بدعت بدت کی رٹ لگانے والوں کو دعوت فکر
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ ۔ ( سورۂ المائدہ آیت ١٠١ پارہ ٧ )
ترجمہ : اے ایمان والو مت پوچھو ایسی باتیں کہ اگر تم پر کھولی جاویں تو تم کو بری لگیں اور اگر پوچھو گے یہ باتیں ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہورہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جاویں گی اللہ نے ان سے در گزر کی ہے اور اللہ بخشنے والا تحمل والا ہے.
( ترجمہ شیخ الہند دیوبند محمود الحسن دیوبندی )
بانی جماعت اسلامی مودودی دیوبندی لکھتے ہیں : نبیصلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے بعض لوگ عجیب عجیب قسم کے فضول سوالات کیا کرتے تھے جن کی نہ دین کے کسی معاملہ میں ضرورت ہوتی تھی اور نہ دنیا ہی کے کسی معاملہ میں۔
مثلاً ایک صاحب بھرے مجمع میں آپ سے پوچھ بیٹھے کہ میرا اصلی باپ کون ہے؟ اسی طرح بعض لوگ احکام شرع میں غیر ضروری پوچھ گچھ کیا کرتے تھے اور خوامخواہ پوچھ پوچھ کر ایسی چیزوں کا تعین کرانا چاہتے تھے جنہیں شارع نے مصلحتاً غیر معین رکھا ہے۔
مثلاً قرآن میں مجملاً یہ حکم دیا گیا تھا کہ حج تم پر فرض کیا گیا ہے ایک صاحب نے حکم سنتے ہی نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے دریافت کیا
کیا ہر سال حج فرض کیا گیا ہے؟
آپ نے کچھ جواب نہ دیا انہوں نے پھر پوچھا آپ پھر خاموش ہوگئے
تیسری مرتبہ پوچھنے پر آپ نے فرمایا
تم پر افسوس ہے اگر میری زبان سے ہاں نکل جائے تو حج ہر سال فرض قرار پا جائے پھر تم ہی لوگ اس کی پیروی نہ کر سکو گے اور نہ فرمانی کرنے لگو گے۔
ایسے ہی لایعنی اور غیر ضروری سوالات سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم خود بھی لوگوں کو کثرت سوال سے اور خوامخواہ ہر بات کی کھوج لگانے سے منع فرماتے رہتے تھے۔
چنانچہ حدیث میں ہے . إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا، مَنْ سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُحَرَّمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَحُرِّمَ عَلَيْهِمْ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ ۔
مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال چھیڑا جو لوگوں پر حرام نہ کی گئی تھی اور پھر محض اس کے سوال چھیڑنے کی بدولت وہ چیز ٹھہرائی گئی۔
ایک دوسری حدیث میں ہے : إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى فَرَضَ فَرَائِضَ فَلاَ تُضَيِّعُوهَا ، وَحَدَّ حُدُودًا فَلاَ تَعْتَدُوهَا ، وَحَرَّمَ أَشْيَاءَ فَلاَ تَنْتَهِكُوهَا ، وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ رَحْمَةً بِكُمْ ، غَيْرَ نِسْيَانٍ ، فَلاَ تَبْحَثُوا عَنْهَا ۔
اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ان کے پاس نہ پھٹکو کچھ حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے کہ اسے بھول لاحق ہوئی ہو لہذا ان کی کھوج نہ لگاؤ۔
ان دونوں حدیثوں میں ایک اہم حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے جن امور کو شارع نے مجملاً بیان کیا ہے اور ان کی تفصیل نہیں بتائی یا جو احکام بر سبیل اجمال دیئے ہیں اور مقدار یا تعداد یا دوسرے تعینات کا ذکر نہیں کیا ہے ان میں اجمال اور عدمِ تفصیل کی وجہ یہ نہیں ہے کہ شارع سے بھول ہوگئی تفصیلات بتانی چاہیئے تھیں مگر نہ بتائیں۔
بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شارع ان امور کی تفصیلات کو محدود نہیں کرنا چاہتا اور احکام میں لوگوں کیلئے وسعت رکھنا چاہتا ہے۔( تفہیم القرآن جلد1 صفحہ507.508 )
حیران کن امر یہ ہے کہ جب اللہ عز و جل اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے وسعت عطا فرما دی اور جب تک منع کا حکم نہ آئے ممانعت نہیں تو ںھر اس اصول اور ضابطہ کو ہم اہلسنت پر فتویٰ داغنے کے وقت مدنظر کیوں نہیں رکھا جاتا ؟
محافل میلاد , ایصال ثواب کے جلسے , کھانے پر قرآن پڑھنا . اذان کے اول آخر برکت کیلئے درود شریف پڑھنا وغیرہ معمولات اہلسنت کو بدعت کہتے وقت علماء دیوبند یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب تک ممانعت کا حکم نہ ہو ممانعت نہیں اور جس کام کے کرنے اور نہ کرنے کے متعلق اللہ عز و جل اور اس کے مکرم رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم خاموش ہوں وہ عمل جب شرعاً مباح ہے تو پھر شریعت کے اس قاعدے کو مانتے سے کونسی چیز مانع ہے جب کہ یہ اصول تو خود علماء دیوبند کو بھی مسلّم ہے ۔ طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
No comments:
Post a Comment