تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کی ہیں جس نے اپنی رحمت و کرم سے ہم پر یہ احسانِ عظیم فرمایا کہ ہمیں اپنے محبوب کی امت میں پیدا کیا جس کا امتی بننے کے لئے انبیائ کرام بھی دعائیں مانگتے گئے اور تمام تعریفیں اس مالکِ حقیقی کی ہیں جس نے انسان کو اپنی نیابت عطا فرمائی یعنی اس کو خلافتِ الٰہیہ کا تاج پہنایا اور تمام تعریفیں اس ذات وحدہ ، لاشریک کی ہیں کہ جس نے اپنا جلوہ ظاہر کرنے کے لئے اور ہمیں اپنی معرفت و پہچان کے لئے اس کمرہ امتحان یعنی اس عالم ِ رنگ و بو میں اتارا ۔
اور کروڑوں ، اربوں درود ہوں اس محبوبِ ذاتِ حق پر کہ جس کا مقام ہر کسی کی سوچ اور ہر کسی کے علم و عقل ہر کسی کے خرد و فہم سے بہت بالا تر ہے اور اربوں ، کھربوں سلام ہوں انکی ذات پر جس کے روئے والضحیٰ میں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کا ظہور فرما کر اس کائناتِ ارض و سمائ کے درمیان ہی نہیں بلکہ کائناتِ الٰہی کی جہاں جہان تک وسعت ہے ۔ اس جگہ کو ان کے رخِ انور سے منور فرمایا اورکائنات کی تمام خوبصورتیاں کائنات کے تمام حسن اور کائنات کے تمام خزانے فداہوں ان پائے اقدس پر کہ جن کے اس کائنات لگتے ہی ظلمت و تاریکی کی یہ نگری خالصتاً اللہ تعالیٰ کے انوارو تجلیات سے جگمگا اٹھی کیوں کہ اس ذات محبوب میں خود ذاتِ باری تعالیٰ عیاں ہے
یوں تو اس دنیا میں علم کی کوئی کمی نہیں ہے جابجا تعلیمی مراکز ﴿چاہے کسی بھی شعبہ کی تعلیم﴾ کھل چکے ہیں لیکن جو چیز انسان کی روح کو تقویت پہنچاتی ہے اس دنیا میں ۔ دیکھنا یہ ہے میں اِسی طرف آپ کی توجہ کرانے کی کوشش کروں گا کہ وہ تعلیم ہم کو کہاں سے مل رہی ہے اور آج امت ِ مسلمہ کے زوال کا سبب کیا چیز بن رہی ہے اور کس چیز کی کمی ہے اس کو پورا کیسے کیا جائے ۔
ج۔ جے رب ناتیاں دھوتیاں ملدا تاں ملدا ڈڈواں مچھیاں ھو
جے رب لمبیاں والاں ملدا تاں ملدا بھیڈاں سسیاں ھو
جے رب راتیں جاگیاں ملدا تاں ملدا کال کڑچھیاں ھو
جے رب جتیاں ستیاں ملدا تاں ملدا دانداں خسیاں ھو
رب تنہاں نوں ملدا یا حضرت باھو(رح) نیتاں جہناں دیاں ہچھیاں ھو
اگر آج وقت کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھا جائے تو امت ِ مسلمہ کو ایک قیادت کی ضرورت ہے جو ہرلحاظ سے ’’الشیخ فی قومہ کنبی فی امۃ‘‘ ﴿مرشد اپنی قوم میں ایسے ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میںہوتا ہے ﴾کی مصداق ہو اور وہ ہستی ’’ا.ل.م‘‘ کے مقام پر فائز ہستی ہو جس کی ایک ایک ادا ایسے ہو جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ایک ایک ادا کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک زندہ تاریخ بنا کر بتایا ۔ اس کی بھی ایک ایک ادا دنیا میں تو ایک زندہ اور مستند تاریخ کی حیثیت رکھتی ہو لیکن اللہ تعالیٰ کے انوار وتجلیات کا مرکز بھی اس ہستی اکمل کا چہرہ ہو ۔ جس کے بارے میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا’’ من نظر الیہ فکا نما ینظر الی اللّٰہ‘‘ ﴿جس نے ان کو دیکھا اس نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ﴾ کیونکہ وہ مرشد اکمل ہستی اللہ تعالیٰ کا شیشہ ہوتا ہے اور اس کے چہرے پر یعنی اللہ تعالیٰ کے اس شیشے میں تجلی بھی اللہ تعالیٰ کی ظاہر ہو چکی ہوتی ہے جس کو دیکھنا اللہ تعالیٰ کا دیکھنا ہے ۔ ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو فقر محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم بسوز صدیق(رض) ، چشم ِ عمر (رض) ، علم حیدر ، فقر فاطمہ (رض) ﴿خاتون جنت(رض) ﴾ ، صبر حسین (رض) ، سیف خالد (رض)، عشق بلال (رض) ،المختصر لسان پیر دستگیر ، باہو (رض) جیسے اوصاف و کمالات کی حامل ہو وہ ہستی اگر اس دور میں اس قوم کی کشتی کو چلائے تو کسی کنارے کی امید رکھی جا سکتی ہے ورنہ عام حالات جو کہ پہلے چلتے رہے ہیں یا چل رہے ہیں ان حالات میںکشتی کو بھنور سے نکالنا تو عام کسی پیر کا کام ہے نہ کسی عالم کا نہ کسی دوسرے راہنما کا کشتی کو بھنور سے نکال لانے کے لئے وہی ہستی تلاش کرناپڑے گی کیونکہ ہمیں اپنے آقا کی ’’وما ینطق عن الھویٰ‘‘ کی زبان پر اعتماد کامل ، ایمان مکمل اور یقین ِ اکمل ہے کہ دنیا میں کوئی دیوار بھی ایسی نہیں بچے گے جس پر اللہ تعالیٰ کے دین کا پرچم نہ لہرارہا ہو۔
معزز قارئین ِ کرام! اگر ہم آج دیکھیں کہ کیا کہیں ایسا کوئی چہرہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے انورو تجلیات ’’ اظھر من الشمس ‘‘ ہوں جس کے اوپر’’فواہ الذی یعقل بہ‘‘ کا دعویٰ کیا جا سکے جس کے ہاتھوں کو ’’یدہ التی یبطش بھا‘‘ کا مصداق ٹھہرایا جا سکے ۔ جس کے کانوں کو ’’سمعہ یسمع بہ‘‘ کا حامل قرار دیا جا سکے ، جس کی زبان کو ’’لسانہ التی یتکلمبھا‘‘ کی زبان کہنا گوارہ کیا جا سکے جس کے پاؤں کو ’’رجلہ التی یمشی بھا ‘‘ کے پاؤں تسلیم کیا جا سکے۔ جس کی آنکھ کو ’’بصرہ الذی یبصر بہ‘‘ کی آنکھ مانا جا سکے ۔
میرے مسلمان دوستو ، بھائیو، بزرگو! آج ہم اگر ایک نگاہ اٹھا کر بھی مشائخ کی طرف دیکھیں تو ہماری نگاہ علامہ اقبال(رح) کی اس بات کے مطابق اتنی نیچی ہو جاتی ہے کہ پھر راستے کو دیکھ کر چلنا بھی محال ہو جاتا ہے ۔ دورِ حاضر کے مشائخ کے بارے میں علامہ اقبال صاحب (رح) فرماتے ہیں
ہو تم آباد قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے
’’یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود ‘‘
عصرِ حاضر کے جو مشائخ ہیں انہوں نے ایک پاک اور لطیف شعبہ جو کہ اسلام کی بنیاد ہے جسے ہر دور میں مضبوط رکھنا ضروری تھا ، اور ہے ، اور ہو گا ، وہ تھا تصوف اور روحانیت کا شعبہ ۔ اس کو انہوں نے اتنا ضعیف کر دیا ہے کہ اب اس کا تصور ہی تبدیل ہو گیا ہے اور اس کی پاکی کو اتنی غلاظتوں میں ڈال دیا ہے کہ اب منشیات کے بڑے اڈے بھی درگاہوں اور خانقاہوں کو سمجھا جاتا ہے اور اس لطیف شعبے کو اتنی بے چینی اور بے سکونی میں ڈال دیا ہے ۔ لوگ اس میں آکر بھی افیم، چرس بالخصوص سبز پانی یعنی بھنگ تلاش کرتے پھر رہے ہیں ۔اب مشائخ اپنے آپ کو معالج شعبدے باز اور شیطانی عملیات پر کامل ، مکمل اور اکمل ظاہر کر رہے ہیں ۔ معالج شعبدے باز اور شیطانی عملیات پر عبور سے کیا مراد ہے ۔ جب کہ مندرجہ بالا سے کوئی بھی چیز پیر یا مرشد میں نہیں ہونی چاہئے اگر ہوتو جان بس وہ مرشد ناقص و نا مکمل اور راہزن ہے ۔
معالج:
اب جو مرشدوں نے اپنا کام بنایا ہوا ہے یعنی جومعالج جو بنے ہوئے ہیں اتنے تھرڈ کلاس اور گھٹیا معالج بنے ہیں کہ سن کر بھی شرم کے طوطے مر جائیں یعنی ایک مرید آتا ہے پیر کے پاس کہ پیر صاحب میری گائے دودھ نہیں دیتی ۔ آپ دعا کریں یا تو جہ کریں تاکہ میری گائے دودھ دینے لگ جائے تو پیر صاحب نے اپنی پیری کا ڈھنڈورا پھیلانے کے لئے کوئی نہ کوئی چیز دم کر کے دیتے ہیں تاکہ یہ گائے دودھ دینے لگ جائے ایک اور مرید آتا ہے کہتا کہ پیر صاحب میری بھینس کو حمل نہیں ٹھہرتا ہے آپ مہربانی کریں تاکہ میری بھینس کو حمل ٹھہر جائے ۔ تو پیر صاحب اپنی پیری کا لوہا منوانے کے لئے کوئی نہ کوئی چیز دم کر دیتے ہیں تاکہ اس کی بھینس کو حمل ٹھہر جائے ۔ ایک اور مرید آتا ہے پیر صاحب میری بکری کے بچے مر جاتے ہیں آپ کوئی چیز دیں تاکہ میری بکری کے بچے نہ مریں تو پیر صاحب اپنی پیری کی دھاک بٹھانے کے لئے کوئی نہ کوئی چیز دم کر کے دیتے ہیں تا کہ اس بکری کے بچے نہ مریں ۔ ایک اور مرید آتا ہے کہ پیر صاحب مرغی انڈے نہیں دیتی کوئی چیز دم کر دیں تاکہ میری مرغی انڈے دینے لگ جائے تو پیر صاحب اپنی پیری کو مزید اوج ثریا پر لیجانے کے لئے کوئی نہ کوئی چیز دم کر دیتے ہیں تاکہ یہ مرغی انڈے دینے لگ جائے ایک اور چیلا آجاتا ہے کہ پیر صاحب میرا بٹیر صحیح نہیں لڑتا کوئی چیز دم کر دیں تاکہ میرا بٹیر صحیح لڑے تو پیر صاحب اپنی پیری کو چار چاند لگانے لئے اسے کوئی چیز دم کر دیتے ہیں تا کہ اس کا بٹیر صحیح لڑنے لگ جائے تو اب یہ تمام عمل ہوگئے تو مرید بڑے اکڑ کر چلیں گے اور اپنے پیر کی پیری کو چمکانے کے لئے وہ پورے علاقے میں ایسی باتیں بتائیں گے کہ میری گائے دودھ نہیں دیتی تھی یامیری بھینس کو حمل نہیں ٹھہرتا تھا یا میری بکری کے بچے مر جاتے تھے میری مرغی انڈے نہیں دیتے تھی یا میرا بٹیر نہیں لڑتا تھا میں نے اپنے پیر صاحب سے دم کروایا تھا تو اب ہر چیزٹھیک ہے سینہ تان کر تڑیاں لگا لگا کر بتاتے ہیں جیسے ان کے پیر صاحب نے چاند توڑ کر ان کو تحفے میں دے دیا ہو ۔
معزز قارئین ! آپ ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ کیا پیر کا کام گائے کا دودھ نکلوانا یا بھینس کو حمل ٹھہرانا یا مرغیوں سے انڈے لینا رہ گیا ہے کہ کیا پیروں کا کام اتنا گٹھیا ہے حالانکہ ہماری جان اورا یمان کے مالک محبوب خداوند تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ’’ میری امت میں جو مرشد ہوں گے وہ ایسے ہوں گے جیسے نبی اپنی امت میں ہوتا ہے ‘‘ تو یہی اب کام رہ گیا ہے مرشد کامل کا کہ وہ دو نمبر معالج بن کر پھرتا ہے ، نہیں ! نہیں ! یہ کام مرشد کا نہیں ہے۔
شعبدے باز :
یہ دوسرا کام ہے جو لوگ اپنا کر اپنی روزی کما رہے ہیں اور اسلام کی روح پر پاش پاش کر دینے والے حملے کر رہے ہیں ۔ اسلامی طور طریقوں سے بھی امت ِ مسلمہ کو محروم کھلی گمراہی میں ڈال کر ان 72 گروہوں میں شامل کرنے کے خواہاں بن چکے ہیں کہ جن کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے فرمایا کہ ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کے 71 فرقے تھے جن میں ایک نجات والا تھا اور باقی 70 گمراہ ہو گئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے 72 فرقے تھے جن میں ایک نجات والا تھا اور باقی 71گمراہ ہو گئے فرما یاکہ میری امت کے 73فرقے ہوں گے جن میں ایک نجات والا ہوگا اور باقی 72 فرقے گمراہ ہوں گے ۔ ‘‘
یہ لوگ پیری کا روپ دھار کر لوگوں کو صراطِ مستقیم سے روک رہے تھے ۔ حالانکہ حقیقی معنوں میں مرشد کاکام بھی صراطِ مستقیم پر چلنا اور چلانا ہے کیونکہ مرشد خلیفۃ اللہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی نیابت کا حامل ہوتا ہے ۔ اس کا ہر قول اور ہر فعل اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ میرا قول اور فعل ہوتا ہے اگر دیکھا جائے تو پہلے جو اللہ کے خلیفے﴿ نائب﴾ تھے وہ انبیائ کرام علیہ السلام تھے اور جب آخری نبی ہمارے نبی ایسے نبی جو اپنی پیدائش سے لاکھوں سال پہلے بھی نبی تھے جو اللہ تعالیٰ کی نیابت کے حامل رہے ہیں اور اب بھی مرشد کی جو تعریف قرآن سے ملتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’مرشد تمام تر پلیدیوں سے اور ناپاکیوں سے نکال کر بحر معرفت میں ڈال دے ۔ جہاں پر مرید اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کا بلا حجاب مشاہدہ کرتا ہے ۔‘‘ لیکن شعبدے باز پیر اس کام سے روکتے پھر رہے ہوتے ہیں اور پیسوں کے بھاؤ اپنی پیری کو دن دگنی اور رات چگنی ترقی سے ہمکنار کرنے کے لئے ایسی طرف گامزن کر دیتے ہیں کہ پیسے دو اور خلافت لو ۔ جن کو یہ پتہ ہی نہیں کہ مرشد کیا ہے ؟ اور مرید کیا ہے ؟ اپنے آپ کو مرشد اعظم کہلواتے پھر رہے ہیں اور اپنے کرتب کا مظاہرہ کر کے سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان پر تیزاب پھینک کر مسلسل مسخ کر رہے ہیں مثلاً کئی پیر یہ کہتے ہیں کہ آنکھیں بند کرو تمہیں مدینہ نظرآئے گا ، تمہیں خدا نظر آئے گا ، تم اس مقام پر پہنچ جاؤ گے ، تم فلاںمقام تک پہنچ جاؤ گے حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہوتا وہ صرف یہ تاثر دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم اتنے بڑے پیر ہیں اگر کوئی مرید یہ کہہ دے کہ پیر صاحب مجھے کچھ بھی نظر نہیں آیا تو فقط یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ تمہارا وضو ٹھیک نہیں تھا یا تمہارا عقیدہ ٹھیک نہیں ہے اور کئی لوگ اور طریقے بھی اپناتے ہیں یعنی کوئی مرید بے چارہ جو تبخیر کا مریض ہو کہہ دیتے ہیں کہ اس پر جنات کا سایہ ہے اور اس غریب کی پٹائی شروع ہو جاتی ہے ایک اور طریقہ یہ بھی اپنی پیری بڑھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ مرید کو حکم ہوتا ہے کہ تم فلاں وظیفہ کرو تمہارے پاس اتنے پیسے آئیں گے ۔ یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا ۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ بندہ تو پہلے ہی دنیا میں اتنا غرق ہے کہ ان مرشدوں کے پاس آتا ہے کہ اسے اللہ کی ذات سے وصل نصیب ہو جائے ۔ مرشد الٹا اس کو ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے کہ وہ دور ہی دور ہو جاتا ہے ۔ آخر ایک دن وہ آ جاتا ہے جب وہ پیروں کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے ۔ شعبدے بازی کی پیری کے متعلق حضور حضرت سخی سلطان باہو (رح) صاحب فرماتے ہیں ’’ اگر ایک آدمی ہو ا میں اڑ رہا ہے کہ میں پیر ہوں تو جان لو کہ وہ پیر نہیں ہے ۔ وہ مکھی ہے جو ہوا میں اڑ رہی ہے اور وہ راہزن ہے اگر ایک آدمی سمندر کی سطح پر مصلیٰ بچھا کر نماز پڑھ رہا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں پیر ہوں تو جان لو کہ وہ پیر نہیں وہ تنکا ہے جو پانی کی سطح پر قائم ہے ۔ اگر ایک آدمی آگ کھا رہا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں پیر ہوں وہ مٹی کا بنا ہوا تندور ہے جو اپنے پیٹ میں آگ کو لئے ہوئے ہے وہ راہزن ہے بلکہ پیر وہ ہے جو اپنے مرید کو بغیر کسی چلہ ، وظیفہ اور بغیر کسی عبادت و ریاضت کے پہلے ہی ساعت میں اس کا ہاتھ جب اپنے ہاتھ میں لے تو اسے ’’موتو قبل ان تموتو ‘‘ اور ’’اذا اتم الفقر فھو اللہ‘‘ کے مقام پر پہنچا دے ۔
محترم قارئین! پیر کی صحیح اصطلاح اور تشریح بھی یہی ہے جو حضور حضرت سخی سلطان باہو (رح) صاحب نے کر دی ہے آپ اپنے پنجابی کلام میں ارشاد فرماتے ہیں ۔
نہیں فقیری جھلیاں مارن ستے لوگ جگاون ھو
نہیں فقیری واندھی ندی سکیاں پار لگاون ھو
نہیں فقیری وچ دریا دے مصلّہ پا ٹھہراون ھو
نام فقیر تنہاں دا یا حضرت باہو (رض) جہیڑے دل وچ یار ٹکاون ھو
حضور حضرت سخی سلطان باہو صاحب (رح) کی تعلیمات سے قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں وہ درس ایمانی و سبق سلطانی نصیب ہوتا ہے ۔ وہ بھی یہی ہے بلکہ آپ اپنی تصنیف میں ارشاد فرماتے ہیں ’’فقیر باہو‘‘ کہتا ہے کہ راہِ فقر میں استقامت کی ضرورت ہے نہ کہ ہوائے نفس و کرامات کی ضرورت ہے کیونکہ استقامت مرتبہ خاص ہے اور کرامت مرتبہ حیض و نفاس ہے ۔ سن اے یار طالب اللہ کا کیا کام حیض و نفاس سے ۔ ‘‘ ﴿عین الفقر﴾
اب ہم پر یہ حقیقت بنور آفتاب واضح ہو گئی کہ تمام شعبدے بازیوں سے ہٹ کر اور شعبدے باز مرشد کی بجائے ایسا مرشد تلاش کرنا چاہئے کہ جو اپنی نظر کے ساتھ اپنے مرید کو استقامت عطا فرمائے ۔
<شیطانی عملیات کے حامل پیر : align="justify">شیطانی عملیات کے حامل پیر :
آئے روز اخبارات کے اندر ، دیواروں پر لکھی گئی عبارات سے اور مختلف پمفلٹ اور چھوٹے چھوٹے کتابچوں سے ان جعلی پیروں کی مشہوری ہو رہی ہوتی ہے ۔ اشتہار بازی ہو رہی ہوتی ہے صرف ایک رات کے عمل سے ہر مسئلے کا حل ، جو چاہو سوپوچھو ، سنگدل محبوب آپ کے قدموں میں ، ستاروں کی چال کے ماہر ، علم ِ نجوم کے بے تاج بادشاہ ، بنگال کا کالا جادو، افریقہ کا کالا جادو، شوہر کو راہِ راست پر لانا ، چار دن کی چاندی پھر اندھیری رات، 5لاکھ نقد انعام اس عامل کو جو میرے عمل کی کاٹ کرے ، کا لے اور سفلی عمل کی کاٹ کے ماہر جناب عامل نجومی فلاں فلاں ، یورپ میں شہرت کے بعد اب آپ کے شہر میں ۔
ایسے ناقص اور جاہل مرشد جو کہ صرف عملیات کر کے اپنے مریدین سے پیسے بٹور رہے ہیں اوراپنا اُلو سیدھا کر رہے ہیں اور دروازے کے باہر ریٹ لسٹ آویزاں کر کے اپنی کمائی کے لئے اپنا بھی اور عوام الناس کا بھی ایمان پاؤں تلے روند رہے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی زبانِ گوہرفشاں سے ارشاد فرمایا ۔
الشیطان الانسان اشد من الشیطان الجن
ترجمہ: ’’ انسان شیطان، جن شیطان سے زیادہ سخت ہے ‘‘
مسلمانو!
فقط آج ہم یہ سوچیں کہ ہماری اپنی ملت یعنی ملت ِ اسلامیہ کیوں کھلی گمراہی میں جا رہی ہے اور لوگ کیوں جوق در جوق سامنے نظر آنے والی گمراہی کی آگ کی طرف کھنچے جا رہے ہیں اور بڑھ چڑھ کر اپنے آپ کو سب سے بڑا گمراہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اگر ایک نظر ہم ملکی و بین الاقوامی فرقہ پرستی کی طرف اٹھائیں تو باقی مذاہب کو ہم اگر اس میں ملوث کرنے کی بجائے مستثنیٰ کر دیں ۔ صرف اسلام کے اوپر نظر پھیریں تو بے شمار لوگ ، بے شمار باتیں اور بے شمار فرقوں کی صورت میں امت ِ مسلمہ میں انگریز کا باقاعدہ منصوبہ بندی سے چلا گیا مشن بڑا کھل کر سامنے آتا ہے جو کہ اس نے نجد سے ایک فتنہ کو اپنے ایجنٹ ہمفر ے کے ذریعے ہم مسلمانوں کے اندر تحلیل کیا وہ چند نظریات تھے جو اس نے قرآن و حدیث سے سراسر کھلے اختلافات اور اعتراضات بنا کر قوم کو ایک ڈرامہ دکھانے کے لئے بنا دیئے اور کچھ لوگ ایسے بھی پیدا کئے جو بجائے اس کے کہ فرقہ پرستی پر کنٹرول کرتے اور الٹی سیدھی من گھڑت کہانیوں کو علم و عقل و فہم کے ذریعہ ختم کرتے۔الٹا ہی ملک کو ایک فساد عظیم میں مبتلا کر کے اپنے مقاصد نکالنے میں کامیاب ہو گئے اور خانقاہوں پر طرح طرح کے جملے کسے جانے لگے اور اسلامی ثقافت جو کہ قرآن و حدیث نے اسلام کی بنیاد قرار دیا ہے اس کو مسلسل مجروح سے مجروح تر کیا جانے لگا ہے میں یہ کہوں گا کہ جولوگ یہ باتیں کرتے ہیں بے شک وہ کھلی گمراہی میں تو ہیں ہی لیکن اس جرم بے پایاں میں وہ لوگ سب سے زیادہ جواب دہ اور ملوث ہیں ۔ جن لوگوں نے خانقاہوں کو اور آستانوں کو شدید نقصان اپنے ملنگوں یعنی منشیات کے عادی لوگوں اور بھنگ بکثرت استعمال کرنے والوںکو چارج دے کر پہنچایا اور ان کے ساتھ ساتھ میں اپنی پوری قوم کو اس میں ملوث سمجھوں گا جنہوں نے ایسے ڈبے پیروں کو آگے لا کر یہ تباہی پھیلانے کا موقع دیا اگر آج بھی ہم یہ تہیہ کر لیں کہ ہم نے اپنی فلاح کی طرف جانا ہے ۔ اپنی منزل یعنی اپنے مقصد ِ حیات کو پانا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ’’ فخلقت الخلق لا عرف‘‘ میں نے مخلوق کو اپنی پہچان کے لئے پیدا فرمایا ہے ‘‘ تو میں سمجھتا ہوں کہ پھر ہماری پلک بعد میں جھپکیں گے لیکن اس گوہر مقصود تک پہلے پہنچ جائیں گے کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ من طلبنی فقد وجدنی ’’ جو مجھے طلب کرتا ہے وہ مجھے پا لیتا ہے ‘‘ من وجدنی فقد عرفنی’’ جو مجھے پا لیتا ہے وہ مجھے پہچان لیتا ہے ۔‘‘
لیکن میرے محترم مسلمانو! اپنے آقا کے غلامو، یہ بات کہیں چھپی ہوئی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو پانے کے لئے وسیلہ ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وابتغو الیہ الوسیلہ’’ میری طرف وسیلہ تلاش کرو‘‘ اور اس وسیلہ سے مراد اولیائے کرام نے قرآن و حدیث سے ثابت کیا ہے کہ وہ وسیلہ مرشد کامل کی ذات بابرکت ہے لیکن اب ہمارے لئے مسئلہ یہ ہے کہ ہم وہ مرشد کیسے تلاش کریں جب کہ اینٹ اٹھائیں تو نیا پیر نیا مرشد نکل آتا ہے مرشد کی کیا نشانی ہے ؟ اور مرشد کیا ہوتا ہے ؟ مرید کو کیسے یقین ہو سکتا ہے کہ یہ مرشد کامل یا اکمل یا مکمل ہستی ہے ؟ تو میرے دوستوآؤ! آج ہم اس بات کو مالک کی توفیق سے معلوم کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حدیث ِ قدسی میں ارشاد فرمایا ولکن یسعنی فی قلب عبد المومن ’’ میں اگر سماتا ہوں تو مومن کامل کے دل میں سماتا ہوں ‘‘ اس حدیث ِ قدسی سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی ذات اگر ہمیں مل سکتی ہے تو فقط اور فقط مرشد کامل کی بارگاہ سے ہی مل سکتی ہے کیونکہ مرشد کے اندر اللہ تعالیٰ کا نور اس طرح بھر جاتا ہے کہ اس کے ایک ایک بال ، جسم کے ہر ایک حصہ پر اللہ تعالیٰ کا نور چمک رہا ہوتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں اپنے بندے کے دل میں سماتا ہوں تو پورے وجود کو جو خون مہیا کر رہا ہے ، وہ یہی دل ہے جب دل میں اللہ کا نور آجائے تو دل وہی خون پورے وجود کے اندر چلا تا ہے تو وہ نور اس طرح پورے وجود میں پھیل جاتا ہے جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ان فی الجسد مضغۃ صلحت صلح الجسد کلہ فسدت فسد الجسد کلہ الیٰ وھی القلب‘‘ کہ تمہارے وجود میں ایک ٹکڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہے تو سارا وجود ٹھیک ہے اگر اس میں خرابی ہے تو پورے وجود میں خرابی ہوگی ۔ تو جان لو وہ دل ہے ‘‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر ارشاد فرمایا ’’ اللّٰہ نور السموات والارض مثل نورہ کمشکوۃ فیھا مصباح‘‘
ترجمہ: ’’ اللہ تعالیٰ نور ہے آسمانوں کا اور زمینوں کا اس کے نور کی مثال ایک برتن کی ہے جس میں ایک چراغ ہے ۔‘‘ علامہ محمود آلوسی (رح) نے تفسیر روح المعانی اور علامہ ثنائ اللہ پانی پتی (رح) نے تفسیر مظہری کے اندر مشکواۃ یعنی برتن اور مصباح یعنی چراغ کی تفسیر کرتے ہوئے عبارت کچھ اس طرح درج کی ہے ’’ المشکوۃ حینئذ مثال القلب المومن و المصباح شبیہ یتجلی لقلب المومن ۔ ‘‘
ترجمہ : مشکوٰۃ﴿برتن﴾ سے مراد مومن کا مل کا دل اور مصباح ﴿چراغ﴾ سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات کے جو تجلی یا انوار یا عکس عین اس کی ذات نور علیٰ نور موجود ہوتی ہے وہ ہے ‘‘ تو اب ان عبارات سے ہمیں اتنا یقین ضرور ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بغیر تلاش مرشد یا بغیر وسیلہ اولیائے کاملین کے نہیں مل سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمادیا اگر مجھے تلاش کرنا چاہتے ہو تو میں تجھے اپنے کسی پیارے کے وسیلے سے ہی مل سکتا ہوں ۔ جیسا کہ شہبازِ عارفاں حضور حضرت سخی سلطان سیّد محمد بہادر علی شاہ صاحب رضی اللہ عنہ ورضو عنہ اپنے پنجابی کلام میں ارشاد فرماتے ہیں ۔
د۔ دل گولیں جے توں رب لوڑیں اللہ دل اندر ڈیرہ لاوندا ای
ہزار کعبے کولوںھک دِل بہتر صوفی فتویٰ علیہ فرماوندا ای
لا یسعنی ارضی ولا سمائی او ھور کسے جا نہ سماوندا ای
سلطان محمد بہادر علی شاہ مراد ہے دل مرشد ظاہر عارف اللہ کہاوندا ای
اور جیسا کہ مولانا روم فرماتے ہیں ۔
دل بدست آور کہ حج اکبر است
از ہزار کعبہ یک دل بہتر است
کیونکہ دل کے اندر اللہ تعالیٰ کی ذات موجود ہے جسے دیکھنا حج اکبر ہے اور جب دل کے اندر اللہ تعالیٰ کی ذات آجاتی ہے دل اللہ تعالیٰ کی ذات کی قیام گاہ بن جاتا ہے اور دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈیرہ بن جاتا ہے ۔ تو پھر اللہ تعالیٰ اس میں سے یعنی اس بندے کی صورت سے اپنی ذات کا ظہور فرما کر اپنے طالبوں کو عین عیاں بلا حجاب جلوہ دکھاتا ہے جس کا اظہار حضرت ابو ہریرہ (رض) نے اپنی زبان میں مدینے کی گلیوں میں دوڑ دوڑ کر یوں کہا کہ ’’ رایت ربی فی سیکک المدینہ‘‘ یعنی میں نے مدینہ کی گلیوں میں رب العزۃ کو چلتے ہوئے دیکھا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا انی مرأۃ الرحمان من رانی فقد رای الحق ’’ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا شیشہ ہوں اور جس نے مجھے دیکھا اس نے اللہ کو دیکھا ‘‘تو اس سے مرادیہ ہر گز نہیں کہ نبی یا ولی نعوذ باللہ اللہ بن جاتا ہے بلکہ وہ تو اللہ کا شیشہ بن جاتا ہے اور اس شیشے میں اللہ کے عکس کود یکھنا ہے تو ادھر حضرت ابوہریرہ (رض) نے اللہ تعالیٰ کو جس صورت میں دیکھا تو اظہار بھی وہی کیا کہ میں نے اللہ کو اس صورت میں دیکھا ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینے کی گلیوں میں اللہ کو چلتے ہوئے دیکھا تو رب کسے کہتے ہیں ۔ رب کے معنی ہیں پالنے والا ۔ ایک مختصر سی بات عرض کرتا ہوں کہ حضور سلطان العارفین سلطان الفقر پنجم حضرت سخی سلطان باہو صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو سب سے پہلے اپنے نور سے نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم بنایا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے نور سے 18ہزار عالم کی ارواح کو پیدا فرمایا ۔ اور پھر اپنے نور کا اسم اللہ ذات کی صورت میں اظہار فرمایا اور ان روحوں کو چار ہزار سال اپنے نور کا اسم اللہ ذات کی صورت میں دیدار کروایا تو پھر ان تمام کو مقام الست پر اکٹھا فرمایا اور پھر ان سے یوں فرمایا کہ ’’الست بربکم ‘‘ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔ تمام روحوں نے عرض کی قالو بلی شھدناہاں یا اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہمارا رب ہے ۔ ادھر سلطان العارفین صاحب (رح) فرماتے ہیں ’’کہ اس وقت ہر چیز کی روح موجود تھی لیکن کسی بھی چیز کا وجود نہیں تھا خوراک کی کسی چیز کا وجود نہیںتھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہارا رب ہوں تمہارا پالنے والاہوں ۔ تو روحوں نے اقرار کیا کہ تو ہی تو ہمارا پروردگار ہمارا پالنے والا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ادھر اپنی صفت ربوبیت کا اظہار کیوں فرمایا اس لئے کہ اس وقت تمام روحیں اللہ تعالیٰ کے دیدار میں پل رہی تھیں یعنی اسم اللہ ذات کی صورت کو دیکھ کر پل رہی تھیں توجب حضرت ابو ہریرہ (رض) کو وہی اسم اللہ ذات کا جلوہ یعنی اللہ کی ذات کا جلوہ آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی صورت مبارک چہرہ اطہر پر نظر آیا تو بغیر کسی تکلف کے اظہار کر دیا ۔ کہ یہی ہمارا رب ہے تو اب معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام (رض) کو بھی اللہ کا دیدار اسم اللہ ذات کی صور ت میں ہوا جو آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے چہرہ انور پر تھا اور انہوں نے اسکو پہچانا اور پوری دنیا میں اس کی منادی کی کہ ہم نے اپنے رب کو پہچان لیا جو کہ ہماری زندگی کا مقصد تھا ۔ ہم اسی ہستی پاک کے نشان کف پا اور اس ہستی کے پیغام پر ہی مر مٹیں گے نہیں بلکہ ہم ہمیشہ کے لئے زندہ بھی رہیں گے اور ایک زندہ تاریخ بھی بن جائیں گے تو میرے دوستو! میں بھی یہ عرض کرنا چاہتا تھا اور کرتا رہوں گا کہ اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کو پہچاننا ہے ایک ایسامرد اکمل پکڑیں جس کے چہرے پر وہی صورت ہو جو حضرت ابو ہریرہ (رض) نے بیان کی ۔ وہ صورت پہلے بھی بیان ہو چکی ہے ۔ وہ اسم اللہ ذات کی صورت ہے وہی مرشد ، مرشد اکمل ہے اور ایسے ہی مرشد کے ہاتھ پر بیعت جائز اور حلال ہے اور ایسے ہی مرشد کے بارے میں مولانا روم (رح) فرماتے ہیں ۔
بشکل شیخ دیدم مصطفےٰ را
نہ دیدم مصطفےٰ را بل خدا را
تو اے عالم اسلام کے مسلمانو ! اگر ایسی صورت کے متلاشی ہو تو اس کا اظہار بہت پہلے ہو چکا ہے کہ جس کے چہرۂ اقدس پر صورتِ اسم اللہ ذات کا ظہور ہے مگر یہ بھی مشروط بات ہے کہ
آنکھ والا تیرے جوبن کا تماشا دیکھے
دیدۂ کو ر کو کیا آئے نظر اور کیا دیکھے
راہِ طلب میں جذبۂ کامل ہو جن کے پاس
خود ان کو ڈھونڈ لیتی ہے منزل کبھی کبھی
خرد نے کہہ بھی دیا لا اِلہٰ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
نگاہِ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو
تیرا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی
عالم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب ِ لولاک نہیں ہے
واعظ کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مُراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
﴿علامہ اقبال (رح) ﴾
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment