Wednesday 22 November 2017

حصّہ اوّل : بانی دیوبند کی کتاب تحذیر النّاس اور ختم نبوت کے معنیٰ اور فتویٰ کفر

0 comments









حصّہ اوّل : بانی دیوبند کی کتاب تحذیر النّاس اور ختم نبوت کے معنیٰ اور فتویٰ کفر

تحذیرالناس بانی دارالعلوم دیوبند جناب قاسم نانوتوی کی کتاب ہے ، ان کی اس کتاب کا تعارف کروانا نہایت ضروری اس لئے بھی ہے کہ اس کتاب میں خاتم النبیین کے ایک نیا اور بالکل الگ تھلگ معنی پیش کیا گیا جس کا پوری تاریخ اسلام میں کہیں وجود ہی نہیں ملتا، اس کتاب کی وجہ سے کافی فتنہ بڑھا اور یہاں تک کہ اسی کتاب کے معانی کی آڑ میں قادیان سے مرزا غلام احمد قادیانی نے دعوی نبوت کردیا۔
آخر اس کتاب میں ہے کیا جس کی وجہ سے علمائے عرب و عجم نے فتویٰ کفر دیا
اول تو میں قارئین کی معلومات کے لئے تحذیر الناس کی دو جھلکیاں پیش کر دوں آغاز کتاب میں ہی یہ لکھا ہے : سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیا سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے ۔ اس کے بعد صفحہ نمبر ۲۵ پر لکھتے ہیں : اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔
یہ تحذیرالناس کی وہ عبارات ہیں جن کے رد میں برصغیر کے علماء نے بکثرت کتب تحریر فرمائیں ان عبارات پر علماء عرب و عجم نے حکم صادر فرمایا ۔ جس کی تفصیل حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
آئیے اس کتاب اور اس کے مصنف کا حال قاسم نانوتوی کے مکتب فکر ہی کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی سے ملاحظہ فرمائیں : چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ جس وقت سے مولانا قاسم نانوتوی نے تحذیرالناس لکھی ہے کسی نے ہندوستان بھر میں مولانا کے ساتھ موافقت نہیں کی بجز مولانا عبدالحئی صاحب کے بحوالہ الاضافات الیومیہ جلد چہارم ص ۵۸۰ زیر ملفوظ ۹۲۷)
یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ مولانا عبدالحئی لکھنوی بھی کتاب ابطال اغلاط قاسمیہ کی اشاعت کے بعد اس مسئلہ میں قاسم نانوتوی کے موافق نہ رہے اور تکفیر کے قائل ہو گئے۔ حوالہ کے لئے قاسم نانوتوی ہی کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر خالد محمود کی کتاب مطالعہ بریلویت ج ۳ ص ۳۰۰)
تحذیرالناس کی اشاعت کے بعد قاسم نانوتوی کی حالت کیا تھی آئیے ان ہی کے ایک ہم مکتب کی تحریر کردو کتاب ارواح ثلاثہ کی حکایت نمبر ۲۶۵ کا یہ حصہ ملاحظہ کریں
اب مولانا نانوتوی گارڈ رکھتے چھپ کر رہتے سفر کرتے تو نام تک بتانے کا حوصلہ نہ رکھتے ، خورشید حسین بتاتے یہ کتاب مولانا نانوتوی کے لئے مصیبت بن گئی تھی۔
ایک اور حوالہ قاسم العلوم از نورالحسن راشد کاندھلوی ص ۵۵۰ سے ملاحظہ کریں چنانچہ تحریر ہے کہ : پر خدا جانے ان کو کیا سوجھی جو اس کو چھاپ ڈالا جو یہ باتیں سننا پڑیں۔
اگر تحذیرا لناس کی عبارات کفریہ نہیں تو پھر اس میں تحریف کیوں کی گئی لیجئے بطور نمونہ ایک حوالہ پیش ہے اصل قدیم تحذیرالناس مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند ضلع سہارنپور کے صفحہ نمبر ۲۵ پر اصل عبارت یوں ہے۔
اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔
اب مکتبہ راشد کمپنی دیوبند یو پی کی شائع کردہ کتاب کی عبارت ملاحظہ فرمائیں۔
اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں یا بالفرض آپ کے بعد بھی کوئی نبی فرض کیا جائے تو بھی خاتمیت محمدی میں فرق نہ آئے گا۔
یعنی عبارت میں نبی پیدا ہو کی جگہ نبی فرض کیا جائے کر دیا اس کارستانی سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے ہم فکر علما ء کے نزدیک بھی یہ عبارت کفریہ تھی جبھی تو اس میں تحریف کر دی۔
اب آئیے ایک لرزہ خیز انکشاف کی طرف جو کہ انھی کہ حکیم الامت اشرف علی تھانوی نے کیا ، چنانچہ لکھتے ہیں کہ تحذیرالناس کی وجہ سے جب مولانا پر کفر کے فتوے لگے تو جواب نہیں دیا بلکہ یہ فرمایا کہ کافر سے مسلمان ہونے کا طریقہ بڑوں سے یہ سنا ہے کہ کلمہ پڑھنے سے کوئی مسلمان ہو جاتا ہے تو میں کلمہ پڑھتا ہوں۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ (الاضافات الیومیہ جلد ۴ ص ۲۹۳ زیر ملفوظ ۴۵۷)
احسن نانوتوی جن کا قاسم نانوتوی کے مکتب فکر میں بڑا مقام ہے انھوں نے بھی مفتی نقی علی خان قادری برکاتی کی طرف سے فتوی کفر صادر ہونے کے بعد مفتی نقی علی خان کے ایک ساتھی رحمت حسین کو یہ لکھا جناب مخدوم و مکرم بندہ دام مجدیم پس از سلام مسنون التماس ہے مگر مولوی صاحب نے براہ مسافر نوازی غلطی تو ثابت نہ کی اور نہ مجھ کو اس کی اطلاع دی بلکہ اول ہی کفر کا حکم شائع فرما دیا اور تما م بریلی میں لوگ اس طرح کہتے پھرے ۔ خیر میں نے خدا کے حوالے کیا اگر اس تحریر سے میں عنداللہ کافر ہوں تو توبہ کرتا ہوں خدا تعالیٰ قبول کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاصی محمد احسن ۔( کتاب مولانا محمد احسن نانوتوی ص ۸۸ اور تنبیہ الجہال ص ۱۶)
اب آئیے ذرا ذکر ان حضرات کا بھی ہو جائے جن پر یہ الزام دیا جاتا ہے کہ انھوں نے اس کتاب کی تائید کی تھی چنانچہ ان میں سے اول مولانا عبد الحئی کا ذکر اوپر گزر چکا اب کچھ دیگر حضرات کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں۔
مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے الطاری الداری کی اشاعت کے بعد اپنے سابقہ موقف سے توبہ کی اور امام احمد رضا کے فتوائے تکفیر سے اتفاق کر لیا ۔ بحوالہ اخبار ہمدم لکھنو ۲۰ مئی ۱۹۲۱)
مولانا معین الدین اجمیری نے ۱۹۱۹ میں مفتی حامد رضا خان سے خط و کتابت میں فتویٰ کفر کی حمایت کی بحوالہ کتاب محدث اعظم ج ۱ ص ۱۱۱)
اسی طرح پیر کرم شاہ صاحب نے غلط فہمی کا شکار ہو کر کتاب کی تعریف اولاً کردی بعد میں ماہنامہ ضیائے حرم شمارہ اکتوبر ۱۹۸۶ کے ص ۴۹ پر ندامت و افسوس کا اظہار کیا اور ص ۴۴ پر نانوتوی کی عبارت کو خاتم النبیین کے اجماعی مفہوم کے مخالف قرار دیا ۔ مزید ۱۹۷۷ میں سورۃ طلاق کی تفسیر کرتے ہوئے اثر ابن عباس کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا بحوالہ تفسیر ضیاء القرآن ص ۳۰۸۲)
پیر کرم شاہ صاحب کے موقف میں آنے والی تبدیلی کی تصدیق ڈاکٹر خالد محمود نے اپنی کتاب مطالعہ بریلویت ج ۱ ص ۴۱۳ پر بھی کی ہے چنانچہ انھوں نے لکھا کہ آخر کار پیر کرم شاہ صاحب نے سابقہ موقف چھوڑ کر دیوبندی حضرات کو تکفیر کا صدمہ پہنچایا ہے۔
حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی کے حوالہ سے بھی یہ مغالطہ پیش کیا جاتا ہے کہ وہ بھی قاسم نانوتوی کی کتاب کے مؤید تھے حالانکہ اس کے حوالے سے آپ کے تکفیری فتویٰ موجود ہیں مزید کتاب دعوت فکر ص ۱۱۰ پر تحریر ہے کہ آپ کو تحذیرالناس پیش کی گئی تو آپ نے قاسم نانوتوی کی تکفیر کر دی۔
بانی دارالعلوم دیوبند مولوی قاسم نانوتوی کی کتاب'' تحذیر الناس''کی مندرجہ ذیل دونوں عبارتوں کے متعلق بالفرض کے لفظ کے ساتھ جو بات کہی گئی ہے اس پر اعتراض کیوں کر درست ہے؟۔ جب کہ محض کسی چیز کے فرض کر لینے پر حکم نہیں ہوتا۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ! لو کان فیھما الھۃ الا اللّٰہ لفسدتا
عبارت تحذیر الناس یہ ہے!
١۔اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔
٢۔اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔''
جواب : یہ عبارت کفر یوں ہے کہ اس عبارت میں اس بات کا انکار ہے کہ خاتم النبیین کے معنی آخر الانبیاء ہیں۔ خاتم النبیین کے معنی آخر الانبیاء ہونا ضروریات دین سے ہے۔ اس پر اجماع امت ہے۔ اور اس عبارت میں اس کا انکار ہے۔ نانوتوی یہ کہتے ہیں کہ! آپ سب سے آخری نبی نہیں اور خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کے نہیں۔ بلکہ خاتم بالذات کے ہیں۔ یعنی نبوت آپ کو بلا واسطہ ملی۔ اس لیے اگر آپ کے زمانے میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ حالانکہ جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ؐ خاتم النبیین بمعنی آخر الانبیاء ہیں تو آپ کے زمانہ میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدی میں فرق آئے گا بلکہ آپ خاتم ہی نہ ہوں گے کہ جب خاتم بمعنی آخر لیا تو دوسرے کا سوال ہی نہیں۔
اس کو اور آسان الفاظ میں یوں سمجھیے ۔ ایمان یہ ہے کہ حضور ؐ خاتم النبیین ہیں اس معنی میں آپ کے زمانے میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو یہ خاتمیت محمدی کے منافی ہے۔ اگر منافی نہ ہوتا تو کفر نہ ہوتا۔تو جو بات کفر ہے اسکو قرآن کے معنی بتا دیا ہے۔ اس لیے یہ کلمہ کفر ہوا۔اگر مطلقاً یہ شرط وجزا ایمان ہے تو اس معترض سے پوچھیے اگر کوئی اس سے سیکھ کے یہ کہے۔
''اگر بالفرض زمین و آسمان میں چند خدا ہیں تو بھی اللہ عزوجل کی توحید میں کوئی فرق نہیں آئے گا''۔یہ کلمہ کفر ہے یا ایمان ؟
اگر ایمان بتائے تو دیوبند بھیج کر اس کا دماغ درست کیجیے اور اگر کفر مانے تو اس سے پوچھیے یہاں بھی اگر ہے یہاں بھی بالفرض ہے۔ یہ کیوں کر کفر ہوا اور تحذیر الناس میں ''اگر ''اور ''بالفرض''ہونے کی وجہ سے وہ کیسے دیوبندیوں کا ایمان ہوا؟۔
معترض نے تحذیر الناس کی عبارت آیۃ کریمہ:لوکان فیھما الھۃ الا اللّٰہ لفسدتا۔کے مثل مان کر تحذیر الناس کی عبارت کے کفر کو قبول کیا۔اس لیے کہ حسب قاعدہ نحو ''لو'' اپنے مدخول کے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت بنا دیتا ہے۔اسی وجہ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان میں نہ چند معبود ہیں اور نہ زمین و آسمان میں فساد۔اب اس قاعدے کی روح سے تحذیر الناس کی عبارت کا مطلب یہ ہوا۔کہ آپ کے زمانے میں کہیں کوئی نبی نہیں اور آپ کی خاتمیت باقی نہیں۔آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور خاتمیت محمدی میں فرق آگیا۔حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم ؐ کی خاتمیت کا باقی رہنا اور اس میں فرق ماننا کفر ہے۔
بات اصل یہ ہے کہ قاتل ایک قتل چھپانے کے لیے دس قتل کرتا ہے،چور پکڑے جانے کے اندیشے سے قتل کر ڈالتا ہے،ایک کفر پر پردہ ڈالنے کی ہر کوشش دوسرے کفر کی جانب کھینچ کر لے جاتی ہے۔ تحقیق یہ ہے کہ صدق شرطیہ کے لیے صدق مقدم و تالی لازم نہیں۔ یہ حق ہے۔ مگر وجود علاقہ لازم ہے۔ اور قضیہ شرطیہ میں علاقے ہی پر مدار حکم ہے۔ یہ کہنا سچ ہے ''انسان اگر گدھا ہوتا تو اس کے دم ہوتی''مگر یہ کہنا غلط ہے کہ'' انسان اگر گدھا ہوتا تو اس کے سینگ ہوتے''۔اس لیے کہ پہلے میں علاقہ درست دوسرے میں نہیں۔ اب اگر کوئی یہ کہے زید بالفرض اگر گدھا ہوتا تو خدا ہوتا کلمہ کفر ہے۔اس لیے کہ یہاں قائل نے جو علاقہ ثابت کیا ہے وہ کفر ہے۔
اسی طرح تحذیر الناس میں ''اگر ''اور''بالفرض'' ہوتے ہوئے بھی وہ عبارت اس لیے کفر ہے کہ اسمیں جو علاقہ بتایا گیا ہے وہ کفر ہے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے کے بعد نبی ہونے کو خاتمیت محمدی کے منافی نہیں جانا۔ حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا خاتمیت محمدی کے منافی ہے۔ اور یہ اجلی بدیہیات اور ضروریات سے ہے۔ جسے ہر بے پڑھا لکھا سمجھدار مسلمان بھی جانتا ہے۔ کسی مسلمان سے پوچھیے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے بعد کوئی نبی پیدا ہوجائے تو خاتمیت محمدی میں فرق آئے گا کہ نہیں؟تو وہ فوراً کہے گا ضرور فرق آئے گا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ خاتم النبیین کیسے ؟
'' اگر''اور بالفرض ''کی آڑ تو کسی عیار کی ایجاد ہے کہ عوام اس میں الجھ کر شک میں پڑ جائیں۔ ورنہ بات صاف ہے تحذیر الناس کی عبارت سے بالکل واضح ہے کہ اس کا قائل حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں یا آپ کے بعد کسی نبی کے پیدا ہونے کو ممکن مانتا ہے اور یہ کفر ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا بعد میں نبی پیدا ہونا محال شرعی ہے۔ یہ آیۃ کریمہ خاتم النبیین کے منافی ہے اس لیے صریح کفر ہے۔
بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ ان کا ممکن ہونا ماننا بھی کفر ہے جیسے۔اللہ عزوجل کا شریک ممکن ماننا۔ قرآن کے بعد کسی آسمانی کتاب کا نزول ممکن ماننا اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں یا آپ کے بعد کسی نبی کو ممکن ماننا کفر ہے۔اور تحذیر الناس کی عبارت کا یہی صریح مطلب ہے۔اس لیے یہ عبارت بلا شبہ کفر صریح ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم
اس کالم کو نائب حضور مفتی ء اعظم ہند شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر جو کہ ماہنامہ اشرفیہ ۱۹۹۸ کے صفحہ نمبر ۹ اور ۱۰ پر شائع ہوئی، سے اخذ کیا گیا ہے۔(بقیہ حصّہ دوم میں)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