Wednesday, 15 November 2017

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم مفسرین ، محدیثین علیہم الرّحمہ اور منکرین

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم مفسرین ، محدیثین علیہم الرّحمہ اور منکرین

امام ابن حجر مکی علیہ الرحمۃ نے امام فخر الدین رازی ( صاحب تفسیر کبیر) نے نقل فرمایا کہ جس شخص نے میلاد شریف کا انعقاد کیا اگرچہ عدم گنجائش کے باعث صرف نمک یا گندم یا ایسی ہی کسی چیز سے زیادہ تبرک کا اہتمام نہ کرسکا ۔ برکت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا شخص نہ محتاج ہوگا نہ اس کا ہاتھ خالی رہے گا ۔ (النعمۃ الکبرٰی صفحہ 9 ) مفسر قرآن علامہ اسماعیل حقی نے امام سیوطی امام سبکی ، امام بن حجر عسقلانی ، امام ابن حجر ، امام سخاوی ، علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہم جیسے اکابر علمائے امت سے میلاد شریف کی اہمیت نقل فرمائی اور لکھا ہے کہ میلاد شریف کا انعقاد آپ کی تعظیم کے لئے ہے ،اور اہل اسلام ہر جگہ ہمیشہ میلاد شریف کا اہتمام کرتے ہیں ۔( تفسیر روح البیان جلد 9 صفحہ 56 )۔ 12 ربیع الاول پر اجما ع امت

امام قسطلانی ، علا مہ زرقانی ، علامہ محمد بن عابدین شاکی کے بھتیجے علامہ احمد بن عبد الغنی دمشقی ، علامہ یوسف نہبانی اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہم نے تصریح فرمائی کہ امام المغازی محمد بن اسحاق وغیرہ علماءکی تحقیق ہے کہ یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم 12 ربیع الاول ہے ۔ علامہ ابن کثیر نے کہا یہی جمہور سے مشہور ہے اور علامہ ابن جوزی اور علامہ ابن جزار نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ اس لئےکہ سلف و خلف کا تمام شہروں میں 12 ربیع الاول کے عمل پر اتفاق ہے ۔ بالخصوص اہل مکہ اسی موقع پر جائے ولادت باسعادت پر جمع ہوتے اور اس کی زیارت کرتے ہیں ۔ ملخصاََ (زرقانی شرح مواہب جلد 1 صفحہ 132 ۔ جواہر البحار جلد 3 صفحہ 1147 ۔ماثبت من السنۃ صفحہ 57 ۔ مدارج النبوت صفحہ 14 ) واقعہءابولہب

جلیل القدر آئمہ محدثین نے نقل کیا ہے کہ ابولہب نے اپنی لونڈی ثوبیہ سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبری سن کر اسے آزاد کردیا ، جس کے صلہ میں بروز پیر اس کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور انگلی سے پانی چوسنا میسر آتا ہے ، جب کافر کا یہ حال ہے تو عاشق صادق مومن کے لئے میلاد شریف کی کتنی برکات ہوں گی ؟ ( بخاری جلد 3 صفحہ 243 ، مع شرح زرقانی صفحہ 139 ماثبت بالسنہ صفحہ 60 )

( ہفت روزہ اہلحدیث) لاہور۔27 مارچ 1981 ء کی اشاعت میں رقمطراز ہے ۔: ملک میں حقیقی اسلامی تقریبات کی طرح یہ بھی (عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک اسلامی تقریب ہی شمارہوتی ہے اور اس امر واقعہ سے آپ بھی انکار نہیں کرسکتے کہ اب ہر برس ہی 12 ربیع الاول کو اس تقریب کے اجلال و احترام میں سرکاری طور پر ملک بھر میں تعطیل عام ہوتی ہے اور آپ اگر سرکاری ملازم ہیں تو اپنے منہ سے اس کو ہزار بار بدعت کہنے کے باوجود آ پ بھی یہ چھٹی مناتے ہیں اور آئندہ بھی یہ جب تک یہاں چلتی ہے آپ اپنی تمام تر (اہلحدیثیت ) کے باوجود یہ چھٹی مناتے رہیں گے ۔۔۔۔ خواہ کوئی ہزار منہ بنائے دس ہزار بار ناراض ہوکر بگڑے جب تک خدا تعالیٰ کو منظور ہوا یہاں اس تقریب کی کارفرمائی ایک امر واقعہ ہی ہے ۔

حکومت اگر اپنے زیراہتمام تقریب کو سادہ رکھے اور دوسروں کو بھی اس بات کی پرزور تلقین کرے تو اس کااثر یقینا خاطرخواہ ہوگا ۔ انشاءاللہ ۔ اس تقریب کے ضمن میں جتنے بھی جلوس نکلتے ہیں اگر ان کو حکومت کے اہتمام سے خاص کردیا جائے تو یہ کام ہرگز مشکل نہیں ہے ، ہر جگہ کے حکام بآسانی اس کام کو سرانجام دے سکتے ہیں ، اگر ہر شہر میں صرف ایک ہی جلوس نکلے اور اسے ہر ہر جگہ کے سرکاری حکام کنٹرول کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ مفاسد اچھل سکیں اور مصائب رونما ہوں ۔( اہلحدیث 16.1.81...27.3.81. )

جماعت اہلحدیث کے بالعموم اورحافظ عبد القادر روپڑی کے بالخصوص ترجمان ہفت روزہ (تنظیم اہلحدیث ) لاہور نے 17 مئی 1963 ء کی اشاعت میں لکھا ہے کہ مومن کی پانچ عیدیں ہیں ، جس دن گناہ سے محفوظ رہے ، جس دن خاتمہ بالخیر ہو ، جس دن پل سے سلامتی کے ساتھ گزرے ، جس دن جنت میں داخل ہو اور جب پردردگار کے دیدار سے بہر ہ یاب ہو ۔تنظیم اہلحدیث کا یہ بیان حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔(درۃ الناصحین صفحہ 263 ) مقام انصاف ہے کہ جب مومن کی اکھٹی پانچ عیدیں تکمیل دین کے خلاف نہیں تو جن کے صدقہ و وسیلہ سے ایمان قرآن اور خود رحمان ملا ، ان کے یوم میلاد کو عید کہہ دینے سے دین میں کونسا رخنہ پڑجائے گا ؟جبکہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ عید الفطر اور عید الاضحٰی کے مقابلے کے لئے ہے اور نہ ان کی شرعی حیثیت ختم کرنا مقصود ہے ، اہلحدیث مزید لکھا ہے کہ ( اگر عید کے نام پر ہی آپ کا یوم ولادت منانا ہے تو رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی طرف دیکھیں کہ آپ نے یہ دن کیسے منایا تھا ؟ سنئے !
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دن منایا پر اتنی ترمیم کے ساتھ کہ اسے تنہا عید میلاد نہیں رہنے دیا بلکہ عید میلاد اور عید بعث کہہ کر منایا اور منایا بھی روزہ رکھ کر اور سال بہ سال نہیں بلکہ ہر ہفتہ منایا ۔( ہفت روزہ اہلحدیث لاہور 27 مارچ 1981 ئ)

غیر مقلد اہلحدیث نے تو حد کردی کہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عید میلاد منانے ہی کی تصریح نہیں کی بلکہ ایک اور عید یعنی عید بعث منانے کا بھی اضافہ کردیا اور وہ بھی ہفتہ وار۔

ماہنامہ دارلعلوم دیوبند نومبر 1957 ء کی اشاعت میں ایک نعت شریف شائع ہوئی ہے کہ :
یہ آمد ، آمد اس محبوب کی ہے
کہ نور جاں ہے جس کا نام نامی
خوشی ہے عید میلاد النبی کی
یہ اہل شوق کی خوشی انتظامی
کھڑے ہیں باادب صف بستہ قدسی
حضور سرور ذات گرامی

اس تمام تفصیل اور لاجواب و ناقابل تردید تحقیقی و الزامی حوالہ جات سے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے اس نعمت کا چرچا کرنے شکر گزاری و خوشی کرنے محافل میلاد کے انعقاد و جلوس نکالنے کی روز روشن کی طرح تحقیق و تائید ہوگئی اور وہ بھی وہاں وہاں سے جہاں سے پہلے شرک و بدعت کی آوازیں سنائی دیتی تھیں ، ماشا ءاللہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عظمت و قوت عشق سے اپنی حقانیت کا لوہا منوالیا ، مگر ضروری ہے کہ میلاد شریف کے سب پروگرام بھی شریعت کے مطابق ہو ں اور منانے والے بھی شریعت و سنت کی پابندی کریں کیونکہ عشق رسالت کے ساتھ اتباع سنت بھی ضروری ہے

مذکورہ تمام تفصیل و تحقیق کے بعد اب تو کسی بدعت و دت کا خطرہ نہیں ہونا چاہئے ، کیونکہ بدعت و ناجائز تو وہ کام ہوتا ہے جس کی دین میں کوئی اصل نہ ہو مگر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل و بنیاد اور مرجع و مآخذ قرآن و حدیث ، صحابہ کرام ، جمہور اہل علم ، محدثین ، مفسرین بلکہ اجماع امت اور خود منکرین میلاد کے اقوال سے ثابت کرچکے ہیں ، لہذا اب تو اس کو بدعت تصور کرنا بھی بدعت و ناجائز اور محرومی و بے نصیبی کا باعث ہے ۔

ہمارا سوال ؟ : اگر اب بھی کوئی میلاد شریف کا قائل نہ ہو ، تو پھر اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ سیرت کانفرنس ، سیرت کے اجلاس ، سالانہ تبلیغی اجتماعات ، اہلحدیث کانفرنسیں اور مدارس کے سالانہ پروگرام وغیرہ منعقد کرے ۔ورنہ وہ وجہ فرق بیان کرے کہ عید میلاد النبی صلی اللہ وسلم کیوں بدعت ہے اور باقی مذکورہ امور کس دلیل سے توحید و سنت کے مطابق ہیں اور ہمارے دلائل اور جلیل القدر محدثین و اکابر کے حوالہ جات کا کیا جواب ہے ؟

تم جو بھی کرو بدعت و ایجاد روا ہے : اور ہم جو کریں محفل میلاد براہے

منکرین میلاد کا کردار

جو بچہ ہو پیدا تو خوشیاں منائیں
مٹھائی بٹے اور لڈو بھی آئیں
مبارک کی ہر سو آئیں صدائیں
مگر
محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا جب یوم میلاد آئے
تو بدعت کے فتوے انہیں یاد آئے

صد سالہ جشن دیوبند کا بیان

شاعر مشرق مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے شہرہءآفاق کلام و اشعار میں : زد یوبند حسین احمد ایں چہ بو العجی است
فرماکردیوبند و صدر دیوبند کی مشرک دوستی و کانگرس نوازی اور متحدہ قومیت سے ہمنوئی کو بہت عرصہ پہلے جس بوالعجی سے تعبیر فرمایا تھا، بمصداق تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ سے تعبیر فرمایا تھا ، اس بو العجی کی صدائے بازگشت اس وقت بھی سنی گئی ، جب صد سالہ جشن دیوبند میں مسز اندرا گاندھی وزیر اعظم بھارت کو شمع محفل دیکھ کر خود دیوبندی مکتب فکر کے نامور عالم و لیڈر مولوی احتشام الحق تھانوی (کراچی) کو بھی یہ کہنا پڑا کہ : بہ دیوبند مسز گاندھی ایں چہ بوالعجی است

تفصیل : اس اجمال کی یہ ہے : کہ شان رسالت و جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت کے مرکز اور کانگرس کی حمایت و مسلم لیگ و پاکستان کی مخالفت کے گڑھ دارالعلوم دیوبند کا ۲۱، ۲۲، ۲۳۔ مارچ1980ء کو صد سالہ جشن منایا گیا اور اس موقع پر اندداگاندھی کی کانگریسی حکومت نے جشن دیوبند کا کامیاب بنانے کے لئے ریڈیو۔ ٹی وی۔ اخبارات۔ ریلوے وغیرہ تمام متعلقہ ذرائع سے ہر ممکن تعاون کیا۔ بھارتی محکمہ ڈاک و تارنے اس موقع پر 30 پیسے کا ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا: جس پر مدرسہ دیوبند کی تصویر شائع کی گئی۔ یہی نہیں بلکہ اندرادیوبندی نے٬بنفس نفیس٬ جشن دیوبند کی تقریبات کا افتتاح کیا۔ اپنے دیدار و آواز و نسوانی اداﺅں سے دیوبندی ماحول کو مسحور کیا: اور دیوبند کے اسٹیج پر تالیوں کی گونج میں اپنے خطاب سے جشن دیوبند کو مستفیض فرمایا: بانیءدیوبند کے نواسے اور مدرسہ دیوبند کے بزرگ ٬مہتمم قاری محمد طیب صاحب نے اندرادیوی کو ٬عزت مآب وزیراعظم ہندوستان٬ کہہ کر خیر مقدم کیا اور اسے بڑی بڑی ہستیوں میں شمار کیا: اور اندرادیوی نے اپنے خطاب میں بالخصوص کہا کہ٬ ہماری آزادی اور قومی تحریکات سے دارالعلوم دیوبند کی وابستگی اٹوٹ رہی ہے٬: علاوہ ازیں جشن دیوبند کے اسٹیج سے پنڈت نہروکی رہنمائی و متحدہ قومیت کے سلسلہ میں بھی دیوبند کے کردار کو اہتمام سے بیان کیا گیا : بھارت کے پہلے صدر راجند پرشاد کے حوالہ سے دیوبند کو ٬آزادی (ہند) کا ایک مضبوط ستون قرار دیا گیا۔ (ماہنامہ ٬رضائے مصطفٰے٬ گوجرانوالہ جمادی الاخریٰ 1400ھ مطابق اپریل 1980 ء۔)یادگار اخباری دستاویز :۔
نئی دہلی 21۔ مارچ (ریڈیو رپورٹ) اے آئی آر) دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات شروع ہو گئیں بھارت کی وزیر اعظم مسزاندراگاندھی نے تقریبات کا افتتاح کیا۔(روزنامہ مشرق۔ نوائے وقت لاہور ۲۲، ۳۲۔ مارچ 1980ء) تقریر :۔
مسز اندراگاندھی نے کہا دارالعلوم دیوبند نے ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان روداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اس نے دیگر اداروں کے ساتھ مل جل کر آزادی کی جدوجہد کوآگے بڑھایا۔ انھوں نے دارالعلوم کا موازنہ اپنی پارٹی کانگریس سے کیا (روزنامہ جنگ راولپنڈی ۳۲مارچ) تصویر :۔
روزنامہ جنگ کراچی ۳اپریل کی ایک تصویر میں مولویوں کے جھرمٹ میں ایک ننگے منہ ننگے سر برہنہ بازو۔ عورت کو تقریر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اور تصویر کے نیچے لکھا ہے۔ ٬مسز اندراگاندھی دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر تقریر کر ہی ہیں۔٬:
روزنامہ ٬نوائے وقت٬ لاہور۔۹۔اپریل کی تصویر میں ایک مولوی کو اندراگاندھی کے ساتھ دکھایا گیا ہے اور تصویر کے نیچے لکھا ہے۔٬مولانا راحت گل مسزاندراگاندھی سے ملاقات کرنے کے بعد واپس آ رہے ہیں۔دیگر شرکاء :۔
جشن دیوبند میں مسزاندراگاندھی کے علاوہ مسٹر راج نرائن، جگ جیون رام، مسٹر بھوگنا نے بھی شرکت کی۔(جنگ کراچی۱۱۔اپریل) سنجے گاندھی کی دعوت :۔
اندراگاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی نے کھانے کا وسیع انتظام کر رکھا تھا۔ سنجے گاندھی نے تقریبا پچاس ہزار افراد کو تین دن کھانا دیا۔ جو پلاسٹک کے لفافوں میں بند ہوتا تھا۔ بھارتی حکومت کے علاوہ وہاں کے غیر مسلم باشندوں ہندوﺅں اور سکھوں نے بھی دارالعلوم کے ساتھ تعاون کیا۔ (روزنامہ امروز لاہور ۹۔اپریلہندوﺅں کا شوق میزبانی

کئی مندوبین (دیوبندی علماء) کو ہندو اصرار کرکے اپنے گھر لے گئے جہاں وہ چار دن ٹھہرے۔ (روزنامہ امروز لاہور27۔ مارچ 1980ء) حکومتی دلچسپی :۔
اندراگاندھی اور سنجے گاندھی وغیرہ کی ذاتی دلچسپی کے علاوہ اندرا حکومت نے بھی جشن دیوبند کے سلسلہ میں خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ اور اس جشن کے خاص انتظام و اہتمام کے لئے ملک و حکومت کی پوری مشیزی حرکت میں آ گئی اور بڑے بڑے سرکار حکام نے بہت پہلے سے اس کو ہر اعتبار سے کامیاب بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے اپنےآرام و سکون کو قربان کر دیا۔ اور شب و روز اسی میں لگے رہے ریلوے، ڈاک، پریس، ٹی وی، ریڈیو اور پولیس کے حفاظتی عملہ نے منتظمین جشن کے ساتھ جس فراخدلی سے اشتراک و تعاون کیا ہے۔اس صدی میں کسی مذہبی جشن کے لئے ا سکی مثال دور دور تک نظر نہیں آتی۔(ماہنامہ فیض رسول براﺅن بھارت۔مارچ 1980ء) ڈیڑھ کروڑ ۔

جشن دیوبند کے مندوبین نے واپسی پر بتایا کہ جشن دیوبند کی تقریبات پر بھارتی حکومت نے ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کئے اور ساٹھ لاکھ روپے دارالعلوم نے اس مقصد کے لئے اکٹھے کئے۔ (روزنامہ امروز لاہور 27مارچ 1980ء) ۔ لاکھ:۔
مرکزی حکومت نے قصبہ دیوبند ک نوک پلک درست کرنے کے لئے، 30 لاکھ روپیہ کی گرانٹ الگ مہیا کی۔ روٹری کلب نے ہسپتال کی صورت میں اپنی خدمات پیش کیں۔ جس میں دن رات ڈاکٹروں کا انتظام تھا۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی ۲۔اپریل 1980ء) ۔ لاکھ:۔
مرکزی حکومت نے قصبہ دیوبند ک نوک پلک درست کرنے کے لئے، 30 لاکھ روپیہ کی گرانٹ الگ مہیا کی۔ روٹری کلب نے ہسپتال کی صورت میں اپنی خدمات پیش کیں۔ جس میں دن رات ڈاکٹروں کا انتظام تھا۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی ۲۔اپریل 1980ء) اندرا سے استمداد :
مفتی محمودنے اسٹیج پر مسز اندراگاندھی سے ملاقات کی اور ان سے دہلی جانے اور ویزے جاری کرنے کے لئے کہا۔ اس پر اندراگاندھی نے ہدایت جاری کی کہ اسے ویزے جاری کردئیے جائیں۔ چنانچہ بھارتی حکومت نے دیوبند میں ویزا آفس کھول دیا۔ (روزنامہ نوائے وقت لاہور 26مارچ1980ء) دیوبند کے تبرکات:
زائرین دیوبند و جشن دیوبند میں شرکت کے علاوہ واپسی پر وہاں سے بےشمار تحفے تحائف بھی ہمراہ لائے ہیں ان میں کھیلوں کا سامان ہاکیاں طور کرکٹ گیندوں کے علاوہ سیب، گنے، ناریل، کیلا، انناس، کپڑے، جوتے، چوڑیاں، چھتریاں اور دوسرا سینکڑوں قسم کا سامان شامل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ چند ایک زائرین اپنے ہمراہ لکڑی کی بڑی بڑی پارٹیشنین بھی لاہور لائے ہیں۔ (روزنامہ مشرق۔ نوائے وقت 26 مارچ 1980ء)

