لفط عید سے تعبیر کرنا اور منانا شرعی طور پر ممنوع نہیں۔
ہر خوشی والا دن عید ہے
عید کے معنی ہیں ہر خوشی والا دن۔امام راغب اصفہانی کہتے ہیں
یستعمل العید فی کل یوم فیہ مسرۃ(المفرادات۳۹۳)
خوشی والے دن کو عید کہتے ہیں (تفسیر مظہری ج۲)
والعید یوم السرور(تفسیر خاذن ج۱)
پھر مفتی شفیع، اشرف علی نے عید کا معنی ایک خوشی کی بات لکھاہے۔اسی طرح عبد الماجد دریاباری نے بھی اس کا ترجمہ ایک جشن کیا ہے۔صلاح الدین یوسف نے بھی اس کا ترجمہ ایک خوشی کی بات کیا ہے ۔
دستر خوان کے نازل ہونے پر عید۔
قرآن مجید فرقان حمید میں موجود ہے کہ :قال عیسی ابن مریم اللہماربنا انزل مائدۃمن السماء تکون عید الالنا واٰخرنا ۔
ترجمہ:عرض کیا عیسی ابن مریم نے کہ اے اللہ اے پالنے والے اتار تو ہمارے اوپر دستر خوان تاکہ ہوجائے عید ہمارے اگلوں کے لیے اور پچھلوں کے لیے۔
آیت مذکورہ سے یہ معلوم ہوا کہ جس دن کوئی نعمت ملے اس دن کو عید قرار دینا جائز ہے۔
یہاں پر وہابی دیوبندی حضرات استدلال کو سمجھے بغیر لمبی چوڑی گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔اس آیت سے استدلال صرف اتنا ہے کہ جس دن نعمت ملے اس دن کو عید کہنا جائز ہے ۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم بھی نعمت ہیں لہذا آپکی ولادت کے دن کو عید کہنا جائز ہے۔
آزادی ملنے پر عید
عاشورآء کا دن یہودیوں کیلئے آزادی کا ن تھا ،اسے انہوں نے عید بنایا تھا۔
حضرت ابو موسی نے بیان کیا :
کان یوم عاشورآء تعدہ الیھود عیدا(صحیح بخاری ج ۱ص ۲۶۸)
عاشورآء کے دن یہودی عید مناتے تھے۔
حضرت امیر معاویہ نے بر سر منبر فرمایا
ان یوم عاشورآء یوم عید(مصنف عبد الرزاق ج ۴ ص ۲۹۱)
یوم عاشوراء میں موسی علیہ اسلام کی قوم دشمن سے آزاد ہوئی تو اس دن کو عید قرار دیا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت سے تو پورا عالم اسلام آزاد ہوا لہذا یہ بدرجہ اولی عید ہو گا۔
بہرحال اس مختصر وضاحت سے ثابت ہو گیا کہ خوشی کے دن کو عید کہتے ہیں۔
اور ہم اشرف علی کا قول نقل کرآئے کہ ولادت پر فرح جائز ہے تو یہ خوشی کا دن ہے اور عید ہے۔ایک بات اور ذہن میں رکھے ۔ ہم اس کو فقہی عید نہیں بلکہ لغوی اور عرفی عید قرار دیتے ہیں۔پھر اس کی ایک اصل یہ بھی ہے کہ حضورﷺ نے سوموار کا رو زہ رکھا(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۷۵۰) اور ملاں اشرف علی نے یہ اقرار کیا کہ آپ نے یہ رو زہ اپنی ولادت کی خوشی میں رکھا ۔(خطبات میلادالنبی)لہذا سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے بھی اس دن خوشی منائی تو اس اعتبار سے یہ دن بھی عید ہے۔
عید کا روزہ
وہابی حضرات یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر میلاد نبوی کا دن عید ہے تو اس دن روزہ نہ رکھو۔مگر حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے رکھا تو ا س کو عید نہ کہو کیوں عید کا روزہ نہیں ہوتا ۔
جواب۔جواب اس کا یہ جمعہ کو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے عید قرار دیا ہے جس کا خود وہابیوں کو بھی اقرار ہے ملاحظہ ہو کتاب ہم میلاد کیوں نہیں مناتے ص ۶۲اسی طرح اشرف علی نے بھی اس کو عید تسلیم کیا بہشتی زیور ص۶۶۸اور ظاہری بات ہے جمعے کو روزہ رکھنا جائز ہے ۔اب ہم وہابیوں سے یہی اعتراض کرتے ہیں ہیں یا تو جمعہ کا روزہ ناجائز قرار دو یا جمع کوعید کا دن نہ کہو۔
