Thursday, 23 November 2017

شبِ میلاد کو شب قدر سے افضل کہتے ہو کا جواب





شبِ میلاد کو شب قدر سے افضل کہتے ہو کا جواب

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ، خلقِ عظیم اور اَوصافِ جمیلہ کاذکر کرنے والی کتاب قرآنِ مجید کے نزول کے سبب ماہِ رمضان المبارک کی صرف ایک رات کو ہزار مہینوں سے بھی افضل قرار دیا گیا۔ جس مبارک رات میں کلامِ الٰہی لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا اللہ تعالیٰ نے اس رات کو قیامت تک کے انسانوں کے لیے ’’لیلۃ القدر‘‘ کی صورت میں بلندئ درجات کا وسیلہ اور تمام راتوں کی پیشانی کا جھومر بنا دیا۔ تو جس رات صاحبِ قرآن یعنی مقصودِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور ہوا اور بزمِ عالم کے اس تاجدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین و مکاں کو ابدی رحمتوں اور لازوال سعادتوں سے منوّر فرمایا، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس رات کی قدر و منزلت کیا ہوگی! اس کا اندازہ انسانی شعور کے لیے ناممکن ہے۔ لیلۃ القدر کی فضیلت اس لیے ہے کہ وہ نزولِ قرآن اور نزولِ ملائکہ کی رات ہے جب کہ نزولِ قرآن سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اَطہر پر ہوا۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو قرآن نازل ہوتا نہ شبِ قدر ہوتی اور نہ یہ کائنات تخلیق کی جاتی۔ دَر حقیقت یہ ساری فضیلتیں میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہیں۔ پس اگر کہا جائے کہ شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ قدر سے بھی افضل ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ باری تعالیٰ نے لیلۃ القدر کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دے کر اس کی فضیلت کی حد مقرر فرما دی جب کہ شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت حدِ اِدراک سے ماوراء ہے۔ یہ اَمر بھی ذہن نشین رہے کہ اگرچہ شبِ میلاد کی فضیلت زیادہ ہے تاہم شبِ قدر میں کثرت کے ساتھ عبادات بجا لانی چاہییں کیوں کہ اِس رات بجا لائی جانے والی عبادات پر زیادہ اَجر و ثواب کی نوید ہے اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔

ائمہ و محدثین نے راتوں کی فضیلت کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ مثلاً شبِ نصف شعبان، شبِ قدر، شبِ یوم الفطر، شبِ یوم العرفہ وغیرہ۔ ان میں شبِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بھی آیا ہے۔ بہت سے اَئمہ و محدثین اور اہلِ علم و محبت نے شبِ میلاد کو شبِ قدر سے افضل قرار دیا ہے۔

امام قسطلانی (851۔ 923ھ)، شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ)، امام زرقانی (1055۔ 1122ھ) اور امام نبہانی (م1350ھ) نے بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ سب راتیں فضیلت والی ہیں مگر شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے افضل ہے۔

1۔ امام قسطلانی (851۔ 923ھ) اس حوالہ سے لکھتے ہیں : إذا قلنا بأنه عليه الصلاة والسلام ولد ليلاً، فأيما أفضل : ليلة القدر أو ليلة مولده صلي الله عليه وآله وسلم ؟ أجيب : بأن ليلة مولده عليه الصلاة والسلام أفضل من ليلة القدر من وجوه ثلاثة :

أحدها : أن ليلة المولد ليلة ظهوره صلي الله عليه وآله وسلم ، وليلة القدر معطاة له، وما شرف بظهور ذات المشرف من أجله أشرف مما شرف بسبب ما أعطيه، ولا نزاع في ذلک، فکانت ليلة المولد. بهذا الاعتبار. أفضل.

الثاني : أن ليلة القدر شرفت بنزول الملائکة فيها، و ليلة المولد شرفت بظهوره صلي الله عليه وآله وسلم فيها. وممن شرفت به ليلة المولد أفضل ممن شرفت به ليلة القدر، علي الأصح المرتضي (أي عند جمهور أهل السنة) فتکون ليلة المولد أفضل.

الثالث : ليلة القدر وقع التفضل فيها علي أمة محمد صلي الله عليه وآله وسلم ، وليلة المولد الشريف وقع التفضل فيها علي سائر الموجودات، فهو الذي بعثه اﷲ تعالٰي رحمة للعالمين، فعمّت به النعمة علي جميع الخلائق، فکانت ليلة المولد أعم نفعاً، فکانت أفضل من ليلة القدر بهذا الاعتبار.
( قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 145)(عبد الحق، ما ثَبَت مِن السُّنّة في أيّام السَّنَة : 59، 60)(زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 255، 256)(نبهاني، جواهر البحار في فضائل النبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم ، 3 : 424)
’’جب ہم یہ کہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے وقت پیدا ہوئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضل ہے یا لیلۃ القدر؟ میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد کی رات تین وجوہ کی بناء پر شبِ قدر سے اَفضل ہے :
(1) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور شبِ میلاد میں ہوا جب کہ لیلۃ القدر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کی گئی، لہٰذا وہ رات جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کا شرف ملا اُس رات سے زیاد شرف والی ہوگی جسے اِس رات میں تشریف لانے والی ہستی کے سبب سے شرف ملا، اور اِس میں کوئی نزاع نہیں۔ لہٰذا اِس اِعتبار سے شبِ میلاد شبِ قدر سے افضل ہوئی۔
(2) اگر لیلۃ القدر کی عظمت اِس بناء پر ہے کہ اِس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے تو شبِ ولادت کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات میں جلوہ فرما ہوئے۔ جمہور اہلِ سنت کے قول کے مطابق شبِ میلاد کو جس ہستی (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے شرف بخشا وہ شبِ قدر کو شرف بخشنے والی ہستیوں (یعنی فرشتوں) سے کہیں زیادہ بلند و برتر اور عظمت والی ہے۔ لہٰذا شبِ ولادت ہی افضل ہے۔
(3) شبِ قدر کے باعث اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فضیلت بخشی گئی اور شبِ میلاد کے ذریعے جمیع موجودات کو فضیلت سے نوازا گیا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے رحمۃً للعالمین بنا کر بھیجا، اور اِس طرح نعمتِ رحمت جمیع کائنات کے لیے عام کر دی گئی۔ لہٰذا شبِ ولادت نفع رسانی میں کہیں زیادہ ہے، اور اِس اعتبار سے بھی یہ لیلۃ القدر سے افضل ٹھہری۔‘‘

2۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (239۔ 321ھ) بعض شوافع سے نقل کرتے ہیں :أن أفضل الليالي ليلة مولده صلي الله عليه وآله وسلم ، ثم ليلة القدر، ثم ليلة الإسراء والمعراج، ثم ليلة عرفة، ثم ليلة الجمعة، ثم ليلة النصف من شعبان، ثم ليلة العيد.
’’راتوں میں سے افضل ترین شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، پھر شبِ قدر، پھر شبِ اِسراء و معراج، پھر شبِ عرفہ، پھر شبِ جمعہ، پھر شعبان کی پندرہویں شب اور پھر شبِ عید ہے۔‘‘
(ابن عابدين، رد المحتار علي در المختار علي تنوير الأبصار، 2 : 511)(شرواني، حاشية علي تحفة المحتاج بشرح المنهاج، 2 : 405)(نبهاني، جواهر البحار في فضائل النبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم ، 3 : 426)

3۔ امام نبہانی (م1350ھ) اپنی مشہور تصنیف ’’الانوار المحمدیۃ من المواہب اللدنیۃ (ص : 28)‘‘ میں لکھتے ہیں :وليلة مولده صلي الله عليه وآله وسلم أفضل من ليلة القدر.
’’اور شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ قدر سے افضل ہے۔‘‘

4۔ مولانا محمد عبد الحئ فرنگی محلی لکھنوی (1264۔ 1304ھ) شبِ قدر اور شبِ میلاد میں سے زیادہ فضیلت کی حامل رات کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : تمام راتوں پر شبِ قدر کی بزرگی منصوص اور کئی طرح سے ثابت ہے :
1۔ اِس رات میں اَرواح اور ملائکہ کا نزول زمین پر ہوتا ہے۔
2۔ شام سے صبح تک تجلی باری تعالیٰ آسمانِ اَوّل پر ہوتی ہے۔
3۔ لوحِ محفوظ سے آسمانِ اَوّل پر نزولِ قرآن اِسی رات میں ہوا ہے۔
اور انہی بزرگیوں کی وجہ سے تسکین اور تسلیء اُمتِ محمدیہ کے لیے اس ایک رات کی عبادت ثواب میں ہزار مہینوں کی عبادت سے زائد ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍO
’’شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہےo‘‘
(القدر، 97 : 3)
اور حدیث میں بھی اِس رات کے جاگنے کی تاکید آئی ہے اور بعض محدثین نے جو شبِ میلاد کو شبِ قدر پر فضیلت دی ہے تو اُن کا یہ منشا نہیں کہ شبِ میلاد کی عبادت ثواب میں شبِ قدر کی عبادت کے برابر ہے کیوں کہ ثواب اور عقاب کی حالت یہ ہے کہ جب تک نصِ قطعی نہ پائی جائے کسی کام کو باعثِ ثواب نہیں قرار دے سکتے۔ مگر شبِ میلاد کو شبِ قدر پر اپنے اِفتخارِ ذاتی سے خدا کے سامنے فضیلت حاصل ہے۔‘‘
(عبد الحی، مجموعه فتاویٰ، 1 : 86، 87)
شبِ قدر کو فضیلت اس لیے ملی کہ اِس میں قرآن حکیم نازل ہوا اور اِس میں فرشتے اترتے ہیں؛ جب کہ ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت کا یہ عالم ہے آپ پر قرآن نازل ہوا اور روزانہ ستر ہزار فرشتے صبح اور ستر ہزار فرشتے شام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزارِ اَقدس کی زیارت اور طواف کرتے ہیں اور بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہدیۂ درود و سلام پیش کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ قیامت تک اسی طرح جاری رہے گا اور فرشتوں میں سے جو ایک بار روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کا شرف پالیتا ہے دوبارہ قیامت تک اُس کی باری نہیں آئے گی۔ (1) فرشتے تو دربارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم اور جاروب کش ہیں۔ وہ اُتریں تو شبِ قدر ہزار مہینوں سے افضل ہو جاتی ہے اور جس رات ساری کائنات کے سردار تشریف لائیں اس کی فضیلت کا اِحاطہ کرنا انسان کے علم و شعور کے لیے ناممکن ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی رات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے مہینہ پر کروڑوں اربوں مہینوں کی فضیلتیں قربان! خاص بات یہ ہے کہ شبِ قدر کی فضیلت فقط اہلِ ایمان کے لیے ہے۔ باقی انسانیت اس سے محروم رہتی ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد فقط اہلِ ایمان کے لیے ہی باعثِ فضل و رحمت نہیں بلکہ کل کائنات کے لیے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ ساری کائنات میں جملہ مخلوق کے لیے اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے، اس پر خوشی کا اظہار کرنا باعثِ اَجر و ثواب ہے۔

1. ابن مبارک، الزهد : 558، رقم : 1600
2. دارمي، السنن، 1 : 57، رقم : 94
3. قرطبي، التذکرة في أمور أحوال الموتي وأمور الآخرة : 213، 214، (باب في بعث النبي صلي الله عليه وآله وسلم من قبره)
4. نجار، الرد علي من يقول القرآن مخلوق : 63، رقم : 89
5. ابن حبان، العظمة، 3 : 1018، 1019، رقم : 537
6. أزدي، فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 92، رقم : 101
7. بيهقي، شعب الإيمان، 3 : 492، 493، رقم : 4170
8. أبونعيم، حلية الأولياء و طبقات الأصفياء، 5 : 390
9. ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفيٰ صلي الله عليه وآله وسلم : 833، رقم : 1578
10. ابن قيم، جلاء الأفهام في الصلاة والسلام علي خير الأنام صلي الله عليه وآله وسلم : 68، رقم : 129
11. سمهودي، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفيٰ صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 559
12. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 4 : 625
13. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 2 : 376
14. صالحي، سبل الهديٰ و الرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 12 : 452، 453
15. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 12 : 283، 284

اَئمہ و محدثین علیہم الرّحمہ نے راتوں کی فضیلت کو موضوعِ بحث بنایا۔مثلاً شبِ نصف شعبان،شبِ قدر،شبِ یوم العرفہ وغیرہ۔ان میں شبِ میلاد النبی ﷺ کا ذِکر بھی آیا ہے۔بہت سے اَئمہ و محدّثین اور اہلِ علم و محبّت نے شبِ میلاد کو شبِ قدر سے افضل قرار دیا ہے۔
امام قسطلانی،شیخ عبدالحق محدث دہلوی،امام زرقانی اور امام نبہانی نے بڑی صراحت کے ساتھ بیان کِیا ہے کہ:
'' سب راتیں افضل ہیں مگر شبِ میلادِ رسول ﷺ سب سے افضل ہے۔ ''

امام قسطلانی رحمتہ اللّہ علیہ ( 851،923ھ ) اِس حوالہ سے لکھتے ہیں: جب ہم یہ کہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ رات کے وقت پیدا ہوئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شبِ میلادِ رسول اللّہ ﷺ افضل ہے یا لیلتہ القدر؟ میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ آپ ﷺ کی میلاد کی رات تین وجوہ کی بِناء پر شبِ قدر سے افضل ہے۔ ''
1- آپ ﷺ کا ظہور شبِ میلاد میں ہُوا جب کی لیلتہ القدر آپ ﷺ کو عطا کی گئی،لہٰذا وہ رات جس کو آپ ﷺ کا شرف مِلا اُس رات سے زیادہ شرف والی ہوگی جسے اِس رات میں تشریف لانے والی ہستی کے سبب شرف مِلا،اور اِس میں کوئی،نزاع نہیں۔لہٰذا اِس اعتبار سے شبِ میلاد شبِ قدر سے افضل ہوئی۔
2- اگر لیلتہ القدر کی عظمت اِس بِناء پر ہے کہ:
'' اِس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے تو شبِ ولادت کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں اللّہ تعالیٰ کے محبوب ﷺ کائنات میں جلوہ فرما ہوئے۔شبِ میلاد کو جس ہستی یعنی حضور ﷺ نے شرف بخشا وہ شبِ قدر کو شرف بخشنے والی ہستیوں ( فرشتوں ) سے کہیں زیادہ بلند و برتر اور عظمت والی ہے۔لہٰذا شبِ ولادت ہی افضل ہے۔ ''
3- شبِ قدر کے باعث اُمّتِ محمدیہ ﷺ کو فضیلت بخشی گئی اور شبِ میلاد کے زریعے جمیع موجودات کو فضیلت سے نوازا گیا۔پس حضور ﷺ ہی جنہیں اللّہ تعالیٰ نے رحمتہً للعالمین بنا کر بھیجا اور اِس طرح نعمتِ رحمت جمیع کائنات کے لیے عام کر دی گئی۔لہٰذا شبِ ولادت نفع رسانی میں کہیں زیادہ ہے اور اِس اعتبار سے بھی یہ لیلتہ القدر سے افضل ٹھہری۔
( قسطلانی،المواہب اللدنیۃ بالمنح الحمدیۃ،1:145 )(عبدالحق،ماثَبَت مِن السُّنّۃ:59،60 )
( زرقانی،شرح المواہب اللدنیۃ بالممنح المحمدیۃ،1:255،256 )

امام طحاوی رحمتہ اللّہ علیہ ( 239،321 ) بعض شوافع سے نقل کرتے ہیں:راتوں میں سے افضل ترین شبِ میلادِ رسول ﷺ ہے،پِھر شبِ قدر،پِھر شبِ اِسراء و معراج،پِھر شبِ عرفہ،پِھر شبِ جمعہ،پِھر شعبان کی پندرہویں شب اور پِھر شبِ عید ہے۔ ''
( اِبنِ عابدین،رد المحتار علی در المختار علی تنویر الأبصار،2:511 )

امام نبہانی رحمتہ اللّہ علیہ ( م 1350ھ ) اپنی مشہور تصنیف '' الأنوار المحدیۃ من المواہب اللدنیۃ،صفحہ نمبر 28 '' میں لکھتے ہیں:ولیلۃ مولدہ ﷺ أفضل من لیلۃ القدر۔
'' اور شبِ میلادِ رسول اللّہ ﷺ شبِ قدر سے افضل ہے۔ ''

شبِ قدر کو فضیلت اِس لیے مِلی کہ اِس میں فرشتے اُترتے ہیں۔جب کہ ذات مصطفیٰ ﷺ کی فضیلت کا یہ عالم ہے:'' آپ ﷺ پر قرآن نازل ہُوا اور روزانہ ستّر ہزار فرشتے صبح اور ستّر ہزار فرشتے شام کو آپ ﷺ کے مزارِ اقدس کی زیارت اور طواف کرتے ہیں اور بارگاہِ مصطفیٰ ﷺ میں ہدیہء درود و سلام پیش کرتے ہیں۔یہ سِلسِلہ قیامت تک اِسی طرح جاری رہے گا اور فرشتوں میں سے جو ایک بار روضہء رسول ﷺ پر حاضری کا شرف پا لیتا ہے دوبارہ قیامت تک اُس کی باری نہیں آئے گی۔( اِبنِ مبارک،الزھد:558،رقم:1600 )( دارمی،السنن،57،رقم:94 )

فرشتے تو دربارِ مصطفیٰ ﷺ کے خادم اور جاروب کش ہیں۔وہ اُتریں تو شبِ قدر ہزار مہینوں سے افضل ہو جاتی ہے اور جس رات ساری کائنات کے سردار تشریف لائیں اس کی فضیلت کا اِحاطہ کرنا اِنسان کے علم و شعور کے لیے ناممکن ہے۔آقا ﷺ کی آمد کی رات اور آپ ﷺ کی آمد کے مہینہ پر کروڑوں اربوں مہینوں کی فضیلتیں قربان! خاص بات یہ ہے کہ: شبِ قدر کی فضیلت فقط اہلِ ایمان کے لیے ہے باقی اِنسانیت اِس سے محروم رہتی ہے۔مگر حضور ﷺ کی آمد فقط اہلِ ایمان کے لیے ہی باعثِ فضل و رحمت نہیں بلکہ کُل کائنات کے لیے ہے۔آپ ﷺ کی ولادتِ مبارکہ ساری کائنات میں جملہ مخلوق کے لیے افضل اور اس کی رحمت ہے۔اس پر خوشی کا اِظہار کرنا باعثِ اَجر و ثواب ہے۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...