Thursday, 16 November 2017

حصّہ دوم : حدیث : مااحدث قوم بدعۃالا رفع مثلھا من السنۃ کی مکمل تشریح

حصّہ دوم : حدیث : مااحدث قوم بدعۃالا رفع مثلھا من السنۃ کی مکمل تشریح

جیسا کہ مشکوۃ شریف میں ہے حدیث نمبر 187مسند امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ جلد4 صفحہ105: نمبرمااحدث قوم بدعۃالا رفع مثلھا من السنۃ: جب کوئی قوم بدعت کر تی ہے تو ان سے سنت مٹ جاتی ہے تو بدعت جو ہے وہ سنت کو ختم کر تی ہے یہ حرام ہے ممنوع ہے یہ ایک ایسا کا م ہے جو دین کو نقصان پہچانے والا ہے ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ نکلاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو کام ایجاد کیے گئے ان میں اچھے بھی ہو تے ہیں بُر ے بھی ہو تے ہیں ہر کا م میں ہم شرعی اصول کو دیکھیں گے کہ کیا وہ نیا کام قرآن حدیث یا شریعت سے ٹکرا رہا ہے یانہیں ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ خلافت میں جنگِ یماما کے موقع پر سات سو حفاظ صحابہ کرا م شہید ہوئے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پریشان ہو کر امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کیاکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ قرآنِ پاک کو جمع کر نے کا حکم دیجیے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعال عنہ نے فرما یا کیف افعل شیئا لم یفعلہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:میں وہ کام کیسے کر سکتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ کیا ہو اس کے جواب میں فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ نہیں فرمایا کہ حضورکمال ہو گیا ہم صحابہ کرام علیہم الرضوان ہیں ہمارا تو ہر کا م سنت ہے ہم مدینہ شریف کے رہنے والے ہیں ہمارا زمانہ تو تمام زمانوں سے بہتر ہیں جیسا کہ حدیث پاک میں ہیں :خیر القرون قرنی: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمام زمانوں میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہیں :ثم الذین یلونھم :پھر ان کا زمانہ ہے جو ان سے ملے ہوئے ہیں :ثُمَّ الّذین یلونھم :پھر ان کا زمانہ ہے جو ان سے ملے ہوئے ہیں ہم تو اصحابہ رسول ہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہماراہر عمل سنت ہے اور یہ تو وہ زمانہ ہے جو خیر کا زمانہ ہے لہذا آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں اور کیوں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کام نہ کیا وہ میں کیسے کروں! قربان جائیے میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمانِ عالیشان پرکہ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اِنَّ اللّٰہَ جَعَلَ الْحَقَّ لِسَانَ عُمَرَ وَ قَلْبَہٗ: بیشک اللہ تعالی نے عمررضی اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعالی عنہ کی زبان اور دل پر حق جاری فرمادیا حضر ت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے خلیفۃا لمسلمین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعا لی عنہ کو جواب دیتے ہوئے عرض کیا :واللّٰہِ خیر:اللہ کی قسم یہ خیر کا پہلوہے یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ کہا کہ یہ کام شریعت کے خلاف نہیں خیر ہے یہ کام شرعی اصولو ں سے ٹکرانے والا نہیں ہے سبحان اللّٰہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے صادر ہو نے والے مبارک کلمات :وَاللّٰہِ خَیْر:اسلامی قائدے اور قانون کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ ہر وہ کام جس میں خیر کا پہلوہواور شریعت نے منع نہ کیا ہو شریعت سے اس کی ممانعت ثابت نہ ہو اس کا کر نا عین اسلام ہے روایت میں آتا ہیں :فَلَمْ یَزَلْ عُمَرُیُرَافِعُنِیْ فِیْہِ حَتّٰی شَرَحَ اللّٰہُ لِذٰلِکَ صَدْرِیْ:حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ فرما تے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مجھے سمجھاتے رہے اور اس کے خیر ہو نے کے پہلو پر توجہ دلاتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرے سینے کو کھول دیا:وَرَاَیْتُ الَّذِیْ رَاٰ ی عُمَرُ:اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی جو رائے تھی وہی میری رائے ہو گئی اور مجھے بھی حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کی رائے پسند آگئی حضرت زید رضی اللہ تعا لی عنہ کو حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن جمع کرنے کا حکم دیا تو حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی یہی فرما یا :کَیْفَ تَفْعَلَانِ شَیْئاً لَّمْ یَفْعَلِ النَّبِیُّﷺ: آپ دونو ں وہ کام کیسے کر تے ہیں کہ جو کام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ کیا؟ اس موقع پر بھی حضرت ابو بکراور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ہمارا زمانہ بہت افضل ہے اس زمانے میں جو کام کیا جائے وہ سنت ہے وہ غلط ہو ہی نہیں سکتا بلکہ :فقال ابوبکر ھوواللہ خیر:حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعا لی عنہ نے فرمایا یہ کام اللہ کی قسم خیر ہے یہ کا م شریعت کے خلاف نہیں ہے:فلم ازل اراجعہ حتی شرح اللّٰہ صدری للذی شرحہ صدر ابی بکروعمر فقمت: حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں ان سے سوالات کر تا ر ہا اور وہ جوابات دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے جس طرح صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے سینے کو کھول دیا تھا اسی طرح میرے سینے کو بھی کھول دیا اور مجھے یہ بات سمجھ میں آگئی اور میں قرآن جمع کر نے پر آما دہ ہو گیا اس حدیثِ پاک سے یہ معلوم ہوا کہ اسلام تنگ نظری سے پاک اور منزہ ہے چنانچہ جو کام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ کیا ہو اس خیر کے نئے کام کو بعد والے سر انجام دے سکتے ہیں زمانے کا مبارک ہو نا کام کے اچھا ہو نے پردلیل نہیں ہے مثلاً حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہُ کوچالیس دن تک مکان میں قید رکھا گیا اور باغیوں نے آپ رضی اللہ تعال عنہ پر پانی اور کھا نا بند کیا آپ چالیس دنوں تک بغیر سحری اور افطار روزے دار رہے آپ پر ظلم اور ستم کیا گیا اور آپ کی مظلو ما نہ شہادت ہو ئی جھوٹے نبوت کے دعوے دار پیدا ہو ئے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت ہو ئی کر بلا کا خوفناک واقعہ سامنے آیا سینکڑوں صحا بہ کرام علہیم الرضوان کو شہید کردیا گیا یہ سارے واقعات دورِ صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم اور تا بعین میں ہوئے حالانکہ یہ تمام کام درست نہیں ہیں تو یہ بات یا د رکھیئے کسی بھی نئے کام کی بنیاد کام کی نوعیت پر موقوف ہے نہ کہ زمانے پریعنی ہر وہ نیا کام جو خیر اور خو بی پر مشتمل ہو اور شرعی مما نعت نہ ہو تو ایسے کا م سے کسی کو نہیں روک سکتے چا ہے وہ کسی بھی زمانے میں ایجاد ہو جائے مثلاً اگراسی زمانے میں کو ئی خیر کا کام ایجاد کیا جائے اور شر عاً مما نعت نہ ہو تو اس پر انشاء اللہ اجراور ثواب ملے گا جیسا کہ بعض مساجد میں اور خصوصاً بہارشریعت مسجد میں یہ معمول ہے کہ مغرب کی نماز کے بعد سورۃ المسجدہ جو 21 پارے میں ہے اور سورۃ ملک جو 29 پارے میں ہے اس کی تلاوت ہو تی ہے اور اس کے فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ جو رات کو ان سورتوں کو پڑھے اسے عذابِ قبر سے محفوظ رکھا جاتا ہے اور ایک فضیلت یہ ہے کہ گویاکہ اسے شب قدر میں عبادت کا ثواب دیا جائے گا تو بلاشبہ یہ خیر کا کام ہے لہذا جائزاور مستحب ہے اسلام کے اصول سمجھنے والے بھائیوں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے عطا کر دہ اصول کے تحت یہ بات سورج سے زیادہ روشن ہو گئی کہ یہ معیار درست نہیں کہ جو کام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم نے نہ کیا ہوبعد والے سر انجام دیں تو انہیں طنزیہ دیکھا جائے کہ کیا تمہارے دل اللہ کی محبت قرآن کی محبت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں زیا دہ سرشارہیں کہ پہلے لوگوں نے یہ کام نہ کیے اور بعد میں آنے والے زیادہ نیک آئے ہیں جو اس کا م کو ایجاد کر رہے ہیں اگر اس حقیقت کو تسلیم نہ کیا تو بڑی خرابی لازم آئے گی سب سے پہلا اعترض تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما ہی پر ہو گا کہ کیا ان کے دل میں قرآن کی محبت زیادہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کام نہ کیا اور انہوں نے کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پر نعوذبا اللّٰہ یہ اعتراض ہو گا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے تراویح کی جماعت کر وائی تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے بڑہ کر ان کے دل میں محبت ہے اسی طرح قرآن پاک پرزَبر، زِیر، پیش، لگا نے والا شخص حجاج بن یوسف ہے جو بڑا ظالم شخص تھا تو کیا کوئی یہ کہ سکتاہے کے صحابہ کرام علہیم الرضوان نے تو یہ کام نہیں کیا حجاج بن یو سف نے یہ کام کیا تو کیا حجا ج بن یو سف کے دل میں صحابہ کرام علیہم الرضوان سے زیادہ قرآن کی محبت ہے توہم یہ نہیں دیکھتے کہ کام کس نے شروع کیا ،پہلے لو گو ں نے یہ کام کیا یا نہیں کیا بلکہ شریعت کے اصول کے مطابق یہ دیکھا جاتاہے کہ یہ کام کیا شریعت کے خلاف ہے اگر یہ کام شریعت کے خلاف ہو تو جس زمانے میں پایاجائے غلط ہے اور شریعت کے خلاف نہ ہو تو جس زمانے میں وہ پایا جائے وہ اچھاہے اسی طرح آج کل نماز تراویح کے بعد خلاصہ تراویح بیا ن کیا جاتاہے حالا نکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان اور تابعین کے زمانے میں یہ رواج نہ تھا تو کیا یہ کہا جائے گا کہ آج کل کے لوگ صحابہ کرام علیہم الرضوان اور تابعین کرام سے بڑھ کر خدمت قرآن کے جذبے سے سرشار ہیں کہ صحابہ اور تا بعین علیہم الرضوان نے جو کام نہ کیا آج کل کے لوگ یہ کام کر رہے ہیں کسی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو کہ صحا بہ کرام علیہم الرضوان نے تراویح کے بعد خلاصہ اس لیے بیان نہیں کیا کہ لوگ عربی تھے اور قرآن کے مفسر تھے سب قرآن کو جانتے تھے قرآن کا ترجمہ صحابہ علیہم الرضوان نے اس لیے نہیں کیا اور تابعین نے اس کا ترجمہ اس لیے عام نہیں کیا کہ عربی تو ان کی مادری زبان تھی تو یہ بات سمجھ لیجئے کہ صحا بہ کرام اور تابعین کے دور میں کئی ایسے ممالک تھے جو فتح ہو چکے تھے جن کی مادری زبان عر بی نہیں تھی مثلاً حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور مبارک میں ملک روم فتح ہو چکاتھا جس کی زبان رومی تھی ملک فارس فتح ہو چکا تھا جس کی زبان فارسی تھی اور کئی ملک فتح ہوئے جن کی مادری زبان عربی نہیں تھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دورِ حکومت کے دس سال میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دورِ حکومت کے بارہ سال میں حضرت علی نے اپنے دورِ حکومت کے چار سال میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دورِحکومت کے بیس سالوں میں اور بعد کے تا بعین بزرگوں نے قرآن کا ترجمہ عا م کر نے کی کوشش نہیں کی تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ بعد میں قرآن کا ترجمہ عام کیا گیااور صحابہ اور تابعین میں تو یہ عام نہیں ہو ا لہذا یہ بدعت ہے جہنم میں لیجانے والا کام ہے ہر گز ایسا نہیں اس لیے کہ قرآن مجید فرقان حمید کا ترجمہ صحابہ کرام علیہم الرضوان اور تا بعین نے عام نہیں کیا تو اسے منع بھی نہیں کیا اور قرآن کا ترجمہ کرنا شریعت کے اصول سے ٹکرا تا بھی نہیں ہے اور شریعت کے خلاف بھی نہیں ہے نیا کا م ضرور ہے مگربدعت حسنہ ہے اچھا نیا کام ہے اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک اچھا نیا کام ہو تا ہے جسے بد عت حسنہ کہتے ہیں اور ایک بُر انیا کا م ہو تا ہے جو شریعت کے خلاف ہو تا ہے جو شریعت سے ٹکرا تا ہے ایسے بدعت سیۂ کہتے ہیں یہاں پر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب سات سو صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم کی شہادت کو دیکھا کہ وہ سات سو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کہ جو قرآن کے حافظ تھے تو آپ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں پہنچ گئے اور کہا کہ قرآن پاک کو آپ جمع کریں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ قرآن تو یہ فرماتا ہیں کہ:الیوم اکملت لکم دینکم: اے لوگوں تمہارے لیے آج میں نے تما را دین مکمل کردیاجب دین مکمل ہوگیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے بعد اب اگر کوئی نیا کام کیا جائے گا تو وہ غلط ہو جائے گا لہذا میں یہ مطالبہ نہ کروں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایسا نہیں سوچا اس لیے کہ:الیوم اکملت لکم دینکم: مطلب یہ ہے کہ دین کے اصول اور قوانین مکمل ہو گئے اب کوئی بھی نیا کام ایجاد کیا جائے تو یہ دیکھا جائے گا کہ وہ شریعت اور دین کے اصول کے مطابق ہے یا اس کے مخالف ہے اگر اس کے خلاف ہے شریعت کے اصولوں سے ٹکراتا ہے تو اسے بدعت سیۂ کہیں گے ور نہ یہ بدعت حسنہ ہے اگر انسان اس تفصیل کو نہ سمجھے تو پھر وہ اچھائی کو بُر ائی سمجھتا ہے اور بُر ائی کو اچھائی سمجھتا ہے دیکھئے نمازنفل پڑھنا ایک اچھی چیز ہے اور نماز نفل سے روکناایک بُر ی چیز ہے لیکن اگر اس معنی کو نہ سمجھا جائے اور بدعت کے مفہوم پر غور نہ کیا جائے تونتیجہ اس قدر اُلٹاہو جاتا ہے اور ایسے ایسے واقعات ہونے لگے کہ انسان جب سنتاہے تو دل پریشان ہو جاتاہے ۔ایک بھائی مدینہ منور میں رہتے ہیں انھوں نے بتایا ایک دن میں ظہر کی نماز کے بعد ریاضُ الجنہ میں مدینہ منورہ میں نوافل ادا کررہا تھا ہر دو رکعت کے بعد دو اورنفل ادا کر تا پھر دعا کر تا پھر دورکعت نفل ادا کر تا تو ایک سپاہی ان کے قریب آیا اور ان سے کہنے لگا: ایش ھذا:یہ تم کیا کر رہے ہو :اھذ ہ بدعۃ:یہ تو بدعت ہے ممنوع ہے میں نے اس سے کہا :لماذا:کیوں؟ وہ کہنے لگا کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی نماز کے بعد دو دو رکعت کر کے نماز نفل پڑھی ہیں؟ اور دعائیں مانگی ہیں؟ لہذا اس موقع پر نفل پڑھنادعامانگنا یہ سب بدعت اور حرام ہے اور جہنم میں لیجانے والا کام ہے آ پ نے دیکھا انسان جب دین کی صحیح سمجھ نہیں رکھتا تو اچھائی اس کی نظر میں بُر ائی ہو جاتی ہے اور بُرائی اچھائی ہو جا تی ہے۔
قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہے :وزین لھم الشیطان اعمالھم :شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لئے مزین کر دیا تو وہ اسے نماز سے اور دعا سے روکنے کو عین اسلام سمجھ رہا تھا شیطان اسے ورغلارہا تھا کہ تو تو بدعت سے روکنے والا ہے آگے بڑھ اسے روک دے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا گیا چالیس دن آپ کا محاصرہ کیا گیاآ پ پر پانی بند کیا گیا آپ پر جن باغیوں نے حملہ کیا انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ پر جو الزام لگائے اس میں سے ایک الزام یہ بھی تھا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ وہ کام کیے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیے لہذا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ بدعت سیۂ کرنے والے ہیں بدعتی ہیں نعوذبااللّٰہ من ذلک! گمراہی کو انسان ہدایت سمجھ لے اور ھدایت کو گمراہی سمجھ لے تو یہی غلط عقیدہ ہے اور غلط عقیدہ ہو نایہ سب سے بڑی بدعت ہے صحابہ کرام علیہم الرضوان اور بزرگان دین رضی اللہ تعالی عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اور محبت سے سر شار تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی بر داشت نہیں کر سکتے تھے وہ ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کر تے آپ کے مقام اور مرتبے کو بیان کر تے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ان کے سامنے کیا جا تا تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جا تے اب اگر کو ئی شخص صحابہ کرام علیہم الرضوان کے نقش قدم سے ہٹ جائے اور تعظیمِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوبیان نہ کرے بزرگان دین کے نقش قدم سے ہٹ جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبیاں اور آپ کی شان بیان کر نے کے بجائے معاذاللّٰہ نعوذبااللّٰہ من ذلک! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عیب تلاش کرے وہ ذات جس کو اللہ نے مخلوق میں بے عیب پیدا کیا تمام مخلوق میں سب سے افضل بنایا، فرشتوں سے افضل، انبیاء سے افضل، رسولوں سے افضل اس ،ذات میں وہ عیب تلاش کرے کیا ایک امتی کو یہ زیب دیتاہے یہی عقیدہ گمراہی کا عقیدہ ہے اور یہی سب سے بڑی بدعت ہے اور ایسا ہی بدعتی یقیناًجہنمی ہے خود بھی جہنم میں جاتا ہے اور جو اس کی پیروی کرے اسے بھی جہنم میں لیجاتا ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے زمانے میں ایک گروہ ایسا تھاکہ جو بہت کثرت سے عبادت کرتا حضرتِ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما فرماتے ہیں :فدخلت علی قوم لم ارقط شد منہ اجتہادجباھھم قرحتم من اسجود:اس قدر یہ لوگ کثرت سے عبادت کر تے کہ ایسی عبادت کر نے والی قوم میں نے نہیں دیکھی ان کی پیشانیاں سجدوں کی کثرت سے زخمی ہو گئی تھیں لیکن ان لوگوں نے صحابہ کرام علیہم الرضوان پر شرک کا الزام لگادیا قرآن مجید فرقان حمید کے اصول کو غلط سمجھنے کی وجہ سے اگر آپ اس واقعے کی تفسیر جاننا چاہتے ہیں تو کتاب معیارہدایت اور کیسٹ شرک کی حقیقت میں سماعت کریں(جامع مسجد بہارِشریعت بہادر آباد کراچی) یقیناًسب سے بُر ی بدعت غلط عقیدہ ہے کہ جب انسان غلط عقیدے کاحامل ہو جا تاہے اور غلطی پر ہو نے کے باوجود اپنے آپ کو درست سمجھتا ہے اور مسلمانوں پر شرک اور بدعت کا بلاوجہ الزام لگاتا ہے تو وہ دین سے بہت دور ہو جاتا ہے صحابہ کرام علیہم الرضوان تو شرک سے پاک تھے لیکن خارجیوں نے قرآن اور حدیث کو صحیح طور پر نہیں سمجھا اور وہ صحابہ کرام کو مشرک سمجھنے لگے حالانکہ بخاری شریف کتاب الرقاب حدیث نمبر 6426میں ہے اور امام بخاری علیہ الرحمہ نے مزید پانچ جگہ پر اس کا ذکر کیا :وانی واللّٰہ مااخاف علیکم ان تشرکو بعدی:بیشک اللہ کی قسم مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کروگے :ولکنی اخاف علیکم ان تنافسوفیھا:ہاں مجھے اس بات کا خوف ضرور ہے کہ تم میرے بعد دنیا کی محبت میں گرفتار ہو جاؤ گے خار جیوں کی تباہی اور بربادی کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے دین کی گہرائی کو نہ سمجھا حضرت امام بخاری علیہ الرحمہ بخاری شریف کتاب استتابۃالدین المرتب ارشاد فرما تے ہیں:وکان ابن عمریراھم شرارخلق اللہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے ان لوگوں کو جو صحا بہ کرام پر شرک کا الزام لگاتے تھے ایسے لو گو ں کو مخلوق میں سب سے بدتر اور شریر تصور کر تے تھے:وقال انھم انطلقوا الی ایات نزلت فی الکفارفجعلوھا علی المؤمنین : یہ وہ بدبخت ہیں کہ جوآیتیں کافروں کے بارے میں نازل ہوئیں وہ مسلمانوں پر چسپاں کر تے ہیں گویاکہ مشرکوں کے بارے میں بتوں کے بارے میں نازل ہو نے والی آیتوں کو وہ صالحین پر چسپاں کر تے ہیں حالانکہ یہ لوگ اس کثرت سے نماز پڑھتے تھے کہ بخاری شریف حدیث نمبر 6931میں ارشاد ہے :تحقرون صلوتکم مع صلوتھم: کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے ہی خبر دار کر دیا کہ جو مسلمانوں پر شرک کا الزام لگائیں گے وہ ایسے لوگ ہونگے کہ تم اپنی نمازوں کو ان کی نماز کے سامنے حقیر سمجھوگے :یقرء ون القرآن لایجاوزحلوقھم: اور وہ قرآن پڑہیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا ۔یعنی قرآن کو سمجھتے نہیں ہونگے مسلمانوں پر شرک اور بدعت کا بلاوجہ الزام لگانایقیناًیہی بہت بڑی بدعت ہے جو مسلما ن پر کفر اور شرک کا الزام لگاتا ہے تو یہ کفر اور شرک اس ہی کی طرف لوٹتا ہے تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص قرآن پڑھتا ہو گا قرآن کا نور اس کے چہرے پر ہو گا اسلام کا نور اس کے چہرے پر ہو گا لیکن وہ اسلام کے نور سے محروم ہو جائے گا صحابہ نے پوچھا کس وجہ سے؟ ارشاد فرمایا اس لیے کے وہ اپنے پڑوسی پر شرک کا الزام لگائے گا صحابہ نے پوچھا مشرک کو ن ہو گا ؟فرمایا شرک کا الزام لگانے والا خودہی مشرک ہوگالہذاہر نئے کا م کو برا سمجھنا گمراہی قرار دینا اصول شریعت کو نہ سمجھنا اور مسلمانوں پر بلا وجہ شرک کا اور بدعت کا الزام لگانا یقیناًیہی بدعت مضمومہ اور بدعت سیۂ ہے صحابہ کرام علیہم الرضوان ایسے لوگوں سے کہ جن کے عقائد خراب ہو تے اور وہ بدعتی ہو تے ان سے بہت اجتناب فرما تے حدیثِ پاک میں ہے ترمذی شریف حدیث نمبر 1252 ابن ماجہ حدیث نمبر 1250 ابو داؤد حدیث نمبر 4613 مشکوۃ المصابیح کتاب الایمان با ب الایمانِ باالقدرالفصل الثالث: عن نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان رجلا اتی ابن عمر:حضرتِ نافع کہتے ہیں کہ ایک شخص حضر ت عبداللہ ا بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما کے پا س آیا:فقال:اور اس نے کہا:ان فلانا یقرء علیک السلام:فلاں شخص آپ کو سلام کہتا ہے :فقال انہ بلغنی انہ قد احدث: آپ نے فرما یا مجھے اس بات کی خبر پہنچی کہ وہ بدعتی ہو گیا ہے :فان کان قداحدث :اگر واقعی وہ بدعتی ہو گیا ہو :فلاتقرء ہ منی السلام :تو تم میری طرف سے اسے سلام نہ کہنا :فانی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمیقول یکون فی امتی اوفی ھذہ الامۃ خسف ومسخ اوقذف فی اھل القدر:کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس اُمت میں کچھ لو گ ایسے ہونگے کہ جو زمین میں دہنساد ئیے جائیں گے ان کے چہرے بگڑ جائیں گے ان پر پتھرو ں کی بارش ہو گی اور یہ وہ لوگ ہونگے کہ جو تقدیر کا انکار کر نے والے ہونگے۔ دیکھا آپ نے کہ جو تقدیر کا انکار کر نے والے بد عقیدہ ہیں انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے بدعتی قرار دیا اصل جو بدعت ہے وہ غلط عقیدہ ہے اور ایسے ہی لوگوں کے لیے ارشاد فرمایاگیا ابو داؤد شریف حدیث نمبر 14651 اور یہی حدیث ابن ماجہ اور مسند امام احمد حنبل رضی اللہ تعالی عنہ میں بھی ہے:ان مرضوافلاتعودھم :اگر یہ بیمار ہو جائیں تو تم ان کی عیا دت نہ کر و :وان ماتوا فلاتشھدوھم:اور اگر وہ مر جا ئیں تو ان کی نماز جنازہ نہ پڑھواور ایسے لو گوں کے متعلق فر ما یا:من وقر صاحب بدعۃ:جس نے بدعتی شخص کی تعظیم کی :فقد اعان علی ھدم الاسلام: اس نے اسلام کومٹا نے میں تعاون کیا اسلام کو مٹا نے کی کو شش کی بخاری شریف حدیث نمبر 12657 اور یہی حدیث مسلم شریف ابو داؤد ابن ما جہ اور مسند امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ میں ہے :من احدث: جس نے کو ئی نیا کا م یا عقیدہ بنا یا :فی امرناھذا:ہمارے دین کے معاملات میں:مالیس منہ:کہ وہ دین میں سے نہیں :فھورد:تو وہ مرد ود ہے ایسا عقیدے والاشخص لعنتی ہے جہنمی ہے ۔یہاں پر یہ بات قا بل غور ہے کہ:من احدث:کے بعد: فی امرنا ھذا:فر ما یا کہ جوہمارے دینی معا ملات میں کوئی نیا کام کر ے یا عقیدہ بنا ئے:مالیس منہ:جو دین کے اصول کے مطابق نہ ہو معلوم یہ ہو ا کہ جس بدعت کی بُرائی بیان کی جا تی ہے وہ غلط عقائد اورغلط اعمال ہیں کہ جو دین کے اصولوں کے خلاف ہیں اسی طرح مسلم شریف حدیث نمبر 867 میں ہے کہ :عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمامابعد:حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ روایت کر تے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرما یا:فان خیر الحدیث کتاب اللّٰہ :بے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے:وخیر الھدی ھدی محمد: اور بہترین رہنمائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی ہے :وشرالامور محدثاتھا: اور تمام معاملات میں سب سے بُر ی چیز وہ ایسے نئے کام ہیں جو شریعت کے خلاف ہیں :وکل بدعت ضلالۃ:اور ہر بدعت گمراہی ہے علامہ نبوی علیہ الرحمہ اس حدیث :کل بدعت ضلالۃ :کے تحت ارشاد فرما تے ہیں اور علامہ نبوی یہ وہ صدیوں پرانے بزرگ ہیں کہ عرب وعجم میں ان کی حدیث کی کتا بوں میں حدیث کی شرح مستند مانی جا تی ہیں اور آپ عرب و عجم کے امام ہیں آپ فرماتے ہیں کہ:کل بدعت ضلالۃ: یہ عام مخصوص ہے یعنی یہاں مراد بدعت سے وہ نیا کام ہے کہ جو شریعت کے خلاف ہو یہاں پر یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ بدعت سیۂ صرف معاملات میں نہیں ہو تی بلکہ عقائد میں بھی ہوتی ہے اور سب سے بُر ی بدعت جو ہے وہ غلط عقائد اور غلط نظریات ہیں ۔الحمد اللہ شروع میں ایک مثال پیش کی تھی کہ غصہ اچھا بھی ہوتا ہے بُرا بھی ہو تا ہے اسی طرح بدعت یعنی نیا کام اچھابھی ہو تا ہے اور کبھی سیۂ بھی ہوتاہے اسی بات کو امام بیہقی جوعظیم محدث ہیں امام شافَعِی علیہ الرحمہ سے روایت کر تے ہیں کہ آپ فر ما تے ہیں:المحدثات من ا لامور ضربان:معاملات میں نئی چیزوں اور نئے کام کی دو قسمیں ہیں :احدھما:ان میں سے ایک وہ ہوتا ہے:احدث مما یخالف کتاب اوسنت اواثراواجماع :ایک نیا کام وہ ہو تا ہے کہ جو کتاب اللہ کے مخالف ہو تا ہے یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مخالف ہو تا ہے یا صحابہ کرام علیہم الرضوان کے اقوال اور ان کے اعمال کے خلاف ہو تا ہے:اواجماع:یا اجماع کے خلاف ہو تا ہے :فھذہ البدعۃ الضلالۃ :تو یہ بدعتِ ضلالہ ہے یہ وہ نیا کام ہے جو گمراہی والا اور جہنم میں لیجانے والا ہے :والثانیۃ ما احدث من الخیرلاخلاف فیہ لواحد من لعلماء :آپ فرما تے ہیں دوسراوہ کام ہو تا ہے کہ جو شریعت کے عین مطابق ہو تا ہے لیکن نیا کا م ہو تا ہے شریعت کے اصولوں کے مطا بق وہ شریعت کے خلاف نہیں ہو تا:وھذہ محدثۃغیر مذمومۃ:تو یہ وہ نیا کام ہے کہ جو بُرا نہیں ہے بلکہ اچھا کام ہے :وقد قال عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ فی قیام شھر رمضان نعمت البدعۃ ھذہ:حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رمضان مبارک میں جو تراویح کی جماعت قائم کی اس کے متعلق آپ نے اسی لیے فرما یا کہ یہ ایک اچھی بدعت ہے یعنی انھا محدثۃلم تکن واذاکانت لیس فیھا رد:یعنی تراویح کی جماعت قائم کر نا یہ ایک ایسا کام ہے جو نیا ہے اس سے پہلے نہیں تھا مگر اس میں کو ئی ایسی بات نہیں کہ جو شریعت کے خلاف ہو لہذا یہ بدعت حسنہ ہے ۔یہ جو تعریف اور بدعت کی دو قسمیں اما م شافعی علیہ الرحمہ کے قول کی روشنی میں بیان کی گئیں اسی مفہوم کو کئی علما ء محدثین مفسرین اور محقیقین نے بیا ن کیا۔ علامہ ابن عصیر ہوں ،صدیوں پرانے محدث ہوں، مکہ مکرمہ علی قاری ہو ں،مدرس مدینہ منورہ شیخ عبدالحق دہلوی ہوں کہ جنہیں ایک روایت کے مطابق روزانہ خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہو تی تھی علا مہ شامی شارع بخاری ابنِ حجراور شارع بخاری علامہ عینی اور امام جلادالدین سیوطی اشافعی علیہ الرحمہ کہ جن کے بارے میں منقول ہے کے آپ نے بیداری میں ۷۵مر تبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کیا تمام بڑے بڑے محدثین نے بدعت کی دو قسمیں بیا ن کیں صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی لفظ بدعت کو دو معنٰی میں استعمال کر تے تھے جیسا کہ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا فر ما ن سنا کے انہوں نے تراویح کی جماعت کو اچھی بدعت قرار دیا اسی طرح مسلم شریف کتاب الحج میں اور بخاری کتاب العمرہ میں حدیث پاک ہے کہ حضرت مجاہد اور حضرت اروا بن زبیر مسجد نبوی شریف میں آئے چاشت کی نماز کا وقت تھا دیکھاکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما وہ ٹیک لگا کر جلوہ افروز ہیں:والناس یصلون الضحی فی المسجد:اور لوگ مسجد نبوی شریف میں چاشت کی نماز ادا کر رہے تھے :فسالناہ عن صلاتھم: حضرت مجاہد اور حضرت عروی بن زبیر کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا حضرت عبداللہ ا بن عمر سے رضی اللہ تعالی عنھما اس چاشت کی نماز کے بارے میں :فقال بدعۃ:تو آپ نے فرما یا یہ بدعت ہے چاشت کی نماز تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ اس چیز کو آپ نے بدعت قرار دیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں چاشت کی نماز ادا کیا کر تے صحابہ اور تابعین مسجد نبوی شریف میں جمع ہیں اور مسجد نبوی شریف میں وہ نماز چاشت ادا کر رہے ہیں مسجد میں جمع ہو کر نما ز چاشت کا ادا کر نا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما نے اسے بدعت قرار دیا اور اسے بدعت سیۂ نہیں کہہ رہے تھے ور نہ آپ لو گوں کو روکتے بلکہ شارع بخاری ابنِ حجر فتح الباری فی شرح ابخاری صفحہ نمبر 52 پر اور امام بخاری کے اساتذہ میں سے ہیں مصنف ابنِ ابی شیبا میں حدیث نمبر 7775 میں آپ نے یہی روایت اس طرح لکھی کے :بدعۃ ونعمت البدعۃ:کہ حضرت عبداللہ ا بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما نے فرما یا یہ بدعت ہے لیکن بُری نہیں اچھی بدعت ہے پھر یہ بات واضح ہو ئی کہ بدعت لفظ جو ہے یہ دو معنٰی کے لیے استعمال ہو تا ہے اچھی بدعت کے لیے بھی اور بُر ی بدعت کے لیے بھی صحابہ کرام علیہم الرضوان نے کئی کام ایسے ایجاد کیے اور صالحین نے ایسے کا م کیے کہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیے حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کو کافروں نے گرفتار کر لیا او ران کو شہید کر نے لگے تو آپ نے فرما یا کہ میری ایک خواہش ہے کے مجھے نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے تو کافروں نے آپ کو اس چیز کی اجازت دی تو آپ نے دو رکعت نفل ادا کیے اور نفل پڑھنے کے بعد دعا کی اور پھر ان کافروں سے کہا میرا دل تو چا ہ رہا تھا کہ میں دو رکعت نفل بڑی طویل پڑھوں لیکن پھر یہ خیال کیا کہ تم یہ سمجھو گے کہ میں موت سے ڈر رہا ہوں اس لیے میں نے مختصر پڑھی محدثین نے لکھا کہ شہادت کے وقت دو رکعت نفل پڑھنا نیا کا م ہے جو آپ نے ایجاد کیااوریہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر صحابہ کرام سے ثابت نہیں حضرت امام بخاری علیہ رحمہ ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل فر ما تے اور دو رکعت نفل پڑھتے صحا بہ نے بھی تو حد یثیں لکھی ہیں دیگر بزرگوں نے اور تا بعین نے بھی حد یثیں لکھی ہیں لیکن کو ئی حضرت امام بخاری علیہ الرحمہ پر اعتراض نہیں کر تا کہ کیا آپ کے دل میں صحا بہ سے بڑھ کر حدیث کی محبت ہے کہ حدیث لکھنے کے لیے غسل کریں اور دو رکعت نفل پڑھیںآپ نے یہ نیا کام کہاں سے ایجاد کر لیا تو اس کا جواب بہت آسان ہے کہ یہ نیا کا م شریعت کے خلاف نہیں لہذا اس میں کو ئی حرج نہیں اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فر ما تی ہے جس کو امام ابو طالب محمد بن علی مکی علیہ الرحمہ نے قوت القلوب میں دوسری جلد صفہ نمبر 327 پر لکھا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سب سے پہلی بدعت جو ایجاد ہو ئی وہ پیٹ بھر کر کھاناہے تو کیا اب جوکوئی پیٹ بھر کر کھانا کھا ئے اسے ہم گناہگار بدعتی جہنمی کہیں گے ؟بعض علماء نے بدعت کی تین قسمیں کی ایک بدعت حسنہ دوسری بدعت سیۂ اور تیسری بدعت مباحہ کہ جس کی کر نے نہ کر نے کی دو نوں سمت برا بر ہوں کر و تب بھی ٹھیک نہ کر و تب بھی ٹھیک تو پیٹ بھر کر کھا نابدعت مباحہ میں شمار کیا گیا ہے اور بعض علماء نے بدعت حسنہ کی دو قسمیں کی ہیں بدعت حسنہ میں ایک واجبہ ہو تی ہے جیسے کا فروں سے منا ظرہ کر نے کے لیے علم کلام کو وضع کر نا اور دیگر اس طرح کے کام اور دوسری بدعت حسنہ مستحبہ ہو تی ہے اور بدعت سیۂ کی بھی انہوں نے دو قسمیں کی ایک محرمہ کہ جس کا کر نا حرام ہے اور ایک مکروہہ کہ جس کا کر نا مکروہ ہے ایسا بھی ہو سکتا ہے ایسا بھی ممکن ہے کہ دو عمل ہوں جس میں سے ایک بدعت حسنہ ہو اور دوسرا عمل جو نیا ہو وہ بدعت سیۂ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ہی عمل ہو لیکن دو طریقوں سے کیا جا ئے اگر شریعت کے مطابق کیا جا ئے تو بدعت حسنہ ہے اور اگر شریعت کے خلاف کیا جا ئے تو وہ بدعت سیۂ بن جا تاہے جیسے تبلیغِ دین کہ تبلیغ دین یہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور صحابہ سے ثابت ہے لیکن تبلیغِ دین کے نئے نئے طریقے مثلاً ایک مخصوص تاریخ پر لوگوں کو جمع کر نا اسی طرح بہار شریعت مسجد میں ایک پروگرام سر دیوں میں شروع ہو تا ہے جو تقریباًسا ڑھے چار مہینے تک جاری رہتا ہے فجر کی نماز کے بعد ڈیڑھ گھنٹے کے لیے قرآن کا درس ہو تا ہے ملٹی میڈیا پروجیکٹر کے ذریعے اسکرین پر قرآن پاک کے الفاظ ہو تے ہیں اور ایک ایک لفظ کا ترجمہ اور تفسیر سماعت کی جا تی ہے لوگ الحمد سے والناس تک پورا قرآن سمجھ کر ختم کر تے ہیں اور اس کا نام (خوشگوار زندگی) پروگرام رکھا جا تا ہے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان اور صالحین سے یہ طریقہ ثا بت تو نہیں ہے لیکن چونکہ تبلیغ ثابت ہے اور تبلیغ جس طرح بھی جائے لیکن شریعت کے اصول کے مطابق ہو تو وہ بالکل جا ئز ہے تو یہ نئے انداز میں تبلیغ کا کام کر نا یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر اس طرح تبلیغ کی جائے کہ عورتیں ساڑیاں پہن کر بیٹھی ہوں بے پر دہ عورتوں کے سامنے بیان کیا جا رہا ہو مر د بھی بیٹھے ہوں مردوں عورتوں کے درمیان کو ئی پر دہ نہ ہو بیان کر نے والے کے درمیان بھی پر دہ نہ ہو تا لیاں بج رہی ہوں اور بار بار ڈھول بجایا جا رہا ہو موسیقی بجائی جا رہی ہو اور کو ئی کہے کہ میں اسلام کی خدمت کر رہا ہوں تو یقیناًیہ خرافات ہیں اور گناہ کے سارے کام بدعت سیۂ ہیں اسی طرح میلاد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل کا انعقاد کر نا اگر محفل منعقد کی جا ئے اس میں قرآن کی تلاوت ہو اللہ تعالی کی حمد بیان کی جائے، منا جات پڑھی جا ئے نعت پڑھی جائیں،درسِ قرآن، درسِ حدیث ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اور توقیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے معجزات آپ کے کمالات آپ کی ولادت با سعادت کے وقت ظہورر پزیر ہونے والے معجزات کا بیا ن ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے کردار کو بیان کیا جا ئے پھر آخر میں دعا ہو صلوۃ و سلام ہویہ پورا عمل یقیناحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اور توقیر کے لیے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اور توقیر لوگوں کے دلوں میں بڑھا نا یہ شریعت کو بہت پسند ہے تو یہ بالکل شریعت کے مطابق ہے یہ انداز اگر نیا بھی ہو تو شریعت کے خلاف نہیں لہذا یہ بدعت حسنہ ہے لیکن اگر میلاد کی محفل میں نعتیں اس انداز میں پڑھی جا ئیں کہ میوزیکل نعتیں ہوں آلاتِ موسیقی پر نعتیں ہوں، عورتیں نعت پڑہنے والی ہوں اور ان کی آواز نامحرم مردوں تک جا رہی ہوں ،عورت کی جو ترنم والی آواز ہے وہ نا محرم مردوں کی طرف نہیں جانی چاہیے ،بجلی کی چوری کی جا ئے یا اسی طرح محفلِ میلاد منعقد کی جائے زور زور سے اسپیکر پر اس طرح نعتیں پڑھی جا ئیں کہ بیماروں کو تکلیف ہو بوڑھوں کو تکلیف ہو تو یہ سارے عمل غلط اور گناہ ہے ہم اسے بدعت سیۂ کہیں گے اور ایسی محفل ہم منعقد نہیں کریں گے کہ جس میں گناہ کیے جائیں اسی طرح عرس کا مطلب اللہ والوں کی یاد کر نا اللہ والوں کو ایصالِ ثواب کر نا ایک مخصوص تاریخ پر یہ کام کیا جاتا ہے اور تاریخ کا تعین کر نایہ بھی شریعت سے ثابت ہے کہ اس تاریخ میں لوگ جمع ہو ں اور اللہ کا ذکر کریں ،قرآن کی تلاوت کریں ،درودِ پاک پڑھیں ،دعا ئیں مانگیں تو اس میں کو ئی حرج نہیں ہے لیکن اگرہیروئن چرس بھنگ کا کارو بار ہو رہا ہو، میلے لگے ہوئے ہوں، ناچ ہو رہا ہو، عورتوں اور مردوں کا مخلوط انتظام ہو، ڈھول اور باجوں پرخوب اُودھم ہو رہا ہو، مزار پر سجدہ ہو رہا ہو، مزار کے سامنے رقص کیا جا رہا ہو، مزار کا طواف کیا جا رہا ہو یہ سب منع ہیں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب سے منع فرما یااور سجدہ صرف اللہ کی بارگاہ میں کیا جا سکتا ہے اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے سجدہ جا ئز نہیں ہے لہذا قا نون یہ ہوا کہ ہم کام دیکھیں گے زمانہ کا اعتبار نہیں ہے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم تابعین تبع تابعین رضی اللہ تعالی عنھم کے زمانہ میں کو ئی کا م ہو یا اس کے بعد ہو ہر وقت یہ دیکھا جا ئے گا کہ کیا یہ کام شریعت کے اصول کے مطابق ہے یانہیں اسی طرح کر نے والا وہ نیک شخص ہو یا بد ہم اسے نہیں دیکھیں گے بلکہ یہ دیکھیں گے کہ یہ کام شریعت کے مطابق ہے یانہیں جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حجاج بن یوسف جس نے قرآن پرَ زبر زِیر پیش لگائے بڑا ظالم شخص تھا بڑا سفاق تھامگر اس کا یہ عمل شریعت کے خلاف نہیں تھا تو پوری دنیا کے لوگوں نے اس کو قبول کر لیااسی طرح حجاج بن یوسف اور ملک بن مروان یہ وہ لوگ تھے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے خلاف کام کر تے تھے اور یہ بدعتی لوگ تھے لیکن آپ جانتے ہیں کہ اس زمانے میں جب جمعہ کی نماز ہو تی تو وقت کا بادشاہ جمعہ پڑھاتا یا شہر کا گورنر جمعہ پڑھاتا تو جب حجاج بن یوسف جو اس وقت کا گورنر تھا جب جمعہ پڑھاتا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کو بہت مشکل ہو تی بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان گھر میں ظہر کی نماز ادا کر لیتے کیونکہ اس زمانے میں دوسرے جمعہ کا اہتمام کر نے کی کسی کو اجازت نہیں تھی اور بعض صحابہ کرام کے جنہیں جان سے مار نے کی دھمکی جاتی تو مجبوراً جمعہ کی نماز میں حاضر ہو تے بڑا ہجوم ہو تا پو را شہر جمع ہو تا اور حجاج بن یوسف پورے لشکر کیساتھ روب اور جلال کے ساتھ آتا مگر وہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم اپنی نماز ظہر پہلے ہی ادا فر ما لیتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ تعداد کتنی بھی ہو نماز پڑ ھا نے والے کا عقیدہ درست ہوناچاہیے اب غور فرمائیے کہ حجاج بن یوسف جو اس قدر ظالم شخص تھا کہ بزرگانِ دین اس کے پیچھے نماز پڑھنا پسند نہیں کر تے تھے لیکن اس نے جب قرآن پاک کو زبر زیر پیش لگائے تو صحا بہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم تابعین اور بزرگانِ دین نے اسے قبول کر لیا کیونکہ وہ بُرا تھا لیکن اس کا یہ عمل بدعتِ حسنہ میں شمار ہو تا تھا تو بدعتِ حسنہ کے طور پر انہوں نے اس عمل کولے لیا بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیۂ کے بارے میں امام المحدثین شارح بخاری حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ شرعی اصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:الفعل یدل علی الجواز: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمیا صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم یا بز ر گان دین علیہم الرحمہ نے جوکا م کیاتو یہ کام کر نا جا ئز ہو نے کی دلیل ہے :وعدم الفعل لایدل علی المنع :اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم بز رگان دین علیھم الرحمہ نے کوئی کام نہ کیا تو یہ نا جا ئز اور حرام ہو نے کی دلیل نہیں ہے اسی طرح علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری شرح بخا ری میں بدعتِ حسنہ بدعتِ سیۂ اور بدعت مباحہ کی تقسیم اس طرح فر ما تے ہیں کہ :والبدعۃ ان کانت مما تندرج تحت مستحسن فھی حسنۃ:اگر کو ئی نیا کام کسی چیز کے نیچے داخل ہو کہ جس کی خوبی شرعہ سے ثابت ہے تو وہ نیا کام اچھا ہے وہ اچھی بدعت ہے جیسے برزگانِ دین کی تعظیم، ان کی یاد منانا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اور توقیر بڑھانے کی کو شش کر نا، تبلیغ دین کر نا، یہ سب شریعت سے ثابت ہے اس کی خو بی شریعت سے ثا بت ہے اگر اس کے تحت کو ئی کام ہو اور شریعت کے خلاف نہ ہو تو وہ بدعتِ حسنہ ہے :انکانت تندرج تحت مستقبح فھی مستقبحۃ:اور اگر وہ نیا کام کسی ایسی چیز کے نیچے دا خل ہو جس کی بُرائی شریعت سے ثا بت ہے تو وہ نیا کام بُرا ہے بدعتِ سیۂ ہے جیسے مزار کو سجدہ رکوع طواف کر نا وغیرہ یا ایسی محفل منعقد کر نا کہ جس میں مرد اور عورتوں کااختلاط ہو میو زیکل آلات کا استعمال کر نا یہ ساری چیزیں ان اُمور سے ہیں جن کی برائی ثابت ہے تو یہ کام برے ہیں لہذا انہیں بدعتِ سیۂ کہیں گے :والافمن قسم مبا ح:اور اگر کوئی کام نہ بدعتِ حسنہ بن رہا ہو اور نہ بدعتِ سیۂ تو پھر وہ کام مباح ہو گااب اگر کو ئی شخص اس اصول کو بھی نہ سمجھے اور اس کی یہ ضد ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یا صحا بہ رضی اللہ تعالی عنھم کے بعد یا تا بعین کے بعد جو بھی نیا کا م کیا جا ئے گا وہ بدعت سیۂ ہے تو پھر اس کی خدمت میں یہ عر ض ہے کہ عید کی نما ز کے بعد خطبہ ہو تا ہے خطبے کے بعد پو ری دنیا میں ہا تھ اُٹھا کر دعا کی جا تی ہے اور وہ دعا ماد ری زبان میں کی جا تی ہے جیسے پا کستان میں عموماًاردو زبان میں کی جا تی ہے بعض علا قوں میں مختلف زبانو ں میں دعا کی جا تی ہے عید کی نماز کے خطبے کے بعد اس طرح دعا کر نا نہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے نہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم سے ثابت ہے نہ تا بعین سے ثابت ہے نہ ہی تبع تابعین سے ثابت ہے اس کے باوجود پو ری دنیا میں یہ کام اکثر مساجد اور عید گاہوں میں کیا جا تا ہے جو لوگ ہر بات پر بدعت کی رٹ لگاتے ہیں ان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص سے پوچھا گیاکہ عید کی نما زمیں خطبے کے بعد ہا تھ اُٹھا کر مادری زبان میں جودعا مانگی جا تی ہے کیا یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم سے ثا بت ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ بات تو درست ہے کہ حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحا بہ رضی اللہ تعالی عنھم تا بعین تبع تا بعین ائمہ مجتہدین اور اولیا ئے کاملین سے عید کی نما ز کے خطبے کے بعد یہ ثا بت نہیں ہے لیکن شریعت کا اصول یہ ہے کہ یہ حضرات اگرکوئی عمل نہ کریں تو ان کا نہ کرناحرام ہونے کی دلیل نہیں پھر انہوں نے دعا کے فضائل اور نماز کے بعد جو دعا کر نے کی ا حادیث ہیں وہ بیان کیں اور کہا کہ جب دعا کی اتنی فضیلت ہے اور ہمیں منع بھی نہیں کیا گیا تو پھر دعا کر نے میں کیا حرج ہے لہذا یہ کو ئی بُرا نیا کام نہیں دیکھئے جب اپنی بات آتی ہے تو شر عی اصول لے آتے ہیں اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اور اللہ والوں کی محبت کی بات آتی ہے تو شرعی اصول جاننے کے با و جو د وہ ان اصولوں کی طرف توجہ نہیں دیتے اور لوگوں کو تعظیمِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ والوں کی محبت سے دور کر نے کے لیے فو راً فتویٰ لگا دیتے ہیں کہ یہ بدعت ہے ،حرام ہے، جہنم میں لیجانے وا لا کام ہے اللہ تبارک وتعالی قادر ہے وہ قوی ہے جب انسان ایسا کر تا ہے تو اس کا نتیجہ دنیا میں دکھا دیا جا تا ہے کہ اس کی میت موجود ہو تی ہے نما زِ جنا زہ کے بعد لوگ اللہ کے حضور ہا تھ اٹھا کر دعا کر نے کے لیے راضی نہیں ہو تے حا لا نکہ حدیثِ پاک میں واضح طور پر ہے:عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فر ما تے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا:اذا صلیتم علی المیت فاخلصو لہ الدعاء :جب تم نماز جنا زہ پڑھ کر فا رغ ہو جا ؤ تو پھر خاص اس میت کے لیے دعا کرو اور دوسری حدیث پاک میں فر ما یا اسے تمہاری دعا کی ضرورت ہو تی ہے، وہ ایسے ہو تا ہے جیسے کو ئی شخص دریا میں ڈوب رہا ہو مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت مو جو د ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک دن نماز جنازہ پڑھنے کے لیے آئے تو نمازِ جنازہ ختم ہو چکی تھی لوگ دعا کر نے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے زور سے پکار کر کہا رُک جا ؤ میں نماز جنازہ میں تو شریک نہ ہو سکا اب مجھے دعا میں شریک ہو نے دو اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل لکھا کہ آپ نمازِ جنازہ کے بعدجب میت کے لیے دعا کر تے تو جنازے کے بلکل قریب آجا تے اسی لیے سنت یہ ہے کہ جنا زے کے بعد جب دعا کی جا ئے تو صفیں توڑ دیں جا ئیں اور جنازے کے قریب آجا ئیں اور سب مل کر دعا کریں یہ صحا بہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کا طریقہ ہے۔اب دیکھئے کہ جب انسان اللہ کی محبت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اللہ والوں کی محبت سے دور ہو جا تا ہے تو دنیا میں اللہ کا قہر اس پرکس طرح نازل ہو تا ہے کہ جب وہ اس دنیا سے جا تا ہے تو اللہ کے حضور اس کی مغفرت کے لیے ہا تھ اٹھا کر دعا نہیں کی جا تی اورایسا کرنے کو لوگ بدعت سمجھتے ہیں یہ اصل میں تنگ نظری ہے اور یہ تنگ نظری کا وبال ہے اسی لیے اس کتاب کانام رکھاگیا ’’بدعت کی حقیقت اور تنگ نظری کا وبال ‘‘یقینااسلام کو ئی تنگ نظر مذہب نہیں ہے اسلام میں بڑ ی آسانیا ں اور وسعتیں ہیں شریعت کے اصول بیان کر دیئے گئے اب شریعت کے اصول کے مطابق جونیا کا م بھی کیا جا ئے چا ہے کسی دور میں ہو صحیح ہے اور شریعت کے اصول کے خلاف جو کام کیا جائے چا ہے کسی دور میں ہوغلط ہے اور قرآن پاک میں اس دین کی وسعتوں کا ذکر ہے سو رۃ حج آیت نمبر 78 میں ارشاد ہے :وما جعل علیکم فی الدین من حرج :اور اللہ نے دین کے معاملات میں تم پر کو ئی تنگی نہیں رکھی سورۃ بقرہ آیت نمبر185 میں ہے :یرید اللّٰہ بکم الیسرولایریدبکم العسر:اللہ تعالی تم پر آسانی کر نا چاہتا ہے تم پر دشواری اور تنگی نہیں کر نا چاہتاسو رۃ نسا ء آیت نمبر 28 میں ارشاد ہے :یرید اللّٰہ ان یخفف عنکم:اللہ تعالی تم پر آسا نی کر نا چاہتاہے اسلام کا یہ اصول بھی یا د رہے کہ شریعت نے اگر منع نہ کیا ہو تو کسی چیز کو حرام کہنا اللہ پر جھوٹ با ندھنا ہے سو رۃ نحل آیت نمبر 116 میں ارشاد ہے :ولا تقولو لماتصف السنتکم الکذب ھذاحلا ل وھذاحرام :تم اپنی مر ضی سے اپنی زبانیں چلاتے ہو ئے جھوٹ بولتے ہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے:لتفترواعلی اللّٰہ الکذب:تا کہ تم اللہ پر جھوٹ باندھو :ان الذین یفترون علی اللّٰہ الکذب لایفلحون:بیشک جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ لوگ کا میا ب نہیں ہو سکتے یہ اصول بھی یاد رہے کہ شریعت نے جس کام کا منع کیا وہ حرام ہے جس چیز کا حکم دیا وہ حلال ہے اور جس چیز کا ذکر شریعت نے نہیں کیا اسے ہم حرام نہیں کہہ سکتے وہ بھی حلال ہے جا ئز ہے اور اسے ہمارے لیے معاف رکھا گیاجامع تر مذی ابواب اللباس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر ما یا :الحلال مااحل اللّٰہ فی کتابہ : حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلا ل قرار دیا:والحرام ماحرم اللّٰہ فی کتابہ :اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا :وماسکت عنہ :اور جس کے بارے میں ذکر نہ فر ما یا: فھومماعفاعنہ :تو یہ اس سے ہے جس سے اللہ نے در گزر کیا یعنی تمہا رے لیے معاف ہے اگر کرو تو تمہاری مر ضی نہ کر و تو تمہاری مر ضی ا س میں تمہا ر ی گرفت نہیں کی جا ئے گی علماء کرام نے حدیث اور قرآن کی آیتوں سے اصول مرتب کیااور فر ما یا :فیہ ان الاصل فی الاشیاء الاباحۃ :مرقات جلداول صفحہ نمبر 263 پر تفسیر کبیر تفسیر بیضاوی تفسیر احمدی فتاویٰ شامی اور دیگر کئی کتا بوں میں یہ اصول مو جو د ہے کہ قائدہ اصلیہ یہ ہے کہ:فی نفسہ :ہر چیز جا ئز ہے جب تک کہ شریعت حرام قرار نہ دے تو جا ئز کا ثبوت نہیں مانگا جا تا اگر کو ئی نا جائز کہتا ہے تو وہ ثابت کرے کہ اللہ نے کہا ں نا جا ئز قرار دیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہاں اسے حرام قرار دیا قرآن پاک میں اور حدیث طیبہ میں نا جا ئز کی فہرست ہے ،حرام کی فہرست ہے ،ناپاک کی فہرست ہے، لیکن حلال چیزوں کی فہرست نہیں بیان کی گئی جا ئز اور پاک چیزوں کی فہرست نہیں بیان کی گئی بلکہ بتادیا گیا کہ جس کا ذ کر نہیں کیا گیا وہ حلال ہیں جائز ہیں پاک ہیں مثلاً قرآن مجید فرقانِ حمید نے جن سے نکاح حرام ہے ان عورتوں کا ذکر کیاچنانچہ سورۃ نساء آیت نمبر 23 میں ارشاد فرمایا:حرمت علیکم امھاتکم وبناتکم واخواتکم وعماتکم: تم پر تمہاری مائیں حرام کی گئی کہ ان سے نکاح نہیں ہو سکتا تمہاری بیٹیاں تمہاری بہنیں تمہاری پھوپھپیاں:وخالاتکم :تمہاری خالائیں:وبنات الاخ :اور تمہاری بھتیجیاں:وبنات الاخت :اورتمہاری بھانجیاں اور دیگر عورتوں کی فہرست بیان کی گئی اور بتایا گیا کہ ان ان عور توں کے ساتھ نکاح نہیں ہو سکتا اور پھر آگے سورۃ نساء کی آیت نمبر 24 میں فر ما دیا گیا:واحل لکم ماوراء ذلکم: ان کے علاوہ جو عورتیں ہیں وہ تمہارے لیے حلال کی گئیں یعنی تم ان سے نکاح کر سکتے ہو قائدہ معلوم ہو ا کہ شریعت کا یہ اصول ہے کہ حرام کا ذکر کیا جا تا ہے اور اس کے علاوہ جتنی چیزیں ہو تی ہیں وہ حلال ہوتی ہیں جائز ہوتی ہیں اسی طرح یہ اصول بھی سمجھ لیں جو حدیث پاکِ میں ہے کہ :ما راھ المسلمون حسن فھو عنداللہ حسن: جسے صالح مسلمان اچھا سمجھے تو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہو گا ۔الغرض بدعت کی دو قسمیں جو آپ کے سامنے پیش کی گئیں جب ہم نے بدعت کی دو قسموں کو سمجھ لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سے بھی ہم ان قسموں کو اچھی طرح واضح کرتے ہیں جیساکہ( مسلم شریف کتاب علم حدیث ۴۸۳۰) اور اسی مفہوم کے ساتھ( مسلم شریف کتاب الزکوۃ میں تر مزی کتاب العلم نسائی کتابوں زکوۃ ابن ماجہ کتاب مقدمہ اور مسند امام بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ) میں چار جگہ پر اور دار می میں کتاب مقدمہ میں دو جگہ پر یہ حدیث پاک مو جو د ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اچھے نئے کام اور بُرے نئے کام کا ذکر کیا اور فر ما یا کہ جو بُرا نیا کا م ایجادکر ے گا اس کے لیے گناہ ہے اور جب تک عمل کر تے رہیں گے اس کے نامہ اعمال میں گناہ لکھاجائے گا اور اچھا نیا کام ایجاد کر نے کے بارے میں آ پ نے فر ما یا :من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ:’’جو اسلام میں نیا کا م ایجاد کرے کہ جو اچھا ہو:فعمل بھا بعدہ :’’اور ایسا طریقہ ایجاد کرے کہ بعد میں آنے والے لوگ اس پر عمل کریں اور اس پر عمل کیا جا ئے:قتبلہ مثل اجرمن عملبھا:تو جتنے اس کے بعد عمل کریں گے اتنے عمل کر نے والوں کا ثواب نیا کا م ایجاد کر نے والے کے نامۂ اعمال میں لکھا جا ئے گا :ولاینقص من اجورھم شی ء :اور عمل کر نے والوں کے عمل میں کو ئی کمی نہیں کی جا ئے گی لہذااسی اصول کے تحت بزرگانِ دین وہ نئے نئے کام جو شریعت کے اصولوں کے مطابق تھے ایجاد کر تے رہے اور آج تک وہ نئے نئے کام جاری اور ساری ہیں مثلاًصحابہ کرام علیہم الرضوان کے زمانے میں فارس روم اور کئی ممالک فتح ہو ئے مگر جمعہ کا خطبہ عربی میں ہو تا تھا جمعہ کے خطبے سے پہلے کو ئی ماد ری زبان میں کوئی وعظ و تقریرنہیں ہو تی تھی لیکن بعد میں اس نئے کام کو ایجاد کیا گیا اور آج پوری دنیا میں وہ ممالک میں کہ جن کی زبان عر بی نہیں، عر بی میں خطبہ دیتے ہیں اور اس سے پہلے وہ اردو میںیاجوبھی مادری زبان ہو وعظ کرتے ہیں یہ کام نہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا نہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم نے کیا مگر یہ کام ہے تو نیا لیکن اچھا کام ہے، شریعت کے اصول کے مطابق ہے لہذا اسے بدعتِ حسنہ کہیں گے اسی طرح بعض جگہوں پر یومِ فر قان منا یا جا تا ہے یومِ غزوہ بدر منایاجاتا ہے اسی طرح یومِ صدیقِ اکبر، یومِ فاروقِ اعظم ،یومِ عثمان ،یوم حیدر ،یومِِ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عھم منائے جا تے ہیں ،کہیں سیرتِ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو تا ہے، کہیں محفل میلادِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،کہیں محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکانفرنس، اور کہیں کسی اور نام سے جلسہ اور کہیں اورنام سے دین کا پر وگر ام، کہیں نورِ قرآن نشست ،کہیں خوشگوار زندگی پروگرام،اوررمضان المبارک میں جو خلاصہ تراویح بیان ہو تا ہے قادریہ لان میں جیل چورنگی کے پاس اس پر وگرام کا نام یاد گار رمضان رکھا جا تا ہے، سال میں ایک مرتبہ ربیع الثانی کے مہینے میں نو رُالقرآن کانفرنس ہو تی ہے کہ جس میں پو رے ملک سے علماء اور مشائخ تشریف لا تے ہیں مقصد یہ ہو تا ہے کہ مسلمانوں میں قرآن سمجھنے کا ذوق اور شوق پیدا ہو تو یہ سارے کام نئے ہیں اس انداز میں دین کا کام کر نا، اس انداز میں یوم منانا ،اس انداز میں وعظ کر نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یاصحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم سے ثابت نہیں مگر چونکہ یہ شریعت کے خلاف بھی نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم نے منع بھی نہیں کیا لہذا یہ بالکل درست ہے ۔سال میں ایک ایسا اجتماع بھی آتا ہے جو بالکل مخصوص تا ریخ میں ہو تا ہے اور پوری دنیا سے لوگوں کو جمع کیا جا تا ہے بتائیے صحابہ کرام رضی اللہ تعا لیٰ عنھم نے تا بعین نے بزگانِ دین نے حج کے علاوہ کو ئی سالانہ اجتماع کیا؟کیا صحابہ سے بڑھ کر ہمارے دل میں دین کی تڑپ ہے اسی طرح سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکانفرنس کے بڑے جلسے ربیع الاول کے مہینے میں ہو تے ہیں اگر کو ئی message بنالے اورکہہ کہ اے یومِ صدیق، یومِ فاروق، یومِ عثمان ،یومِ حیدررضی اللہ تعالیٰ عھم منانے والوں اے یومِ فرقان منا نے والو، اے جمعہ کے خطبے سے پہلے اردو یادیگر مادری زبان میں وعظ کر نے والو ، اے سال میں ایک سالانہ اجتماع کر نے والوں یا باربیع الاول کے لیے سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس کر نے والویہ بتاؤ کہ حضور کے زمانے میں 63مرتبہ ربیع الاول آیااور صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں 2 مر تبہ ربیع الاول آیا، فاروق اعظم کے دورخلافت میں 10 مر تبہ ربیع الاول آیا ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں 12 مر تبہ ربیع الاول آیا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں 4 مر تبہ حضرت امیر معاویہ کے دور میں 20 مر تبہ تو اسی طرح دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کے نام یاد ہوں مثلاً بدر کے 313 صحابہ کے نام ہر ہر نام کے آگے ہم یہ کہدیں کہ کیا انہوں نے یہ کام کیا توجب انہوں نے یہ کام نہیں کیا تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ،سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، دین کی محبت، صدیق اکبر کی محبت ،یومِ فرقان کی محبت، دین کی تبلیغ کا جذبہ تم میں زیا د ہ ہے یا ان لوگوں میں زیا دہ تھاتو یہ باتیں ہر گز مناسب نہیں ایسی باتیں ایسا ہی شخص کرے گاجس نے دین کے اصولوں کو نہیں سمجھا اور مقصد یہ بھی نہیں کے message بنا یا جا ئے ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ درس قرآن عام ہو جا ئے لوگ اللہ کی طرف رجوع کریں یہ تو ہماری مجبوری ہے کہ یہودیوں اور عیسا ئیوں نے مسلمانوں کے دلوں کے اندر بدعت کے بارے میں غلط تصورات قائم کر دئیے ہیں تو مجبوراً یہ باتیں کی گئیں ورنہ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کو دین کے قریب کیا جائے یہودو نصاریٰ کے خلاف انہیں تیار کیا جا ئے دشمنانِ اسلام کے خلاف ان کو مضبوط کیا جائے تہجد کے فضائل بیان ہوں نماز نہ پڑھنے کے نقصانات بیان ہوں اور اس میں کون سی چیزیں رکاوٹ ہیں ان کا بیان ہو ہم موت سے غافل کیوں ہیں؟ آج مسلمانوں میں بے راہ روی کیوں ہے ؟ آپس میں دشمنیاں کیوں پائی جاتی ہیں ؟ نفرتیں کیوں پائی جا تیں ہیں؟ بڑوں کا ادب کیوں نہیں؟ چھوٹوں پر شفقت کیوں نہیں؟ پڑوسیوں کے حقوق کیوں نہیں ادا کیے جا تے؟ لوگوں کی اصلاح کی ضرورت ہے یہ مختصر سی زندگی قول اورفعل کے تضاد سے کب پاک ہو گی تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پر لیکچر ان پر بیانات ہوں اور مسلمانوں کو دشمنانِ اسلام کے خلاف تیار کیا جا ئے ہم نمازوں کی پابندی کریں کثرت سے درودِ پاک پڑہیں اتنی کثرت سے پڑھیں کہ کسی کہنے والے نے کہا اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمپر کثرت سے درود پاک پڑھو گے درود والے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم سے پیار فرمائیں اور روایت میں آیا کہ حضرتِ حذیفہ فرماتے ہیں کہ جو کثرت سے درودِپاک پڑھتا ہے تواس کی برکتیں درود پڑھنے والے کو بھی ملتی ہیں اس کی اولاد کو بھی ملتی ہیں اور اولاد کی اولادتک یہ بر کتیں جا ری رہتی ہیں۔ روایت میں اس طرح بھی ہے کہ آسمان سے بلائیں نا زل ہو تی ہیں لیکن جس گھر میں درود و سلام پڑھا جا تا ہے اس گھر میں بلا ئیں نازل نہیں ہو تی جب ہم کثرت سے درودِ پاک پڑھیں گے تو ان شاء اللہ ساری اُلجھنیں دور ہو جا ئیں گی اورشرعی اصول بھی سمجھ میں آجائیں گے اور ہمارا دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے روشن و منور ہو جا ئے گا ۔
اللہ تعالی ہمیں اپنی بقیہ زندگی اپنے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق گزار نے کی توفیق عطا فر ما ئے۔ اآمین ۔(دعا گو و طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...