Monday 14 September 2015

اہلسُنّت و جماعت احناف کی نماز احادیث کی روشنی میں حصّہ دوم


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امام احمد بن حنبل رضی اﷲ عنہ اپنی مسند میں سند جیّد کے ساتھ روایت کرتے ہیں:

عن علی رضی اﷲ عنہ قال ان من السنۃ فی الصلوٰۃ وضع الاکف علی الاکف تحت السرۃ

یعنی حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے۔ آپ بیان فرماتے ہیں کہ نماز میں سنت کریمہ یہ ہے کہ ہتھیلیوں کو ناف کے نیچے رکھا جائے۔

امام دارقطنی یوں رقم طراز ہیں:

عن علی رضی اﷲ عنہ انہ کان یقول ان من سنۃ الصلوٰۃ وضع الیمین علی الشمال تحت السرۃ

یعنی حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں سنت کریمہ یہ ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔

امام ابو دائود یوں رقم طراز ہیں:

عن ابی جحیفۃ ان علی ان علیاً رضی اﷲ عنہ قال من السنۃ وضع الکف علی الکف فی الصلوٰۃ تحت السرۃ

ابو جحیفہ سے مروی ہے کہ حضرت مولائے کائنات رضی اﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا۔ سنت کریمہ یہ ہے کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔

ہمارے برصغیر کے ناشرین نے سنن ابی دائود کے نسخوں میں اس حدیث کو متناً شامل نہیں کیا البتہ حاشیہ میں اس حدیث پاک کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ حدیث پاک صرف ابن اعرابی کے نسخہ ابی دائود میں موجود ہے۔ الغرض مذکورہ کتب ثلثہ کی روایت سے واضح معلوم ہوا کہ خلیفہ ارشد مولائے کائنات رضی اﷲ عنہ بھی اس طریقے کو سنت کریمہ قرار دے چکے ہیں۔ اور یہ قطعی بات ہے کہ صحابی رسول کا کس عمل کو سنت قرار دینا اس سے مراد سنت مصطفی ہی ہے اور کس کی سنت ہوگی تابعی ہے تو سمجھ میں آسکتا ہے اس سے مراد سنت صحابی ہو مگر جب صحابی کہہ دیا ہے تو مراد سنت رسول ہے۔

امیر المومنین فی الحدیث امام ابو عبداﷲ محمد بن اسماعیل البخاری علیہ الرحمہ اپنی ’’صحیح‘‘ کتاب الصلوٰۃ کے ’’باب الیمنی علی الیسریٰ فی الصلوٰۃ‘‘ جلد اول ص 152 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ پر یوں رقم طراز ہیں۔

قال حدثنا عبداﷲ بن مسلمۃ، عن مالک، عن ابی حازم عن سہل بن سعد قال کان الناس یؤمرون ان یضع الرجل الید الیمنی علی ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ قال ابو حازم لا اعلمۃ الا ینمی ذالک الی النبیﷺ قال اسماعیل و ینمیٰ ذالک ولم یقل ینمی

امام بخاری فرماتے ہیں۔ ہمیں عبداﷲ بن مسلمہ نے حدیث بیان کی از امام مالک از ابی حازم از سہل بن سعد، انہوں نے بیان کیا کہ لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ ایک شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھے۔ ابو حازم نے کہا کہ سہل نے اس قول کو صرف نبی کریمﷺ کی طرف منسوب کیا ہے اور اسماعیل نے کہا اس قول کو منسوب کیا جاتا ہے اور یہ نہیں کہا کہ سہل نے اس قول کو منسوب کیا ہے۔

نوٹ: اس حدیث مبارک کے رجال چاروں معتبر اور ثقہ ہیں۔ ان کی ثقاہت پر ناقدین کے تبصرے شاہد ہیں۔ غیر مقلدین اپنی من گھڑت سے ضعف ثابت کریں تو دھوکہ نہ سمجھا جائے۔