احتشام الحق تھانوی:کراچی ۲۲۔مارچ مولونا احتشام الحق تھانوی نے کہا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا صدسالہ اجلاس جو مذہبی پیشوا اور علماءو مشائخ کا خالص مذہنی اور عالمی اجتماع ہے اس کا افتتاح ایک (غیر مسلم اور غیر محرم خاتون) کے ہاتھ سے کراکرنہ صرف مسلمانوں کی مذہبی رویاات کے خلاف ہے بلکہ ان برگزیدہ مذہنی شخصیتوں کے تقدس کے منافی بھی ہے جو اپنے اپنے حلقے اور علاقوں سے اسلام کی اتھارٹی اور ترجمان ہونے کی حقیقت سے اجتماع میں شریک ہوئے ہیں۔ ایشیاکی دینی درسگاہ کے اس خالص مذہبی صد سالہ اجلاس کو ملکی سیاست کے لئے استعمال کرنا ارباب دارالعلوم کی جانب سے مقدس مذہبی شخصیتوں کا بدترین استحصال اور اسلاف کے نام پر بدترین قسم کی استخوان فروشی ہے ہم ارباب دارالعلوم کے اس غیر شرعی اقدام پر اپنے دلی رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ اس شرمناک حرکت کی ذمہ داری دارالعلوم دیوبند کے مہتمم پر ہے۔ جنہوں نے دارالعلوم کی صد سالہ روشن تاریخ کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا ہے۔ (روزنامہ امن کراچی 24۔ مارچ 1980ء) وقار انبالوی :مولانا احتشام الحق صاحب کا یہ کہنا :(بہ دیوبند مسز اندرا ایں چہ بوالعجبی است)کی وضاحت ہی کیا ہو سکتی ہے۔ یہ تو اب تاریخ دیوبند کا ایک ایسا موڑ بن گیا ہے کہ مﺅرخ ا سے کسی طرح نظر انداز کر ہی نہیں سکتا۔ اس کے دامن سے یہ داغ شاید ہی مٹ سکے۔ وقتی مصلحتوں نے علمی غیرت اور حمیت فقر کو گہنا دیا تھا۔ اس فقیر کو یا د ہے کہ متحدہ و قومیت کی تارنگ میں ایک مرتبہ بعض علماءسوامی سردہانند کو جامع مسجد دہلی کے منبر پر بٹھانے کا ارتکاب بھی کر چکے ہیں لیکن دو برس بعد اسی سردہانند نے مسلمانوں کو شدھی کرنے یا بھارت سے نکالنے کا نعرہ بھی لگایا تھا۔ (سرراہے نوائے وقت ۲۹۔ مارچ 1980ء)
جشن دیوبند پر قہرخداوندی :دارلعلوم دیوبند کے اجلاس صد سالہ کے بعد سے (جس میں کچھ باتیں ایسی بھی ہوئیں جو یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نظر عنایت سے محروم کرنے والی تھیں) ایک خانہ جنگی شروع ہوئی جو برابر جاری ہے اوراس عاجز کے نزدیک وہ خداوندی قہرو عذاب ہے۔ راقم سبطور ساٹھ سال پرانی سے اخبار اور رسائل کا مطالعہ کرتا رہا ہے ان میں وہ رسالے اور اخبارات بھی ہوتے ہیں جن میں سیاسی یا مذہبی مخالفین کے خلاف لکھا جاتا تھا اور خوب خبر لی جاتی تھی ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ لیکن مجھے یاد نہیں کہ ان میں سے کسی کے اختلافی مضامین میں شرافت کو اتنا پامال اور رزالت و سفالت کا ایسا استعمال کیا گیا ہو جیسا کہ ہمارے دارالعلوم دیوبند سے نسبت رکھنے والے ان مجاہدین قلم نے کیا ہے۔ پھر ہماری انتہائی بدقسمتی کہ ان میں وہ حضرات بھی ہیں جو دارالعلوم کے سند یافتہ فضلاءبتلائے جاتے ہیں۔ (ماہنامہ الفرقان لکھنوءفروری 1981ءالاعتصام لاہور 20۔مارچ) سیارہ ڈائجسٹ :
اناری اسٹیشن پر ٹکٹیں خریدی گئیں تو پتہ چلا کہ حکومت بھارت نے (جشن دیوبند کے) شرکاءکو یکطرفہ کرایہ میں دو طرفہ سفر کی رعایت دی ہے۔ بعض لوگ کفار کی طرف سے اس رعایت یا مدد کو مسترد کرنے پر اصرار کر رہے تھے۔ مگر جب انہیں بتایا گیا کہ اسی کافر حکومت نے جشن دیوبند کی تقریبات کے انتظامات پر ایک کروڑسے زائد رقم لگائی ہے اور گیسٹ ہاﺅس بھی بنوا دیا ہے۔ تو یہ اصحاب ندامت سے بغلیں جھانکنے لگے۔ دیوبند میں اندراگاندھی، جگ جیون رام، چرن سنگھ، جیسی معروف شخصیتیں آئی ہوئی تھیں۔ اور دیوبند تقریبات پر حکومت نے ایک کروڑ 20۔لاکھ روپے صرف کئے اور ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچائیں۔ دیوبند کی افتتاحی تقریب میں جب اندراگاندھی نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کو ہندوستانی قومیت کے تصور ہم آہنگ کرکے مسلم قومیت کے تصور کی بیخ کنی کی تو وہاں موجود چوٹی کے علماءکو السام کے اس عظیم اور بنیادی فلسفہ کی تشریح اور تصحیح کی جراءت نہ ہوئی۔ حکیم الامت (اقبال) نے کانگریس کے علماءکی اسی ذہنی کیفیت کو بھانپ کر فرمایا تھا:
عجم ہنوز نہ داند رموز دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی است
تلاوت و ترانہ کے بعد اسٹیج پر کچھ غیر معمولی حرکات کا احساس ہوا۔ اس لئے کہ شریمتی اندراگاندھی افتتاح اجلاس میں آرہی ہیں۔ اسٹیج پر موجودہ تمام عرب و فوددو رویہ ہو کر کھڑے ہو گئے۔ اندراگاندھی ان سب کے خوش آمدید کا مسکراہٹ سے جواب دیتے ہوئے آئیں۔ انہیں مہمان خصوصی کی کرسی پر جو صاحب صدر اور قاری محمد طیب کی کرسیوں کے درمیان تھی بٹھایا گیا (جبکہ دیگر بڑے بڑے علماءبغیر کرسی کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ شریمتی کو دیکھنے کے لئے زبردست ہلچل مچی تمام حاضرین اور خصوصا پاکستانی شرکاءشریمتی کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھے۔ شریمتی ایک مرصع اور سنہری کرسی پر لاکھوں لوگوں کے سامنے جلوہ گر تھیں۔ شریمتی نے سنہری رنگ کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی اور ان کے ہاتھ میں ہلکے رنگ کا ایک بڑا سا پرس تھا۔ قاری محمد طیب صاحب کے خطبہءاستقبالیہ کے دوران مصر کے وزیر ادقاف عبداللہ سعود نے شریمتی اندراگاندھی سے ہاتھ ملایا۔ نیز شریمتی ارو مفتی محمود صاحب تھوڑی دیر اسٹیج پر کھڑے کھڑے باتیں کرتے رہے۔ (بعض شرکاء دیوبند کا کہنا ہے کہ اندراگاندھی بن بلائی آئی تھی) اگر یہ درست مان لیا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے مہمان خصوصی کی کرسی پر کیوں بٹھایا گیا تقریر کیوں کرائی گئی ؟ چرن سنگھ اور جگ جیون رام وغیرہ نے ایک مذہبی سٹیج پر کیوں تقاریر کیں؟ کیا یہ سب کچھ دارالعلوم دیوبند کے منتظمین کی خواہش کے خلاف ہوتا رہا ؟ دراصل ایک جھوٹ چھپانے کے لئے انسان کو سو اور جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ کاش! خدا علماءکو سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
ایک پاکستانی ہفت روزہ میں مولانا عبدالقادر آزاد نے غلط اعداد و شمار بیان کئے ہیں۔ یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے ان کے مطابق دس ہزار علماءکا وفد پاکستان سے گیا تھا۔ حالانکہ علماءو طلبہ ملا کر صرف ساڑھے آٹھ سو افراد ایک خصوصی ٹرین کے ذریعے دیوبند گئے تھے۔ اجتماع کی تعداد مولانا نے کم از کم ایک کروڑ بتائی ہے۔ حالانکہ خود منتظمین جلسہ کے بقول پنڈال تین لاکھ آدمیوں کی گنجائش کے لئے بنایا گیا تھا۔ کاش! ہم لوگ حقیقت پسند بن جائیں۔ اعداد و شمار کو بڑھا بڑھا کر بیان کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ عرب و فود کیلئے طعام و قیام کا عالیشان انتظام تھا۔ ڈائینگ ہال اور اس طعام کا ٹھیکہ دہلی کے انٹر کانٹی نینسٹل ہوٹل کا تھا۔ عربوں کے لئے اس خصوصی انتظام نے مساوات اسلامی سادگی اور علماءربانی کے تقدس کے تصور کی دھجیاں اڑا دیں۔ ایسا لگتا تھا کہ کل انتظام کا ۵۷ فیصد طوجھ عرب و فود کی دیکھ بھال اور اہتمام کی وجہ سے تھا۔ (ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ لاہور جون 1980آنکھوں دیکھا حال) سیدہ اندرا گاندھی :روزنامہ اخبار الاعالم الاسلامی سعودی عرب نے لکھا کہ سعودی حکومت نے دارالعلوم دیوبند کو دس لاکھ روپے وظیفہ دیا۔ جبکہ سیدہ اندرا گاندھی نے جشن دیوبند کے افتتاحی اجلاس میں خطاب کیا۔ (14۔جمادی الاولیٰ 1400ھغلام خان درمدح مشرک :
روزنامہ جنگ راولپنڈی۔ یکم اپریل 1980ءکی اشاعت میں ایک باتصویر اخباری کانفرنس میں مولوی غلام خاں کا بیان شائع ہوا کہ جشن دیوبند کو کامیاب بنانے کے لئے بھارت کی حکومت نے بڑا تعاون کیا ہے۔ سوا کروڑ روپے خرچ کرکے اندراحکومت نے اس مقصد کےلئے سڑکیں بنوائیں، نیا اسٹیشن بنوایا ہم سے نصف کرایہ لیا اور دیوبند کی تصویر والی ٹکٹ جاری کی۔ وزیراعظم اندراگاندھی نے بھارت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کر دیا ہے وہاں باہر سے کوئی چیز نہیں منگواتے اس کے مقابلے میں پاکستان اب بھی گندم تک باہر سے منگوا رہا ہے۔ پاکستان میں باہمی اختلافات اور نوکر شاہی نے ملک کو ترقی کی بجائے نقصان کی طرف گامزن کر رکھا ہے۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی)
یاد رہے :کہ مولوی غلام خاں کا یہ آخری اخباری بیان تھا۔ جس میں اس موحد نے عید میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی طرح صد سالہ جشن دیوبند کو بدعت قرار دینے اور دیگر تکلفات و فضول خرچی بالخصوص ایک دشمن السام و پاکستان بے پردہ و غیرمحرم کافرہ مشرکہ کی شمولیت کی پر زور مذمت کرنے کی بجائے الٹا جشن دیوبند کی کامیابی و اندراگاندھی کی کامیابی و احسانات کے ذکر و بیان کے لئے باقاعدہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اور اندراحکومت کی توصیف اور اس کے بالمقابل پاکستان کی تنقیص کی گئی اور ساری عمر غیراللہ کی امداد استمداد کا انکار کرنے والوں نے اندراحکومت کے بڑے تعاون کو بڑے اہتمام سے بیان کیا۔ اور ساری عمر یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پکارنے والے صحیح العقیدہ سنی مسلمانوں کو خواہ مخواہ مشرک وبدعتی قرار دے کر مخالف کرنے والے آخر عمر میں کافرہ مشرکہ کی مدح کرنے لگے۔ جس پر قدرت خداوندی کے تحت آخری انجام بھی عجیب و غریب اور عبرتناک ہوا۔
ادری محمد طیب :مہتمم دارالعلوم دیوبند بھی دیوبند سے بیدخلی کے باعث اسی کشمکش میں دنیا سے چل بسے جو جشن دیوبند کی نحوست و شامت کے باعث خانہ جنگی کی صورت میں پیدا ہوئی۔ حتیٰ کہ آخری وقت ان کا جنازہ بھی دارالعلوم میں سے نہ گزرنے دیا گیا۔ (روزنامہ جنگ 21۔ اگست 1983ء)
اگر درخانہ کس است یک حرف بس است
اندراگاندھی کا مرثیہ :بھارتی وزیراعظم آنجہانی مسز اندراگاندھی کے قتل پر جس طرح پاکستان میں موجود سابق قوم پرست علماءاور کانگریس کے سیاسی ذہن و فکر کے ترجمان وارثان منبرہ محراب نے تعزیت کی ہے وہ کوئی قابل فخر اور دینی حلقوں کیلئے عزت کا باعث نہیں ہے۔ قومی اخبارات میں خبر شائع ہوئی ہے کہ نظام العلماءپاکستان کے نامور رہنماﺅں مولانا محمد شریف و ٹو مولانا زاہدالراشدی اور مولانا بشیر احمد شاد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ: اندراگاندھی نے اپنے اقتدار میں جمعیت علماءہند اور دارالعلوم دیوبند کی قومی خدمات کا ہمیشہ اعتراف کیا اور ہر طرح کی معاونت اور حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔ نیزا ن رہنماﺅں نے یہ بھی کہا کہ اندرا نے جشن دیوبند میں اکابر دیوبند سے اپنے خاندانی تعلقات کا برملا اظہار کیا یہ پڑھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ سیکولرازم کے علمبراداران سابق کانگرسی علماءکو ابھی تک اندرا کے خاندانی تعلق پر کس قدر فخر ہے۔ کس قدر ستم کی بات ہے کہ ان مٹھی بھر لوگوں نے ابھی تک اپنے دل میں پاکستان کی محبت کی بجائے اندارگاندھی سے تعلق کو سجا رکھا ہے۔ اس لئے پاکستان کی تلخیاں اپنے دل سے نہیں نکال سکے۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ مولاناشبیر احمد عثمانی کو ان کے اپنے قول کے مطابق جس طرح فرزندان دیوبند کو اکثریت غلیظ گالیوں سے نوازتی تھی وہ فکر آج تک ان لوگوں کے سینوں میں عداوتِ پاکستان کا ایک تنا ور درخت بن چکی ہے ، ورنہ اس وقت پنڈت موتی لال نہرو ، پنڈت جواہر لال نہرو کا جناب سید احمد بریلوی اور جناب اسماعیل دہلوی سے فکری تعلق جوڑنے کی کیا ضرورت تھی ، دیوبند کے ان رہنماﺅ ں نے یہ بیان دے کر آج بھی دو قومی نظریے کی نفی کی ہے ۔ تحریک پاکستان میں ہندوﺅں کے ساتھ کانگریسی خیال کے علماءکے کردار کو نمایاں کرنا ہمارے لئے باعث ِ شرم ہے ۔ ( روزنامہ آفتاب لاہور 3 نومبر 1984 ء) دیوبند بریلی کی راہ پر :۔
ماہ جمادی الاخر 1409 ھ میں اہلسنت کی دیکھا دیکھی علمائے دیوبند نے بھی دھوم دھام سے نہ صرف یوم صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ منایا بلکہ عین یوم وصال 22 جمادی الاخر کو مختلف مقامات پر جلوس نکالا اور سرکاری طور پر نہ صرف یوم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بلکہ ایام خلفائے راشدین منانے اور یوم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر تعطیل کرنے کا مطالبہ کیا ۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ۔اخبار جنگ لاہور ۔ یکم فروری ۔ نوائے وقت 2.3 فروری مشرق لاہور 30 جنوری 1989 ء ) نیز ایک دیوبندی انجمن سیالکوٹ کی طرف سے 22 رجب کو یوم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی سرکاری طور پر منانے اور اس دن تعطیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔( نوائے وقت 13 فروری 1989 ء) انجمن سپاہ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم بنام سپاہ صحابہ :۔

رحیم یار خان اور صادق آباد میں بھی دیوبندی سپاہ صحابہ کے زیر اہتمام یوم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر بڑے اہتمام سے جلوس نکالا گیا چنانچہ انجمن سپاہ مصطفٰی رحیم یار خان نے دیوبندی علماءسے جواب طلبی کی کہ بتاﺅ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوس ناجائز کیوں ؟ اور وصال صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا جلوس جائز کیوں ؟ اس پر انجمن سپاہ صحابہ کے دیوبندی علماءپر سناٹا چھاگیا۔ البتہ مولوی محمد یوسف دیوبندی نے ذرا ہمت کی اور انجمن سپاہ صحابہ کے مولوی حق نواز جھنگوی وغیرہ پر بدیں الفاظ فتویٰ عائد کیا کہ لوگوں نے ایک نئے انداز سے صحابہ کرام کے دن منانے شروع کردیئے ہیں کو کہ صریح بدعت اور شرعا ناپسندیدہ فعل ہے نہ ہی شریعت مقدسہ میں اس قسم کے جلوسوں کی اجازت ہے اور نہ ہی علماءدیوبند کا ان جلوسوں سے کوئی تعلق ہے ، اللہ تعالیٰ ان (حق نواز دیوبندی وغیرہ ) کو ہدایت دے کہ بدعات کے اختراع کی بجائے سنتوں کو زندہ کریں ۔( مولوی محمد یوسف دارالعلوم عثمانیہ ) چک نمبر پی 88 رحیم یار خان بتاریخ 24 جمادی الاخر 1409 ھ
بمصداق مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیر ی
مولوی محمد یوسف دیوبندی کے فتویٰ سے ثابت ہوگیا کہ دیوبندی وہابی مکتب فکر کی انجمن سپاہ صحابہ اور بالخصوص اس انجمن کے لیڈر مولوی حق نواز جھنگوی اور ان کے رفقاءگمراہ و بدعتی ہیں جنہوں نے صریح بدعت و شرعا ناپسندیدہ فعل اوربدعات کے اختراع کا ارتکاب کیا ہے ، بلکہ مولوی یوسف دیوبندی کے علاوہ باقی تمام علماءدیوبند۔ مولوی سرفراز گکھڑی، عنایت اللہ بخاری اور ضیاءالقاسمیٰ دیوبندی وغیرہ ہم بھی مولوی حق نواز دیوبندی کے شریک جرم ہیں۔ جنہوں نے سپاہ صحابہ کے بدعات کے مظاہرہ پر اپنی خاموشی سے کم از کم نیم رضا مندی کا ثبوت دیا۔ مذکورہ تمام ناقابل تردید حقائق و شواہد اور حوالہ جات سے فرزندان نجدودیوبند غیر مقلدین و دیوبندی علماءکا دور خامنافقانہ کردار واضح ہو گیا۔ کہ ان لوگوں کو محض شان رسالت و ولایت سے عداوت کے باعث میلادشریف اور عرس و گیارہویں شریف سے عنا دہے اور خود ساختہ جشن دیوبند و بدعات اہلحدیث سے انہیں کوئی تکلیف نہیں۔
نوٹ: یوم صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح یک محرم 1421ھ کو دیوبندی انجمن سپاہ صحابہ نے ملک بھر میں یوم فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی منایا اور جلوس بھی نکالا۔
تم جو بھی کرو بدعت ایجاد روا ہے
اور ہم جو کریں محفل میلاد برا ہے
یہ جو بھی کریں بدعت ایجاد روا ہے
اور ہم جو کریں محفل میلاد برا ہے
آخر میلاد ہی سے بغض کیوں ؟ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...