Monday 14 September 2015

شیعہ مذہب کا تعارف مستند حوالہ جات کی روشنی میں حصّہ اوّل


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تعارف بانی مذہب شیعہ عبداﷲ بن سبا

عبداﷲ بن سبا علماء یہود میں سے ایک سربر آوردہ عالم تھا اور جب سے سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے 2 یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکال کر فلسطین کی طرف دھکیل دیا تھا۔ اس وقت سے اس کے دل میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی آگ سلگ رہی تھی اور وہ اندر ہی اندر ایسی تراکیب سوچتا رہتا تھا جس کے ذریعے مسلمانوں سے بغض و عداوت کی وجہ سے کوئی نہ کوئی مصیبت کھڑی کرسکے۔ انہی تراکیب میں سے ایک ترکیب اسے یہ سوجھی کہ مسلمان ہوکر پھر ان کے رازونیاز سے واقفیت حاصل کی جائے اور کچھ ساتھی ڈھونڈے جائیں تاکہ مستقل گروہ بن جانے پر اسلام کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ چنانچہ وہ یمن سے مدینہ آیا اور مدینہ آکر اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا۔ اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ امیر المومنین تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ کی نرم دلی اور خوش خلقی سے اس نے یہ ناجائز فائدہ اٹھایا کہ مختلف حیلوں بہانوں سے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کا اعتماد حاصل کرلیا اور اس اعتماد سے اب وہ اپنی مخفی دشمنی کے لئے راستہ ہموار کرنے کے درپے رہنے لگا اور اپنے ہم خیال لوگوں کی تلاش میں مصروف ہوا۔

’’جویندہ یابندہ‘‘ کے مطابق اسے ایسے ہمنوا مل گئے جو بظاہر مسلمان تھے لیکن دل سے سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دشمن تھے۔ ان سے میل جول صلاح و مشورہ شروع ہوا اور خفیہ خفیہ ایک منظم گروہ تیار کرلیا۔ اسی منظم کے ذریعے اس نے اولین کامیابی یہ حاصل کی کہ سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو شہید کرادیا۔ اس یہودی عالم (عبداﷲ ابن سبا) کی ان خفیہ سرگرمیوں اور اسلام و مسلمانوں کے ساتھ بغض و عداوت کی تفصیلات شیعہ سنی دونوں مکتبہ فکر کے مورخین کے ہاں صراحتاً ملتی ہیں۔

وکان ذلک ان عبداﷲ بن سبا کان یہودیا و اسلم ایام عثمان ثم تنقل فی الحجاز ثم بالبصرۃ ثم بالکوفۃ ثم بالشام یرید اضلال الناس فلم یقدر منہم علی ذلک فاخرجہ اہل الشام فاتیٰ مصراً فاقام فیہم وقال لہم العجب ممن یصدق ان عیسٰی یرجع و یکذب ان محمدا یرجع فوضع لہم الرجعۃ فقبلت منہ ثم قال لہم بعد ذلک انہ کان لکل نبی وصی وعلی وصی محمد فمن اظلم ممن لم یجزو صییۃ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فوثب علی وصییتہ وان عثمان اخذہا بغیر حق فانہفوا فی ہذا الامر وابداوا بالطعن علی امرائکم

(الکامل فی التاریخ لابن الاثیر جلد سوم ص 154، دخلت سنۃ خمس وثلاثین مطبوعہ بیروت طبع جدید)

ترجمہ: بات یہ تھی کہ عبداﷲ بن سبا اصل یہودی تھا اور سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں اسلام قبول کرکے حجاز آگیا۔ پھر بصرہ پھر کوفہ اور اس کے بعد شام گیا اور ہر مقام پراس نے لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی اور شامیوں نے اسے شام سے باہر نکال دیا۔ وہاں سے یہ مصر پہنچا اور وہاں آکر قیام پذیر ہوا۔ وہاں اس نے مصریوں کو کہا کہ بڑی تعجب کی بات ہے کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسٰی دوبارہ آئیں گے تو لوگ اس کی تصدیق کرتے ہیں اور اگر حضورﷺ کے انتقال کے بعد واپسی کا کہا جائے تو اسے جھٹلاتے ہیں، اس طرح ’’رجعت‘‘ کاعقیدہ اس نے گھڑا۔ کچھ لوگوں نے اس کی یہ بات قبول کرلی۔ اس کے بعد دوسرے عقیدہ کوپھیلایا اور کہا کہ ہر پیغمبر کا کوئی نہ کوئی ’’وصی‘‘ ہوا ہے اور ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ کے ’’وصی‘‘ حضرت علی رضی اﷲ عنہ ہیں تو جو شخص حضورﷺ کی وصیت کو جاری نہیں کرتا، اس سے بڑھ کر اور ظالم کون ہوگا۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے ناحق خلافت پر قبضہ کررکھا ہے۔ اس کی ان باتوں کو سن کر لوگ اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے حاکموں پر لعن طعن کا آغاز کردیا۔

وذکر سیف بن عمر ان سبب تالف الاحزاب علی عثمان ان رجلا یقال لہ عبداﷲ بن سبا کان یہودیاً فاظہر الاسلام وصار الیٰ مصر فاوحیٰ الیٰ طآئفۃ من الناس کلا ما اخترعہ من عند نفسہ مضمونہ انہ یقول للرجل الیس قد ثبت ان عیسٰی ابن مریم سیعود الیٰ ہذہ الدنیا فیقول الرجل نعم فیقول لہ فرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم افضل منہ فما تنکر ان یعود الیٰ ہٰذہ الدنیا وہوا اشرف من عیسٰی ابن مریم علیہما السلام ثم یقول وقد کان اوصیٰ الیٰ علی ابن ابی طالب فمحمد خاتم انبیآء و علی خاتم الاوصیاء ثم یقول فہوا حق بالامر من عثمان وعثمان معتدفی ولایتہ ما لیس لہ فانکروا علیہ واظہر والامر بالمعروف والنہی عن المنکر فافتتن بہ بشر کثیر من اہل مصر و کتبوا الی جماعات من عوام اہل الکوفۃ والبصرۃ فتما لوا علی ذلک وتکاتبوا فیہ وتواعدوا ان یجتمعوا فی الانکار علی عثمان وارسلوا الیہ من یناظر O ویذکرلہ ماینقمون علیہ من تو لییتہ اقرباۂ وذویٰ رحمہ وعزلہ کبار الصحابۃ فرخل ہذا فی قلوب کثیر من الناس

(البدایہ والنہایہ جلد ہفتم ص 167 تا 168 فی تذکرہ سنۃ اربع وثلاثین مطبوعہ بیروت طبع جدید)

ترجمہ: سیف بن عمر نے کہا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے خلاف لشکر کشی کا سبب یہ تھا کہ ایک شخص عبداﷲ بن سبا نامی یہودی تھا۔ اس نے اسلام لانا ظاہر کیا اور مصر جاکر لوگوں کو ایک من گھڑت ’’وحی‘‘ سنائی جس کا مضمون یہ تھا کہ ایک آدمی کو وہ کہتا ہے کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے؟ وہ آدمی جواباً کہتا ہے یہ درست ہے پھر اسی شخص کو وہ کہتا ہے کہ اگر یہی بات کوئی رسول اﷲﷺ کے متعلق کہے (یعنی آپﷺ بھی دوبارہ تشریف لائیں گے) تو تم اس بات کا انکار کرتے ہو حالانکہ رسول اﷲﷺ حضرت عیسٰی بن مریم علیہ السلام سے افضل ہیں (لہذا انہیں ضرور دوبارہ آنا ہے)

پھر وہ کہتا ہے کہ حضورﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو اپنا ’’وصی‘‘ مقرر فرمایا ہے۔ جب حضورﷺ خاتم الانبیاء ہیں تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ خاتم الوصیاء ہوئے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اس وجہ سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ امر خلافت کے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے زیادہ حقدار ہیں۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے امر خلافت میں زیادتی کی اور خود امیر بن بیٹھے یہ سن کر لوگوں نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ پر بہت سے اعتراضات کرنے شروع کردیئے اور اپنے مذموم عزائم کو ’’امربالمعروف ونہی عن المنکر‘‘ کے رنگ میں پھیلانا شروع کیا۔ اس سے اہل مصر کی ایک کثیر تعداد فتنہ کی زد میں آگئی۔ انہوں نے کوفہ اور بصرہ کے عوام کو رقعہ جات لکھے جس کے بعد کوفی اور بصری لوگ ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی خلافت کے انکار پر سب متفق ہوگئے۔ انہوں نے کئی ایک آدمی حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے ساتھ مناظرہ کے لئے بھیجے اور کچھ ایسے پیغامات بھیجے کہ ہم آپ کے اس رویہ پر احتجاج کرتے ہیں آپ نے اپنے عزیزواقارب اور رشتہ داروں کو مختلف عہدے پر کیوں فائز کیا؟ اور بڑے بڑے صحابہ کرام کو کوئی اہمیت نہ دی تو یہ باتیں بہت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرگئیں۔

بانی مذہب شیعہ عبداﷲ بن سبا یہودی کے عقائد کے بیان میں اہل سنت کی مذکورہ کتب کی تائید شیعہ تواریخ سے بھی ہوتی ہے۔ یہاں چند ایک شیعہ کتب کی عبارات پیش کی جاتی ہیں۔

3: روضۃ الصفاء

شیعہ عقائد کی مشہور تاریخ روضۃ الصفاء میں موجد اہل تشیع عبداﷲ بن سبا کے عقائدکی تشریح ان الفاظ میں موجود ہے۔

ابن السواد کہ در کتب مورخان عجم بعبداﷲ ابن سبا اشتہار یافتہ جہری بوداز احبار یہود صنعا بسودای آنکہ عثمان اور امعزز ومحترم دار دبمدینہ آمدہ ایمان آوردہ ورسلک ارباب اسلام انتظام یافت چوں جمال مطلوب اواز حجاب نقاب منکشف نگشت باطائفہ از اصحاب کہ از عثمان نقاری در دل داشتند اختلاط وانبساط آغاز نہادہ قواعد محبت و الفت استحکام دادند وبہ بدگوئی و عیب جوئی عثمان باایشاں ہمداستاں شدہ باب فتنہ و فساد بکشاد چوں عثمان از اینحال آگاہ گشت گفت ایں جہود بارے کیست کہ ازوی ایں ہمہ تحمل باید کردوباخراج او آخر از مدینہ فرمانداد چوں عبداﷲ چوں میدانست کہ مخالفان عثمان در مصر بسیار اندر وی توجہ بداں دیار نہاد بمصریاں ملحق گشتہ باظہار تقویٰ و علم خویش بسیاری از اہل مصر را بفریت بعد از رسوخ عقیدہ از طائفہ بالیشیاں درمیان نہاد کہ نصاری میگویند کہ عیسٰی مراجعت غودہ از آسمان بزمین نازل خواہد شد و ہمگنان راشن است کہ حضرت خاتم الانبیاء افضل از عیسٰی است پس اوبرجعت اولیٰ باشد و خدائے عزو علاے رانیز بایں وعدہ فرمو چنانچہ میفر مائدکہ ’’ان الذین فرض علیک القرآن لرادک الیٰ معاد‘‘ وبعد از آنکہ سفہائے مصر بر ایں مفی عبداﷲ را مصداق دا شتند باایشان گفت کہ ہر پیغمبر یرا خلیفہ ووصی مے بودہ است و خلیفہ رسول علی است کہ بحلیہ زہد و تقویٰ و علم فتویٰ آراستہ است و بشمہ کرم وشجاعت و شیوہ امانت ودیانت و تقویٰ و علم وفتویٰ آراستہ دامت بخلاف نص محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بر علی رضی اﷲ عنہ ظلم روا داشتند وخلافت حق دے بودیا دنگذا شتند اکنوں نصرت و معاونت آنحضرت برجہانیاں واجب و لازم است واتباع اقوال وافعال اوبر ذمت ہمت عالمیان امر تحتم ویساراز مردم مصر کلمات ابن السوا درادر خاطر جائے دادہ پائے از دائرہ متابعت مطاوعت عثمان بروں نہادند

(روضۃ الصفا جلد دوم ص 470 ذکر خلافت عثمان رضی اﷲ عنہ)

ترجمہ: ابن اسواد جوکہ غیر عرب مورخین میں عبداﷲ بن سبا کے نام سی مشہور ہے، صنعا کے یہودیوں میں سے ایک بڑا عالم تھا۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ چونکہ اسے عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ ان کے اس رویہ کی بناء پر مدینہ میں آکر جماعت مسلمین میں شامل ہوگیا۔ جب ان کا مقصد ناکامیابی کے پردوں سے باہر نہ نکل سکا یعنی اس کا دلی مقصد پورا نہ ہوا تو اس نے ان لوگوں کے ساتھ میل جول بڑھانا شروع کردیا جو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے ساتھ دلی کدورت رکھتے تھے۔ باہمی محبت و پیار کے عہدوپیمان باندھے۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی عیب جوئی اور بدگوئی میں ان کا ساتھ دینا شروع کردیا۔ اس طرح فتنہ و فساد کا دروازہ کھولا۔ جب حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ حالات سے آگاہ ہوئے تو خیال فرمایا کہ یہ شخص کون ہے جو اتنے بڑے فتنہ کا باعث بن رہا ہے۔ اسے کیوں برداشت کیاجارہا ہے۔ آپ نے اسے مدینہ سے نکالنے کا فیصلہ فرمالیا جب عبداﷲ بن سبا کو یہ معلوم ہوا کہ مصر میں حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے مخالفین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے تو جانب مصر روانہ ہوگیا۔ وہاں جاکر اپنے تقویٰ اور علم کی بہتات سے لوگوں کو اپنا فریفتہ کرلیا جب بہت سے لوگوں نے اس کے خیالات و عقائد کو قبول کرلیا تو فورا ایک نیا عقیدہ ان کے سامنے پیش کردیا۔ وہ یہ کہ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام آسمانوں سے اتر کر دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حضرت خاتم الانبیاءﷺ حضرت عیسٰی علیہ السلام سے افضل ہیں لہذا آپ کو دوبارہ تشریف لانے کا زیادہ حق ہے۔ خود اﷲ تعالیٰ نے بھی آپ سے دوبارہ واپسی کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔

    ان الذی فرض علیک القرآن لرادک الی معاد

    جس نے آپ پر قرآن نازل فرمایا وہ یقیناًآپ کو لوٹنے کی جگہ کی طرف لوٹائے گا۔

جب عبداﷲ بن سبا کی اس کوشش اورعقیدہ کو مصریوں نے قبول کرلیا تو اس نے ان سے کہا کہ دیکھو ہر پیغمبر کا ایک نہ ایک خلیفہ اور وصی ہوتا رہا ہے اور حضورﷺ کے خلیفہ اور وصی حضرت علی رضی اﷲ عنہ ہیں جو زہدوتقویٰ اور علم و فتویٰ سے مزین ہیں اور کرم و سخاوت، شجاعت و امانت اور تقویٰ و دیانت سے آراستہ ہیں لیکن امت (لوگوں) نے آپ کی واضح ہدایت کے خلاف چل کر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو خلافت نہ دے کر ظلم کیا ہے۔ اب تمام لوگوں پر یہ لازم و واجب ہے کہ حضورﷺ کی وصیت کے اجراء میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی معاونت و نصرت کریں اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے اقوال و افعال کی تعمیل سب لوگوں پر واجب ہے۔

ان کلمات کو سنکر بہت سے مصری لوگ ان کے شیدائی ہوگئے اور ان کی باتوں کو دل سے قبول کرلیا اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی متابعت و اطاعت سے روگردان ہوگئے

وحکٰی جماعۃ من اہل العلم من اصحاب علی علیہ السلام ان عبداﷲ بن سبا کان یہودیاً فاسلم ووالیٰ علیاً علیہ السلام وکان یقول وہو علی یہودییتہ فی یوشع بن نون بعد موسیٰ علیہ السلام بہذہ المقالۃ فقال فی اسلامہ بعد وفاۃ النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ فی علی علیہ السلام بمثل ذلک وہوا ول من اشہر القول بفرض امامۃ علی علیہ السلام واظہرا البرآء ۃ من اعداۂ وکاشف مخالفیہ فمن ہناک قال من خالف الشیعۃ ان اصل الرفض ماخوذ من الیہودیۃ

(کتاب فرق الشیعۃ لابی محمد بن موسیٰ النو نجتی ص 22 مطبوعہ حیدریہ نجف اشرف من علماء قرن الثالث تحت فرقۃ السبائیۃ)

ترجمہ: حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے اہل علم ساتھیوں نے بیان کیا ہے کہ عبداﷲ بن سبا یہودی تھا۔ پھر مسلمان ہوگیا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے محبت کا دعویدار ہوا۔ یہودیت کے دوران وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے انتقال کے بعد حضرت یوشع بن نون کے بارے میں اس قسم کی باتیں کرتا تھا (یعنی حضرت یوشع بن نون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اور وصی تھے) مسلمان ہونے کے بعد حضور علیہ السلام کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں بھی وہی باتیں کہیں۔ یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی امامت کی فرضیت کو مشہور کیا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار کیا اور آپ کے مخالفین کو لوگوں کے سامنے ظاہر کیا۔ اسی وجہ سے شیعہ لوگوں کے مخالفین کہتے ہیں کہ رفض (شیعیت) کی جڑ یہودیت سے (یعنی یہودیت نے ہی ظہور اسلام کے بعد شیعیت کا روپ دھار لیا ہے)

مذہب تشیع کی بنیاد یہود نے رکھی، شیعہ مورخین کا اعتراف

ناسخ التواریخ

عبداﷲ بن سبا مرد جہود بود در زمان عثمان بن عفان مسلمانی گرفت داواز کتب پیشین ومصاحب سابقین نیک دانا بودچوں مسلمان شد خلافت عثمان در خاطر او پسندیدہ نیفتاد پس در مجالس و محافل اصحاب بنشتے وقبائح اعمال و مثالب عثمان راہبرچہ توانستے باز گفتے، ایں خبر بعثمان بروند گفت بارے ایں جمہود کیست وفرمان کردتا اورا از مدینہ اخراج نمودند، عبداﷲ بمصر آمد وچوں مرد عالم و دانا بود مردم بردے گرد آمدند وکلمات اور اباورداشتند، گفت ہاں اے مردم مگر نشنیدہ اید کہ نصاریٰ گوبند عیسٰی علیہ السلام بدیں جہاں رجعت کندوباز آید چنانکہ در شریعت مانیز ایں سخن استوار است چوں عیسٰی رجعت تواں کرد محمد کہ بیگماں فاضلتر از وست چگونہ رجعت نکند وخدا وندنیز در قرآن کریم میفر ماید ان الذی فرض علیک القرآن لرادک

الی معاد

چوں ایں خن در خاطر ہاجائے گیر ساخت گفت خداوند صدوبیست وچہار ہزار پیغمبر بدیں زمین فروفر ستاد دہر پیغمبرے را وزیرے وخلیفتے بود چگونہ یشود پیغمبرے ازجہاں برود خاصہ وقتیکہ صاحب شریعت باشد ونائبے وخلیفتے بخلق نگمار دو کارامت رامہمل بزارد؟ ہمانا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم راعلی علیہ السلام وصی وخلیفہ بود چنانکہ خود فرمود انت منی بمتزلۃ ہارون من موسیٰ، ازیں میتواں دانست کہ علی علیہ السلام خلیفہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم است و عثمان ایں منصب را غصب کردہ وباخود بستہ عمر نیز بناحق ایں کار بشوریٰ افگسند وعبدالرحمن بن عوف بہوائے نفس دست بردست عثمان زدودست علی را کہ گرفتہ بودبا او بیعت کند رہا داد

اکنوں برما کہ در شریعت محمدیم واجب میکند کہ از امر بالمعروف و نبی از منکر خویشتن داری نکنیم، چنانکہ خدا فرماید کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر۔ پس بامردم خویش گفت مارا ہستوز آں نیز ونیست کہ بتوانیم عثمان رادفع داد واجب میکند کہ چندانکہ بتوانیم عمال عثمان را کہ آتش جوروستم رادامن ہمیز نند ضعیف داریم وقبائح اعمال ایشاں رابر عالمیاں روشن سازیم ودلہائے مردم را از عثمان و عمال اوبگردانیم، پس نامہ ہانوشتند واز عبداﷲ بن سعد بن ابی سرح کہ امارت مصر داشت باطراف جہاں شکایت فرستادند ومردم رایکدل ویکجہت کردند کہ در مدینہ گر دآیند وبرعثمان امر بالمعروف کنند واورا از خلیفتے خلع فرمایند

عثمان ایں معنی را تفرس ہمیلکر دو مردان بن الحکم جاسوسال بشہر ہا فرستاد تاخبر باز آور دند کہ بزرگان ہربلد در خلع عثمان ہمدانستاں اندلاجرم عثمان ضعیف ودرکار خود فروماند

(ناسخ التواریخ تاریخ خلفاء جلد سوم صفحہ238,237 طبع جدید مطبوعہ تہران دوران خلافت عثمان بن عفان، مصنفہ مرزا محمد تقی)

ترجمہ: عبداﷲ بن سبا ایک یہودی آدمی تھا۔ عہد عثمانی میں اسلام لایا اور کتب سابقہ اور مصاحف گزشتہ سے خوف واقف تھا۔ جب مسلمان ہوا تو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی خلافت اس کو اچھی نہ لگی چنانچہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ محافل میں بیٹھتا اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے خلافت جتنا کچھ قبیح افعال کا ذکر کرسکتا کرتا رہتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو یہ خبر ملی تو کہا الٰہی یہ یہودی کون ہے؟ چنانچہ حکم دیا کہ اسے مدینہ شریف سے نکال دیا جائے۔ عبداﷲ بن سبا مصر آپہنچا چونکہ عالم و دانا آدمی تھا۔ اس لئے لوگ اس کے گرد جمع ہونے شروع ہوئے اور اس کی باتیں قبول کرنے لگے۔ تب اس نے کہا! اے لوگو! تم نے سنا نہیں کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ عیسٰی علیہ السلام دنیا میں واپس آئیں گے اور ہماری شریعت کے مطابق بھی یہ بات درست ہے۔ اگر عیسٰی واپس آسکتے ہیں تو حضرت محمدﷺ جوان سے افضل ہیں، کیوں واپس نہیں آسکتے۔ اﷲ تعالی ٰبھی قرآن کریم میں فرماتا ہے (ترجمہ) جس خدا نے تجھے قرآن دیا وہ تجھے لوٹنے کے وقت پر لوٹائے گا۔

جب یہ بات لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوگئی (رجعت کا عقیدہ پختہ ہوگیا) تو اب ابن سبا نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اس زمین پربھیجے اور ہر پیغمبرکا ایک وزیر اور خلیفہ ہوا ہے۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک پیغمبرﷺ دنیا سے جائے جبکہ وہ صاحب شریعت نبی ہو مگر اپنا خلیفہ و نائب لوگوں میں نہ چھوڑ جائے۔ اپنی امت کا معاملہ (مسئلہ خلافت) مہمل چھوڑ جائے۔

لہذا محمدﷺ کے لئے علی علیہ السلام وصی ہیں اور خلیفہ ہیں۔

جیسا کہ آپ نے علی کو خود فرمایا تو میرے لئے یوں ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لئے ہارون علیہ السلام، اسی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ علی علیہ السلام ہی محمدﷺ کے خلیفہ ہیں اور عثمان نے یہ منصب (خلافت) غصب کرکے اپنے اوپر چسپاں کررکھا ہے۔ عمر نے بھی کسی حق کے بغیر یہ شوریٰ پر ڈال دیا اور عبدالرحمن بن عوف نے نفسانی ہوس سے عثمان کی بیعت کرلی اور علی کا ہاتھ بھی اس نے پکڑ رکھا تھا جب علی نے بیعت کرلی تو اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

اب جو ہم شریعت محمدی میں ہیں ہم پر واجب آتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے سستی نہ کریں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے (ترجمہ) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے لائی گئی تاکہ انہیں نیکی کا حکم کرے، برائی سے روکے۔

پھر ابن سبا نے لوگوں سے کہا بھی ہم میں یہ طاقت نہیں کہ عثمان کو خلافت سے اتار سکیں۔ البتہ یہ ہم پر ضروری ہے کہ جتنا ہوسکے عثمان کے عمال (گورنروں) کو جو ظلم و ستم روا رکھے ہیں، کمزور کر ڈالیں۔ ان کے قبیح اعمال اہل دنیا پر واضح کریں اور لوگوں کے دل عثمان اور اس کے عمال سے متنفر کر ڈالیں۔ چنانچہ انہوں نے کئی خطوط لکھے اور والی مصر عبداﷲ بن سعد (کے ظلم) کی شکایت کرتے ہوئے جہاں میں ہر طرف ارسال کردیئے اس طرح انہوں نے لوگوں کو اس بات پر یکدل بنایا کہ وہ مدینہ میں جمع ہوکر عثمان کو امر بالمعروف کریں اور اسے خلافت سے اتاردیں۔

عثمان یہ معاملہ سمجھتے تھے اور مروان بن حکم نے ہر شہر میں جاسوس بھیجے چنانچہ وہ یہ خبر لے کر واپس آئے کہ ہر شہر کے بڑے لوگ عثمان کو اتار دینے میں یک زبان ہیں ناچار عثمان کمزور ہوگئے اور اپنے معاملہ میں عاجز آگئے، قتل ہوگئے۔

ثابت ہوا

معتبر شیعہ مورخ مرزا تقی کی مذکورہ عبارت سے یہ امور ثابت ہوگئے۔

    1: عبداﷲ بن سبا پکا یہودی تھا جو عہد عثمانی میں اسلام لایا۔ مگر درپردہ یہودی ہی رہا جیسا کہ فرقہ شیعہ کی عبارت نمبر 4 نے اس پر نص کردی ہے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوا کہ وہ ایک فاضل ودانائے کتب سابقہ شخص تھا۔

    2: اس نے شیعہ مسلک کی بنیاد یوں ڈالی کہ سب سے اول مسئلہ رجعت پیدا کیا اور لوگوں کو ذہن نشین کرایا جوکہ شیعہ عقائد کی جڑ ہے۔

    3: مسئلہ رجعت کے ایجاد کے بعد لوگوں کو یہ ذہن نشین کرایا کہ علی رضی اﷲ عنہ ہی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا صحیح خلیفہ اور وصی ہے اور خلفاء ثلاثہ نے یہ حق ان سے غصب کیا۔

    4: یہ دو عقیدے ایجاد کرنے کے بعد اس نے چاہا کہ انہیں لوگوں میں عام ترویج دی جائے چنانچہ اس نے مختلف ممالک میں ہر طرف خطوط روانہ کئے اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو خلافت سے اتارنے کے لئے سازش کا ایک وسیع جال پھیلا دیا جس میں وہ کامیاب ہوا اور نتیجتاً حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ شہید ہوگئے اور فرقے شیعہ کی بنیاد مضبوط ہوگئی۔

خلاصہ یہ ہوا کہ اہل تشیع فرقے کی بنیاد رکھنے والا بہت بڑا یہودی عالم تھا جو بظاہر اسلام لانے کے باوجود درپردہ یہودی ہی رہا جیسا کہ تاریخ روضۃ الصفاء اور فرق شیعہ جیسی معتبر شیعہ کتب سے اس کی نہایت وقباحت ہوچکی اور آئندہ مزید شواہد آرہے ہیں، اس یہودی عالم نے اسلام کے متعلق اپنی قلبی شقاوت و عداوت کو تسکین دینے کے لئے شیعہ مذہب کی بنیاد رکھی اور اسلام کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب ہوا اور قتل حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ میں کامیاب ہوکر فساد کا وہ دروازہ کھولا جو آج تک بند نہیں ہوسکا۔

قال عبداﷲ بن سبا لعلی انت الا لہ حقاً فنفاہ علی علیہ السلام الی المدآئن وقیل انہ کان یہودیاً فاسلم وکان فی الیہودیۃ یقول فی یوشع بن نون وفی موسیٰ مثل ما قال فی علی علیہ السلام وقیل انہ اول من اظہر القول بوجوب امامۃ علی

(انوار نعمانیہ مصنفہ نعمت اﷲ جزائری ص197، طبع قدیم مطبوعہ ایران طبع جدید جلد 2، ص 234، فرقہ سبائیہ)

ترجمہ: عبداﷲ بن سبا نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں ’’الہ‘‘ ہونے کا عقیدہ ایجاد کیا۔ اس پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اسے جلاوطن کردیا اور کہا گیا ہے کہ یہ اصل میں یہودی تھا پھر مسلمان ہوگیا۔ یہودیت کے دوران حضرت یوشع بن نون اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کے بارے میں اسی قسم کی باتیں کیا کرتا تھا جیسی حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے متعلق کیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’وجوب امامت‘‘ کا عقیدہ اسی کی اختراع و ایجاد ہے۔

    وذکر بعض اہل العلم ان عبداﷲ بن سبا کان یہودیاً فاسلم ووالی علیاً علیہ السلام وکان یقول وہو علی یہودیتہ فی یوشع بن نون وصی موسیٰ بالغلو فقال فی اسلامہ بعد وفاۃ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فی علی علیہ السلام مثل ذلک وکان اول من اشہر بالقول بفرض امامۃ علی و اظہر البراءۃ من اعدآۂ وکاشف مخالفیہ وکفرہم فمن ہنا قال من خالف الشیعۃ ان اصل التشیع والرفض ماخوذ من الیہودیۃ

    (رجال کشی مصنفہ عمر بن عبدالعزیز الکشی ص 101 تذکرہ عبداﷲ بن سبا مطبوعہ کربلا)

    ترجمہ: بعض علماء نے ذکر کیا ہے کہ عبداﷲ بن سبا یہودی تھا، پھر مسلمان ہوا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے دوستی کی۔ دوران یہودیت حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وصی بطور غلو کہا کرتا تھا۔ اسلام لانے کے بعد حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں بھی اس نے اسی طرح کی بات کہی۔ یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی امامت کے فرض ہونے کا عقیدہ مشہور کیا۔

اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے مخالفوں سے بیزاری کا اظہار کیا اور انہیں عوام میں مشتہر کیا۔ اسی وجہ سے شیعہ لوگوں کے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ شیعیت اور رافضیت کی اصل اور جڑ یہودیت ہے اور یہ مذہب یہودیت سے اخذ کیا گیا ہے۔

عن ابان بن عثمان قال سمعت ابا عبداﷲ علیہ السلام یقول لعن اﷲ عبداﷲ بن سبا انہ ادعی الربو بیتہ فی امیر المومنین علیہ السلام وکان واﷲ امیر المومنین علیہ السلام عبداﷲ طائعاً الویل لمن کذب علینا وان قوما یقولون قینا مالا نقولہ فی انفسنا نبرا الی اﷲ منہم نبراالی اﷲ منہم

(رجال کشی صفحہ 100 مطبوعہ کربلا تذکرہ عبداﷲ بن سبا)

ترجمہ: ابان بن عثمان سے مروی ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر رضی اﷲ عنہ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ اﷲ تعالیٰ عبداﷲ بن سبا پر لعنت کرے کہ اس نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے متعلق خدا ہونے کا دعویٰ کیا۔ حالانکہ قسم بخدا حضرت امیر المومنین خدا کے اطاعت گزار بندے تھے۔ ہم پر افترا بازی کرنے والے کے لئے ہلاکت ہو۔ تحقیق جو قوم ہمارے متعلق وہ بات کہتی ہے جو ہم خود اپنے لئے کہنا روا نہیں سمجھتے۔ ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔ ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔

مذکورہ عبارات سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے

    1: مملکت اسلامیہ میں پھوٹ ڈالنے والا پہلا شخص دور عثمانی میں عبداﷲ بن سبا (منافق) تھا اور یہی آدمی شہادت حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کا باعث تھا۔

    2: سب سے پہلے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے لئے ربوبیت اور فرض امامت کا دعویٰ عبداﷲ بن سبا نے کیا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے مخالفین پر تبرا بازی اور لعن طعن کی ابتدا بھی اسی نے کی۔

    3: حضرت عیسٰی علیہ السلام کی طرح وہ حضورﷺ کی رجعت دوبارہ تشریف آوری کا قائل تھا۔

    4: حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ ان عقائد باطلہ کی بناء پر ہی عبداﷲ بن سبا کو خارج از اسلام قرار دیتے تھے۔

    5: عبداﷲ بن سبا اصل میں یہودی تھا اور بظاہر اسلام لایا تھا لیکن دل سے پہلے کی طرح دشمن اسلام و مسلمین تھا۔ شہادت سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے اسباب اس کے مہیا کئے ہوئے تھے۔ ( جاری ہے )

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...