اس حدیث بخاری سے واضح ہوگیا کہ قیام میں ہاتھ باندھنا مسنون ہے۔ ابوبکر صدیق، مولا علی، امام ثوری، امام شافعی، امام احمد، اسحق وغیرہم کا مذہب یہی ہے کہ قیام میں ہاتھ باندھے جائیں گے۔ بعض فقہاء مائل ہیں اس بات کے کہ ہاتھ کھلے رکھے جائیں لیکن یہ بات پایہ تحقیق کو نہیں پہنچی۔ ایک قول یہ ہے کہ سینہ پرہاتھ باندھنے میں زیادہ خشوع ہے کیونکہ اس میں نماز میں نور ایمان کی حفاظت ہے۔ لہذا یہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھ کر شرمگاہ کی طرف اشارہ کرنے سے افضل ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا تعظیم کے زیادہ قریب ہے اور شرمگاہ کو چھپانے اور تہبند کو پھسل کر گرنے سے محفوظ رکھنے کا سبب ہے اور یہ ایسے ہے جیسے بادشاہوں کے سامنے لوگ ادب سے کھڑے ہوتے ہیں اور سینہ پر ہاتھ باندھنے میں عورتوں سے تشبیہ ہے۔

(عمدۃ القاری ج 5، ص 408,407، شرح ابن بطال)

اب رہا مسئلہ یہ کہ سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایت کی توجیہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے حدیث ملاحظہ کیجئے۔

امام بیہقی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:

عن وائل رضی اﷲ عنہ انہ رایٔ النبیﷺ وضع المینہ علی شمالہ ثم وضعھما علی صدرہ

حضرت وائل بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ نبی کریمﷺ نے دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا پھر دونوں ہاتھ سینے پر رکھے۔

اس حدیث کے تحت علامہ ترکمانی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:

اس حدیث کی سند میں محمد بن حجر ہے ذہبی کہتے ہیں کہ وہ اپنے چچا سعید سے منکر روایات کرتا ہے، اور ایک راوی ام جبار ہے یہ غیر معروف ہے، نیز امام بیہقی نے کہا ہے اس حدیث کو مومل نے بھی یہ روایت کیا ہے صاحب الکمال نے کہا کہ اس مومل کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ اس نے اپنی کتابیں دفن کردی تھیں اور اپنے حافظہ سے احادیث بیان کرتا تھا۔ اور اس سے بہت خطائیں ہوتی تھیں، اور میزان میں امام بخاری نے کہا یہ منکر الحدیث ہے۔ امام ابو حاتم نے کہا کہ یہ کثیر الخطاء ہے۔

امام ابو ذرعہ نے کہا کہ اس حدیث میں بہت خطا ہے۔ پھر امام بیہقی نے حضرت مولائے کائنات سے سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کی سند اور متن میں اضطراب ہے۔ پھر امام بیہقی نے روح بن مسیب کی سند سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے سینے پر ہاتھ باندھے، اس روح کے متعلق ابن عدی نے کہا کہ یہ ثابت اور ہزیدر قاشی سے غیر محفوظ احادیث روایت کرتا ہے۔ ابن حبان نے کہا یہ موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔ اس سے روایت کرنا جائز نہیں۔ ابن عدی عمرو فکری نے کہا کہ یہ ثقافت سے منکر احادیث روایت کرتا ہے اور یہ مسارق الحدیث ہے۔ ابو یعلیٰ موصلی نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ پھر امام بیہقی نے ابو مجلز سے ناف کے اوپر ہاتھ باندھے کو نقل کیا ہے۔ یہ صراحتاً غلط ہے کیونکہ ابو مجلز کا مذہب ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہے۔ جیسا کہ ابو عمر نے سند جید کے ساتھ تمہید میں اور امام بخاری کے استاذ الاستاذ امام ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں ان کی روایت بیان کی ہے۔ ابن معین نے بھی بیہقی پر یہ اعتراض کیا ہے کہ انہوں نے بغیر سند کے ابو مجلز کی طرف سینے پر ہاتھ باندھنے والی بات منسوب کردی ہے۔

ابن حزم نے کہا ہے کہ ہم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے یہ روایت کیا ہے کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ پر ہاتھ رکھے جائیں اور سیدنا انس بن مالک نے کہا ہے کہ تین چیزیں اخلاق نبوت سے ہیں اور وہ یہ ہیں۔

(1) افطار جلدی کرنا، (2) سحری تاخیر سے کرنا، (3) نماز میں بحالت قیام اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا

الحاصل سینے پر ہاتھ باندھنے والی تمام روایات سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی احادیث کریمہ میں سے صرف ایک حدیث کی سند کو بیہقی نے ضعیف قرار دیا ہے حالانکہ یہ حدیث متعدد سندوں سے ثابت ہے اس لئے یہ حدیث راجح ہے۔ نیز فقہائے احناف نے دونوں حدیثوں پر عمل کیا ہے۔ اس طرح کہ مردوں کے حق میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی حدیثوں پر عمل کیا ہے کہ طریقہ نبوی یہی رہا ہے اور عورتوں کے حق میں سینے پر ہاتھ باندھنے والی حدیثوں پر عمل کیا ہے کیونکہ ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہا کا طریقہ یہی رہا ہے، اس میں یہی تطبیق ممکن و بہتر ہے اور دونوں کے حق میں یہی طریقہ ادب و تواضع کے زیادہ قریب ہے اور انسانیت کے زیادہ لائق قرار دیئے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔

ارشاد رب العزت جل مجدہ ہے
واصبر لحکم ربک فانک باعیننا وسبح  بحمد ربک حین تقوم (سورۂ طور آیت ۴۸،پ ۲۷)

ترجمہ کنزالایمان: اور اے محبوب، تم اپنے رب کے حکم پر ٹھہرے رہو کہ بے شک تم ہماری نگہداشت میں ہو اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو، جب تم کھڑے ہو۔
اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر میں مرقوم ہے وسبح بحمد ربک حین تقوم سے مراد تکبیر اولیٰ کے بعد سبحانک اللہم مراد ہے (خزائن العرفان ص ۹۴۵)

خاتم المحققین علامہ سید محمود آلوسی بغدادی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:
اخرج سعید بن منصور وغیرہ عن الضحاک انہ قال فی الآیۃ حین تقوم الی الصلوٰۃ تقول ہؤ لاء الکلمات سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک (روح المعانی ج ۱۴،ص ۴۰)
سعید بن منصور وغیرہ نے حضرت ضحاک رضی اﷲ عنہ سے تخریج کی ہے کہ وہ اس آیت کریمہ کے بارے میں فرماتے تھے کہ جب تو نماز کے لئے قیام کر تو یہ کلمات تسبیح کہہ لیا کر
سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک
امام ابو عبداﷲ محمد بن احمد انصاری قرطبی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:
قال الضحاک، انہ التسبیح فی الصلوٰۃ اذا قام الیہا، الماوردی وفی ہذا التسبیح قولان احدہما وہو قولہ سبحان ربی العظیم فی الرکوع وسبحان ربی الاعلیٰ فی السجود، الثانی انہ التوجہ فی الصلوٰۃ یقول سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک
قال ابن العربی انہ التسبیح الصلوٰۃ فہذا افضلہ، والآثار فی ذالک کثیرۃ اعظمہا ما ثبت عن علی ابن ابی طالب رضی اﷲ عنہ (تفسیر جامع احکام القرآن للقرطبی، ج ۱۷، ص ۸۱، طبع رشیدیہ کوئٹہ)
امام جلیل محی السنہ ابو محمد حسین بن مسعود البغوی الشافعی المتوفی ۵۱۶ھ رقم طراز ہیں:
وقال الضحاک والربیع اذا قمت الی الصلوٰۃ فقل سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک، اخبرنا ابو عثمان الضبی اخبرنا ابو محمد الجراحی حدثنا ابو العباس المجنولی حدثنا ابو عیسٰی الترمذی حدثنا الحسن بن عرفۃ ویحییٰ بن موسیٰ قال حدثنا ابو معاویۃ عن حارثۃ بن ابی الرجال عن عمرۃ عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا قالت، کان النبیﷺ اذا افتتح الصلوٰۃ قال، سبحنک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الٰہ غیرک (تفسیر معالم التنزیل ج ۴، ص ۲۴۳، مطبوعہ ادارہ تالیفات ،ملتان)
امام قرطبی و امام بغوی علیہما الرحمہ کی عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ضحاک اور امام ربیع فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں ’’حین تقوم‘‘ سے مراد قیام نماز ہے کہ جب نمازی قیام کرے تو اس طرح تسبیح کرے
سبحانک اللہم وبحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الیٰ غیرک
نیز ام المومنین سیدہ صدیقہ بنت صدیق رضی اﷲ عنہا سے بھی مراوی ہے کہ حضور پرنور شفیع یوم النشورﷺ جب نماز کا آغاز فرماتے تو یہ کہتے
سبحنک اللہم وبحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک
اور ابن عربی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جن حضرات نے اس آیت کریمہ ’’وسبح بحمد ربک الایہ‘‘ میں نماز کی تسبیح ’’سبحانک اللہم‘‘ مراد لی ہے۔ وہ افضل مراد ہے، آثار کثیرہ اسی کی تائید کرتے ہیں۔ سب سے بڑی دلیل وہ ہے جو مولائے کائنات کرم اﷲ وجہ سے مروی ہے۔
ماوردی کے حوالے سے بھی دو قول میں سے ایک یہی ہے کہ اس سے مراد سبحانک اللھم وبحمدک الخ ہے
امام ابو عیسٰی محمد بن عیسٰی بن سورد ترمذی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:
عن ابی سعید ن الخدری قال کان رسول اﷲﷺ اذا قام الی الصلوٰۃ باللیل کبر ثم یقول سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک

دوسری جگہ رقم طراز ہیں

عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا قالت کان النبیﷺ اذا افتح الصلوٰۃ قال سبحانک اللہم وبحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک

(جامع الترمذی ج اول ، ص ۵۸، مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی، کراچی)

امام ترمذی کے علاوہ علامہ علی قاری اور دیگر محدثین کرام رحمہم اﷲ نے بھی ان دونوں روایتوں کو ذکر کیا ہے جس میںواضح طور پر یہ موجود ہے کہ ابو سعید خدری اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتے ہیں کہ آنحضورﷺ جب افتتاح صلوٰۃ فرماتے سبحانک اللہم وبحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک ۔

ثناء کے بعد ’’قرأت‘‘ کی جاتی ہے۔ اس سے قبل حنفی تعوذ اور تسمیہ پڑھتے ہیں۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ قرأت قرآن سے قبل ’’تعوذ‘‘ کا حکم خدائے بزرگ وبرتر نے اپنے لاریب کلام مجید میں یوں ارشاد فرمایا:
فاذا قرأت القرآن فاستعذ باﷲ من الشیطن الرجیم
تو جب تم قرآن پڑھو تو اﷲ کی پناہ مانگو شیطان مردود سے (النحل 98)
تفاسیر معتبرہ میں ہے کہ تلاوت قرآن سے پہلے تعوذ پڑھنا مسنون ہے اور نماز میں امام اور تنہا پڑھنے والے کے لئے سبحانک اللہم سے فارغ ہوکر آہستہ اعوذ باﷲ پڑھنا سنت ہے۔ یاد رہے تعوذ اور تسمیہ نماز میں آہستہ پڑھنا سنت ہے۔ بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ حضورﷺ اور شیخین کریمین رضی اﷲ عنہما نماز کی بلند قرأت ’’الحمد ﷲ رب العالمین‘‘ سے شروع کرتے تھے۔ (خلاصہ تفسیر روح المعانی و خزائن العرفان)
امام ابو عیسٰی محمد بن عیسٰی ترمذی علیہ الرحمہ اپنی جامع کی جلد اول ص 57 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل پاکستان چوک کراچی میں رقم طراز ہیں:
عن ابی سعید نالخدری قال کان رسول اﷲﷺ اذا قام الی الصلوٰۃ باللیل کبرثمہ یقول سبحانک اللھم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الٰہ غیرک، ثم یقول اﷲ اکبر کبیراً ثم یقول اعوذ باﷲ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم الخ
یعنی: رسول اﷲﷺ جب نماز پڑھنے کے لئے رات کو قیام فرماتے تو اولاً سبحانک اللھم پڑھتے پھر (نوافل میں) اﷲ اکبر کبیراً بھی کہتے پھر تعوذ پڑھتے،
اعوذ باﷲ السمیع العلیم من الشیطٰن الرجیم
اس حدیث پاک میں بھی قرأت سے پہلے اعوذ باﷲ پڑھنے کا ثبوت موجود ہے۔
امام ترمذی علیہ الرحمہ اس سے اگلے باب میں رقم طراز ہیں۔
عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما قال کان النبیﷺ یفتتح صلوٰۃ بسم اﷲ الرحمن الرحیم
یعنی: ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی پاکﷺ ’’سبحانک اللھم‘‘ کے بعد اور تعوذ کے بعد افتتاح قرأت بسم اﷲ سے کرتے تھے۔
اس کے بعد والے باب میں یوں رقم طراز ہیں۔
عن انس قال کان رسول اﷲﷺ و ابوبکر و عمر و عثمان یفتتحون القرأۃ بالحمد ﷲ رب العالمین
یعنی: حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اﷲ عنہم اپنی قرأت کا (جھہراً) آغاز الحمد رب العالمین سے کرتے تھے۔ اس کے بعد وقال ابو عیسٰی ہذا حدیث حسن صحیح کہہ کر یہ تبصرہ بھی کرتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور مزید لکھتے ہیں کہ:
والعمل علی ہذا عند اہل العلم من اصحاب النبیﷺ والتابعین ومن بعدہم
یعنی: اصحاب، تابعین اور تبع تابعین کا یہی عمل رہا ہے کہ اولاً تعوذ، پھر تسمیہ اور پھر اپنی قرأت کا آغاز فاتحتہ الکتاب سے کرتے تھے۔ بلکہ اس سے آگے چل کر فرماتے ہیں کہ (احناف کی طرح) امام شافعی علیہ الرحمہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ فاتحۃ الکتاب سے آغاز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے تعوذ و تسمیہ پڑھتے تھے انتہیٰ… البتہ باقاعدہ قرأت کا آغاز فاتحہ سے ہوتا تھا۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ امام شافعی بسم اﷲ کی جہری قرأت کے قائل ہیں، احناف اس بات کے قائل ہیں کہ نماز میں جہری یاسری قرأت ہو دونوں میں تعوذ و تسمیہ آہستہ ہی پڑھی جائیں گی کیونکہ جہراً ان کا پڑھنا سنت صحیحہ مرفوعہ سے ثابت نہیں ہے۔
ایمان کی حفاظت کا وظیفہ
اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَاَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ
اے اﷲ مجھے میری ہدایت عطا فرما اور مجھے میرے نفس کے شر سے بچا
نوٹ: اول و آخر ایک بار درود شریف پڑھ کر مذکورہ بالا وظیفہ دن میں تین مرتبہ پڑھنے والے کا ایمان محفوظ رہے گا، اوراد ووظائف کی تاثیر کے لئے باجماعت نماز اور تلفظ کی درستگی ضروری ہے۔ اس شرط کے ساتھ ہر شخص مسلمان مرد وزن کو میری طرف سے اس کی اجازت عام ہے۔

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...