نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم (حصّہ دوم)
اعتراض: سب سے پہلے تخلیق قلم کی ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی کیونکہ قلم کے اول المخلوقات ہونے والی حدیث صحیح ہے۔ ’’اول ما خلق اللہ القلم‘‘ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی تخلیق سب سے پہلے ہونے کی روایت ضعیف ہے صحیح کے مقابل ضعیف کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے؟ جواب: سب سے پہلے تو ہم یہ ضابطہ ہی تسلیم نہیں کرتے کہ ضعیف کو مطلقاً چھوڑ دیا جاتا ہے بلکہ قانون یہ ہے کہ دلیل قطعی اور ظنی کا جب تعارض آجائے تو ان میں تطبیق دینے کی کوشش کی جائے اگر ان میں تطبیق ثابت ہوجائے تو بہتر ورنہ ظنی کو چھوڑ دیا جائے قرآن پاک میں: فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُo (پ ۲۹ سورۃ المزمل آیت ۲۰) قرآن پاک جہاں سے بھی آسان ہو پڑھو۔ اس آیت سے نماز میں قرآن پاک کا مطلقاً (کسی سورت سے بھی ہو جہاں سے بھی انسان پڑھنا چاہے پڑھ لے) پڑھنا فرض ثابت ہو رہا ہے لیکن حدیث پاک میں ہے: ’’لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب‘‘ جس کا ظاہری معنی ہے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں۔ قرآن پاک کی آیت قطعی الدلالۃ ہے اور حدیث پاک جو خبر واحد ہے ظنی الدلالۃ ہے لیکن حدیث پاک کو مطلقاً چھوڑ دینے کا قول باطل ہوگا بلکہ اہل علم نے ان میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ قرآن پاک کی آیت کریمہ سے نماز میں قرات کی فرضیت ثابت ہو رہی ہے اور حدیث پاک سے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ثابت ہو رہا ہے اب حدیث پاک ’’لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب‘‘ کا صحیح ترجمہ یہ ہوگا کہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نماز کامل نہیں نفی کمال کی ہوگی مطلقاً وجود کی نہیں جیسے ’’لا ایمان لمن لا امانۃ لہ‘‘ کا ترجمہ بھی یہی ہوگا کہ جو شخص امانت کا پاس نہیں کرتا اس کا ایمان کامل نہیں۔ اس تمہید کے بعد جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ قلم کی تخلیق کی اولیت اضافی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی تخلیق میں اولیت حقیقی ہے۔ یہی قول اہل علم، محققین، متقین اور کامل ایمان والوں کا ہے ہاں البتہ جن کا ایمان ضعیف ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پر دلالت کرنے والی احادیث کو ضعیف کر کے رد کرتے ہی رہتے ہیں۔ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗo (پ ۹ سورۃ الاعراف آیت ۱۸۶) جن کے دلوں پر مہر لگا کر گمراہی کا طوق ان کے گلے میں رب تعالیٰ ڈال دے پھر انہیں ہدایت دینے کی کسے مجال ہوسکتی ہے آئیے اہل علم کے ارشادات دیکھیے۔ ’’قال رسول اللہ ﷺ کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السموات والارض بخمسین الف سنۃ قال وکان عرشہ علی الماء‘‘ (رواہ مسلم، مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر) سر ور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی مقادیر لکھوادی تھیں جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔
اس حدیث پاک سے صاف ظاہر ہے کہ عرش پہلے موجود تھا علاوہ ازیں قلم کو پیدا کر کے یہ حکم دیا گیا تھا ’’اکتب‘‘ لکھ اس نے عرض کیا کیا لکھوں؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اکتب القدر‘‘ تقدیر خدا وندی کو لکھ۔ ’’فکتب ماکان وماھو کالن الی الابد‘‘ تو اس نے جو کچھ ہوچکا تھا وہ بھی لکھ دیا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا، وہ بھی لکھ دیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ قلم سے پہلے مخلوقات تھی، جس کو ماکان سے تعبیر کیا گیا، جب یہاں اولیت ہی اضافی ہے تو اس حدیث کی آڑ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور اقدس کی اوَلیت سے انکار کرنے کا کیا معنی؟ علامہ علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد اول ص ۱۶۶ پر فرماتے ہیں: ’’فی الازھار اول ما خلق اللہ القلم یعنی بعد العرش والماء والماء والریح لقولہ علیہ السلام کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السموات والارضین بخمسین الف سنۃ وکان عرشہ علی الماء‘‘ (رواہ مسلم) ’’وعن ابن عباس رضی اللہ عنھما عن قولہ تعالیٰ وکان عرشہ علی الماء علی ای شیء کان الماء قال علی متن الریح‘‘ (رواہ البیہقی و ذکرہ الابھری) از ہار میں ہے کہ قلم کے اول المخلوقات ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عرش پانی اور ہوا کے بعد یہ پہلی مخلوق ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مقادیر خلائق کو لکھوادیا تھا اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ اور حضرت عبد اللہ بن عباس سے دریافت کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا عرش پانی پر تھا تو یہ فرمائیے کہ پانی کس پر تھا؟ انہوں نے فرمایا ہوا کی پشت پر۔ ’’فالا ولیۃ اضافیۃ‘‘ اس سے واضح ہوا کہ ’’اول ما خلق اللہ القلم‘‘ میں اولیت حقیقی نہیں بلکہ اضافہ ہے تو اس صورت میں حدیث نور میں اولیت حقیقی ہونے سے یہ حدیث کیونکر مانع ہوسکتی ہے اور یہی تحقیق علماء اعلام اور مقتدایان نے ذکر کی ہے۔ علامہ علی قاری نے فرمایا: ’’فالاولیۃ اضافیۃ والاول الحقیقی فھو النور المحمدی علی ما بینتہ فی المورد للمولد‘‘ نور محمدی اول تخلیق حقیقی ہے جس طرح کہ میں نے رسالہ المورد للمولد میں اس کی تحقیق بیان کی ہے اور قلم میں اولیت اضافی ہے۔ نیز علامہ علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ مرقاۃ میں علامہ ابن حجر ھیتمی مکی رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے فرماتے ہیں: ’’قال ابن حجر اختلفت الروایات فی اول المخلوقات وحاصلھا کما بینتھا فی شرح شمائل الترمذی ان اول النور الذی خلق منہ علیہ الصلوۃ والسلام ثم الماء ثم العرش اول المخلوقات‘‘ (مرقاۃ جلد اول ص ۱۴۶) ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اول المخلوقات کون سی شے ہے؟ اس میں روایات مختلف ہیں مگر ان میں تطبیق کی صورت وہ ہے جو میں نے شمائل ترمذی میں ذکر کی ہے کہ سب سے اول نور وہ ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا گیا اس کے بعد پانی اور اس کے بعد عرش۔ علامہ قسطلانی نے اس مسئلہ یعنی قلم کے اول مخلوق ہونے کی بحث کرتے ہوئے فرمایا: ’’اولیۃ القلم بالنسبۃ الی ماعدا النور المحمدی والماء والعرش وقیل الاولیۃ فی کل بالاضافۃ الی جنسہ ای اول ما خلق اللہ من الانوار نوری وکذا فی باقیھا‘‘ (مواھب لدنیہ مع زرقانی ج ۱ ص ۴۷ ۔ ۴۸) اولیت کے بیان میں روایات مختلف ہیں ان تمام میں تطبیق اور موافقت اس طرح ہے کہ قلم کا اول الخلق ہونا نور محمدی پانی اور عرش کے ماسوا کے اعتبار سے ہے اور یہ توجیہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ہر شے کی اولیت اپنی اپنی جنس کے لحاظ سے ہے یعنی انوار میں سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا گیا اور اقلام میں سے اس قلم کو جس نے تقدیریں لکھیں اور جن اشیاء پر عرش کا لفظ بولا جاتا ہے ان میں سے عرش اعظم کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے۔ تنبیہ: نور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولیت کے بیان والی حدیث کو صرف ضعیف ایمان والوں نے ضعیف کھا ہے ورنہ امام قسطلانی علامہ ابن حجر ہیتمی ملا علی قاری، علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے کسی نے بھی ضعیف نہیں کہا۔ (ماخوذ از تنویر الابصار ص ۹۸)
عوام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف بشر نہ کہیں: جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری طور پر بشر ہیں اور باطنی طور پر نور ہیں لیکن عوام جو بشر کے معنی کمال سے بے خبر ہیں وہ لفظ بشر کے ساتھ اور الفاظ بھی ملائیں جو تعظیم پر دلالت کریں اس مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے سید الاولیاء حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس میں شک نہیں کہ اہل ایمان کے لیے ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بطریق تکریم و تعظیم واجب اور ضروری ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ لفظ بشر کے معنی میں بحسب لغت عربیہ عظمت و کمال پایا جاتا ہے یا حقارت میری ناقص رائے میں لفظ بشر مفہوماً و مصداقاً متضمن بہ کمال ہے مگر چونکہ اس کمال تک ہر کس و ناکس سوائے اہل تحقیق و عرفان کے رسائی نہیں رکھتا لہذا اطلاق لفظ بشر میں خواص بلکہ اخص الخواص کا حکم عوام سے علیحدہ ہے، خواص کے لیے جائز اور عوام کے لیے بغیر زیادت لفظ دال بر تعظیم نا جائز‘‘۔ توضیح: آدم علی نبینا وعلیہ السلام کو بشر کس واسطے کہا گیا؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ آدم علی نبینا وعلیہ السلام کو شرف مباشرت بالیدین عطا فرمایا گیا ہے۔ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّo (پ ۲۳ سورۃ ص آیت ۷۵) کس چیز نے تجھے اس (آدم) کو سجدہ کرنے سے منع کیا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ چونکہ ملائکہ کمال آدم علیہ السلام سے بے خبر تھے ایسا ہی ابلیس ’’فقالوا ما قالوا‘‘ (انہوں نے وہ کہا جو کہا) فرق اتنا ہے کہ ملائکہ جتلانے کے بعد سمجھ گئے اور معترفِ بالتصور ہوئے۔ قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاo (پ ۱ سورۃ البقرۃ آیت ۳۲) فرشتوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے عطا کیا ہے۔ اور ابلیس کو علاوہ قصور جہل کے غرور بھی تھا لہذا وہ ’’اَبیٰ وَاسْتَکْبَرَ‘‘ شیطان نے انکار کیا اور تکبر کیا ..... کا مصداق بنا۔ بشر ہی کو کمال استجلاء کے لیے مظہر بنایا گیا ہے اور ملائکہ بوجہ نقص مظہریت اس کمال سے محروم ٹھہرے اور مظاہر اور مرایا کمالات استجلائیہ سے از گروہ انبیاء علیہم السلام سیدنا ابو القاسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اصالۃ و ازجماعت اولیائے کرام وارث مصرع ’’وانی علی قدم النبی بدر الکمال‘‘ اور میں نبی بدر کمال کے نقش قدم پر ہوں۔ (قصیدہ غوثیہ) سیدنا عبدالقادر وامثالہ رضی اللہ عنہم وراثتاً مظہر اکمل وا اتم لاسمہ الا عظم ٹھہرے، بشر ہی کے لیے تنزل اخیر ہونے کے باعث اس قدر اہتمام ہوا کہ ہئیت اجتماعیہ و ترکیبات اسمائیہ واتصالات و اوضاع ’’انی خمرت طینۃ آدم‘‘ سے لے کر تا ظہور جسد عنصری صلی اللہ علیہ وسلم واتباعہ من الاکمل کو متوجہ کیا گیا ہے اور خدام بنائے گئے تاکہ: ’’من رأنی فقد رأی الحق‘‘ جس نے میرا دیدار کیا اس نے خدائے تعالیٰ کا دیدار کیا (الحدیث) کا آئینہ و چہرہ علی وجہ الکمال اور پورا حق نما ہو۔ قصہ مختصر بشر ہی ہے کہ جس کو ..... گر خواھی خدا بینی در چھرہ من بنگر من آئینہ اویم او نیست جدا از من (گر تو خدا کو دیکھنا چاہتا ہے تو میرے چہرہ کو دیکھ میں اس کا آئینہ ہوں وہ مجھ سے جدا نہیں ہے۔) ..... ہونے اور کہنے کا استحاق حاصل ہے۔ اس تقریر سے ثابت ہوا کہ عارف کو بشر کہنا از قبیل ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالا سماء المعظمہ ہوا بخلاف غیر عارف کے اس کے لیے بغیر انضمام کلمات تعظیم صرف لفظ بشر ذکر کرنا جائز نہیں چنانچہ آیت کریمہ میں بشر کے بعد ’’یُوْحٰی اِلَّی‘‘ میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اور تشہد میں عہدہ کے بعد و رسولہ کا ذکر ہے اور کلام اہل عرفان میں ہے۔ فمبلغ العلم فیہ انہ بشر وانہ خیر خلق اللہ کلھم (قصیدہ بردہ) ہمارا نہایت علم یہ ہے کہ بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق سے بہتر ہیں۔ (فتاوٰی مھریہ ص ۴)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
خلاصہ کلام: حضرت کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اہل علم جو بشر کا معنی اور اس میں جو کمالات پائے جاتے ہیں انہیں جانتے ہیں وہ تو بشر کہہ سکتے ہیں لیکن عام لوگوں کو بشر کے ساتھ اور الفاظ بھی ذکر کرنے چاہئیں تاکہ انہیں بھی آپ کی عظمت کا پتہ ہو مثلا سید الکائنات افضل الانبیاء حبیب خدا وغیرہ الفاظ ساتھ ملائے جائیں۔ حقیقت میں بشر میں وہ کمال ہے جو فرشتوں کو بھی حاصل نہیں ہوا کیونکہ رب تعالیٰ نے اپنی ذات صفات اور اسماء کا مظہر صرف بشر کو ہی بنایا ہے اس کمال سے فرشتے محروم ہیں پھر یہ وصف کمال تمام انبیائے کرام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر کسی واسطہ کے عطا ہوا لیکن اولیائے کرام کو آپ کے واسطہ سے یہ کمال عطا کیا گیا پھر اولیائے کرام میں جلیل القدر ہستیوں یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی اور اس قسم کے اولیائے کرام کو بالواسطہ یہ کمال اعلی درجہ کا حاصل ہوا دوسرے حضرات کو کچھ کم انبیائے کرام کو بعض بعض صفات اور بعض بعض اسماء گرامی کا مظہر بنایا گیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رب تعالیٰ کی آٹھ صفات مختصہ کے بغیر تمام صفات کے مظہر ہیں۔ جب یہ بات کسی کی سمجھ میں آجائے کہ بشر اس شان والے عظیم شخص کو کہا جاتا ہے اور اس کمال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں وہ تو سمجھ سکتا ہے کہ بشر آپ کا عظیم وصف ہے لیکن عام انسان تو بشر کا معنی یہی سمجھے گا کہ معاذ اللہ آپ بھی ہماری طرح تھے ایسا سمجھنا ہی دین سے دور ہونے کا نام ہے اور ایسے شخص کو صرف لفظ بشر کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ امتناعِ نظیر: امتناع نظیر کا یہ مطلب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مثل پیدا کرنا رب تعالیٰ کی قدرت سے خارج ہے۔ جو چیزیں محال بالذات ممتنع بالذات ہیں وہ اگر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج ہوں تو رب تعالیٰ کی شان اور قدرت میں کوئی نقص لازم نہیں آتا کیونکہ وہ اشیاء اس قابل نہیں کہ رب تعالیٰ کی قدرت میں آسکیں۔ اس مسئلہ کو سید الاولیاء حضرت علامہ پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ مقدمات: ۱۔ ممتنعات ذاتیہ کا احاطہ قدرت سبحانہ سے خروج کمال ذاتی باری پر دھبہ نہیں لگاتا بلکہ یہ قصور راجع بجانب قابل ہے کہ ممتنع ذاتی قبولیت کا صالح نہیں۔ ۲۔ انقلاب حقائق واقعہ کا خواہ معدودات سے ہوں مثل انسان، فرس، بقر، غنم، کے یا مراتب عددیہ سے ہوں مثل ایک دو تین چار یا مختلط یعنی معدود بحیثیت عروض مرتبہ عددی مثلاً زید جو اول مولود ہے بہ نسبت باقی اولاد عمر و کے ممتنع بالذات ہیں۔ ۳۔ کسی چیز کی نظیر اس چیز کو کہا جاتا ہے کہ علاوہ مشارکت نوعی کے اوصاف ممّیزہ کاملہ میں اس چیز کی ہم پلہ ہو۔ ۴۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحسب الحقیقۃ الروحانیۃ النوریۃ اول مخلوق ہیں: ’’اول ماخلق اللہ نوری‘‘ اور ’’اول ما خلق اللہ العفل‘‘ تصریحات محققین ازاہل کشف و شمود اس پر شاہد ہیں: ’’کما قال الشیخ الاکبر قدس اللہ سرہ الاطھر قلم یکن اقرب الیہ قبولا فی ذالک الھباء الا حقیقۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم المسماۃ بالعقل فکان مبدأ العالم باسرہ و اول ظاھر فی الوجود فکان وجود ہ من ذالک النور الالھی‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا کیا ہے یا یہ ارشاد کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا ہے ان دونوں کا مطلب ہے شیخ اکبر قدس سرہ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ وہی نور جس کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا اور حقیقت محمدیہ کہلایا اسی کا نام عقل بھی ہے جو تمام عالم کا مبدا ہے تمام جہان سے پہلے اسی نور کا وجود ہے اور وہ نور نور الٰہی سے معروض وجود میں آیا ہے۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اولیت کی صفت سے متصف ہیں اسی طرح آخریت کی صفت سے بھی متصف ہیں کہ آپ آخر الانبیاء ہیں: ارشاد خدا وندی: وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَo (پ ۲۲ سورۃ الاحزاب آیت ۴۰) لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ اہل بصیرت کو ان مقدمات مذکورہ پر گہری نظر ڈالنے سے ثابت ہوجاتا ہے کہ نظیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ممتنع بالذات بایں معنی ہے کہ خالق سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو ایسا بنایا ہے کہ اور ایسے کاملہ ممیّزہ مختصہ صفات کے ساتھ سنوارا ہے کہ جس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ در صورت وجود نظریر انقلاب حقیقت لازم آتا ہے کیونکہ فرض نظیر کا وجود آپ کے بعد ہی ہوگا تو لامحالہ ایسا معدوم ہوگا جس کو مرتبہ ثانیہ عددی عارض ہو اور نظیر کہلانے کا مستحق جب ہی ہوسکتا ہے کہ وصف ممیّز کامل یعنی اول مخلوقیت و ختم نبوت میں مشارک ہو تو معروض مرتبہ ثانیہ کا معروض مرتبہ اولیٰ کا ہو۔ (یہ ممتنع بالذات ہے، ایسا ہو نہیں سکتا)۔ ایسا ہی بلحاظ ختمیت فرض کیا کہ آپ مثلاً چھٹے مرتبہ میں تو نظیر آپ کی معروض ساتویں مرتبہ کی مثل ہوکر معروض مرتبہ سادسہ کی ہوگی ’’وھو خلف‘‘ (یہی حقیقت کے خلاف ہے)۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ ممتنعات ذاتیہ میں سے دو قسم اولین اور قسم ثالث میں فرق ظاہر ہے کیونکہ قسم ثالث کا امتناع اوصاف عارضہ کے لحاظ سے ہے اس لیے کہ محل بحث امتناع یا امکان نظیر ہے نہ امتناع یا امکان مثل خلاصہ یہ کہ آئینہ احمد صلی اللہ علیہ وسلم میں خالق عز مجدہ نے جداگانہ کمال دکھایا یعنی ایسا بنایا کہ نظیرش امکان ندا رد (جس کی نظیر ممکن نہیں)۔ ’’فھذا الکمال راجع الیہ سبحانہ کما ان الجمال مختص بہ من منع اللہ فسبحان من خلقہ واحسنہ واجملہ واکملہ‘‘ (فتاوی مھریہ ص ۹) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شان سے پیدا کرنا در حقیقت رب تعالیٰ کا ہی کمال ہے جس طرح یہ شان اور جمال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختص ہے وہ بھی در حقیقت اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہی وہ ذات پاک ہے جس نے آپ کو اس جداگانہ شان سے بنایا اور آپ کو سب زیادہ حسین اور سب سے زیادہ جمیل اور سب سے زیادہ با کمال بنایا۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
خلاصہ کلام: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رب تعالیٰ سب کائنات سے اول معرض وجود میں لایا اور آپ کو خاتم الانبیاء بنایا اگر آپ کی نظیر کوئی اور بھی بن سکے تو اسے بھی یہ دونوں وصف حاصل ہوں گے حالانکہ اول تو ایک ہی ہوتا ہے اس کے بعد آنے والے تو دوسرے درجہ میں ہوجاتے ہیں اور اسی طرح خاتم بھی ایک ہی ہوتا ہے اس کے بعد اس کی نظیر کو اگر خاتم کہا جائے گا تو پہلی ذات کا خاتم ہونا باطل ہوگا یہ دونوں صورتیں ممتنع بالذات ہیں ممتنع بالذات قدرت باری سے خارج ہیں ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ یہ رب تعالیٰ کی قدرت میں آسکیں رب تعالیٰ کی قدرت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ حقیقت محمدیہ موجودات عالم میں جاری و ساری ہے: مولنا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ شرح و قایہ کی شرح سعایہ میں فرماتے ہیں ’’السر فی خطاب التشھد ان الحقیقۃ المحمدیۃ کانھا ساریۃ فی کل وجود وحاضرۃ فی باطن کل عبد وانکشاف ھذہ الحالۃ علی الوجہ الاتم فی حالۃ الصلوۃ فحصل محل الخطاب وقال بعض اھل المعروفۃ ان العبد لماتشرف بشاء اللہ فکانہ فی حریم الحرام الالھی ونور البصیرہ و وجد الحبیب حاضرا فی حرم الحبیب فاقبل علیہ وقال السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘۔ تشہد میں خطاب یعنی ’’السلام علیک ایھا النبی‘‘ میں راز یہ ہے کہ حقیقت محمد یہ ہر وجود میں جاری و ساری ہے اور ہر بندے کے باطن میں موجود ہے نماز کی حالت میں اس حالت کا کامل انکشاف ہوتا ہے پس محل خطاب حاصل ہوجاتا ہے بعض اہل معرفت نے کہا ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کی ثناء سے مشرف ہوتا ہے تو گویا اس کو حرم حریم الٰہی میں جگہ مل گئی اور نور بصیرت اس کو حاصل ہوا۔ حبیب (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کو دربار حبیب (اللہ تعالیٰ) میں موجود پایا تو فورا آپ کی طرف متوجہ ہوکر صیغہ خطاب سے کہا: السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اے نبی آپ پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکات ہوں۔ اشعۃ اللمعات میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’نیز آنحضرت ھمیشہ نصب العین مومناں وقرۃ العین عابداں است در جمیع احوال و اوقات خصوصا در حالت عبادت و آخر آں کہ وجود نورانیت و انکشاف دریں احوال بیشتر و قوی تراست و بعضے از عرفاء گفتہ اند کہ ایں خطاب بجھت سریان حقیقت محمدیہ است در ذرائر موجودات وافراد ممکنات پس آنحضرت درذات مصلیان موجود و حاضر است پس مصلی راباید کہ ازیں بآگاہ باشد وازیں شھود غافل نہ بو دتا بانوار قرب و اسرار معرفت منتورو فائز گرد‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کا نصب العین اور عبادت گزاروں کی آنکھوں کی ٹھندک ہیں جمیع احول اوقات میں خصوصاً حالت عبادت میں اور اس کے آخر میں نورانیت کا وجود اور انکشاف ان احوال میں زیادہ اور بہت قوی ہوتا ہے بعض عرفاء نے کہا ہے تشہد میں خطاب اسی وجہ سے ہے کہ حقیقت محمدیہ موجودات کے تمام ذرات اور ممکنات کے تمام افراد میں جاری و ساری ہے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمازیوں کی ذاتوں میں موجود ہوتے ہیں لہذا نمازی کو چاہیے کہ اس معنی سے آگاہ رہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی سے غافل نہ رہے تاکہ انوار قرب اور اسرار معرفت سے منور اور فیضیاب ہو۔ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ویحتمل ان یقال علی طریق اھل العرفان ان المصلین لما استفتحوا باب الملکوت بالتحیات اذن لھم بالد خول فی حریم الخی الذی لا یموت فقرت اعینھم بالمناجات فنبھوا علی نوالک بواسطۃ نبی الرحمۃ و برکۃ متابعۃ فالتفتوا فاذا الحبیب فی حرم الحبیب حاضر فاقبلوا علیہ قائلین السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ (فتح الباری شرح بخاری ج ۲ ص ۲۵۰ (مطبوعہ مصر ) اہل معرفت کے طریقہ پر یوں کہا جاسکتا ہے کہ بیشک نمازی جب التحیات کے ذریعے ملکوت کا دروازہ کھلوا لیتے ہیں ان کو حی لا یموت کی بارگاہ میں داخل ہونے کی اجازت مل جاتی ہے مناجات سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے ان کو اس پر متنبہ کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ تمہیں نبی رحمت اور ان کی تابعداری کی برکت کے وسیلہ سے حاصل ہے وہ فوراً توجہ کرتے ہیں تو حبیب کو حرم حبیب میں موجود پاتے ہیں یعنی بارگاہ ذوالجلال میں حبیب پاک کو جلوہ گر پاتے ہیں تو خطاب کے صیغے سے ’’السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہتے ہیں۔ حقیقت محمدیہ کیا ہے؟ جب یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ حقیقت محمدیہ جمیع موجودات عالم میں جاری و ساری ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ حقیقت محمدیہ کیا ہے؟ اس پر علامہ جلال الدین محقق دوانی رحمہ اللہ کا قول ان کی مشہور کتاب اخلاق جلالی کے ص ۲۵۶ میں ملاحظہ فرمائیں، آپ فرماتے ہیں: ’’تحقیق کلام دریں مقام آں است کہ با طباق اصحاب نظر و برھان و اتفاق ارباب شھود و عیاں تخستیں گوھر یکہ بامر کن فیکون بوسیلہ قدرت و ارادہ ہے چوں از دریائے غیب مکنون بساحل شھادت آمد جوھر بسیط نورانی بود کہ بعرف حکماء آنرا عقل اول خوانند و در بعضے اخبار تعبیر ازاں بقلم اعلی رفتہ واکابر ائمہ وکشف و تحقیق آں را حقیقت محمدیہ خوالند‘‘ اس مقام میں کلام کی تحقیق یہ ہے کہ اصحاب نظر و برھان اور ارباب شہود و عیاں کا اس پر اتفاق ہے کہ بے مثل ذات (اللہ تعالیٰ) کی قدرت اور اس کے ارادہ کے وسیلہ سے سب سے پہلے جوہر بسیط کن فیکون کے امر سے دریائے غیب مکنون سے ظہور کے ساحل پر آیا (معرض و جود میں آیا وہ جوہر بسیط نورانی تھا) جس کو حکماء کے عرف میں عقل اول کہا گیا ہے اور بعض احادیث میں اس کو قلم اعلی سے تعبیر کیا گیا ہے اس کو اکابرائمہ کرام اور اصحاب کشف و تحقیق نے حقیقت محمدیہ کہا ہے۔ جناب سید اولالیاء پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ مسئلہ حاضر و ناظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میرے خیال میں ظہور و سریان حقیقت احمد یہ عالم و ہر مرتبہ اور ہر ذرہ ذرہ میں عندالمحققین من الصوفیہ ثابت ہے اس کو حقیقۃ الحائق کہتے ہیں اور لکھتے ہیں: ’’فھو نور محمدﷺ‘‘ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہے۔ اولا جو بصورت تقی نقی اور جسد شریف عنصری کے ظاہر ہوا ظہور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بصورت مثالیہ شریفہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام ہر مکان و زمان میں احادیث صحیحہ سے ثابت ہے جس کا اقرار واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار اور اس کا انکار آپ کا انکار مانا گیا ہے: ’’کما فی حدیث البخاری فی کتاب الایمان‘‘ اس سے مراد وہ حدیث ہے جونکیرین کے سوال سے متعلق وارد ہوئی ہرمیت سے سوال کرتے ہیں۔ ’’ماکنت تقول فی حق ھذا الرجال لمحمد‘‘ تم اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا کہتے تھے۔ چونکہ اس حدیث میں لفظ ’’ھذا‘‘ استعمال ہوا ہے جو محسوس مبصر پر دلالت کرتا ہے جبکہ ایک وقت میں کئی حضرات کو دفن کیا جاتا ہے تو اس طرح آپ کو بصورت مثالیہ کئی جگہ پر تشریف فرما ہونا یقینی ہے اسی کو ماننا ایمان ہے اور اسی کا انکار کفر ہے۔ اہل تجربہ کو ظہور کذائی مثالی کا کراتا مراتاً (بار بار) اتفاق ہوتا رہتا ہے البتہ ظہور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بجسدہ العنصری العینی کا پتہ بعض اہل مشاہد کے ہاں سے ملتا ہے اور بلحاظ واقعہ معراج شریف و خصائص والوازم مختصہ جسد شریف علی صاحبھا الصلوۃ والسلام سے مستبعد (بعید) نہیں۔ ’’ھذا ما عندی والعلم ما عند اللہ‘‘۔ (فتاوی مھریہ ص ۵) ’’انہ لما تعلقت ارادۃ الحق بایجاد خلقہ و تقدیر رزقہ ابرز الحقیقۃ المحمدیۃ‘‘ (مواھب لدنیۃ) اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو موجود کرنے اور اس کے رزق کی تقدیر کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے حقیقت محمدیہ کو ظاہر فرمایا۔ زرقانی میں اس عبارت کی جو شرح بیان کی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ: صاحب مواھب کے قول ’’ابرز الحقیقۃ المحمدیۃ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ذات کو بمع صفت اول کے سب سے پہلے ظاہر فرمایا جیسے تو قیف میں ذکر کیا گیا ہے اور لطائف کاشی میں اس طرح مذکور ہے کہ محقیقن حضرات حقیقت محمدیہ سے مراد وہ حقیقت لیتے ہیں کہ جس کو حقیقت الحقائق کہتے ہیں یہ حقیقت تمام حقائق میں اسی طرح جاری و ساری جیسے کلی اپنی جزئیات میں جاری و ساری ہوتی ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ حقیقت محمدیہ یہ حقیقۃ الحقائق کی صورت ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان بر زخ و واسطہ کی حیثیت رکھتی ہے اس وقت اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم و وصف غالب نہیں تھا یہی وہ واسطہ یعنی حقیقت محمدیہ ہی نور احمدی ہے جس کی طرف خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی اشارہ کررہا ہے وہ یہ کہ: ’’اول ما خلق اللہ نوری ای قدر علی اصل الوضع اللغوی وبھذا الا عتبار سمی المصطفی ﷺ بنور الا نوار وبابی الا رواح‘‘ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا کیا اسی وجہ سے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور الانوار اور ابوالا رواح رکھا گیا ہے۔ (زرقانی ص ۲۷)
مختصر یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے تمام مخلوق کو آپ کے نور سے پیدا کیا کیا تمام انبیائے کرام اپنی اپنی نبوتوں میں اصل نبی ہونے کے باوجود آپ کے تابع ہیں حقیقت محمدیہ تمام کائنات میں جاری و ساری ہے حقیقت محمدیہ کو عقل اول قلم اعلی جوہر بسیط نورانی نور الا نوار ابو الارواح یعنی روح الارواح کہا گیا ہے زیادہ وضاحت کے لیے میرے رسالہ عقیدہ حاضر و ناظر کا مطالعہ کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاک نسلوں سے تشریف لائے: علامہ امام ابن جوزی نے کتاب الوفاء میں کعب بن احبار رضی اللہ عنہ سے روایت کو نقل کیا ہے کہ: ’’لما اراد اللہ عزوجل ان یخلق محمدا ﷺ امر جبرائیل علیہ السلام فاتاہ بالقبضۃ البیضاء التی ھی موضع قبر رسول اللہ ﷺ فعجنت بماء التسنیم فغمست فی انھار الجنۃ وطیفھا فی السموات فعرفت الملائکۃ محمدا ﷺ قبل ان یعرف آدم ثم کان نور محمد یری فی غرۃ جبھۃ آدم و قیل لہ یادم ھذا سید ولدک من المرسلین فلما حملت حواء بشیث انتقل النور من آدم الی حواء و کانت تلد فی کان بطن ولدین ولدین الاشیئا فانہ ولدتہ وجدہ کرامۃ لمحمدﷺ ثم لم یزل ینتقل من طاھر الی طاھر الی ان ولدتہ آمنۃ من عبد اللہ ابن عبد المطلب‘‘ (مرقاۃ ج ۱۱ ص ۴۴ باب فضائل سید المرسلین) جب اللہ تعالیٰ نے محمد (رسول اللہ) صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو جبرائیل کو حکم دیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی جگہ سے سفید مٹی کی ایک مٹھی لی پھر اسے ماء تسنیم (جنت کی نہر تسنیم کے پانی) سے گوندھا گیا پھر اسے جنت کی نہروں میں ڈبویا گیا اور آسمانوں میں اسے پھرایا گیا پس فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو پہچاننے سے پہلے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا پھر نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو آدم علیہ السلام کی پیشانی میں رکھا گیا جس کی وجہ سے آپ کی پیشانی جگماتی تھی اور آپ کو بتایا گیا اے آدم یہ تمہاری اولاد سے ہوں گے اور تمام رسولوں کے سردار ہوں گے پس جب حضرت حوا کے پیٹ میں شیث آئے تو وہ نور آدم علیہ السلام کی پیشانی سے منتقل ہوکر حوا کے پاس آگیا حالانکہ حضرت حوا کے بطن مبارک سے دو دو بچے ہر حمل سے پیدا ہو رہے تھے لیکن (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو منقسم ہونے سے بچانے کے لیے) صرف شیث علیہ السلام ہی اکیلے پیدا ہوئے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامت کو مد نظر رکھا گیا پھر آپ کا نور ہمیشہ سے پاک ہستی سے پاک ہستی کی طرف منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ آپ کی والدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو عبد اللہ بن عبد المطلب سے جنا۔ خیال رہے کہ پاک نسلوں سے منتقل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے آباؤ اجداد بدکاری اور کفر سے پاک تھے طہارت کو صرف بدکاری کی نجاست سے پاک ہونے کے ساتھ خاص کرنا باطل ہے بلکہ زیادہ مقصود ہی کفر سے پاک ہونا ہے یہ تفصیل حضرت ابراہیم کے حالات میں دیکھی جائے وہاں میں نے وضاحت سے بیان کردیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری: ’’والا کثرون انہ ولد عام الفیل وانہ بعد الفیل بخمسین یوما وانہ فی شھرربیع الاول یوم الاثنین لثنتی عشرۃ خلت من عند طلوع الفجر‘‘ (مواھب، انوار محمدیہ ص ۲۷) اکثر اہل علم کا قول یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سال دنیا میں تشریف لائے جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں پر سوار ہوکر کعبہ شریف کو شہید کرنے کی مذموم (حرکت) کی اور وہ تباہ و برباد ہوا اس سال کو عام الفیل کہتے ہیں یعنی آپ اس واقعہ کے پچاس دن بعد تشریف لائے یہ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور اس کی بارہ تاریخ تھی پیر کا دن تھا صبح صادق کا وقت تھا۔ پیر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق: آپ کی پیدائش پیر کے دن آپ کی نبوت عطا ہوئی پیر کے دن مکہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت پیر کے دن کی مدینہ طیبہ میں پہنچے پیر کے دن قریش کے نزاع کو مٹانے کے لیے حجر اسود کو اپنی چادر مبارک میں رکھ کر سب قبائل کے سرداروں کو اٹھانے کے متعلق ارشاد فرمایا اور خود حجر اسود کو اٹھاکر کعبہ شریف کی دیوار میں نصب کردیا یہ بھی پیر کا دن تھا مکہ شریف فتح فرمایا پیر کے دن سورہ مائدہ کا آپ پر نزول پیر کے دن ہوا تھا۔(مواھب، انوار محمدیہ ص ۲۷) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور منتقل ہونے کے بعد بھی اثر انداز رہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پچاس دن پہلے ابرہہ کا واقعہ درپیش آیا اس وقت وہ نور حضرت عبد المطلب سے منتقل ہوکر حضرت عبد اللہ کی والدہ کے پاس اور ان سے حضرت عبد اللہ کے پاس اور ان سے حضرت آمنہ کے پاس آچکا تھا لیکن پھر بھی اس کے اثرات حضرت عبد المطلب کی پیشانی میں موجود تھے ’’فرکب عبد المطلب فی قریش حتی طلع جبل ثبیر فاستدار ت دارۃ غرۃ رسول اللہ علی جبھتہ کالھلال واشتد شعاعھا علی البیت الحرام مثل السراج فلما نظر عبد المطلب الی ذالک قال یا معشر قریش ارجعوا فقد کفیتم ھذا الامر فو اللہ ما استدار ھذا النور منی الا ان یکون الظفر لنا۔ (مواھب لدنیہ ج ۱ ص ۸۵) حضرت عبد المطلب سوار ہوکر قریش کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر (ابرھہ کے لشکر کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے) شبیر پہاڑ پر چڑھے تو آپ کی پیشانی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور گول چاند کی طرح ظاہر ہوا اور اس کی شعاعیں چراغ کی طرح کعبہ شریف پر پڑیں۔ جب عبد المطلب نے یہ حال دیکھا تو آپ نے کہا: اے قریش کی جماعت واپس لوٹ چلو یہی تمہارے لیے کافی ہے۔ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی یہ نور میری پیشانی میں جو چمکا ہے یہ ہماری کامیابی کی دلیل ہے۔ آپ کے نور سے شام کے محلات روشن ہوگئے: حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انی عند اللہ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینۃ و ساخبر کم باول امری دعوۃ ابراھیم و بشارۃ عیسی و رویا امی التی رات حین وضعتنی وقد خرج لھا نور اضاء لھا منہ قصور الشام‘‘ (شرح السنۃ، مسند احمد از ساخبر کم تا اخیر، مشکوۃ باب فضائل سید المرسلین ص ۵۱۳) میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت بھی خاتم النبیین لکھا ہوا تھا کہ جب آدم علیہ السلام کیچڑ میں تھے یعنی آپ کا خمیر تیار کیا جا رہا تھا تمہیں اپنے اول امور کی خبر دے رہا ہوں کہ میں ابراہیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ کی بشارت ہوں اور اپنی ماں کی رویا ہوں جو آپ نے اس وقت دیکھا جب مجھے جنا کہ آپ سے ایک نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔ دعوۃ ابراھیم سے اشارہ اس طرف تھا جو ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کے بعد دعا کی: ’’رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ‘‘ (پ ۱ سورۃ البقرۃ آیت ۱۲۹) کہ اے ہمارے رب تعالیٰ ان میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان میں سے ہی ہو۔ ’’بشارۃ عیسیٰ‘‘ سے مراد جو عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ’’وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ‘‘ (پ ۲۸ سورۃ الصف آیت ۶) آپ نے بشارت دی کہ میرے بعد ایک رسول تشریف لائیں گے جن کا نام احمد ہوگا۔ رؤیا: کیا رویا سے مراد خواب ہے یا ظاہر طور پر دیکھنا مراد ہے اس پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں: ’’ظاھر ھذا الکلام ان رویۃ نور اضاء بہ قصور الشام کانت فی المنام وقد جاءت الاخبار انھا کانت فی الیقظۃ واما الذی فی المنام فھو انھا رأت انہ اتاھا آت فقال لھا شعرت انک قد حملت بسید ھذہ الامۃ ونبیھا فینبغی ان یحمل الرؤیا علی الرؤیۃ بالعین واللہ اعلم‘‘ (لمعات) اگرچہ ظاہر طور پر تو یہ سمجھ آتا ہے کہ آپ کا نور دیکھنا جس سے شام کے محلات روشن ہوئے خواب کا واقعہ ہو لیکن احادیث میں یہی واقعہ جاگتے ہوئے بھی درپیش آنے کا ذکر ہے خواب کا واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی والدہ نے خواب دیکھا کہ کوئی شخص میرے پاس آکر مجھے کہہ رہا ہے کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم اس امت کے سردار اور نبی سے حاملہ ہوچکی ہو، مناسب یہی ہے کہ اس حدیث میں رویا سے آنکھ سے جاگتے ہوئے دیکھنا مراد لیا جائے۔ راقم کے نزدیک اس حدیث میں خواب کا معنی لینا ہی حقیقت سے دوری کی علامت ہے اس لیے کہ ’’حین وضعتنی‘‘ ظرف ہے ’’رأت‘‘ کی (جس وقت میری والدہ نے مجھے جنا اس وقت دیکھا)۔ پیدائش کے وقت خواب کا دیکھنا ناممکن ہے اس حدیث میں ظاہری طور پر دیکھنا مراد لیا جائے تو یہ معنی ظاہری ترکیب کے بالکل مطابق ہے خواب والا معنی لینا تکلفات اور تاویلات سے خالی نہیں۔( کوشش ہو گی کہ اس پر مزید لکھا جائے ان شاء اللہ )(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment