Monday 14 September 2015

شیعہ مذہب کا تعارف مستند حوالہ جات کی روشنی میں حصّہ دوم


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہم اپنے قارئین کرام پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ شیعہ حضرات کے عقیدہ کے مطابق امامت کیا ہے اور آئمہ کا مرتبہ و مقام کیاہے۔ خمینی بانی ایرانی انقلاب اپنی مشہور ترین کتاب کے صفحہ نمبر52 پر لکھتے ہیں۔

’’فان للامام مقاماً محموداً و درجۃ سامیۃ و خلافۃ وتکونیۃ تحفع لولایتھا جمیع ذرات الکون‘‘

امام کو مقام محمود بلند درجہ اور ایسی تکوینی حکومت حاصل ہوتی ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کا مطیع ہوتا ہے۔

توضیح

حالانکہ قرآن کریم اور احادیث متواترہ و اجماع امت سے یہ بات ثابت ہے کہ مقام محمود فقط آپﷺ کی ذات ہے اور کائنات کے ذرہ، ذرہ پر حکومت صرف اﷲ رب العزت کی ہے لیکن شیعہ حضرات کا عقیدہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ عقیدہ تو امام کو تکوینی حکومت حاصل ہونے کا ہے لیکن اگر ائمہ کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ سوائے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کسی کو بھی حکومت کا موقع نہیں مل سکا۔

بانی ایرانی شیعہ انقلاب مزید اسی کتاب کے صفحہ نمبر 52 پر لکھتے ہیں۔

وان من ضروریات مذہنا ان الائمتنا مقاماً لایبلغہ ملک قرب ولانبی مرسل

ہمارے مذہب شیعہ کے ضروری اور بنیادی عقائد میں سے یہ عقیدہ ہے کہ ہمارے آئمہ کو وہ مقام و مرتبہ حاصل ہے جو کسی مقرب فرشتے اور نبی مرسل کو بھی نہیں۔

توضیح

یعنی حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے لے کر امام مہدی تک تمام آئمہ نبی کریمﷺ سے بھی افضل ہیں۔ خمینی صاحب نائب امام تھے۔ شیعہ کے ہاں ان کا مرتبہ بھی بلند ہوگا (العیاذ باﷲ) پھر آگے لکھتے ہیں۔

لانتصور فیہم السوہوا والکفلۃ… ان تعالیم الائمۃ کتعالیم القرآن لاتخص جیلا خاصا وانماہی تعالیم للجمیع فی کل عصر ومصرو الی یوم القیمۃ یجب تنفیذ ماہوا تباعھا الحکومت الاسلامیہ ص 13

ہمارے آئمہ سے کسی غلطی یا غفلت کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ہمارے آئمہ کی تعلیمات قرآن کی تعلیمات ہی کی مثل ہیں۔ وہ کسی خاص طبقے اور خاص دور کے لئے مخصوص نہیں، وہ ہر زمانے اور ہر علاقے کی تمام انسانوں کے لئے ہیں تا قیامت ان کا نافذ کرنا اور ان کی اتباع و پیروی واجب ہے۔

مذکورہ عبارت غور طلب ہیں۔ رسول اکرمﷺ کی طرح آئمہ کا مقام و مرتبہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان سے غلطی یا لغزش کا تصور بھی حرام ہے۔ ان کی تعلیمات قرآن سے نہیں بلکہ قرآن جیسی ہے۔

زمین کی تباہی

شیعہ حضرات کی مشہور ترین بلکہ امام غائب کی مصدقہ کتاب ’’اصول کافی‘‘ ص 104 پر ہے۔

عن ابی ہمزۃ قال قالت لابی عبداﷲ تبقی الارض بغیر امام قال لوبقیت الارض بغیر امام لساخت

ابو حمزہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق سے پوچھا کیا زمین بغیر امام کے قائم رہ سکتی ہے۔ انہوں نے فرمایا اگر زمین بغیر امام کے رہے تو دھنس جائے گی۔

ایک اور روایت میں ہے

عن احدہما انہ قال لایکون العبد مومنا حتی یصرف اﷲ ورسولہ ولائمۃ کلہم وامام زمانہ (اصول کافی ص 105)

حضرت امام محمد باقر یا امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اﷲ اور اس کے رسول کی اور تمام ائمہ خاص کر اپنے زمانے کے امام کی معفرت حاصل نہ کرے۔

توضیح

دونوں عبارتوں کا مطلب بالکل واضح ہے کہ زمین کی بقاء کے لئے امام کا ہونا لازمی ہے۔ گویا مومن ہونے کے لئے ضروری ہے کہ امام کی معرفت ہو ورنہ العیاذ باﷲ باقی تمام مسلمان غیر مومن ہیں۔

اسی اصول کافی ص 276 میں ایک روایت درج ہے

عن ابی الحسن العطار قال سمعت ابا عبداﷲ یقول اشرک بین الاوصیاء والرسل فی الطاعۃ

ابوالحسن عطار نے روایت کیا کہ میں نے امام جعفر صادق سے سنا ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ ائمہ اور رسولوں کو اطاعت میں برابر سمجھو

توضیح

یعنی جس طرح انبیاء علیہم السلام کی اطاعت امت پر فرض ہے، بالکل اسی طرح ائمہ کی بھی اطاعت فرض ہے بلکہ شیعہ کی مشہور ترین کتاب حیات القلوب جلد سوم صفحہ اول پر ہے۔

مرتبہ امامت برتر نبوت است

مرتبہ امامت نبوت سے برتر ہے

جب ائمہ کا مرتبہ و مقام نبوت سے اعلیٰ ہے تو ان کی اطاعت بھی ان سے زیادہ اہم ہوگی۔ اصول کافی میں ہے۔ محمد بن سنسان سے ایک روایت کہ میں نے ابو جعفر ثانی محمد بن علی سے سوال کیا کہ شیعوں کے درمیان حلال و حرام میں بے حد اختلاف ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ تو ابو جعفر ثانی نے تفصیل کے ساتھ جواب دیتے ہوئے فرمایا

فہم یحلون ماشیاؤن ویحرمون مایشائون ولن یشائو الا ان یشاء اﷲ

وہ امام جن چیزوں کو چاہتے ہیں حلال کردیتے ہیں اور جن چیزوں کو چاہتے ہیں حرام کردیتے ہیں اور وہ وہی چاہتے ہیں جو اﷲ چاہتا ہے۔

توضیح

اس جملہ میں حلال و حرام کا اختیار رکھنے والے اگرچہ حضورﷺ، حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو کہا گیا ہے لیکن شارح اصول کافی علامہ خلیل قزوینی نے اس حدیث کی تشریح کردی کہ ان تینوں کے علاوہ ان کی نسل سے پیدا ہونے والے تمام آئمہ کو یہ اختیار حاصل ہے۔ الصافی شرح اصول کافی جلد دوم ص 149

امام کی دس خصوصیات

حضرت امام محمد باقر کی طرف منسوب ایک روایت سنئے ۔

1۔ یولد مطہراً مختونا … امام پاک و صاف ختنہ کیا ہوا پیدا ہوتا ہے

2۔ واذا وقع علی الارض وقع علی راحیۃ رافعا صوتہ بالشہادتین … اور جب ماں کے پیٹ سے زمین پر آتا ہے تو دونوں ہتھیلیاں زمین پر رکھے ہوتا اور بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھتا ہے۔

3۔ ولا یجنب… اور اس کو کبھی جنابت نہیں ہوتی (غسل کی ضرورت نہیں)

4۔ وتنام عینا ولاینام قلب… جب سوتا ہے تو (صرف) آنکھ سوتی ہے دل بیدار رہتا ہے۔

5۔ ولایتشائوب… اور کبھی جماہی نہیں آتی

6۔ ولایتمطی … اور اس کو کبھی انگڑائی نہیں آتی

7۔ ویریٰ خلفہ کما یرٰی من امامہ… امام آگے اور پیچھے سے برابر دیکھتا ہے

8۔ ونجوہ کرائمۃ السک… امام کے پاخانہ سے مشک کی سی خوشبو آتی ہے۔

9۔ والارض مامورۃ بسترۃ وابصلاعۃ… اور زمین کو حکم ہے کہ اس کے پاخانہ کو ڈھک لے اور نگل لے

10۔ واذا بس ذرع رسول اﷲ کانت وفقاء واذا بس غیرہ من الناس طویلہم قصیر ہم زادت علیہ شبرا… اور جب وہ رسول اﷲﷺ کی ذرہ پہنتا ہے تو اس کو بالکل ٹھیک آتی ہے جبکہ اس ذرہ کو کوئی دوسرا لمبا یا چھوٹا آدمی پہنتا ہے تو وہ ایک بالشت بڑی رہتی ہے۔

ایک اور روایت پڑھئے

امام خمینی کے پسندیدہ شیعہ مولوی علامہ باقر مجلسی اپنی ایک کتاب ’’حق الیقین‘‘ ص 126پر امام حسن عسکری سے اس روایت کو بیان کیا ہے

حمل مااوصیائے پمفران درشکم نمی باشد در پہلومے باشد واز رحم بیرون نمی آئیم بلکہ ازران مادران فردمے آئیم زیراکہ مانور خدائے تعالیٰ ایم وچرک وکشافت ونجاست رازمادر گردانیدہ است

ہمارے ائمہ کا حمل پیٹ میں نہیں ہوتا بلکہ پہلو میں ہوتا ہے اور ہم رحم سے باہر نہیں آئے بلکہ مائوں کی رانوں سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ہم خداوند تعالیٰ کا نور ہیں، لہذا ہمیں گندگی و نجاست وغیرہ سے پاک رکھا جاتا ہے۔

یہ ہے ان فی ذالک لایت لقوم یعقلون ۔ ( جاری ہے )

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...