Monday 27 November 2017

دیابنہ اور وہابیہ کے نزدیک صرف دو چار چیزیں ہی بدعت ہیں آخر یہ منافقت کیوں ؟

0 comments

دیابنہ اور وہابیہ کے نزدیک صرف دو چار چیزیں ہی بدعت ہیں آخر یہ منافقت کیوں ؟

علمائے اہل سنت و جماعت کے عقائد و نظریات قرآن و سنت کے عین مطابق ہیں ،کوئی بھی موضوع اٹھا کر دیکھ لیجیے ہر ہر موضوع پر علماے اہل سنت نے قرآن و سنت سے دلائل اپنی اپنی کتب و رسائل میں پیش فرما دیے ہیں ۔لیکن مخالفینِ اہل سنت نے ہمیشہ آنکھیں بند کر کے اعتراضات و الزامات کا سلسلہ جاری رکھا ،انہی سلسلوں میں ایک ’’بدعت‘‘کا مسئلہ بھی بڑا اہم ہے ۔ بات ہو یا نہ ہو بس مخالفین کی زبان سے بدعت کا فتویٰ گولی کی طرح نکلے گا ، لیکن ان لوگوں کی اپنی حالت یہ ہے کہ خود جو مرضی ہے کریں نہ بدعت نظر آئی گی نہ قرآن و سنت کا مطالبہ ،نہ خیر القرون سے ثبوت یاد آتا ہے اور نہ ہی وہ تمام اصولِ بدعت جن کی بنیاد پر سنیوں کو بدعتی و جہنمی قرار دیا جاتا ہے ۔ [معاذ اللہ عزوجل] آج ہم آپ کے سامنے مخالفینِ اہل سنت کے اصولوں کے تحت ہی انہی کی چند بدعات و خرافات کو پیش کریں گے ،کہ وہ لوگ جو ہم سنیوں کو بدعتی بدعتی کہتے نہیں تھکتے خود کتنی بدعات کا شکارہیں ۔لیکن اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے ۔

غیر کی آنکھوں کا تنکا تجھ کو آتا ہے نظر
دیکھ اپنی آنکھ کا غافل ذرا شہتیر بھی

دیوبندیوں کے نزدیک صرف دو چار چیزیں ہی بدعت ہیں : علمائے دیوبند کے نزدیک صرف اہل سنت و جماعت [سنیوں ] ہی کی دو چار چیزوں پر بدعت کے فتوے جاری ہوتے ہیں باقی وہابی خود جو مرضی ہے کریں سب جائز ہو جاتا ہے ۔

حتیٰ کہ داڑھی منڈے دیوبندی وہابی حضرات بھی ذکر رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی محافل کو بدعت بدعت کہتے دیکھائی دیں گے لیکن خود ان کو اپنا بدعتی چہرہ نظر تک نہیں آتا، داڑھی منڈانے پر ان کو بدعت و حرام کے فتوے بھول جاتے ہیں لیکن سنی ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی محافل کا انعقاد کریں تو یہ ان کو بدعت نظر آتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بڑے بڑے علمائے دیوبند کو میلاد ،فاتحہ کے علاوہ باقی کچھ بدعت نظر نہیں آتا ۔چنانچہ خود علماء دیوبند کے حکیم اشرفعلی تھانوی کہتے ہیں کہ : میں چاہتا ہوں کہ دین اپنی اصلی حالت پر آ جائے مگر اکیلے میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔جو لوگ متبع سنت ہیں اور اپنی ہی جماعت [دیوبندی فرقے] کے ہیں اُن کے یہاں بھی بس یہی دو چار چیزیں تو بدعت ہیں جیسے مولد کا قیام۔ عرس ۔ تیجا ۔دسواں ۔اس کے علاوہ جو اور چیزیں بدعت کی ہیں اُنہیں وہ بھی بدعت نہیں سمجھتے ۔چاہیے وہ بدعت ہونے میں اُن سے بھی اشد ہوں۔مثلاََ بیعت ہی کو دیکھئے جس ہےئت اور جس عقیدہ سے آج کل لوگ اس کو ضروری سمجھتے ہیں وہ بالکل بدعت اور غلط عقیدہ ہے لیکن کسی سے کہیں تو سہی ،اپنی ہی [دیوبندی] جماعت کے لوگ مخالفت پر آمادہ ہو جائیں ۔ (الافاضات الیومیہ جلد دہم جز اول :ملفوظ ۱۱۹،ص ۱۶۵)

اہل دیوبند کے امام و حکیم اشرف علی تھانوی کے اس دو ٹوک اعلان سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ وہابی دیوبندی مذہب میں صرف میلاد و فاتحہ جیسے کام ہی پر بدعت بدعت کے فتوے لگائے جاتے ہیں ۔ ان کاموں کے علاوہ دیوبندی خود جو مرضی ہیں کرتے رہیں لیکن ان کو بدعت نہیں کہتے ،چاہیے وہ اصولِ وہابیہ کے مطابق بدعت ہونے میں میلاد و فاتحہ سے بھی اشد ہی کیوں نہ ہوں۔

اسی طرح ایک غیر مقلد اہلحدیث ابو مسعود عبد الجبار سلفی نے کتاب لکھی ،جس میں انہوں نے اپنے ان وہابیوں کا رد کیا جو نمازکے بعد اجتماعی دعا کو بدعت کہتے ہیں ۔ابو مسعود عبد الجبار سلفی کی اس کتاب کے بارے میں ان کے اپنے اہلحدیث علامہ تبصرہ کرتے ہیں کہ : انھوں [ابو مسعود عبد الجبار سلفی] نے بہت سے ایسے مسائل کی فہرست پیش کی ہے ۔جن پر تمام اہل حدیث حضرات عمل کرتے ہیں ،اور ان مسائل پر بھی استدلال کی فنی نوعیت ویسے ہی ہے جیسا فرض نما زوں کے بعد دعائے اجتماعی کی ہے ۔مثلاََ انھوں نے دعائے اجتماعی کے منکرین اور اسے بدعت قرار دینے والوں سے یہ استفسار کیا ہے کہ وہ بتائیں کہ نما تروایح میں سیپارہ یا سوا سیپارہ متعین کرکے مسلسل ایک مہینہ تک قرآن مجید کو پڑھنے کی کیا دلیل ہے اور بالخصوص ستائیسویں شب کو جو خصوصی اہتمام پورے عالم اسلام بشمول حرمین شریفین میں کیا جاتا ہے اس کا شرعی جوازکیاہے؟ اس طرح قنوت و تر میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کی شرعی نوعیت کیا ہے؟ہمارے ہاں نماز جمعہ کی جماعت میں دوسری رکعت میں ہاتھ اٹھا کر جو قنوت نالہ پڑھی جاتی ہے اس کا استشہاد کہاں سے ملتا ہے۔ان دنوں بہت سے بستیوں اور مقالات پر باقاعدہ اعلان کر کے شہداء کی نماز جناہ پڑھائی جاتی ہے ۔اس غائبانہ نماز جنازہ کا مستقل عمل اور رویہ ازروئے شریعت کیا مقام رکھتا ہے؟ہمارے ہاں مرکزی مساجد کی موجودگی میں محلوں اور بستیوں کی چھوٹی چھوٹی مساجد میں جو نماز جمعہ کا اہتمام کیااہتمام کیا جاتا ہے اس کی مشروعیت بھی محل نظر ہے۔
فاضل مرتب[یعنی ابو مسعود عبد الجبار سلفی] نے اس ضمن میں چند مزید سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ جن پر ہر جگہ عمل ہو رہا ہے اور ان کے لئے کوئی شرعی دلیل واضح طور پر ہمارے سامنے ادلہ شرعیہ میں موجود نہیں ہے ۔ مثلاََقرآن و سنت کی تعلیم پر اجرت کا وصول کرنا کیسا ہے اور کیا صفہ کے مدرسے کے طلبہ کے لئے بھی ایسے ہی قربانی کی کھالوں اور فطرانے کا نظام اختیار کیا جاتا تھا۔کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے عہد مبارک میں ظلم و ستم کے واقعات کے نتیجے میں جمعۃ المبارک کی نماز کی دوسری رکعت میں قنوت نازلہ پڑھی جاتی تھی۔اس نوعیت کی بعض دیگر مثالیں دے کر مانعین دعا اجتماعی سے استفسار کیا گیا ہے کہ ان کے پاس مذکورہ مسائل یا اس نوعیت کے دوسرے مسائل میں جو طرز عمل انھوں نے اختیار کیا ہے اس کا شرعی جواز اور استدلا ل کیا ہے ۔ (نماز کے بعد دعائے اجتماعی ص ۱۲،۱۳)

دیکھیئے کہ خود وہابی مولوی صاحب اپنے ہی وہابیوں کے بہت سارے کاموں کے بارے میں ان سے سوالات کر رہا ہے کہ تم خود وہابی جو کام کر رہے ہو،ان کا ثبوت کہاں ہے؟یعنی یہ بدعت کیوں نہیں؟لیکن ایسے کاموں کو وہابی بدعت نہیں کہتے بلکہ بڑی خوشی سے عمل پیرا ہیں ،ہاں بدعت کے فتوئے تو وہابیوں نے صرف سنیوں کے لئے سنبھال رکھے ہوتے ہیں ۔

بہرحال میر ے مسلمان سنی بھائیو!علماے وہابیہ بدعت کی جو تعریفیں بیان کرتے ہیں اور جو خود ساختہ بدعتی اصول پیش کرتے ہیں انہی تعریفوں و اصول کے پیش نظر آج ہم آپ کے سامنے علماے وہابیہ کی چند باتوں کا ذکر کرتے ہیں جو کہ خود انہی کے قائم کردہ اصولوں اور تعریفوں کے تحت بدعت ضلالہ کے زمرے میں آتی ہیں ۔اور ان کے اصولوں کے مطابق ان کا ثبوت قرآن و سنت ،نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ۔خلفائے راشدین، صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین، تابعین عظام علہیم الرضوان اجمعین ، خیر القرون سے ہرگز ہرگز نہیں ملتا ۔یعنی علماے وہابیہ کے پیش کیے جانے والے یہ تمام کام نہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے ثابت ہیں ، نہ صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین سے ثابت ہیں اور نہ ہی تابعین علہیم الرضوان اجمعین سے ثابت ہیں لیکن علماے وہابیہ جھوم جھوم کر ان پر عمل کرتے نظر آتے ہیں ۔جیسا کہ ہم نے اس کتابچہ میں علماے وہابیہ کی متعدد بدعات کا ذکر کیا ہے جن کا ثبوت اصول وہابیہ کے مطابق ہرگز ہرگز موجود نہیں ۔

اتنی نہ بڑھا پاکی ء داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ،ذرا بند قبا دیکھ

نوٹ : دیابنہ اور وہابیہ کو بغض صرف اہلسنت و جماعت اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے ہے خود سب کچھ کریں تو جائز اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور مسلمانان اہلسنت پر بدعت کے فتوے ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر یہ دہرا معیار و منافقت کیوں ؟ علمی جواب کا منتظر : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