اس کا تحقیقی جواب یہ کہ جس طرح جمعہ و یوم عرفہ عرفی عیدیں ہیں ایسے ہی میلاد بھی عرفی عید ہے۔اس کے فقہی احکامات نہیں۔
دیکھو اشرف علی تھانوی کہتا ہے جس دن سورت کہف کی تفسیر مکمل ہوئی وہ دن عید ہے(بیان القرآن ج ۲ ص ۲۵۹)
تقی عثمانی لکھتا ہے اس سے بڑھ کر روز عید کوئی نہ ہوتا جب وہ کراچی آتے (نقوش رفتگاں ص ۳۱)اب ہمیں دیوبندیوں سے پوچھنے دیں جب تفسیر مکمل ہو اوربڑا بھائی آئے تو وہ دن عید قرار دیے جا سکتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت کا دن کیوں نہیں عید قرار دیا جاسکتا ۔ایسے ہی وہابی مناظر مناظر نے بھی مومن کی پانچ عیدیں گنوائی ۔
1۔جس بندہ گناہ سے محفوظ ہو
2۔جس دن خاتمہ بالخیر ہو
3۔جس دن پل سے سلامتی سے گزرے
4۔جس دن جنت میں داخل ہو۔
5۔جب پر وردگار کے دیدار سے بہرہ یاب ہو۔(ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث بحوالہ کیا جشن عید میلاد النبی غلو فی الدین ہے۔)
صادق سیالکوٹی نے لکھا کہ جناب عمر نے دو عیدیں ثابت کیں(جمعہ اور عرفہ کا دن )(جمال مصطفی ص ۱۴)
اب ذارا دل تھام کر سنو ۔شورش کاشمیری نے ولادت والے دن کو عید کہنا اور جلوس وغیرہ نکالنا جائز قرار دیا(چٹان)ایسے ہی سلیم یوسف چشتی نہ صرف خود عید میلاد کو تسلیم کیا بلکہ ہندوں تک کے قائل ہونے کا اقرار کیا(ندائے حق ص ۱۵ ،۱۶)اس طرح وہابی مولوی مخلص نے میلاد شریف کو عید تسلیم کیا (توحیدی نعتیں ص۱۱)
عید میلاد کا فقہ میں ذکر
ایک منکر عید میلاد نے یہ اعتراض کیا کہ جی کیا فقہ میں یا حدیث کی کسی کتاب میں عید میلاد کا ذکر ہے ؟
میں کہتا ہوں وہابیوں کے پاس دماغ نہیں بھوسہ ہے جب ہم یہ بتا چکے ہیں کہ یہ صرف ایک عرفی عید ہے تو پھر اس قسم کے سوالات پوچھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے بغض کا اظہار ہے کہ نہیں۔باقی تسلی کے لیے ریاض صالحین کے شرعہ کے یہ الفاظ بھی ملاحظہ کرتے جائے ۔مفصل گفتگو اوپر کی جا چکی ہے۔
و نضرب لھذا مثلا با ولئیک الذین ابتدعو ا عید میلاد الرسول علیہ الصلاۃ والسلام ۔
منکرین عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کہتے ہیں تم لوگوں کو عید میلاد انگریز نے دی ہے ۔
یہ بالکل جھوٹ ہے بلکہ شروع سے ہی اہل زوق نے اس دن کو عید قرار دیا ۔
امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : فرحم اللہ امر اتخذ لیالی شھر مولدہ البمارک اعیادا فیکون اشد علۃ علی من فی قبلہ مرض(الموہب ج۱ ص ۲۷)
اسی طرح ملاں علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا : اما اھل مکۃ ۔۔۔یزید اھتمامھم بہ علی یوم العید(الموردالروی)
اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ملاں علی قاری اور امام قسطلانی بھی انگریز کے زمانے میں تھے؟
منکرین کا ایک اور اعتراض یہ ہے کہ : 12 وفات کو 12 میلاد کر وایا گیا تو اس کا جواب یہ کہ متحدہ ہندوستان میں 12 وفات کے طور پر مشہور تھی جسکو 12 میلاد سے سرکاری طور پر صرف ہندوستان میں تبدیل کروایا گیا ورنہ اس سے پہلے دوسرے ممالک خصوصا حرمین شریفین میں سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت پر خوشی منائی جاتی تھی۔اس بات ہم چند شہادتیں پیش کرتے ہیں۔
مصنف تواریخ حبیب الہ کی شہادت۔مفتی عنائیت احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ جنہیں اشرف علی تھانوی صاحب مستند مانا اور اپنی کتاب نشرالطیب میں بار بار ان کے حوالے دیئے ہیں رقم طراز ہیں کہ : حرمین شریفین اوراکثر بلاد اسلام میں عادت ہے کہ ماہ ربیع اول میں محفل میلاد کرتے ہیں اور مسلمانوں کو مجتمع کر کے ذکر مولود شریف کرتے ہیں اور کثرت درود شریف کی کرتے ہیں۔اور بطور دعوت کے کھانا شرینی تقسیم کرتے ہیں۔
آگے لکھتے ہیں۔
بارہویں ربیع اول کو مدینہ منورہ میں یہ محفل متبرک مسجد شریف میں ہوتی ہے اور مکہ معظمہ میں مکان ولادت آنحضرت ﷺ (تواریخ حبیب الٰہ صفحہ 15)
اسی طرح امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فلا زال اھل الاسلام یحتلفون بشہر مولدہ(مواہب ص۲۷)
اسی طرح امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : لا زال اھل حر مین الشریفین والمصر والیمن والشام و سائر بلاد العرب من المشرق و المغرب یحتلفون بمجلس مولد النبی ﷺ و یفرحون بقدوم ھلال شہر ربیع اول
پھر یہ دائمی عمل ہے کسی کو اس کا موجد قرار دینا بھی حقائق کو مسخ کرنا ہے۔ہماری اس بات شہادتین تو بہت ہیں مگر ہم نے یہاں پر صرف دو نقل کئے ہیں(تفصیل کے لیے آو میلاد منائیں کا مطالعہ کریں )پھر جب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ قرآن سے ثابت ہے تو انداز بدلتے رہتے ہیں مگر اصل وہی رہتی ہے۔
ایک اور اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ : جلوس بدعت ہے اس کو صحابہ رضی اللہ عنہم نے نہیں کیا۔بلکہ تم لوگوں ۱۹۳۲میں ایجاد کیا۔
یہاں پر ایک بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ہمارا دعوی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت پر کسی بھی جائز طریقے سے خوشی منانا مستحب ہے۔اب اس میں محفل میلاد ،جلوس ،چراغاں سب شامل ہیں۔جب یہ بات اوپر ثابت ہو چکی کہ آپ کی ولادت پر خوشی منانا جائز ہے تو اس میں ان سب کا ثبوت بھی ہوگیا۔پھر کسی خوشی کے موقع پر جلوس نکالنا خو د صحابہ سے بھی ثابت ہے۔
مثلا جب حضرت عمر ایمان لے کر آئے اس وقت جلوس نکالا گیا (تاریخ الخلفا ص ۱۱۴)حجۃ الوداع کے موقع پر جلو نکالا گیا (زرقانی ج ۳ ۱۰۶)جب حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہجرت کر کے مدینہ آئے تب جلوس نکالا گیا (بخاری ض ۱ ص ۵۵۵)
غر ض کہ خوشی کہ موقع پر جلوس منانا صحابہ سے ثابت ہے۔اس کے علاوہ شیخ قطب الڈین مکی نے اہل مکہ کا ولادت رسول کے موقع پر جلوس نکالنا لکھا ہے(الاعلام با علام بیت اللہ لاحرام ص ۲۹۷،۲۹۸)
مفتی فرید نے لکھا ہے کہ جلوس عید میلاد جائز ہے (فتاوی فریدیہ ج ۱ ص۳۱۵)
جن لوگوں نے صحابہ کے جلوس کو بدعت کہا تو ان کو مولوی حق نوا ز کہتا ہے کہ : چند سال اپنے فتوے کی توپ بند رکھو(حق نوازکی ۱۵ تاریخ ساز تقریریں)
ہم بھی کہتے اپنے منہ کو بند رکھو۔پہلے اپنے گھر کی خبر لو پھر ہم پر بکواس کرنا۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment