Saturday, 11 November 2017

اسلام میں صرف دو عیدیں کہنے والوں کو جواب






اسلام میں صرف دو عیدیں کہنے والوں کو جواب

لغت میں عید ایسی چیز کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے، اور کیونکہ یہ دونوں مذہبی تہوار ہر سال آتے ہیں اس لیے ان کو عید کہتے ہیں، پھر مجازاً اسے خوشی کے موقع کے لیے بھی استعمال کرنے لگے۔
آئیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ کیا خوشی کے ان دو اَیام کے علاوہ کسی دوسرے دن کو عید کہنا جائز ہے یا نہیں؟

اصل میں آپ لوگ ’’عید‘‘ کی تعریف سے ہی واقف نہیں اگر کچھ علم پڑھ لیاہوتا تو ایسی بات نہ کرتے۔

عید کی تعریف اور جشن میلاد کو عید کہنے کی وجہ

ابوالقاسم امام راغب اصفہانی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ (المتوفی 502ھ) عید کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’عید اسے کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے، شریعت میں یہ لفظ یوم الفطر اور یوم النحر کے لئے خاص نہیں ہے۔ عید کا دن خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’عید کے ایام کھانے پینے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے ہیں‘‘ اس لئے ہر وہ دن جس میں خوشی حاصل ہو، اس دن کے لئے عید کا لفظ مستعمل ہوگیا ہے جیسا کہ اﷲ عزوجل کا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعا سے متعلق ارشاد ہے کہ ’’ہم پر آسمان سے خوان (کھانا) اتار کہ وہ ہمارے (اگلوں پچھلوں کے لئے) عید ہو‘‘ اور عید انسان کی اس حالت خوشی کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے اور ’’العائدۃ‘‘ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو‘‘

علامہ راغب اصفہانی رحمتہ اﷲ علیہ کے مذکورہ بالا کلام سے معلوم ہوا کہ عید ہر اس دن کو کہتے ہیں

1: جس میں انسان کو کوئی خوشی حاصل ہو

2: جس میں اﷲ عزوجل کی طرف سے کوئی خصوصی رحمت و نعمت عطا ہوئی ہو۔

3: جسے کسی خوشی کے موقع سے کوئی خاص مناسبت ہو۔

الحمدﷲ عزوجل جل علی احسانہ! بارہ ربیع الاول کے موقع پر یہ تینوں صورتیں ہی جمع ہوتی ہیں۔ آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ ایک مسلمان کے لئے حضور نبی کریمﷺ کے ولادت پاک کے دن سے بڑھ کر کیا خوشی ہوسکتی ہے؟ اس خوشی کے سبب بھی بارہ ربیع الاول کو عید کا دن قرار دیا جاتا ہے۔

آپﷺ جن کے صدقے ہمیں خدا کی پہچان ملی، ایمان کی لازوال دولت ملی، قرآن جیسا بابرکت تحفہ ملا جن کے صدقے زندگی گزارنے کا ڈھنگ آیا اور جن کی ذات اقدس ہمارے لئے سراپا رحمت ہے ان سے بڑھ کر کون سی رحمت اور کون سی نعمت ہے؟ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حواری خوان رحمت عطا ہونے والے دن کو عید کہہ سکتے ہیں اور وہ دن ان کے اگلوں پچھلوں کے لئے یوم عید ہوسکتا ہے تو ہم بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ امام الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روز ولادت کو عید میلاد النبیﷺ کا نام دیں اور عید منائیں۔

کہتے ہیں کہ ’’کسی معتبر کتاب میں یوم میلاد کو عید نہیں لکھا گیا‘‘ فی الوقت میرے پاس موجود کتاب کے اعتبار کے لئے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اشرف علی تھانوی صاحب نے اور تمام علمائے دیوبند نے اس کتاب کو اپنی تحریروں کی وقعت ظاہر کرنے کے لئے حوالہ دے کر جگہ جگہ اس کا ذکر کیا ہے اور نشرالطیب تو اس کتاب کے حوالوں سے بھری ہوئی ہے اور معترضین کی مزید تسلی کے لئے عرض ہے کہ اس کتاب کے عربی متن کے اردو ترجمہ پر تعریفی تقاریظ علمائے دیوبند نے لکھی ہیں۔ اس کتاب کا نام ’’مواہب لدنیہ‘‘ ہے ترجمہ کو ’’سیرۃ محمدیہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

امام احمد بن محمد بن ابی بکر الخطیب قسطلانی رحمتہ اﷲ علیہ کی یہ کتاب پانچ سو برس پرانی ہے۔ اس کی شرح ’’زرقانی‘‘ آٹھ ضخیم جلدوں میں علامہ ابو عبداﷲ محمد زرقانی نے لکھی جو اہل علم میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ 1338 ہجری میں جن علمائے دیوبند نے اس کتاب پر تعریفی تقاریظ لکھیں ان کے نام بھی ملاحظہ فرمالیں۔

* جناب محمد احمد مہتمم دارالعلوم دیوبند و مفتی عالیہ عدالت ممالک سرکار آصفیہ نظامیہ * جناب محمد حبیب الرحمن مددگار مہتمم دارالعلوم دیوبند * جناب اعزاز علی مدرس ، مدرسہ دیوبند * جناب سراج احمد رشیدی مدرس، مدرسہ دیوبند * جناب محمد انور معلم، دارالعلوم دیوبند

اس کتاب کے صفحہ 75 پر امام قسطلانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’اﷲ تعالیٰ اس مرد پر رحم کرے جس نے آنحضرت ﷺ کی ولادت کے مبارک مہینہ کی راتوں کو ’’عیدین‘‘ اختیار کیا ہے تاکہ اس کا یہ (عید) اختیار کرنا ان لوگوں پر سخت تر بیماری ہو جن کے دلوں میں سخت مرض ہے اور عاجز کرنے والی لادوا بیماری، آپ کے مولد شریف کے سبب ہے۔ معتبر کتاب سے مطلوبہ لفظ ’’عید‘‘ ملاحظہ فرمالیا۔ اگر امام قسطلانی کی تحریر سے اتفاق نہیں تو مذکورہ علمائے دیوبند کو ملامت کیجئے جنہوں نے اس کتاب کو بہترین اور اس کے ترجمہ کو بہت بڑی نیکی لکھا ہے۔

بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو ضرور عید مناتے، فرمایا کون سی آیت ؟ اس نے آیت ''الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ''[المائدۃ:03] پڑھی آپ نے فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے مقامِ نُزول کو بھی پہچانتا ہوں وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا۔(صحيح بخاري، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه)
آپ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لئے وہ دن عید ہے ۔
ترمذی شریف میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے آپ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن ۲ دو عیدیں تھیں جمعہ و عرفہ ۔(سنن الترمذي، کتاب تفسيرآن، باب ومن سورة المائدة)
یوں عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ سال میں 53 عیدیں ہوئیں، 52جمعہ اور 1یوم عرفہ،تو ان 53عیدوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
جس دن نعمت حاصل ہو اس دن عیدمنانا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے، قرآن حکیم میں ہے : حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا، اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے (کھانوں کا) ایک دستر خوان نازل کر جو ہمارے پہلے اور پچھلے (سب کیلئے) عید بن جائے"۔[سورۃ البقرۃ:91]

معلوم ہوا کہ نزول نعمت کے دن عید اور جشن منانے کی اصل قرآن مجید میں موجود ہے، اسی قرآنی اُصول کے تحت اللہ کریم کی سب سے بڑی نعمت اور رحمت حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلّم کی دنیا میں تشریف آوری کے دن عید منانا شرعاً جائز و مستحسن ہے ّطالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

فضیلتِ جمعہ کا سبب یومِ تخلیقِ آدم علیہ السلام ہے

جمعہ کے دن کی خاص اَہمیت اور فضیلت کی بناء پر اسے سید الایام کہا گیا ہے۔ اس دن غسل کرنا، صاف ستھرے یا نئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا اور کاروبارِ زندگی چھوڑتے ہوئے مسجد میں اِجتماع عام میں شریک ہونا اُمورِ مسنونہ ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کا بھی حکم دیا ہے۔

حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن من أفضل أيامکم يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه قبض، وفيه النفخة، وفيه الصعقة، فأکثروا عليّ من الصلاة فيه، فإن صلاتکم معروضة علي.
’’تمہارے دنوں ميں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے، اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت ہوئی (یعنی اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا)، اس روز اُن کی روح قبض کی گئی، اور اِسی روز صور پھونکا جائے گا۔ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو، بے شک تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
1. أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047
2. أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531
3. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085

جمعۃ المبارک عید کا دن ہے، اِس پر کبار محدثین کرام نے اپنی کتب میں درج ذیل احادیث بیان کی ہیں :
1۔ اِبن ماجہ (209۔ 273ھ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن هذا يوم عيد، جعله اﷲ للمسلمين، فمن جاء إلي الجمعة فليغتسل، وإن کان طيب فليمس منه، وعليکم بالسواک.
’’بے شک یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بنایا ہے۔ پس جو کوئی جمعہ کی نماز کے لیے آئے تو غسل کر کے آئے، اور اگر ہوسکے تو خوشبو لگا کر آئے۔ اور تم پر مسواک کرنا لازمی ہے۔‘‘
1. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلٰوة، باب في الزينة يوم الجمعة، 1 : 349، رقم : 1098
2. طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 230، رقم : 7355
3. منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 1 : 286، رقم : 1058
2۔ احمد بن حنبل (164۔ 241ھ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن يوم الجمعة يوم عيد، فلا تجعلوا يوم عيدکم يوم صيامکم إلا أن تصوموا قبله أو بعده.
’’بے شک یومِ جمعہ عید کا دن ہے، پس تم اپنے عید کے دن کو یومِ صیام (روزوں کا دن) مت بناؤ مگر یہ کہ تم اس سے قبل (جمعرات) یا اس کے بعد (ہفتہ) کے دن کا روزہ رکھو (پھر جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں)۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 303، 532، رقم : 8012، 10903
2. ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 315، 318، رقم : 2161، 2166
3. ابن راهويه، المسند، 1 : 451، رقم : 524
4. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 603، رقم : 1595
4. اِبن حبان (270۔ 354ھ) روایت کرتے ہیں کہ ابو اوبر بیان کرتے ہیں :
کنت قاعدًا عند أبي هريرة إذ جاء ه رجل فقال : إنک نهيت الناس عن صيام يوم الجمعة؟ قال : ما نهيت الناس أن يصوموا يوم الجمعة، ولکني سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : لاتصوموا يوم الجمعة، فإنه يوم عيد إلا أن تصلوه بأيام.
’’میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے اُن کے پاس آ کر کہا : آپ نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے؟ آپ نے فرمایا : میں نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے نہیں روکا بلکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : تم جمعہ کے دن روزہ نہ رکھو کیوں کہ یہ عید کا دن ہے، سوائے اس کے کہ تم اس کو اور دنوں کے ساتھ ملا کر (روزہ) رکھو۔‘‘
ابن حبان، الصحيح، 8 : 375، رقم : 3610
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فضیلتِ جمعہ کا سبب کیا ہے اور اسے کس لیے سب دنوں کا سردار اور یومِ عید قرار دیا گیا؟ اس سوال کا جواب اوپر بیان کی گئی حدیث مبارکہ میں موجود ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن کی فضیلت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا :
فيه خلق آدم.
’’(یوم جمعہ) آدم کے میلاد کا دن ہے (یعنی اس دن آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا)۔‘‘
جمعہ کے دن ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی جس کی بناء پر اِسے یوم عید کہا گیا ہے اور اس دن کی تکریم کی جاتی ہے۔ اگر یوم الجمعہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے باعث عزت و اِحترام کے ساتھ منائے جانے کا حق دار ہو سکتا ہے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بناء پر عید الاعیاد (تمام عیدوں کی عید) کے طور پر اسلامی کیلنڈر کی زینت کیوں نہیں بن سکتا۔ اب کوئی کہے کے میلادِ آدم علیہ السلام کی تقریب کا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ ان کی تخلیق معروف طریقے سے عمل میں نہیں آئی۔ لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق جمعہ کے دن ہوئی۔ لہذا یوم الجمعہ کو یوم العید بنا دیا گیا کہ یہ بنی نوع انسان کے جد اَمجد اور پہلے نبی کا یومِ تخلیق ہے۔ اِسی بناء پر وجہ تخلیقِ کائنات اور تمام انبیاء کے سردار سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت تمام عیدوں کی عید ہے۔
روزِ جمعہ کا اِہتمام برائے محفلِ درود و سلام
جمعۃ المبارک کے سلسلہ میں کیے جانے والے تمام تر اِنتظامات وہ ہیں جو میلاد کے حوالہ سے بھی کیے جاتے ہیں، مثلاً غسل کرنا، خوشبو لگانا، ایک جگہ جمع ہونا، کاروبار ترک کرنا اور مسجد میں حاضری دینا۔ ان کے علاوہ بھی بعض امور کا تذکرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔ جمعہ کے دن یہ سارا اہتمام درحقیقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام بھیجنے کے حوالہ سے ہے اور اس دن کو کثرتِ درود و سلام کے لیے اس لیے چنا گیا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کا یومِ میلاد ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادگرامی ہے :
فأکثروا عليّ من الصلاة فيه.
’’پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو۔‘‘
اِس دن عاشقانِ رسول درود شریف کا اِجتماعی ورد کرتے ہیں اور اس دن محفل میلاد اور محفلِ صلوٰۃ و سلام کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ سو یہ دن جہاں ایک طرف میلادِ سیدنا آدم علیہ السلام کے لیے خاص ہے تو دوسری طرف درود و سلام کے ذکر کی نسبت سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بھی ہے۔ اس طرح بہ یک وقت یہ دن جدماجد اور فرزند اَمجد دونوں کے لیے اِظہارِ مسرت کا مژدہ بردار بن گیاہے۔
حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا :
يا رسول اﷲ! وَکيف تعرض صلاتنا عليک وقد أرمت؟
’’یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد کیسے آپ پر پیش کیا جائے گا؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن اﷲ عزوجل حرّم علي الأرض أن تأکل أجساد الأنبياء.
’’بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کرام کے جسموں کو کھائے۔‘‘
1. أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047
2. أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531
3. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085
4. نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 : 91، رقم : 1375
5. نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 1 : 519، رقم : 1666
6. دارمي، السنن، 1 : 445، رقم : 1572
7. ابن ابي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8697
8. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 216، رقم : 589
9. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 248، رقم : 5789
10. بيهقي، السنن الصغري، 1 : 372، رقم : 634
11. هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان، 1 : 146، رقم : 550
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ میں اِس دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی اپنے جسم کے ساتھ زندہ رہوں گا، اور تمہیں چاہیے کہ مجھ پر جمعہ کے دن کثرت کے ساتھ درود و سلام پڑھنا اپنا معمول بنا لو۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
عید میلاد کے خلاف بولنے والوں کی گھر سے گواہیاں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے خلاف زرو شور سے بولنے اور واویلا کرنے والے وہابیہ اور دیابنہ کہتے ہیں اسلام میں عیدیں صرف دو ہیں یہ لوگ یہ صرف میلاد کی ضد میں کہتے ہیں آیئے دیکھتے ہیں خود ان کے ہاں کتنی عیدوں کا تصور موجود ہے ۔ جماعت اہلحدیث کے بالعموم اورحافظ عبد القادر روپڑی کے بالخصوص ترجمان ہفت روزہ (تنظیم اہلحدیث ) لاہور نے 17 مئی 1963 ء کی اشاعت میں لکھا ہے کہ مومن کی پانچ عیدیں ہیں ، جس دن گناہ سے محفوظ رہے ، جس دن خاتمہ بالخیر ہو ، جس دن پل سے سلامتی کے ساتھ گزرے ، جس دن جنت میں داخل ہو اور جب پردردگار کے دیدار سے بہر ہ یاب ہو۔ تنظیم اہلحدیث کا یہ بیان حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔(درۃ الناصحین صفحہ 263 ) مقام انصاف ہے کہ جب مومن کی اکھٹی پانچ عیدیں تکمیل دین کے خلاف نہیں تو جن کے صدقہ و وسیلہ سے ایمان قرآن اور خود رحمان ملا ، ان کے یوم میلاد کو عید کہہ دینے سے دین میں کونسا رخنہ پڑجائے گا ؟ جبکہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ عید الفطر اور عید الاضحٰی کے مقابلے کے لئے ہے اور نہ ان کی شرعی حیثیت ختم کرنا مقصود ہے ۔ اہلحدیث مزید لکھتا ہے کہ ( اگر عید کے نام پر ہی آپ کا یوم ولادت منانا ہے تو رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی طرف دیکھیں کہ آپ نے یہ دن کیسے منایا تھا ؟ سنئے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دن منایا پر اتنی ترمیم کے ساتھ کہ اسے تنہا عید میلاد نہیں رہنے دیا بلکہ عید میلاد اور عید بعث کہہ کر منایا اور منایا بھی روزہ رکھ کر اور سال بہ سال نہیں بلکہ ہر ہفتہ منایا۔ ( ہفت روزہ اہلحدیث لاہور 27 مارچ 1981 ئ) سبحان اللہ : اہلحدیث نے تو حد کردی کہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عید میلاد منانے ہی کی تصریح نہیں کی بلکہ ایک اور عید یعنی عید بعث منانے کا بھی اضافہ کردیا اور وہ بھی ہفتہ وار۔ ماہنامہ دارلعلوم دیوبند نومبر 1957 ء کی اشاعت میں ایک نعت شریف شائع ہوئی ہے کہ؛ یہ آمد ، آمد اس محبوب کی ہے کہ نور جاں ہے جس کا نام نامی خوشی ہے عید میلاد النبی کی یہ اہل شوق کی خوشی انتظامی کھڑے ہیں باادب صف بستہ قدسی حضور سرور ذات گرامی ﷺ الحمد اللہ ! اس تمام تفصیل اور لاجواب و ناقابل تردید تحقیقی و الزامی حوالہ جات سے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے اس نعمت کا چرچا کرنے شکر گزاری و خوشی کرنے محافل میلاد کے انعقاد و جلوس نکالنے کی روز روشن کی طرح تحقیق و تائید ہوگئی اور وہ بھی وہاں وہاں سے جہاں سے پہلے شرک و بدعت کی آوازیں سنائی دیتی تھیں ، ماشا ءاللہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عظمت و قوت عشق سے اپنی حقانیت کا لوہا منوالیا ، مگر ضروری ہے کہ میلاد شریف کے سب پروگرام بھی شریعت کے مطابق ہو ں اور منانے والے بھی شریعت و سنت کی پابندی کریں کیونکہ عشق رسالت کے ساتھ اتباع سنت بھی ضروری ہے۔ مسئلہ بدعت : مذکورہ تمام تفصیل و تحقیق کے بعد اب تو کسی بدعت و دت کا خطرہ نہیں ہونا چاہئے ، کیونکہ بدعت و ناجائز تو وہ کام ہوتا ہے جس کی دین میں کوئی اصل نہ ہو مگر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل و بنیاد اور مرجع و مآخذ قرآن و حدیث ، صحابہ کرام ، جمہور اہل علم ، محدثین ، مفسرین بلکہ اجماع امت اور خود منکرین میلاد کے اقوال سے ثابت کرچکے ہیں ، لہذا اب تو اس کو بدعت تصور کرنا بھی بدعت و ناجائز اور محرومی و بے نصیبی کا باعث ہے۔ میرے مولا کے میلاد کی دھوم ہے :: ہے وہ بد بخت جو آج محروم ہے استفسار: اگر اب بھی کوئی میلاد شریف کا قائل نہ ہو ، تو پھر اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ سیرت کانفرنس ، سیرت کے اجلاس ، سالانہ تبلیغی اجتماعات ، اہلحدیث کانفرنسیں اور مدارس کے سالانہ پروگرام وغیرہ منعقد کرے ۔ورنہ وہ وجہ فرق بیان کرے کہ عید میلاد النبی صلی اللہ وسلم کیوں بدعت ہے اور باقی مذکورہ امور کس دلیل سے توحید و سنت کے مطابق ہیں اور ہمارے دلائل اور جلیل القدر محدثین و اکابر کے حوالہ جات کا کیا جواب ہے ؟ تم جو بھی کرو بدعت و ایجاد روا ہے :: اور ہم جو کریں محفل میلاد براہے منکرین میلاد کا کردار : جو بچہ ہو پیدا تو خوشیاں منائیں مٹھائی بٹے اور لڈو بھی آئیں مبارک کی ہر سو آئیں صدائیں مگر محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا جب یوم میلاد آئے تو بدعت کے فتوے انہیں یاد آئے ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مرجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام

مرجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام محترم قارئین کرام : میوزک یا مزامیر کے ساتھ نعت شریف کی اجازت نہیں کہ میوزک بجانا ناجائز ہے ۔ یہی حکم اس...