غیر مقلدیت کا انجام غیر مقلدوں کے متضاد فتوے
بے نماز کاحکم : بے نماز کے بارے می احادیث میں سخت وعید آئی ہے ۔ حتٰی کہ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جان بوجھ کر جو نماز چھوڑے وہ کافر ہو گیا ۔ اکثر علماء تو اس حکم کو تہدید اور تشدید پر محمول کرتے ہیں ۔ جبکہ غیر مقلدین کے اس بارہ میں دو قسم کے نظریات ہیں ۔
پہلا نظریہ : پہلا نظریہ یہ ہے کہ بے نماز کافر تو ہو جاتا ہے ۔ مگر ملت اسلام سے خارج نہیں ہوتا اس لئے اس کا جنازہ پڑھنا چاہیے ۔ چناچہ غیر مقلد شیخ الکل فی الکل مولانا نزیر حسین صاحب دہلوی ۔لکھتے ہیں ۔
جن احادیث سے تارک الصلوۃ کا کفر ثابت ہوتا ہے ۔ ان احادیث سے وہ بلا شبہ کافر ہیں اور ان کو کافر کہنا روا ہے ۔ مگر ہاں تارک الصلٰوۃ کا کفر ایسا کفر نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے وہ ملت اسلام سے خارج ہو جائے اور مغفرت و شفاعت و دخول جنت کا مستحق نہ رہے ۔
{ فتاوٰی نزیریہ ج1 ص463 }
اور مبارکپوری صاحب نے بھی یہ مسئلہ بیان کرتے ہوئے اسی عبارت کو پیش کیا ہے ۔
{ملاحظہ ہو فتاوٰی ثنائیہ ج1 ص 467 و فتاوٰی علمائے حدیث ج4ص263 }
اور دوسرے مقام پر لکھتے ہیں ۔
ہاں فی زمانتا حسب مصلحت وقت تہدیدا تارک الصلٰوۃ کو مطلق کافر کہنا جائز ہے ۔ نہ یہ کہ مانند کفار غسل و تجہیز و تکفین و نماز جنازہ سے محروم کیا جائے ۔
{ فتاوٰی نزیریہ ج 4 ص 270 }
دوسرا نظریہ : دوسرا نظریہ بے نماز کے بارہ میں غیر مقلدین حضرات کا یہ ہے کہ وہ کافر ہے اور ملت اسلام سے خارج ہے ۔چناچہ غیر مقلد عالم مولانا عبداللہ امرتسری صاحب ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ۔
ہاں نماز ایسا رکن ہے کہ اس کے نہ پڑھنے سے ایمان ہی نہیں رہتا ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج1 ص 116 }
اور ایک مقام پر لکھا ہے کہ ۔
بے نماز کا جنازہ نہ پڑھنا چاہئے ۔ {فتاوٰی اہلحدیث ج2ص46 }
اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں ۔
جو کبھی نماز پڑھے اور کبھی نہ پڑھے یا بالکل نماز کا تارک ہو اس کے ساتھ دوستانہ تعلق اور اس کے ساتھ محبت کے طور پر سلوک کرنا یا تحفہ وغیرہ بھیجنا اور ضیافت کرنا بالکل جائز نہیں ۔ ہاں عام لین دین جیسے ہندؤں وغیرہ سے کرتے ہیں ان کی دوکانوں سے سودا وغیرہ لیتے ہیں اور ان کی دوکانوں پر اشیاء وغیرہ فروخت کرتے ہیں اس کا کوئی حرج نہیں ۔ اور اسی صفحہ پر ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں ۔
بے نماز بے شک کافر ہے خواہ ایک نماز کا تارک ہو یا سب نمازوں کا ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج 2 ص 37 }
اور ایک مقام پر لکھا ہے کہ بے نماز کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج2 ص 38 }
ایک مقام میں لکھتے ہیں ۔
بے نماز کی بابت صحیح یہی ہے کہ بالکل کافر ہے ۔ پس اس کے ساتھ کافروں سا سلوک چاہئے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج2 ص 48 }
اور ایک مقام پر لکھتے ہیں ۔
بے نماز بے شک کافر ہے خواہ ایک نماز کا تارک ہو یا سب نمازوں کا ۔ پھر آگے لکھتے ہیں ۔ اور بے نماز جب کافر ہوا تو اس کا کھانا مثل عیسائی کے کھانے کے سمجھ لینا چاہئے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج3 ص364 }
بے نماز کی اولاد : غیر مقلدین بے نماز کو کافر کہتے ہیں اور کافر کا تو نکاح ہی معتبر نہیں ۔ جب اس کا نکاح نہیں تو اولاد کو ولدالحرام ہی کہنا چاہیے مگر یہاں آ کر غیر مقلدین کو احتیاط یاد آ گئی اور یوں کہنے لگے ۔
مگر چونکہ بے نماز کا کفر ظنی ہے اس لئے اس کی اولاد کو ولدالحرام کہنے میں زرا احتیاط چاہیے ۔
{ فتاوٰی اہلحدیث ج2 ص 47 }
محترم قارئین : یہ ہیں غیر مقلدین جو مسلمانان احناف مقلدین کے بارہ میں تو خوب شور مچاتے ہیں کہ ان میں یہ اختلاف ہے وہ اختلاف ہے ۔ مگر اپنے گھر کے اختلافات پہ بالکل خاموش نظر آتے ہیں ۔
قرآن کریم کو بے وضو ہاتھ لگانا
غیر مقلدین حضرات کے نزدیک بے وضو قرآن کریم کو ہاتھ لگا سکتا ہے ۔ چناچہ غیر مقلد عالم نواب نورالحسن بھوپالی لکھتے ہیں
محدث را مس مصحف جائز باشد ۔
{ عرف الجادی ص15 }
یعنی بے وضو آدمی کے لئے قرآن کریم کو ہاتھ لگانا جائز ہے ۔
اور غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں ۔
ولا یمنع الحدث المس ۔
{ کنزالحقائق ص 15 }
یعنی بے وضو آدمی کے لئے قرآن کریم کو ہاتھ لگانا منع نہیں ہے ۔
اسی طرح انہوں نے اپنی کتاب نزل الابرار ص 26 ج 1 میں لکھا ہے کہ ۔
ہمارے اکثر اصحاب نے بے وضو آدمی کے لئے قرآن کریم کو ہاتھ لگانا جائز قرار دیا ہے ۔
محترم قارئین : فیصلہ آپ خود کر لیں کہ میرے اللہ کا حکم ہے کہ پاکی کے بغیر ہاتھ مت لگاو اور غیر مقلدین فرما رہے ہیں کہ کوئی بات نہیں آپ لگا سکتے ہیں ۔
حیض والی عورت کے لئے قرآن کریم کی تلاوت
حیض والی عورت قرآن کریم کو ہاتھ لگا سکتی ہے یا نہیں ؟ اس بارہ میں غیر مقلدین کے دو نظریات ہیں ۔
پہلا نظریہ : پہلا نظریہ یہ ہے کہ ایک دو حرف کی تلاوت کر سکتی ہےمگر پوری آیت نہیں ۔
چناچہ محدث مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں : واما قراء الآ یۃ بتمامھا فلا یجوز لھما البتۃ ۔ جنبی اور حیض والی عورت دونوں کے لئے قرآن کریم کی مکمل آیت کی تلاوت بالکل جائز نہیں ہے ۔ { تحفۃ الجوذی ج 1 ص 124 }
اسی طرح غیر مقلد عالم نواب نورالحسن خان بھوپالی لکھتے ہیں ۔ و جنب و حائض را در آمدن مسجد و خواندن قرآن حران ست نہ حلال ۔ جنبی آدمی اور حیض والی عورت کے لئے مسجد میں آ نا اور قرآن کریم پڑھنا حرام ہے ۔ { عرف الجادی ص15 }
دوسرا نظریہ : دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اگر حیض والی عورت متعلمہ ہے تو وہ قرآن کریم کی تلاوت بھی کر سکتی ہے اور ہاتھ بھی لگا سکتی ہے ۔ چناچہ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صاحب لکھتے ہیں ۔ ورخصواللحائضۃ المتعلمۃ فی مس المصحف والتلاوۃ ۔{ نزل الابرار ج1 ص 26 }
یعنی غیر مقلدین حضرات نے طالبہ کے لئے جب کہ وہ حٰض کی حالت میں ہو تو اس کو قرآن کریم کو ہاتھ لگانے اور تلاوت کی اجازت دی ہے ۔
اسی طرح وہ اپنی کتاب کنزالحقائق ص 15 میں بھی حیض میں مبتلا طالبہ کے لئے قرآن کریم کو ہاتھ لگانے اور تلاوت کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔
محترم قارئین : فیصلہ آپ خود فرما لیں کہ ہاتھی کہ دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کی مانند غیر مقلدین کا اپنا کیا حال ہے ۔
تعظیم قبلہ : مسلمان قبلہ کی تعظیم کرتے ہیں اور ایسے کام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جو قبلہ کی توہین کا باعث ہو اور جمہور مسلمان قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے پیشاب وغیرہ کرنے کو اور اسی طرح بلا عزر قبلہ کی جانب پاؤں پھیلانے کو بھی تعظیم کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ مگر غیر مقلدین کے اس بارہ میں دو نظریات ہیں ۔
پہلا نظریہ : پہلا نظریہ تعمیر شدہ بیت الخلاء میں اگر کوئی بیٹھ کر پیشاب وغیرہ کرے تو پھر کعبہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
چناچہ ایک سوال میں لکھا گیا کہ : قضائے حاجت کا کیا طریقہ ہے ؟
تو جواب دیا گیا کہ بیٹھنے کے وقت زمین کے قریب ہو کر کپڑا اٹھانا چاہیے قبلہ کی طرف منہ اور پیٹھ کرنے سے پرہیز رکھے ہاں اگر آگے پیچھے پردہ ہو تو کوئی حرج نہیں ۔ { فتاوٰی اہلحدیث ج1 ص251}
اسی طرح قضائے حاجت کے مسائل بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ۔ پیشاب یا پخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا یا پیٹھ کرنا منع ہے ۔ بیت الخلاء میں بوقت ضرورت جائز ہے ۔ { فتاوٰی علمائے حدیث ج1ص33}
دوسرا نظریہ : دوسرا نظریہ یہ ہے کہ پیچاب اور پخانہ کی حالت میںقبلہ کی طرف منہ اور پیٹھ کرنا منع ہے خواہ کھلی جگہ ہو یا تعمیر شدہ بیت الخلاء ہو ۔ چناچہ نواب مولانا نورالحسن خان بھوپالی لکھتے ہیں ۔ واستقبال واستدبارقبلہ نزدریدن و شاشدن ۔
{ عرف الجادی ص11}
اسی طرح غیر مقلد عالم محدث مبارکپوری صاحب اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فالحاصل ان اولی الاقوال واقواھا عندی واللہ اعلم ھو قول من قال انہ لایجوزالاستقبال والاستدبار مطلقا ۔ { تحفۃ الاحوذی ج1ص20}
تو اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ : ان اقوال میں سے سب سے بہتر اور قوی قول میرے نزدیک ان لوگوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ متلقا { خواہ کھلی جگہ ہو یا بیت الخلاء میں } قبلہ کی طرف منہ کرنا یا پیٹھ کرنا منع ہے ۔ واللہ اعلم
محترم قارئین : غیر مقلد علماء کے نظریات ملاحظہ فرمالیں ایک صاحب فرما رہے ہیں کہ قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر سکتے ہیں اور دوسرا صاحب فرما رہے ہیں کہ قطعا نہیں کر سکتے ۔
جرابوں پر مسح کرنا : جرابوں پر مسح کرنے کے بارہ میں غیر مقلدین کے دو نظریئے ہیں ۔
پہلا نظریہ : پہلا نظریہ یہ ہے کہ ہر قسم کی جرابوب پر مسح جائز ہے ۔ چناچہ اس بارہ میں سوال ہوا تو جواب دیا گیا کہ : پائتا {جراب} پر مسح کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ؛ فتاوٰی ثنائیہ ج1ص441}
مولانا محمد صادق سیالکوٹی صاحب جرابوں پر مسح کی بحث کر کے آخر میں لکھتے ہیں ۔ پس ثابت ہوا کہ جورب پاؤں کے لفافے یا لباس کو کہتے ہیں وہ لباس خواہ چرمی ہو ، خواہ سوتی یا اونی وغیرہ ہم اس پر مسح کر سکتے ہیں ۔ { صلوۃ رسول ص111 }
دوسرا نظریہ : دوسرا نظریہ ہے کہ پتلی جرابوں پر مسح کرنا درست نہیں ہے چناچہ ایک سوال کے جواب میں مولانا ابوالبرکات صاحب لکھتے ہیں جسکی تصدیق محدث گوندلوی مرحوم نے کی ہے ۔ جرابوں پر مسح والی حدیث ضعیف ہے جس سے قرآن کی تخصیص درست نہیں لہٰزا ہم شرط لگاتے ہیں کہ جرابیں موٹی ہونے کی صورت میں مسح جائز ہے ۔ اگر موٹی نہیں تو پھر جائز نہیں ۔ { فتاوی برکاتیہ ص224 }
ایک سوال کے جواب میں مبارکپوری صاحب لکھتے ہیں ۔ المسح علی الجوربۃ لیس بجائز لانہ لم یقم علا جوازہ دلیل صحیح ۔ { فتاوی ثنائیہ ج1 ص243}
کہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے اسلئے کہ اس کے جواز پر کوئی صحیح دلیل نہیں ہے
ایک سوال ہو کہ اونی جرابوں پر مسح جائز ہے یا نہیں ؟ تو جواب دیا گیا مزکورہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے ۔ { فتاوی نزیریہ ج1 ص337 }
محترم قارئین : فیصلہ آپ خود فرما لیں ایک صاحب فرما رہیے ہیں کہ جرابوں پر مسح جائز ہے اوردوسرے حضرت فرما رہے ہیں کہ جائز نہیں ۔ (ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment