Monday, 6 November 2017

حصّہ اوّل : کیا مسلمان شرک کر سکتے ہیں ؟

حصّہ اوّل : کیا مسلمان شرک کر سکتے ہیں ؟

آج کا دور فتنون کا دور ہے اور یہ فتنے کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے ہی شروع ہوگئے تھے امام بخاری علیہ رحمہ نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ وہ خارجیوں کو کائنات کی بدترین مخلوق گردانتے تھے کیونکہ وہ خارجی کفار کہ حق میں وارد شدہ آیات کو پڑھ پڑھ کر مومنین پر چسپاں کیا کرتے تھے ۔

وہ خارجی اپنے زعم میں توحید پرست اوراپنی توحید کو صحابہ کرام کی توحید سے بھی کامل اور اکمل سمجھنے والے تھے اور یوں وہ توحید کہ اصل اور حقیقی ٹھیکدار بنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور ایک طبقہ آج کہ دور کا ہے ، جسکا بھی بعینیہ وہی دعوٰی ہے کہ سوائے انکے کوئی موحد و مومن ہی نہیں لہذا اس طبقہ کواورکوئی کام ہی نہیں سوائے اس کے یہ بھی قرآن اور حدیث کو فقط اس لیے کھنگالتے ہیں کہ کہیں سے انکو امت مسلمہ کہ جمہور پر کفر و شرک کا حکم لگانے کی کوئی سبیل میسر آجائے ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

محترم قارئین کرام کیا آپ نے کبھی ہلکا سا بھی تدبرکیا ہے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا قول پر ؟ کیا ہے تو آپ پر صاف ظاہر ہوجائے گا کہ اس وقت کہ نام نہاد توحید پرست خارجی کس قدر دیدہ دلیر تھے کہ وہ اپنی توحید میں خود کو صحابہ کرام سے بھی بڑھ کرسمجھتے تھے تبھی تو وہ اسلام کے خیر القرون کے دور کےاصحاب اور تابعین مسلمانوں پر شرک کہ فتوے لگاتے تھے قارئین کرام کیا آپ امیجن کرسکتے ہیں کہ اسلام کہ ابتدائی دور میں جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ بہترین جماعت یعنی صحابہ کرام موجود ہوں اور پھر انھی کے شاگرد یعنی تابعین کرام کا طبقہ بھی موجود ہو جو کہ براہ راست صحابہ کرام سے فیض حاصل کررہا ہو اور چند نام نہاد توحید پرستوں کا ٹولہ اٹھے اور توحید کے پرچار کے زعم میں اس پاکیزہ جماعت پرکفر و شرک کے بے جا فتوے لگانا شروع کردے آپ ان کی دیدہ دلیری دیکھیئے ہٹ دھرمی اور جرات کو دیکھیئے اور سر دھنیے انکی توحید پرستی پر۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اب آتے ہیں اصل مدعا پر دیکھا گیا ہے کہ انـٹرنیٹ پر اسی طبقہ کی اکثریت سورہ یوسف کی آیت نمبرایک سو چھ کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہے اور یوں زمانہ خیر القرون کے خارجیوں کی طرح یہ آیت جگہ جگہ نقل کرکے آج کہ دور کے مومنین پر چسپاں کرتے ہوئے انھے کافر و مشرک قرار دینے میں دھڑا دھڑ مصروف عمل ہے لہذا یہ لوگ اس کام کو کچھ اس دلجمعی اور سرعت سے انجام دے رہے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بہت بڑا کار ثواب ہو ۔

تو آئیے محترم قارئین کرام اس آیت سے انکے باطل استدلال کی قلعی کھولیں اور جو مغالطہ دیا جاتا ہے اس کا پردہ چاک کریں لیکن اس سے بھی پہلے ایک بدیہی قاعدہ جان لیں کہ عربی کا مشھور مقولہ ہے کہ {الاشیاء تعرف باضدادھا} یعنی چیزیں اپنی ضدوں سے پہچانی جاتی ہیں اور ایک قاعدہ یہ بھی ہے اجتماع ضدین محال ہے یعنی دو ایسی اشیاء جو کہ ایک دوسرے کی ضد ہوں انکا بیک وقت کسی ایک جگہ پایا جانا ناممکن ہے یعنی ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بھی شخص بیک وقت مومن ومسلم بھی ہو اور مشرک و کافر بھی ۔

کیونکہ اسلام اور کفر ضد ہیں اور توحید اور شرک آپس میں ضد ہیں اور ایک شخص مسلم تب بنتا ہے جبکہ وہ توحید پر ایمان لے آئے یعنی اللہ کی واحدانیت پر لہذا جب کوئی اللہ کی واحدانیت پر ایمان لے آئے تو تبھی وہ حقیقی مومن ہوگا اور وہ ایک حالت یعنی حالت توحید میں ہوگا اب اسے بیک وقت مومن بھی کہنا اور مشرک بھی کہنا چہ معنی دارد؟؟؟ یا تو وہ مسلم ہوگا یا پھر مشرک دونوں میں کسی ایک حالت پر اسکا ایمان ہوگا اور ایمان معاملہ ہے اصلا دل سے ماننے کا اور یقین رکھنے کا اور پھر اسکے بعد اس کا بڑا رکن ہے زبان سے اقرار ۔

خیر یہ تو تمہید تھی بات کو سمجھانے کی اب آتے ہیں سورہ یوسف کی مزکورہ بالا آیت کی طرف ۔

محترم قارئین کرام آپ سورہ یوسف کی اس آیت کی تفسیر میں امہات التفاسیر میں سے کوئی سی بھی تفسیر اٹھا کر دیکھ لیں کہ تقریبا سب مفسرین نے یہ تصریح کی ہے یہ آیت مشرکین مکہ کی بابت نازل ہوئی لہذا ہم بجائے تمام مفسرین کو نقل کرنے کہ فقط اسی ٹولہ کہ ممدوح مفسر یعنی امام حافظ ابن کثیر علیہ رحمہ کی تفسیر نقل کرتے ہیں جو کہ شیخ ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ہیں۔ آپ اپنی تفسیر میں اسی آیت کہ تحت رقم طراز ہیں کہ : وقوله: { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِٱللَّهِ إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ } قال ابن عباس: من إِيمانهم أنهم إِذا قيل لهم: من خلق السموات، ومن خلق الأرض، ومن خلق الجبال؟ قالوا: الله، وهم مشركون به. وكذا قال مجاهد وعطاء وعكرمة والشعبي وقتادة والضحاك وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم، وفي الصحيحين: أن المشركين كانوا يقولون في تلبيتهم: لبيك لا شريك لك، إلا شريكاً هو لك، تملكه وما ملك. وفي صحيح مسلم: أنهم كانوا إِذا قالوا: لبيك لا شريك لك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قد قد " أي: حسب حسب، لا تزيدوا على هذا.
مفھوم : آپ دیکھیئے محترم قارئین کرام کہ امام ابن کثیر نے پہلے اس آیت کی تفسیر میں قول ابن عباس رضی اللہ عنہ نقل کیا ہے کہ انکا یعنی مشرکین کا ایمان یہ تھا کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ زمین و آسمان اور پہاڑ کس نے پیدا کیئے ہیں تو وہ کہتے کہ اللہ نے مگر اس کے باوجود وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھراتے۔اور اسی طرح کا قول مجاہد ،عطا،عکرمہ ،شعبی،قتادہ ،ضحاک اور عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم سے بھی ہے ۔
جبکہ صحیحین میں روایت ہے کہ : مشرکین مکہ حج کہ تلبیہ میں یہ پڑھتے تھے کہ میں حاضر ہوں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ جسے تونے خود شریک بنایا اور تو اسکا بھی مالک ہے اور صحیح مسلم میں مزید یہ ہے کہ جب مشرک ایسا کہتے تو یعنی کہ لبیک لا شریک لک تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کہتے کہ بس بس ،بس اسی قدر کافی ہے اس کہ آگے مت کہو ۔

قارئین محترم آپ نے دیکھا کہ اس آیت کا بیک گراؤنڈ کیا تھا اور یہ کیونکر اور کن کے بارے میں نازل ہوئی ؟ تمام مفسرین نے بالاتفاق اس آیت کہ شان نزول میں مشرکین کہ تلبیہ والا واقعہ نقل کرکے اس آیت کی تفسیر کی ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ اس آیت سے مراد مشرکین مکہ کی اکثریت سمیت منافقین مدینہ کی اقلیت تھی کہ جو کہ اس آیت کا حقیقی مصداق بنے، کہ وہی لوگ اس وقت اکثریت میں تھے نہ کہ مسلمان جیسا کہ خود آیت میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی مشرک ہے تو اس وقت جن لوگوں کی اکثریت تھی وہ مشرکین مکہ اور منافقین تھے نہ کہ اس وقت کہ حقیقی مسلمان جو کہ صحابہ کرام تھے معاذاللہ اگر آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرستوں کہ کلیہ کہ مطابق اس آیت کا اطلاق کیا جائے تو یہ تہمت اور بہتان سیدھا جاکر صحابہ کرام پر وارد ہوتا ہے کہ آخر اس وقت کون لوگ تھے جو ایمان والے تھے ؟؟؟ ظاہر ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت صحابہ کرام ہی ایمان والے تھے مگر کیا اس آیت کی رو سے صحابہ کرام کی اکثریت مشرکوں کی تھی نعوذباللہ من ذالک نہیں نہیں ایسا ہرگز نہ تھا بلکہ سیدھی اور صاف بات ہے کہ یہ آیت درحقیقت مشرکین مکہ اور منافقین کی مذمت میں نازل ہوئی جو کہ حقیقت میں مسلمانوں کہ مقابلہ میں اکثریت میں تھے اور اس آیت میں جو لفظ ایمان آیا ہے یعنی ان مشرکوں کو جو ایمان رکھنے والا کہا گیا تو وہ محض لغوی اعتبار سے ایمان والا کہا گیا ہے نہ کہ شرعی اور حقیقی اعتبار سےکیونکہ وہ لوگ اللہ پاک کی خالقیت اور ربوبیت کا چونکہ اقرار کرتے تھے لہذا انکے اس اقرار کرنے کی باعث انکے اس اقرارپرصوری اعتبارسے لفظ ایمان کا اطلاق اللہ پاک نے کیا ہے لہذا وہ لوگ اللہ کی خالقیت اور رزاقیت اور مالکیت اور ربوبیت کا تو اقرار کرتے تھے مگراکیلے اللہ کی معبودیت کا اعتراف نہیں کرتے تھے اسی لیے اپنے تلبیہ میں اپنے خود ساختہ معبودوں کی عبادت کا اقرار کرتے ہوئے اس کا الزام بھی نعوذباللہ من ذالک ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اللہ کی ذات پر دھرتے تھے کہ تیرا کوئی شریک نہیں اور جن کی ہم عبادت کرتے ہیں وہ شریک ہمارے لیے تو نے خود بنایا ہے لہذا ہم اس کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ تیرے بنانے سے تیرا شریک ہے اور توہی اس کا بھی مالک ہے ۔

جب کہ آج کہ دور میں کوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی کسی غیر اللہ کسی نبی ولی یا نیک شخص کی عبادت نہیں کرتا اور نہ ہی زبان سے یہ کہتا ہے کہ اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا پھر فلاں نبی یا ولی تیرے خاص شریک ہیں کہ تو انکا مالک بھی ہے اور تونے انھے ہمارے لیے اپنا شریک خود بنایا ہے نعوذ باللہ من ذالک الخرافات ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العظیم طرفہ تماشا یہ ہے کہ آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرست سورہ یوسف کی اس آیت کو ان معنی میں بطور استدلال پیش کرتے ہیں کہ ایک مسلمان بھی مشرک ہوسکتا ہے جبکہ ہمارا دعوٰی ہے کہ اگر کوئی کلمہ گو کوئی ایسا اعتقاد رکھے کہ جس سے شرک لازم آتا ہو یعنی اس سے لزوم کفر ثابت ہوتا ہو تو اس کلمہ گو کو اس کے اس اعتقاد کی لزومیت کفر سے آگاہ کیا جائے اگر پھر بھی وہ اس پر اڑا رہے اور اپنے اس کفر پر التزام برتے تو اس کا یہ کفرلزوم سے نکل التزام کفر کے معنی میں داخل ہوکر اس معین شخص کو دائرہ اسلام سے خارج کردئے گا پھر اسے کافر یا مشرک یا پھر مرتد کہیں گے نہ کہ بیک وقت مسلمان بھی اور مشرک بھی اور یہ ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ جس سے ادنٰی سی عقل رکھنے والا انسان بھی واقف ہوگا چناچہ اسی بات کو مشھور ویب بیسڈ جریدے کے ممشھور سلفی رائٹر جناب حامد کمال الدین نے اپنی کتاب نواقض اسلام میں کچھ یون واضح کیا ہے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ یہاں ”کلمہ گو“ والی غلط فہمی کا ازالہ ایک بار پھر ضروری ہے۔ نواقض اسلام کہتے ہی ان باتوں کو ہیں جو کسی شخص کو اسلام سے خارج کر دیں یعنی کلمہ گو کو کلمہ گو نہ رہنے دیں۔ نواقضِ اسلام ہیں ہی وہ باتیں جو آدمی کے کلمہ گو ہونے کو کالعدم کردیں۔ نواقض اسلام کسی کافر کو اسلام سے خارج کرنے والی باتوں کو نہیں کہا جاتا! بلکہ نواقض اسلام تو عین وہ باتیں ہیں جو کسی ”کلمہ گو“ کو کافر قرار دینے کیلئے علماءاور ائمہ نے بیان کی ہیں۔ پس یہ بات جان لینے کے بعد اس امر کی گنجائش نہیں رہتی کہ آپ کسی کلمہ پڑھنے والے شخص کو طاغوت کی مسند پر دیکھیں یا کسی قبر کو سجدہ کرتے ہوئے پائیں تو اسے ”بہرحال مسلمان“ کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہوں، کیونکہ وہ آپ کے خیال میں کلمہ پڑھتا ہے ۔ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ : برصغیر کے بعض موحد حلقوں میں __کسی شخص کو ’مشرک‘ تو نسبتاً بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے (کسی کو ایک خاص فرقے کی مسجد میں محض آتے جاتے بھی دیکھ لیا تو جھٹ سے ”مشرک“ کہہ ڈالا!) مگر جب اس کو ”کافر“ کہنے کا سوال آئے تو تب یہ لوگ ’محتاط‘ ہونا ضروری سمجھتے ہیں! حالانکہ ان دونوں باتوں کے لئے ایک ہی درجہ کی احتیاط لازم ہے، کیونکہ یہ دونوں باتیں دراصل لازم وملزوم ہیں۔ جتنا کسی کو ”کافر“ قرار دینا خطرناک ہے اتنا ہی اُس کو ”مشرک“ قرار دینا خطرناک ہے۔ ہر دو کی سنگینی ایک سی ہے۔ یہ عجیب ماجرا ہے کہ ہمارے ایک خاص طبقے کے ہاں کسی شخص کو ’مشرک‘ کہہ دینے میں کسی ”احتیاط“ یا کسی ”توقف“ کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ تمام کی تمام احتیاط یہ لوگ اس ”مشرک“ کو ”کافر“ سمجھنے کیلئے پس انداز رکھتے ہیں! جبکہ معاملہ یہ ہے کہ احتیاط دراصل پہلا قدم اٹھانے کے وقت ہی درکار ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں ہر وہ شخص جس سے شرک کے زمرے میں آنے والا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فوراً مشرک نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے کفر کا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فی الفور کافر نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے فسق کا کوئی کام سرزد ہو اُس کو معاً فاسق اور جس سے بدعت کا کوئی کام ہو اس کو جھٹ سے بدعتی نہیں کہہ دیاجائے گا۔ حکمِ مطلق بیان کرنا (کہ فلاں اعتقاد یا فلاں رویہ رکھنے والے شخص کا شریعت کے اندر یہ حکم ہے ایک چیز ہے اور اُس کو بنیاد بنا کر کسی متعین شخص پر وہ فتویٰ لگا دینا ایک اور چیز۔ کسی شخص کے ایسے فعل کی بنا پرجو ہمارے نزدیک شرک کے زمرے میں آتا ہے، اس کو مشرک قرار دینے کی کچھ شروط ہیں: وہ اپنے اس فعل کا مطلب جانتا ہو۔ اس پر حجت قائم کر دی گئی ہو۔ اس کی لاعلمی یا شبہات واشکالات اور تاویلات کا علمی انداز سے ازالہ کر دیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ جتنی احتیاط ہوسکے وہ یہیں پر، یعنی کسی کو مشرک قرار دیتے وقت، کی جانا ہوتی ہے۔ ’توقف‘ کا اصل مقام یہ ہے۔ لیکن اگر اس سے گزر جانے کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور آپ اُس شخص کو ”مشرک“ ہی قرار دے ڈالتے ہیں تو اس کے بعد یہ کہنا کہ یہ شخص ”مشرک“ تو ہو گیا ہے مگر ہے یہ ”مسلمان“، البتہ ایک مضحکہ خیز امر ہے۔ حق یہ ہے کہ جب آپ نے کسی کو ”مشرک“ کہہ ڈالا تو اُس کو ”کافر“ کہنے میں آپ نے کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی۔ ”احتیاط“ ضروری ہے تو وہ اُس کو مشرک کہتے وقت ہی کر لیا کریں۔ ”شرکِ اکبر“ کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ آدمی کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور ابدی جہنم کا مستحق۔ اس غلط فہمی کے باعث لوگوں میں یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ سب مشرک کافر نہیں ہوتے! گویا بعض مشرک مسلمان ہوتے ہیں اور بعض مشرک کافر! اصل قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ کلمہ گو شخص جو شرک کے زمرے میں آنے والے کسی فعل میں پڑ جائے اس کو تب تک مشرک نہیں کہا جائے گا جب تک کہ اہل علم کے ہاتھوں اس پر حجت قائم نہ ہو جائے اور اس پر مشرک ہونے کا باقاعدہ حکم نہ لگا دیا جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوجاتا اس کے اس شرکیہ فعل کو شرک تو برملا کہا جائے گا اور اس شرک سے اس کو روکا بھی ضرور جائے گا مگر اس شخص کو ”مشرک“ کہنے سے احتیاط برتی جائے گی۔ البتہ جب وہ شرعی قواعد وضوابط کی رو سے اہل علم کے ہاتھوں مشرک ہی قرار دے دیا جائے تو اس وقت وہ دائرۂ اسلام سے خارج بھی شمار ہوگا۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...