حصّہ اوّل : حدیث : مااحدث قوم بدعۃالا رفع مثلھا من السنۃ کی مکمل تشریح
قرآن پاک سورۃ زمر آیت نمبر9اور پارہ23رکوع15 ارشاد فرما یا:قل:اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ فرما دیجیے:ھل یستوی ا لذین یعلمون والذین لایعلمون :جو لوگ جانتے ہے اور جو لوگ نہیں جانتے کیا وہ برا بر ہو سکتے ہیںیعنی جاننے والے اورنہ جاننے والے دونو ں برابر نہیں ہو سکتے کیوں کہ جو شخص علم کی گہرائی سے دور ہو تا ہے تو وہ پھر عجیب وغریب سوچ اور فکر کا حامل ہو تا ہے اور کسی بھی معاملے میں اپنی ایک رائے بنا لیتا ہے اور کئی مرتبہ اس کی رائے قرآن اور حدیث کے خلاف ہو تی ہے بعض اوقات الفاظ ایسے ہو تے ہیں کہ اس لفظ کو انسان جب پہلی دفعہ سنتاہے تو علم نہ ہو نے کی وجہ سے یامعلومات کی کمی کی بناپر وہ ایک تصورقائم کر لیتا ہے مثلاًکسی کے متعلق اگر انسان سنے کہ وہ غصے میں آگیا اس کا چہرہ لال ہو گیا یا غصے میں اس نے کوئی عمل کیا تو انسان یہ تصور قائم کر تا ہے کہ غصہ تو بُر ی چیز ہے غصہ تو حرام ہے اور یہ ایک جذباتی شخص ہے اوراسے ایسا نہیں کر نا چا ہیے کہ قرآن مجید فرقان حمید نے ارشاد فرما یا :والکاظمین الغیظ:اور غصہ پینے والے متقی لوگ ہیںیاان کی نظر میں یہ حدیث ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے کہاکہ مجھے نصیحت کیجیے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا کہ غصہ نہ کیا کر۔ تو ان آیات اور احادیث طیبہ کوسن کر وہ یہ ذہن بنا لیتا ہے کہ غصہ بُری چیز ہے حرام ہے غصہ کر نے والا شخص بُر ا ہے حالانکہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہم غور کر یں تو غصے کی دو قسمیں ہوتی ہیں کچھ مواقع پر غصہ اچھا ہو تاہے اور بعض جگہ پر غصہ بُر ا ہو تا ہے اس کی تفصیل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں اس طرح بیان کیا کہ جو غصہ اپنے نفس کے لیے ہو اور اس غصے میں انسان شرعی نا فرما نی کر جائے تو ایسے غصے کا اظہار بُر ا ہے لیکن اگر غصہ اللہ کی خاطر ہو غصہ دین کے لیے ہو اور شریعت کے دائرے میں رہ کر اللہ کی محبت میں اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں غصے کا اظہارہو تو ایسا غصہ نہ صرف جائز بلکہ بہت ہی زیا دہ باعث برکت ہے دیکھئے علامہ قرطبی علیہ الرحمہ نے تفسیر قر طبی میں لکھا:اَنَّ ابا قحافۃسبّ النبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے والد ابو قحافاجو کہ اُس وقت مسلمان نہیں تھے تو کفر کی حالت میں انھو ں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخت گستاخی اور بے ادبی کی اور یہ بے اد بی انہوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے کی :فصکہ ابوبکرابنہ صکۃ فسقط منھاعلی وجھہ :تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ انتہائی غصے اور جلال میں آگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں انہیں اس قدر غضب آیا کہ حضرت ا بو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے زور سے طما نچہ اپنے باپ کو مارا اور اس طما نچہ کی وجہ سے ابو قحافا اپنے چہرے کے بل دور جا کرگرے :ثم اتی النبی ﷺ:پھر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابو بکر صدیق رضی اللہ تعا لی عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے :فذکر ذلک لہ :اور انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ واقعہ بیا ن کیا :فقال اوفعلتہ :حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کیا ؟:لاتعد الیہ :آئندہ ایسا نہ کرنا۔اب بجائے اس کے کہ حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالی عنہ یہ کہتے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے غلطی ہو گئی ہے آپ دعا کریں کہ اللہ مجھے بخش دے بلکہ حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی محبت کا اظہار کیا :فقال :پس آپ نے کہا :والذی بعثک با لحق نبیا لوکان السیف منی قریبا لقتلتہ :اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمبنا کر بھیجا میں نے تو تھپڑ مارا اس لیے کہ میرے پاس تلوار نہیں تھی اگر اس وقت میرے قریب تلوا رہو تی :لقتلتہ :تومیں ا پنے باپ کو قتل کر دیتا قر آن مجید فرقا ن حمید نے اس پرکسی ایسی آیت کا نزول نہ فرما یا کہ اے ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کیسی بات کر رہے ہو والدین کے سامنے تو اُف کر نا منع ہے اور تم قتل کی بات کر رہے ہو ایسی کو ئی آیت نازل نہ ہوئی نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسافرما یا کیونکہ ان کا غصہ اللہ کی رضا کے لیے تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں تھا بلکہ قرآن مجید فرقا ن حمید کی سورۃ مجادلہ آیت نمبر22 کااس موقع پر نزول ہوئی جو 28ویں پا رے کے3رکوع میں ہے اور اس آیت کریمہ میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہُ کے اس عمل کی تعریف کی گئی ارشاد فرمایا:لاتجدقوما یؤمنون باللّٰہ والیوم الاخر یوادون من حاداللّٰہ ورسولہ: جو لو گ اللہ اور آخر ت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں ایسے لو گوں کو تم نہیں پا ؤ گے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن سے محبت کر یں:ولو کانوا اباء ھم اوابناء ھم اواخوانھم اوعشیرتھم:اگر چہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی بے اد بی کر نے والے ان کے باپ ہوں ان کے بیٹے ہوں ان کے بھا ئی ہو ںیا ان کا کوئی بھی رشتے دار ہو یہ کو ئی مروت نہ کر یں گے یہ ایسے لو گوں سے کو ئی محبت کا بر تاؤ نہیں کر یں گے :اولئک کتب فی قلوبھم الایمان :یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو نقش کر دیا یعنی مضبوط کر دیا :وایدھم بروح منہ :اور یہی وہ لوگ ہیں کہ ان کی جبریل امین علیہ اسلام کے ذریعے اللہ نے مدد فر مائی :ویدخلھم جنت تجری من تحتھا الانھار:اور یہی لو گ ہیں جن کو اللہ تعا لی جنت میں داخل فر ما ئے گاجن کے نیچے نہریں رواں دواں ہیں :خلدین فیھا:ان جنتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے:رضی اللّٰہ عنھم ورضواعنہ :اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے :اولئک حزب اللّٰہ: یہی اللہ والے ہیں، یہی اللہ کا گروہ ہے:الا ان حزب اللّٰہ ھم المفلحون :سن لو بے شک اللہ کا گروہ ،ا للہ والے ہی کامیاب ہونے والے ہیں ۔تو آپ نے دیکھا کے لفظِ غصہ سنتے ہی تأ ثرعجیب سا بنتا ہے لیکن ہر غصہ برا نہیں ہے اگر غصہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی محبت میں ہو تو یہ بہت عظیم نیکی ہے :عن ابی ذررضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمافضل الاعمال:حضرت ابو ذر رضی اللہ تعا لی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمام اعمال میں سب سے افضل عمل سب سے بڑھ کر نیکی یہ ہے :الحب فی اللّٰہ والبغض فی اللّٰہ :کہ محبت ہو تو اللہ کی وجہ سے ہو دشمنی ہو، نفرت ہو، جلال ہو، غصہ ہوتو اللہ کی وجہ سے ہو۔ ہم نے یہ جان لیا کہ علم کی کمی کی وجہ سے اور بات کو مکمل نہ سمجھنے کی وجہ سے انسان جب ایک لفظ سنتا ہے تو فوراً ایک تأثر قائم کر لیتا ہے اور وہ تأثربسااوقات غلط ہو تا ہے جیسے غصے کے بارے میں ہم نے جانا کہ غصے کی دو قسمیں ہیں لیکن انسان ہر غصے کو غلط سمجھتا ہے اور یہ تو مشہور بات ہے کہ لوگ کہتے ہیں غصہ کر نا حرام ہے اسی طرح لفظ بدعت اس کے بارے میں بھی جو قرآن اور حدیث کی گہرائی کو نہیں جانتااور اقوال صالحین اور بزرگان دین اولیاء کا ملین کی تحقیقات کونہیں سمجھتا تو لفظِ بدعت سنتے ہی فوراََ یہ تصور قائم کرلیتاہے کہ بدعت انتہائی تباہ کر نے والا کام ہے بربادی ہے جہنم میں لیجا نے والا کام ہے گمراہی ہے اور پھر یہ سمجھتا ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو بھی نیا کام ایجاد کیا جائے وہ جہنم میں لیجانے والا ہے حالا نکہ آپ دیکھیں بخا ری شریف کتاب صلوۃ التراویح:با ب فضل من قام رمضان: اس میں یہ حد یث پاک موجود ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسجد نبوی شریف تشریف لائے آپ نے اپنے دورِ حکومت میں مسجد نبوی شریف میں دیکھا کہ لوگ نماز تراویح اپنے اپنے طور پر الگ الگ پڑھ رہے ہیں ۔ایک امام کے پیچھے جمع ہو کر نماز تراویح ادا کرنے کامعمول نہیں تھااس کی وجہ یہ تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تراویح کی ترغیب دلائی صحابہ کرام علیم رضوان تراویح پڑھتے تھے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تراویح کی جماعت نہیں کر وائی صرف تین دن ایسا ہوا کہ صحا بہ کرا م علیہم الر ضوان خود ہی جمع ہو گئے اور انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز تراویح جماعت سے ادا کی تیسرے دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرما دیا یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک دور میں مسجد نبوی شریف میں ایک امام کے پیچھے صحابہ تراویح پڑھتے ہوں اور مکمل قرآنِ پاک پورے رمضان کے مہینے میں ختم کیا جا تا ہو ایسا نہیں ہو تا تھا اور نہ ہی صدیق اکبر رضی اللہ تعا لی عنہ کے دورِ مبارک میں ایسا ہو تا تھا لیکن حضرت امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ خیال کیا کہ ایسا ہو جائے تو اچھا ہے اب بخاری شریف کی اس حدیثِ پا ک میں ذکر ہے کہ آپ نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کو جو صحا بہ میں بہت بڑے قاری تھے امام مقرر کیا اور تمام صحابہ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کے پیچھے ایک ساتھ مل کر نماز تراویح ادا کر تے تو جماعت کا اہتمام کر نا اور ایک امام کے پیچھے پورا رمضان تراویح ادا کر نا یہ ایک ایسانیا طریقہ تھا جو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا نہ صدیق اکبررضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں کیا گیا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب صحابہ کرام کو ایک امام کے پیچھے تراویح پڑھتے ہو ئے دیکھا تو آپ نے جو الفاظ کہے ان الفاظ کوامام بخاری علیہ رحمہ نے لکھا :نعم البدعۃ ھذہ:یہ ایسی بدعت ہے جو بُر ی نہیں بلکہ اچھی ہے۔ اس سے واضح طور پر پتہ چل گیا کہ بد عت کی دو قسمیں ہو تی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جونیا کا م کیا جائے اس کی دو قسمیں ہو تی ہیں ایک اچھا ہو تا ہے اور ایک بُر ا ہو تا ہے اگر انسان لفظ بدعت کو نہ سمجھے تو پھر وہ ہر معاملے میں لفظِ بدعت کی تکرار کر تا ہے اور ہر ایک پر بدعت کے الزام لگادیتا ہے حا لا نکہ سوچتا نہیں کہ بدعت اتنا بُر ا گناہ ہے کہ جو بدعتی شخص ہے وہ تو جہنمی ہے وہ تو تباہ اور برباد ہو نے والا ہے تووہ پھر ہر چھوٹے اور بڑے معاملات میں یہی سوال کر تا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کا م کیا؟ اگر نہیں کیا تو یہ بدعت ہو گیا تو اس طرح پھر بڑے عجیب وغریب معاملات ہو جا تے ہیں اور پھر انسان وہ وہ کام کر تا ہے جو دل کو جلانے والے ہیں ایسا ہی ایک دل سوز واقعہ آپ ملاحظہ کریں ایک بھائی کسی جگہ پر نماز کے لیے گئے تو وہا ں تراویح کی جماعت ہو رہی تھی امام کوتراویح سے پہلے جس طرح اعلان کر نا چاہیے کہ تراویح کی پہلی رکعت یا دوسری رکعت میں سجدہ تلاوت ادا کیا جائے گا امام نے ایسا کو ئی اعلان نہیں کیا اب یہ ہوا کہ امام نماز پڑھتے پڑھتے آیت سجدہ پر پہنچا اور ا س نے سجد ہ کر دیا تو مسجد کافی وسیع تھی کچھ لوگ امام کے قریب تھے کچھ دورتھے کچھ مسجدکی دوسری منزل میں جس طرح آپ جانتے ہیں کہ مختلف لوگ مختلف کیفیات میں نماز ادا کررہے ہو تے ہیں تو کچھ لو گ تو امام کے ساتھ سجدے میں چلے گئے اور کچھ لوگ رکوع میں چلے گئے اور جب امام نے دوبارہ اللہ اکبر کہا سجدے سے اٹھنے کے لیے تو جو رکوع میں گئے تھے وہ پریشان ہو گئے اب جب انہیں پتہ چلا کہ ہمارا سجدۂ تلاوت رہ گیا تو وہ شرعی مسائل نہ جاننے کی وجہ سے مزید پریشان ہوئے اب بڑا ہی عجیب وغریب منظر تھالوگ ایک دوسرے کو آوازے دے رہے تھے کہ نماز توڑدو نماز توڑو تمہاری نماز ختم ہو گئی اور ایک ہنگامہ مچ گیا نماز کے بعد لوگ امام کے پاس گئے اور کہا دیکھئے تمام مساجد میں یہ طریقہ کار ہے کہ تراویح پڑھانے والاتراویح شروع کر نے سے پہلے کہتا ہے کہ پہلی رکعت میں یا دوسری رکعت میں سجدۂ تلاوت ادا کیاجائے گا تو آپ کو اعلان کر نا چاہیے تھا آپ نے اعلان کیوں نہیں کیا ؟تو لوگوں کا خیال تھا کہ امام صاحب کہیں گے کہ مجھ سے غلطی ہو گئی یا آئندہ میں اعلان کر دوں گا میری توجہ نہ رہی لیکن انھوں نے بڑی عجیب و غریب بات کہہ دی انھوں نے جواب دیا کہ سجدۂ تلاوت کا اعلان کر نا بدعت ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحا بہ کرام علیہم الرضوان میں سے کسی نے اعلان نہیں کیا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بھی اعلان نہیں ہوتا گویا کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ جو کام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام علیم الرضوان نے نہ کیا وہ کام میں کیسے کرسکتا ہوں کیا میرے دل میں امت کی خیر خواہی کا جذبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام علیم الرضوان سے بڑھ کر ہے کہ وہ تو اعلان نہ کریں اور میں بدعت کے گناہِ عظیم میں مبتلا ہو کر جہنم کا راستہ اختیار کر لوں کیونکہ بدعت تو جہنم تک لے جاتی ہے ۔تو یقیناًہمارے ذہنوں میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت سجدۂ تلاوت کا اعلان کرتی ہے کیا مسلمانوں کی اکثریت بدعتی ہے اور مزید یہ کہ اس وقت بعض مقتدی رکوع میں اور کچھ سجدے میں یہ کون سی سنت ادا ہو رہی ہے خدارا کچھ غور کریں اسلام اتنا تنگ نظر نہیں کہ اس کے ماننے والے خیر کے مُر تکب ہو ں نیکی کریں لوگوں میں ایک اچھائی کا اعلان کریں پھر بھی انہیں بدعتی کہہ کر جہنم کے کنارے پہنچا دیا جائے یاد رکھئیے اسلام کے اصول سے ناواقفیت ہمیں بہت پیچھے کر دے گی اسلام کے اصول اور قوائد کا علم ہونا انتہائی ضروری ہے تاکہ اگر کو ئی غیر مسلم کوئی انگریزعیسائی اعترض کر دے تو ہمیں جواب معلوم ہو مثال کے طور پر انگریز یہ کہے کہ اے مسلمانوں موجودہ قرآن پاک پر اعراب یعنی زَبر زِیر پیش لگے ہوئے ہیں لہذ ا ایسے قرآنِ پاک میں تلاوت کر نا درست نہیں ہے کیوں کہ ایسے قرآنِ پاک میں نہ تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے پڑ ھا نہ ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں تھا بخا ری مسلم اور دیگر حدیثوں کی کتابوں کو نہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑھا ،نہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے زمانے میں یہ حدیث کی کتابیں تھیں جب کے تمھا رے قرآنِ پاک میں یہ واضح آیت ہے :الیوم اکملت لکم دینکم :سورۃ مائدہ آیت نمبر 3 حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب میدانِ عرفات میں تھے9 ذالحجہ تھی 10سنہ ہجری کو اس آیت کریمہ کا نزول ہوا اس میں فرمایا گیا :الیوم اکملت لکم دینکم :آج کے دن میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا۔ اے مسلمانوں قرآن تو یہ فرما تا ہے کہ تمھا را دین مکمل ہو گیا مگر تمھارے اضافے ہیں جو ختم ہو نے کا نام نہیں لیتے مسجد کے مینار اور محراب اذان سے پہلے یا بعد درود و سلام کا رواج صحابہ علیہم الرضوان اور تابعین کے دور میں نہیں تھا اسی طرح تمھارے بچوں کو چھ کلمے سکھائے جاتے ہیں ایمانِ مجمل اور ایمانِ مفصل یا د کروائے جاتے ہیں اور چھ کلمہ کے جو نام ہیں کہ پہلا کلمہ طیب دوسرا کلمہ شہادت ان کلموں کے نام ان کی ترتیب اور اس طریقے سے یہ تمام کام نہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہیں نہ صحابہ کرام سے ثابت ہیں اور اب بلکل نیا کا م یہ شروع کیا ہے کہ تراویح کے بعد خلاصۂ تراویح بیان کیا جاتا ہے اور بعض جگہوں پر تو ہر چار رکعت سے پہلے یا ہر چار رکعت کے بعدخلاصہ تراویح بیان کیا جاتاہیں جیسے قادریہ لان جیل چورنگی کے پاس رمضان المبارک میں تراویح اس طرح ادا ہو تی ہے کہ ہر چار رکعت سے پہلے ترجمہ اور تفسیر سماعت ہوتی ہے اور پھر جتناترجمہ تفسیر کی ہو جاتی ہے اتنا ہی قرآن چار رکعتوں میں پڑھا جاتاہے۔ تو کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ علیہم الرضوان سے بڑھ کرقرآن پاک کی محبت تمہارے دلوں میں ہے بتائیے انگریز عیسائی کے اس اعتراض کا جواب کون دیگا یقیناًاس کے سوال کا جواب وہ ہی دے گا جس نے اسلام کے اصولوں کو جانا اور تنگ نظری کی قید سے آزاد ہو۔ پیارے بھائیوں ہمیں اپنے دل میں دینِ اسلام کا جذبہ بیدار کر نا ہو گا اور اس کے لیے اسلام کے اصول وضوابط کا جاننا انتہائی ضر وری ہے تا کہ دینِ حق کی راہ میں رکا وٹ بننے والوں کا اسلامی اصول کے ذریعے اس طورپر مقابلہ کیاجائے کہ اللہ تعالی کی راہ اور دینِ متین کی سر بلندی کا ذریعہ بن جائے واضح رہے کہ انگریز عیسائی اور دیگر کافروں نے اسلام کے اصولوں کو سمجھے بغیر اعتراض کر دیا اسلام کا اصول یہ ہے کہ وہ کام اسلام میں ناجائزہے اور بدعت سیۂ ہے جسے اللہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماور شریعت نے اس طور پر منع فرما یا ہو کہ اس کے ثبوت پر کوئی شرعی دلیل قائم نہ ہو اور اس کے کر نے سے سنت مٹ جا ئے اُٹھ جائے ۔(بقیہ حصّہ دوم میں)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment