Monday 14 September 2015

اہلسُنّت و جماعت احناف کی نماز احادیث کی روشنی میں حصّہ اوّل


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اﷲ رب العزت جل مجدہ نے ارشاد فرمایا

واعتصموا بحبل اﷲ جمیعاً ولاتفرقوا (آل عمران آیت 103)

ترجمہ کنزالایمان: اور اﷲ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا

اس کی تفسیر میں ’’حبل اﷲ‘‘ سے مراد اسلام یا بانی اسلام کی ہستی ہے اور اسلام کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے

ان الدین عنداﷲ الاسلام (آل عمران آیت 19)

ترجمہ کنزالایمان: بے شک اﷲ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔

نیز بانی اسلام کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے

لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنہ (الاحزاب آیت 21)

ترجمہ کنزالایمان: بے شک تمہیں رسول اﷲ کی پیروی بہتر ہے

ان مذکورہ ہر دوآیتوں سے معلوم ہوا کہ اسلام ہی دین حق ہے اور اس کے مدمقابل سب ادیان، ادیان باطلہ ہیں۔ ان میں خواہ یہودیت وعیسائیت ہو یا ہندومت و سکھ ہو سب باطل ہیں۔ اسی طرح اسلام کے اندر اعمال کا دارومدار بانی اسلام کی سیرت طیبہ پر ہے۔ اس کو نمونہ کاملہ قرار دیا ہے، جبکہ پہلی آیت کریمہ نے یہ بھی بتادیا کہ اسلام ہی کو تھامے رہو اور فرقوں میں مت بٹ جائو۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ اسلام کا دامن تھام کر سیرت طیبہ کے مطابق عمل اختیار کرو۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے اندر فرقوں کے بنانے کی ممانعت کے باوجود لوگوں نے فرقے تو بنالئے۔ اب اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کیسے ہوگی کہ اصل حقیقی اسلام پر عمل کرنے والے گروہ کا تعین ہم کیسے کریں؟ اور گمراہ فرقوں کو ہم کیسے پہچانیں؟ تو آیئے استاذ المحدثین، امام ابو عیسٰی ترمذی کی جامع ’’ابواب الایمان عن رسول‘‘ کے باب ’’افتراق ہذہ الامۃ‘‘ کی درج ذیل حدیث پڑھیئے

ارشاد نبوی ہے:

ستفترق امتی ثلثا و سبعین فرقۃً، کلہم فی النار الاواحدۃ

عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، سوائے ایک کے سب جہنمی ہوں گے

صحابہ عرض گزار ہوئے:

من ہم یارسول اﷲ

وہ نجات پانے والے لوگ کون ہوں گے یارسول اﷲﷺ

ارشاد فرمایا:

ما انا علیہ واصحابی

جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں (ترمذی ج 2 ص 92، مطبوعہ کراچی)

دوسری روایت میں ہے :

ہم الجماعۃ (ابو داؤد) وہ جماعت ہوگی

احیاء علوم الدین الغزالی میں ہے:

ہم اہل السنۃ والجماعۃ (احیاء العلوم)

وہ اہل سنت و جماعت ہوں گے

امام علی قاری حنفی مکی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، غوث اعظم جیلانی، مجدد الف ثانی امام زینی دحلان مکی، سید یوسف بن اسماعیل مدنی، امام شامی، امام حصکفی ، امام احمد رضا حنفی رحمہم اﷲ کا اتفاق ہے کہ نجات یافتہ گروہ ’’اہل سنت جماعت‘‘ ہے اس کے سوا فرقے گمراہ، گمراہ گر اور ان میں بعض سرحد دین سے نکل کر اور ضروریات دین کا انکار کرکے کافر و مرتد ہوچکے ہیں۔

اب جب یہ واضح ہوچکا ہے کہ اسلام کے تہتر فرقوں میں سے ’’اہل سنت و جماعت‘‘ ہی اہل حق اور صحیح العقیدہ راسخ مسلمان افراد ہیں، ان کے عقائد و نظریات اسلام کے مطابق ہیں اور ان کے علاوہ دیگر فرقے خوارج و روافض و غیرہما گمراہ ہیں تو اسی نجات یافتہ گروہ کے عقائد کے مطابق عقائد اپنانا لازم ہوا۔ اس تصحیح عقائد کے بعد فرائض میں سے اعظم فرض نماز ہے کہ کلمہ اسلام کے بعد اہم ترین رکن اسلام ہے۔

ابن عمر رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے۔

بنی الاسلام علی خمس، شہادۃ ان لا الہ الا اﷲ وان محمد عبدہ و رسولہ، واقام الصلوٰۃ و ایتاء الزکوٰۃ، وصوم رمضان و حج البیت من استطاع الیہ

اسلام کی نورانی عمارت کی بنیاد ارکان خمسہ پر ہے۔ (1) اﷲ کی وحدانیت اور رسول کی عبدیت و رسالت کی گواہی دینا (2) نماز قائم کرنا (3) زکوٰۃ ادا کرنا (4) رمضان کے روزے رکھنا (5) استطاعت والے پر حج بیت اﷲ کرنا (بخاری و مسلم)

یاد رہے ان میں سے کسی ایک کا انکار بھی کفر ہے اور باوجود اقرار کے اپنی شرائط کے ساتھ جب کسی پر ادائیگی فرض ہو ایک مرتبہ بے عذر ترک کبیرہ اور اس کی عادت بنانا فسق و فجور اور بربادی ایمان کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ ان میں سے خاص طور پر نماز ہر مومن مرد و عورت، عاقل و بالغ، آزاد و غلام، مقیم و مسافر پر پنجگانہ فرض عین ہے کہ بغیر اس کے خود ادا کئے دوسرے کی طرف سے ادائیگی نہ ہوگی اور اسے مومن و کافر کے درمیان ’’فرق‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی ادائیگی بھی ’’اسوہ حسنہ‘‘ کی روشنی میں ہوگی۔

چنانچہ خود رہبر اعظمﷺ کا فرمان ہدایت نشان ہے

صلوا کما رأیتمونی اصلی (بخاری شریف)

نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھو

اب قابل غور بات یہ ہے کہ خود حضور جان عالمﷺ نے نماز کی ادائیگی کیسے فرمائی تو اس سلسلے میں احادیث کریمہ اور سیرت طیبہ کی کتابیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان سے ہمیں اندازہ ہوسکتا ہے کہ ارکان نماز کی ادائیگی کا صحیح مسنون طریقہ کون سا ہے؟ آیا وہ کون سا عمل ہے جسے حضورﷺ نے ادا کیا اور پھر ترک کردیا۔ وہ کون سا عمل ہے جسے پہلے نہ کیا اور بعد میںاختیار کرلیا، کس عمل کے کرنے کی پہلے اجازت عطا فرمائی اور بعد میں اس کے کرنے سے سختی کے ساتھ روک دیا۔ بلکہ اعظم ارکان نمازتکبیر تحریمہ، قیام، قرأت، رکوع، سجود کی طرف تو خود قرآن عظیم نے ہماری رہنمائی کے لئے ارشادات سے ہمیں نوازا پھر یہ جھگڑے کیوں؟ ارشاد الٰہی ’’وربک فکبر‘‘ میں تکبیر تحریمہ ’’وقوموا الی اﷲ قانتین‘‘ میں قیام اور ’’فاقراء وما تیسر من القرآن‘‘میں قرأت ’’وارکعوا مع الراکعین‘‘ میں رکوع اور ’’واسجد واقترب‘‘میں سجود کا بیان واضح اور صاف ترین الفاظ میں موجودہے۔ اب رہا ان کی ادائیگی کا اصلی دائمی مسنون طریقہ جس کو منسوخ نہ کہہ سکیں جو حتمی ہو، جس پر حضورﷺ کا آخری عمر مبارک میں وصال سے پہلے تک مسلسل عمل ثابت ہو، وہ نماز کے سلسلے میں ’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہوگا۔ اس کے لئے اکابر صحابہ کے ارشادات سے موید طریقہ نماز ہمیں احادیث کریمہ کی معتبر کتب علی الخصوص صحاح ستہ اور مولفین صحاح کے اساتذہ کرام کی کتب سے اس کا طریقہ معلوم ہوسکتا ہے۔ اس کو ہمارے ائمہ کبار علی الخصوص امام اعظم ابو حنیفہ سیدنا نعمان ابن ثابت کوفی رضی اﷲ عنہ سے واضح کرکے بیان کردیا۔ مگر بات یہ ہے کہ دور حاضر میں ایک المیہ بقول پروفیسر محمد حسین آسی مدظلہ العالی یہ ہے، آپ اس کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں ’’ملت اسلامیہ جو اتحاد انسانیت کی علمبردار ہے خود انتشار کا شکار ہے‘‘ پھر یہ بات بھی انتہائی افسوس ناک ہے کہ جو چیزیں بالخصوص اتحاد کا سبق سکھاتی ہیں، ان کے نام سے بھی انتشار پھیلایا جاتا ہے مثلا یہی نماز اور پھر کتنے مسلمان اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔ نماز کے بارے میں موجودہ اختلافات محض علم و تحقیق کی بناء پرنہیں (جیسے قرون اولیٰ میں تھے) بلکہ اس میں بھی غیروں کا ہاتھ ہے۔علم و تحقیق کی بناء پر جو اختلاف کرتے تھے، وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، جیسا کہ مشہور روایت ہے کہ حضرت امام شافعی رضی اﷲ عنہ، حضرت امام اعظم رضی اﷲ عنہ کے مزار پرانوار پر حاضر ہوتے تو اپنی تحقیق کے بجائے ان کی تحقیق پر چلتے ہوئے نماز ادا کرتے تھے (اس کا ثبوت امام اعظم کی سیرت کی کئی ان کتابوں میں بھی موجود ہے جو شوافع  لکھی ہیں) برصغیر پاک و ہند میں موجودہ دور میں اختلافات کاآغاز انگریزوں کی آمد کے بعد ہوا اور انگریزوں کی شہ سے ہوا۔ اصل میں جس بات پر مسلمانوں کا اتفاق تھا، اسی کو نشانہ بنایاگیا تاکہ مسلمانوں کاشیرازہ بکھر جائے اور کسی بیرونی دشمن کا مقابلہ کرنے سے پہلے ایک دوسرے سے لڑبھڑ کر کمزور ہوجائیں، کون نہیں جانتا بخاری شریف پہلے پہل اس خطے میں اس وقت آئی، جب اسلام آیا، مگر بخاری شریف کے نام پر لڑائی جنگ آزادی 1857ء سے تیس چالیس سال پہلے شروع ہوئی، انگریزوں سے پہلے بڑے بڑے صوفیا،علماء اپنے اپنے دور میں جلوہ گر رہے مگر سب نے کتاب و سنت کی اس تعبیر پر عمل کیا جسے فقہ حنفی کہا جاتا ہے۔ انگریز مداری اپنا تماشا دکھا کرواپس چلاگیامگر جن کے ذریعہ مسلمانوں میں انتشار پھیلایا گیا تھا، وہ یہیں رہ گئے اور اب تک حق نمک ادا کررہے ہیں، امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا، آمین اونچی آواز سے کہنا اور رکوع و سجود میں جاتے ہوئے ہاتھ اٹھاناوغیرہ فروعی مسائل میں کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک دوسرے کو چیلنج کرکے مناظروں کے پوسٹرز لگادیئے جاتے ہیں جن میں اسی قسم کی ابحاث پر زور دیا گیا ہے جبکہ ملت اسلامیہ کے از حد نازک دور ہے اور اسلام دشمن قوتوں کا ناپاک ترین منصوبہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الجھایا جائے۔

اصل بات یہ قابل غور ہے کہ آج عالمگیر سطح پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں بالعموم اور اسکول کالج کے طلبہ میں بالخصوص یہ بات ذہن نشین کرانے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے کہ جو بات ’’بخاری شریف‘‘ میں نہ ہو وہ قابل تسلیم ہی نہیں۔ اس کا صاف مطلب تو یہ ہوا کہ (معاذ اﷲ) بخاری شریف کا درجہ قرآن شریف سے بھی زیادہ ہوگیا حالانکہ امام اعظم رضی اﷲ عنہ امام بخاری کے چھٹے درجے میں امام مسلم کے ساتویں درجے میں اور امام ترمذی کے آٹھویں درجے میں استاذ ہیں اور یہ تینوں محدثین کرام صحاح ستہ میں اپنا علمی مقام دیگر تین محدثین ابن ماجہ، ابو دائود و نسائی رحمہم اﷲ سے زیادہ رکھتے ہیں۔ اور لطف کی بات تو یہ ہے کہ خود ان تینوں مذکورہ محدثین، امام بخاری،مسلم و ترمذی نے اپنی اپنی اسناد صحیحہ کے ساتھ یہ حدیث بیان کی جس میں امام الانبیائﷺ نے حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا:

لوکان الایمان عند الثریا لنالہ رجل من ہٰؤلآء

یعنی اگر ایمان ثریا ستارے کے نزدیک بھی ہوتا، ان (عجمیوں) میں ایک شخص اسے ضرور پالیتا۔ بعض دیگر روایتوں میں ایمان کی جگہ علم اور دین کے الفاظ میں مذکور ہیں۔ بہرحال اتفاقی طور پر اس کا مصداق امام اعظم رضی اﷲ عنہ کی ہستی قرار دیئے گئے ہیں۔ آپ کی ولادت 80ھ یا 70ھ میں آپ کی وجہ سے آپ نے اولین تابعین کا زمانہ گزارا۔ لگ بھگ بیس صحابہ کرام کی زیارت سے مستفیض ہوئے۔ ان میں سے بعض سے روایات ہیں ابو موسیٰ اشعری، حضرت مولا علی و ابن مسعود وغیرہم رضی اﷲ عنہما کی وجہ سے جوکہ پہلے ہی علم کا مرکز بنا ہوا تھا اور امام اعظم کی علمی نسبت فقہی شجرہ افقہ الصحابہ بعد الخلفاء الراشدہ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ کے ذریعے حضورﷺ تک متصل ہونے کی وجہ سے آپ کی فقاہت دیگر فقہائے امت سے ممتاز ہے۔ اس لئے کہ آپ نے فقہ امام حماد سے انہوں نے ابراہیم نخعی سے انہوں نے حضرت علقمہ واسود سے انہوں نے ابن مسعود سے اور انہوں نے براہراست معلم کائناتﷺ سے اخذ علم کیا۔ اس کے علاوہ امام اعظم نے اپنے تلامذہ کی ایک جماعت فقہاء تیار کرکے ان کی شوریٰ بنائی اور اجتماعی طور پر ان حضرات کی رائے سے طے کردہ مسائل کا مجموعہ ’’فقہ حنفی‘‘ کہلاتا ہے۔ ان سب وجوہات کی وجہ سے ’’فقہ حنفی‘‘ کی برتری مسلّم ہے مگر کچھ ناعاقبت اندیش غیر مقلدین وہابیہ زمانہ اس اعلم العلماء امام ہمام رضی اﷲ عنہ کی فقہ حنفی کی نماز کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔ لہذا فقیر قادری غفرلہ اس مضمون میں قسط وار فقہ حنفی کے مطابق پنجگانہ نماز، نماز جمعہ و عیدین، اور نماز جنازہ کا ثبوت امام بخاری، مسلم، ترمذی اور دیگر محدثین کی کتابوں کی روشنی میں پیش کرنے کی سعی کریگا۔ اس سلسلے کی یہ پہلی قسط ہے اسے ملاحظہ کیجئے۔ آئندہ سلسلہ جاری رکھنے کے لئے دعا فرمایئے تاکہ اس سلسلے کوپایہ تکمیل تک پہنچایا جائے اور عوام سادہ لوح کو فریبیوں کے فریب سے بچایا جاسکے۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

وربک فکبر (اور اپنے رب ہی کی بڑائی بولو) (سورۂ مدثر آیت 3، پ 29، ترجمہ کنزالایمان)

اس آیت کریمہ میں رب کریم نے اپنے محبوب کریم کو تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ اس کے تحت مفسرین کرام رحمہم اﷲ نے لکھا ہے کہ

فامرنا رسول اﷲﷺ ان نفتح الصلوٰۃ بالتکبیر

یعنی ہمیں رسول پاکﷺ نے حکم دیا ہے کہ ہم اپنی نماز تکبیر کے ساتھ شروع کریں۔ یاد رہے کہ ’’تکبیر‘‘ کا مطلب ہے خدائے بزرگ و برتر کی کبریائی کا بیان کرنا، اس کے لئے ہمیں احادیث کریمہ سے جو تعلیم ملتی ہے، اس کی روشنی میں اس کے الفاظ اور کہنے کا انداز اور اس وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھانے کا صحیح طریقہ کیا ہے، اس کی تحقیق کے لئے احادیث کریمہ کے اولین و مستند مجموعہ جات کی سرسری سیر کرتے ہیں۔

چنانچہ امام بخاری کے استاذ الاستاذ امام عبداﷲ بن محمد بن ابی شیبہ علیہ الرحمہ نے اپنی ’’مصنف‘‘ کے ’’کتاب الصلوٰۃ‘‘ جلد اول کے باب 1 ’’فی مفتاح الصلوٰۃ ماہو‘‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ص  260 پر تکبیر کے پانچ حروف کی نسبت سے احادیث خمسہ بیان کی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

1: حدثنا ابوبکر قال حدثنا وکیع من سفیان عن عبداﷲ بن محمد بن عقیل عن ابی الحنفیۃ عن ابیہ قال قال رسول اﷲﷺ ’’مفتاح الصلوٰۃ الطہور وتحریمہا التکبیر و تحلیلہا التسلیم‘‘

2: حدثنا ابوبکر قال حدثنا ابو الاحوص عن ابی اسحق عن ابی الاحوص قال قال عبداﷲ رضی اﷲ عنہ ’’تحریم الصلوٰۃ التکبیر و تحلیلہا التسلیم

3: حدثنا ابوبکر قال حدثنا ابن فضیل عن ابی سفیان السعدی عن ابی نضرۃ عن ابی سعیدن الخدری رضی اﷲ عنہ قال قال النبیﷺ ’’مفتاح الصلوٰۃ الطہور وتحریمہا التکبیر و تحلیلہا التسلیم‘‘

4: حدثنا ابوبکر قال حدثنا ابو خالد الاحمر عن ابن کریب عن ابیہ عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما قال ’’مفتاح الصلوٰۃ الطہور وتحریمہا التکبیر و تحلیلہا التسلیم‘‘

5: حدثنا ابوبکر قال حدثنا بن ہارون عن حسن المعلم عن بدیل عن ابی الجوزاء عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا قالت کان النبیﷺ یضتتح الصلوٰۃ بالتکبیر وکان یختم بالتسلیم

اب بالترتیب ان احادیث خمسہ کا بامحاورہ ترجمہ ملاحظہ کیجئے

1: امام ابن ابی شیبہ سے ابوبکر نے حدیث بیان کی۔ وہ فرماتے ہیں ہم نے حضرت وکیع از سفیان از عبداﷲ بن محمد بن عقیل از ابن حنیفہ والد گرامی بیان کرتے تھے کہ انہوں نے فرمایا رسول اﷲﷺ نے فرمایا ’’نماز کی کنجی طہارت، نماز کی تحریمہ تکبیر اور نماز کی تحلیل سلام پھیرنا ہے‘‘

2: امام ابن ابی شیبہ سے ابوبکر نے از ابوالاحوص از ابو اسحق از ابوالاحوص حدیث بیان کی، کہا کہ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ’’نماز کی تحریمہ تکبیر ہے اور نماز کی تحلیل سلام کہنا ہے‘‘

3: امام ابن ابی شیبہ سے ابوبکر نے از ابن فضیل از ابی سفیان سعدی از ابونضرۃ از ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ حدیث بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا ’’نماز کی کنجی طہارت ہے، اور نماز کی تحریمہ تکبیر اور اس کی تحلیل سلام پھیرنا ہے‘‘

4: امام ابن شیبہ سے ابوبکر نے از ابو خالد احمد از ابن کریب از والد کریب از ابن عباس رضی اﷲ عنہما حدیث بیان کی۔ انہون نے فرمایا ’’نماز کی کنجی طہارت ہے، اس کی تحریمہ تکبیر اور تحلیل سلام کہنا ہے‘‘

5: امام ابن ابی شیبہ سے ابوبکر از یزید بن ہارون از حسن معلم از بریل از ابو الجوزا از ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا حدیث بیان کی۔ آپ فرماتے ہیں۔ ’’نبی پاکﷺ اپنی نماز تکبیر سے شروع کرتے اور تسلیم پر ختم کرتے تھے‘‘

تنبیہ: مذکورہ احادیث خمسہ میں سے احادیث اربعہ اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضورﷺ اور آپ کے اصحاب نے تکبیرکو بنیادی نماز قرار دیا جبکہ آخری حدیث میں حضورﷺ کے عمل سے اس کا ثبوت مل گیا۔

اب قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس افتتاح نماز کے لئے تکبیر تحریمہ کہنے کا کیا انداز اپنایا گیا۔ اس سلسلے میں امام بخاری، مسلم اور ترمذی رحمہم اﷲ کی بیان کردہ چند روایات سے استفادہ کرتے ہیں۔

چنانچہ امیر المومنین فی الحدیث سیدنا امام ابو عبداﷲ محمد بن اسماعیل البخاری علیہ الرحمہ اپنی ’’صحیح‘‘ میں ’’کتاب الصلوٰۃ، باب الی این یرقع یدیہ جلد اول ص 102 طبع قدیمی کتب خانہ کراچی میں نقل کرتے ہیں

حدثنا ابو الیمان قال اخبرنا شعیب عن الزہری قال اخبرنی سالم بن عبداﷲ بن عمر ان عبداﷲ ابن عمر قال رایت النبیﷺ افتتح التکبیر فی الصلوٰۃ فرفع یدیہ حین یکبر حتی یجعلہما حذومنکبیہ واذا کبر للرکوع فمل مثلہ واذا قال سمع اﷲ لمن حمدہ فعل مثلہ وقال ربنا لک الحمد ولا یفعل ذالک حین یسجد ولاحین یرفع راسۃ من السجود

ابن عمر رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے حضورﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نے افتتاح نماز تکبیر کہہ کر کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور کندھوں کے برابر کردیا اور جب رکوع کے لئے تکبیر کہی تو پھر اسی طرح کیا اور جب سمع اﷲ لمن حمدہ کہا تو پھر اسی طرح کیا اور کہا ’’ربنا لک الحمد‘‘ اور سجدہ میں جاتے ہوئے اور سجدہ سے اٹھتے ہوئے ایسا نہ کیا۔

امام المحدثین امام مسلم بن حجاج نیشاپوری علیہ الرحمہ اپنی صحیح میں کتاب الصلوٰۃ، باب رفع الیدین حذوالمتکبین جلد اول ص 168 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی میں یوں نقل کرتے ہیں:

حدثنی ابو الکامل الجہری قال حدثنا ابو عوانۃ عن قتادۃ عن نصر ابن عاصم عن مالک من الحویرث ان رسول اﷲﷺ کان اذا کبر رفع یدیہ حتی یعازی بہما اذنیہ واذا رکع رفع یدیہ حتی یحازی بہا اذنیہ واذا رفع راسہ من الرکوع فقال سمع اﷲ لمن حمدہ فعل مثل ذالک

وحدثنا محمد بن المثنی قال حدثنا ابن ابی عدی عن سعید عن قتادۃ بہذا الاسناد انہ رای نبیﷺ وقال حتی یحازی بہما فروغ اذنیہ

حضورﷺ نے اپنے ہاتھ دونوں کانوں کی لوتک بلند کئے۔ استاذ المحدثین امام ابوعیسٰی محمد بن عیسٰی بن سورت ترمذی علیہ الرحمہ اپنی جامع میں کتاب الصلوٰۃ، جلد اول مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی، ادب منزل پاکستان چوک کراچی ص 55، 54 پر اس سلسلے کی رہنمائی یوں کرتے ہیں

عن ابی  سعید ن الخدری رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲﷺ مفتاح الصلوٰۃ الطہور وتحریمہا التکبیر وتحلیلہا التسلیم الخ

ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ’’نماز کی کنجی پاکی حاصل کرنا، اس کی تحریمہ اﷲ اکبر کہنا اور اس کی تحلیل سلام کہنا ہے‘‘

آگے چل کر باب فی نشر الاصابع عند التکبیر میں یوں روایت نقل کرتے ہیں

قال حدثنا قتیبہ وابو سعید الاشج قال حدثنا یحیی بن یمان عن ابی ذئب عن سعید بن سمعان من عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ قال کان رسول اﷲﷺ اذا دکبّر للصلوٰۃ رفع نشر صابعہ

امام ترمذی از قتیبہ وابو سعید حدیث بیان کرتے ہیں وہ دونوں از یحیی بن یمان از ابی زئب از سعید بن سمعان از ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی پاکﷺ جب نماز کے لئے تکبیر کہتے تو اپنی انگلیاں عام حالت پر کھلی رکھتے۔

امام بخاری، امام مسلم و ترمذی رحمہم اﷲ کی بیان کردہ روایات سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ طہارت نماز کے لئے کنجی کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ ابن ابی شیبہ کی احادیث خمسہ بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں۔ امام بخاری کی روایت میں ہے کہ حضورﷺ کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے جبکہ امام مسلم کی روایت میں کانوں تک کا ذکر ہے۔ اس کی تطبیق ممکن ہے وہ یوں کہ ہاتھوں کا کاندھوں کے برابر سیدھا ہوا انگوٹھوں کا کانوں کی لو کے برابر ہونے کو مانع نہیں اور اس پر تجربہ شاہد ہے۔ البتہ ان دونوں حدیثوں میں رکوع میں جاتے اور اٹھتے ہاتھ اٹھانے (رفع یدین) کا تذکرہ ہے۔ اس کی مکمل بحث اگلی قسطوں میں آجائے گی کہ رفع یدین کا عملی ثبوت کب تک رہا اور کب نہ رہا۔ نیز امام ترمذی کی روایت سے یہ بھی پتا چلا گیا کہ حضورﷺ اپنی انگلیوں کو کھول کر تحریمہ کہتے تھے۔ احناف کا اسی پر عمل ہے

رفع یدین پر عمل میں اس کی وجوہات

 احناف قیام میں دونوں ہاتھوں کو ناف کے نیچے کیوں باندھتے ہیں۔ اس سلسلے میں احادیث کریمہ کی روشنی میں ہمیں کیادرس ملتا ہے۔ اصل قیام تو خود دلیل قطعی نصِقرآن عظیم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

وقومو اﷲ قانتین…

اور اﷲ کے حضور عاجزی سے کھڑے ہوجائو (البقرہ آیت 238)

اب مسئلہ یہ ہے کہ مطلق قیام تو امر الٰہی کے تحت فرض ہوا مگر اس میں دونوں ہاتھوں کی پوزیشن واضح نہ ہوئی کہ آیا دونوں کھلے رکھیں یا باندھیں۔ داہنا اوپر ہو یا بایاں ہاتھ اوپر ہو۔ سینے پر باندھیں یا ناف پر، یا دونوںکے بیچ میں پیٹ پر یا ناف کے نیچے تک لے جائیں۔ احوط ہمارے نزدیک زیر ناف ہاتھوںکاباندھنا ہے۔ اس طرح کے بایاں ہاتھ نیچے اور دایاں ہاتھ اس کے اوپر ہو۔ احادیث کریمہ اسی کی تائید کرتی ہیں۔ دیگر روایات جن میں اس کے خلاف طریقے بیان ہوئے ہیں ان کی فنی حیثیت ان روایات سے کم ہے جو وضع الیدین تحت السرۃ کی موید ہیں۔ چنانچہ امام بخاری کے استاد الاستاذ امام عبداﷲ بن محمد بن ابی شیبہ علیہ الرحمہ اپنی ’’مصنف‘‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان میں یوں رقم طراز ہیں۔

حدثنا وکیع عن موسیٰ بن عمیر عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن ابیہ قال رأیت النبیﷺ وضع یمینہ علیٰ شمالہ فی الصلوٰۃ تحت السرۃ

امام ابن ابی شیبہ سے حضرت وکیع از موسیٰ ابن عمیر از علقمہبن وائل بن حجر روایت بیان کرتے ہیں کہ ان کے باپ (وائل بن حجر) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی پاک، صاحبِ لولاکﷺ کو اپنی نماز میں دایاں دست اقدس بائیں دست اقدس پر رکھتے ہوئے دیکھا۔

اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے محشیٔ کتاب الآثار یوں رقم طراز ہیں:

قال الحافظ قاسم بن قطلوبنا اسنادہ جید (کتاب الاثآر جلد 7 ص 34)

امام حافظ الحدیث بن قطلوبنا فرماتے ہیں۔ اس حدیث کی راویوں کی کڑی بڑی عمدہ ہے۔

امام الاولیائ، مولائے کائنات، علی المرتضیٰ، شیر خدا کرم اﷲ وجہ للاسنیٰ اس ہاتھ باندھنے کی کیفیت کے بارے میں واضح ترین لفظوں میں ارشاد فرماتے ہیں۔

ان من سنۃ الصلوٰۃ وضع الیمین علی الشمال تحت السرۃ

یعنی نماز کی سنتوں میں سے یہ بھی کہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر زیر ناف رکھنا(ناف کے نیچے رکھنا)

احناف کے مشہور محدث شارح بخاری علامہ بدر الدین محمود العینی علیہ الرحمہ اپنی تصنیف لطیف عمدۃ القاری بشرح صحیح بخاری میں یوں رقم طراز ہیں:

وقول علی ان من السنۃ ہذا اللفظ یدخل فی المرفوع عندہم وقال ابو عمر فی المنتقی واعلم ان الصحابی اذا اطلق اسم السنۃ فالمراد بہ سنۃ النبیﷺ

یعنی حضرت علی پاک کا یہ کہنا کہ ہاتھ زیر ناف رکھنا سنت ہے، اس سے یہ حدیث مرفوع بن جاتی ہے۔ ابو عمر کہتے ہیں جب صحابی کسی بات پر سنت کا اطلاق کرے تو اس سے مراد سنت نبوی ہوتی ہے۔

ائمہ شوافع میں سے شارع صحیح مسلم امام نووی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:

واما اذا قال الصحابی امرنا بکذا اونبینا عن کذا اومن السنۃ کذا فکلہ مرفوع علی المذہب الصحیح الذی قال الجمہور من اصحاب الفنون (مقدمہ شرح صحیح مسلم مطبوعہ کراچی ص 17)

اور جب صحابی یہ فرمائے کہ ہمیں فلاں چیز کا حکم دیا گیا یا ہمارے نبی کریمﷺ سے یہ بات ثابت ہے یا فلاں چیز سنت ہے تو سب مذہب صحیح پر مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔ اصحاب فنون کی تحقیق یہی ہے۔

امام عینی و نووی علیہما الرحمہ کے علاوہ دیگر محققین کی بھی یہی تحقیق ہے کہ صحابی رسولﷺ جب کسی معاملے کوسنت کہے اس سے مراد سنت نبوی ہوتی ہے۔ ابن عباس رضی اﷲ عنہ بھی یہی رائے رکھتے تھے اور جمہور محدثین کی تصنیفات اس امر کی تحقیق سے مالا مال ہیں اور یہ طے شدہ امر ہے کہ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں بلکہ سبھی کا اتفاق ہے اور ایسی سنت نبوی جس پر دوای  عمل ثابت ہو اور ترک نہ کیا گیا ہو، اور نہ ہی ترک کا حکم دیا گیا ہو، اس پر عمل کرنا امت کے لئے بھلائی ہی بھلائی اور برکت ہی برکت ہے۔

امام محمد بن حسن شیبانی محرر مذہب حنیفہ کتاب الآثار ص 34 مطبوعہ بیروت پر رقم طراز ہیں:

قال اخبرنا الربیع عن ابی معشر عن ابراہیم (النخعی) انہ کان یضع ہدۃ الیمنی علی یدہ الیسریٰ تحت السرۃ

امام محمد از ربیع از ابو معشر از ابراہیم نخفی بیان کرتے ہیں کہ امام ابراہیم نخعی (امام اعظم کے استاذ الاستاذم نماز میں بحالت قیام دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے تھے)

امام نخعی کے امام اعظم، فقیہ اضخم سیدنا نعمان بن ثابت کوفی رضی اﷲ عنہ کے استاذ الاستاذ اور اس امت کے جلیل القدر رہنما، افقہ الصحابہ بعد الخلفاء الراشدہ سیدنا عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ کے تلمیذ ہیں۔ اور ابن مسعود ان کے استادتھے، ان کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے تھے۔

مااخذ شیئاً و ما اعلم شیئاً الا وعقلمۃ یقرہ ویعلمہ

(تذکرہ الحفاظ ص 48)

یعنی جو کچھ میں پڑھتا اور جانتا ہوں اسے علقمہ بھی پڑھتے اور جاتنے ہیں۔

ابراہیم نخعی حضرت علقمہ کے بھانجے اور لائق ترین شاگرد ہیں۔ انہیں افقہ الصحابہ کا خصوصی فیضان بواسطہ علقمہ حاصل ہے۔ ان کا عمل یقینی طور پر عمل علقمہ اور عمل علقمہ یقینی طور پر عمل ابن مسعود ہے اور ابن مسعود کا عمل یقینی طور پر عمل نبوی کی پیروی ہوگا۔

امام اعظم کی مسند کے مقدمہ میں ہے :

رضیت لامتی مارضی ابن ام عبد وکرہت الامتی ماکرہ ابن ام عبد

یعنی حضور سرور عالمﷺ فرماتے ہیں۔ میں اپنی امت کے حق میں ہر اس بات کو پسند کرتا ہوں جسے عبداﷲ ابن مسعود پسند کرے اور ہر اس بات کو ناپسند جانتا ہوں جسے ابن مسعود ناپسند جانے۔

اسی حدیث کو امام ترمذی جیسے جلیل القدر محدث نے بھی بیان کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابن مسعود کا عمل نبی پاکﷺ کا پسند فرمودہ ہے۔ اور ان کے تلمیذ التلمیذ کا عمل دونوں ہاتھ ناف کے نیچے اس طور پر باندھنا کہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر ہوتا تھا۔

ابو مجلز سے حالت قیام میں ہاتھوںکو باندھنے کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اس طرح ارشاد فرمایا:

قال یضمع باطن کف یمینہ علی ظاہر کف شمالہ و یجعلہا اسفل من السرۃ

دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کے ظاہر پر ناف کے نیچے باندھے

(مصنف ابن شیبہ)

تہذیب التہذیب ج 12ص 227 پر ابو مجلزکو ابن عباس جیسے جلیل القدر صحابی رسول کے روایوں میں شمار کیا گیا ہے۔

علامہ علائو الدین علی بن عثمان متوفی 745ھ الجوہر النقی علی البیہقی ج 2ص 31 پر یوں رقم طراز ہیں:

قال ابن حزم وروینا عن ابی ہریرۃ وقال وضع الکف فی الصلوٰۃ تحت السرہ

ارشاد فرمایا ابن حزم نے کہ ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھا جائے۔

اسی مذکورہ کتاب میں مرقوم ہے

عن انس قال ثلاث من اخلاق النبوۃ تعجیل الافطار و تاخیر السحور وضع الید المینی علی الیسریٰ فی الصلوٰۃ تحت السرہ

انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ تین چیزیں اخلاق نبوت میں سے ہیں۔ افطار میں جلدی کرنا، سحری دیر سے کرنا اور نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا۔

الحاصل دلائل مذکورہ سے ثابت ہوا کہ آنحضورﷺ، آپ کے اجداء صحابہ اور اجداء کرامت کے نزدیک نمازی کو بحالت قیام اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے اور اسی پر عمل سنت کریمہ ہے۔ اس کے برعکس دیگر طریقے مسنون نہیں ہیں۔ اس لئے حنفیوں کا عمل اس مسنون طریقے پر جاری و ساری ہے ۔ ( جاری ہے )

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...