Wednesday 16 September 2015

وصال کے دن یعنی بارہ ربیع الاول کو جشن مناتے ہو اعتراض کا جواب

وصال کے دن یعنی بارہ ربیع الاول کو جشن مناتے ہو اعتراض کا جواب

محترم قارئینِ کرام : دیابنہ اور وہابیہ ہر نیا کام خود کرتے ہیں مگر انہیں بغض و عداوت صرف میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہے اسی لیے نت جاہلانہ اعتراضات کر کے اپنے بغض کا اظہار کرتے رہتے ہیں انہیں میں سے ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے دن یعنی بارہ ربیع الاول کو جشن مناتے ہو حقیقت یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تاریخ وصال نہیں ہے جس کی تفصیل ہم عرض کر چکے ہیں الحَمْدُ ِلله ۔ اگر بالفرض اس بات کو تسلیم کربھی لیا جائے کہ بارہ ربیع الاول شریف کو ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال شریف ہوا تھا تو وفات کا غم وفات سے تین دن کے بعد منانا قطعا جائز نہیں ۔ اسلام میں سوگ صرف تین دن ہے اگر تین دن سے زیادہ سوگ کا کہیں حکم ہے تو کوئی دیوبندی وہابی ثبوت دے اب حدیث شریف ملاحظہ فرمائیں : حضرت اُمِّ حبیبہ اور حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں : ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم کسی وفات یافتہ پر تین روز کے بعد غم نہ منائیں مگر شوہر پرچار ماہ دس دن تک بیوی غم منائے گی ۔ (صحیح بخاری مترجم جلد اوّل صفحہ663)۔(مسلم جلد اول صفحہ نمبر 486،چشتی)۔(صحیح بخاری کتاب الجنایزحدیث نمبر 1280 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ثابت ہوا کہ تین دن کے بعد وفات کا سوگ منانا ناجائز ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کا غم منانے کا حکم ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر جمعہ (یوم ولادت حضرت آدم علیہ السلام) منانے کے بجائے یوم سوگ منانے کا حکم دیتے چنانچہ حدیث ملاحظہ ہو ۔

حضرت اوس بن اوس رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فضیلت جمعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔ تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے اس میں حضرت آدم علیہ السلا کو پیدا کیا اور اسی میں ان کا وصال ہوا ۔ (ابو داؤد شریف، ابن ماجہ، نسائی شریف،چشتی)

قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء کرام علیہم السّلام ، شہداء اور صالحین علیہم الرّحمہ اپنی قبور میں جسم و جسمانیت کے ساتھ حیات ہیں ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حیات ہیں تو پھر سوگ اور غم کیسا ؟ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں  : حضرت عبدﷲ ابن مسعود رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : حیاتی خیرلکم و مماتی خیر لکم ۔
ترجمہ : میری ظاہری حیات اور وصال دونوں تمہارے لیے باعث خیر ہے ۔ (کتاب الشفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ)

الزام لگانے والو ذرا سوچو اور یاد کرو بخاری شریف کی پہلی حدیث ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘ لہٰذا ہم جشن ولادت کی خوشی کی نیت سے میلاد مناتے ہیں نہ کہ وصال کی خوشی پر جشن مناتے ہیں ۔

اسلام میں سوگ منانا جائز ہے اور تین دن تک سوگ منایا جا سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں ۔ سوگ کے معنی یہ ہیں کہ زِینت کو ترک کرے ۔ (درالمختار معہ ردالمحتار کتاب الطلاق، فصل فی الحداد، ۵ / ۲۲۱)۔(بہار شریعت،حصہ۸ ،۲ / ۲۴۲)

بیوہ عدت تک سوگ کرے گی جب کہ باقی لوگ صرف تین دن سوگ کر سکتے ہیں ۔ (سنن الترمذی 1/143،چشتی)(الفتاویٰ الہندیہ  1/167)(ردالمحتار علی الدر المختار 2/ 240)

درمختارمیں ہے : الحداد …… لغۃ کما فی القاموس ترک الزینۃ للعدۃ و شرعا ترک الزینۃ ونحوھا لمعتدۃ بائن او موت ۔ (درمختار باب العدۃ فصل فی الحداد)
ترجمہ : سوگ ، لغت میں …… جیسا کہ قاموس میں ہے …… عدت کےلیے زینت چھوڑنے کو کہتے ہیں اور شریعت مطہرہ کی اصطلاح میں طلاقِ بائن یا شوہر کی موت سے عدت بیٹھنے والی عورت کے زینت اوراس کی مثل کو چھوڑنے کو کہتے ہیں ۔

عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ : ” كُنَّا نُنْهَى أَنْ نُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ، وَلَا نَكْتَحِلَ وَلَا نَتَطَيَّبَ وَلَا نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ ، وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ كُسْتِ أَظْفَارٍ ۔ (صحيح البخاري : 5341 ، الطلاق)(صحيح مسلم :938 ، الطلاق :67)
ترجمہ : حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم مسلمان عورتوں کو (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے) منع کیا گیا ہے کہ ہم کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائیں ، ہاں ! اپنے خاوند پر چار ماہ دس دن کا سوگ ہے ، اور اس درمیان نہ تو ہم سرمہ لگائیں نہ خوشبو لگائیں ، نہ رنگا ہوا کپڑا پہنیں ، مگر وہ کپڑا جس کی بناوٹ رنگین دھاگوں سے ہو ، البتہ ہمیں یہ رخصت دی گئی کہ حیض سے طہارت کے وقت معمولی قسط یا ظفار کی خوشبو استعمال کرلیں ۔

حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : کوئی عورت کسی میّت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ کرے ، مگر شوہر پر چار مہینے دس دن سوگ کرے ۔ (مسلم ،کتاب الطلاق، باب وجوب الاحداد فی عدۃ الوفاۃ۔۔۔الخ  صفحہ ۷۹۹ حدیث نمبر ۱۴۹۱،چشتی)

قَالَتْ زَيْنَبُ دَخَلْتُ عَلَی اُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ حِينَ تُوُفِّيَ اَبُوهَا اَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ فَدَعَتْ اُمُّ حَبِيبَةَ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ اَوْ غَيْرُهُ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا ثُمَّ قَالَتْ وَالله مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ اَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَاَةٍ تُوْمِنُ بِالله وَالْيَوْمِ الْآخِرِ اَنْ تُحِدَّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَـلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۔
ترجمہ : حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی  زوجہ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ اُن کے والد ماجد حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو منگائی جس میں خلوق یاکسی اور چیز کی زردی تھی۔ انہوں نے وہ خوشبو ایک لڑکی کو لگائی اور تھوڑی سی اپنے رخسار پر بھی مل لی، اور فرمایا کہ خدا کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں، لیکن میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ تین دن سے زیادہ کسی میت کا سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے اُس کا سوگ چار ماہ دس دن ہے ۔ (بخاري الصحیح 5: 2042، رقم: 5024، دار ابن کثیر الیمامة بیروت،چشتی)(مسلم، الصحیح، 2: 1123، رقم: 1486، دار احیاء التراث العربي بیروت)

قَالَتْ زَيْنَبُ فَدَخَلْتُ عَلَی زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ اَخُوهَا فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ ثُمَّ قَالَتْ اَمَا وَالله مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ اَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله يَقُولُ عَلَی الْمِنْبَرِ لَا يَحِلُّ لِامْرَاَةٍ تُوْمِنُ بِالله وَالْيَوْمِ الْآخِرِ اَنْ تُحِدَّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۔
ترجمہ : حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اُم المؤمنین زینب بنتِ حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ ان کے بھائی کاانتقال ہوگیا تھا ۔ انہوں نے خوشبو منگائی اور اس میں تھوڑی سی لگا کر فرمایا : خدا کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں ہے، لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عورت کے لیے یہ حلال نہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ کرے ، سوائے اپنے خاوند کے کہ وہ چار ماہ دس دن ہے ۔ (بخاري، الصحیح، 1: 430، رقم: 1222،چشتی)۔(مسلم، الصحیح، 2: 1124، رقم: 1484)

ام المو منین حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس عورت کا شوہر مر گیا ہے ، وہ نہ کُسُم کا رنگا ہوا کپڑا پہنے اور نہ گیرو کا رنگا ہوا اور نہ زیور پہنے اور نہ مہندی لگائے اور نہ سُرمہ ۔ (سنن ابوداود کتاب الطلاق باب فیما تجتنبہ۔۔۔ الخ،۲ / ۴۲۵، حدیث ۲۳۰۴)۔(بہار شریعت،حصہ ۸، ۲ / ۲۴۱)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شوہر کےعلاوہ دیگر رِشتہ داروں کے (اِنتقال پر) سوگ کےلیے تین (3) دن مُقرَّر فرمائے ۔ (صحابۂ کرام کا عشقِ رسول صفحہ ۲۳۰)

جبکہ بیوی اپنے شوہر کی وَفات پر عِدَّت کی مُدّت (چار مہینے دس دن) تک سوگ میں رہے گی ۔ اَلبتّہ کسی قریبی (رِشْتہ دار) کے مرجانے پر عورت کو تین دن (3) تک سوگ کرنے کی اِجازت ہے اس سے زائد کی (اِجازت) نہیں ۔ (ردالمحتار کتاب الطلاق، فصل فی الحداد، جلد ۵ صفحہ ۲۲۳،چشتی)

تین (3) دن سے زِیادہ سوگ مَنانے کی یہ رَسم زمانۂ جاہِلیَّت میں اگرچہ طویل عرصے سے رائج تھی لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سے منع فرمادیا، تو صحابیات رضی اللہ عنہن کا اس پرعمل کرنا مثالی تھا ۔چُنانچہ جب حضرت زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی کا اِنتقال ہوگیا ، توچوتھے دن اُنہوں نے خوشبو لگائی اور کہا کہ مجھ کو خُوشبو کی ضرورت نہ تھی ، لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مِنْبَر پر سُنا ہے کہ کسی مُسَلمان عورت کو شوہر کے سِوا تین (3) دن سے زِیادہ کسی کا سوگ جائز نہیں ، اس لیے یہ اسی حکم کی تعمیل تھی ۔(سنن ابی داود کتاب الطلاق باب احدادالمتوفی عنہا زوجھا، الحدیث:۲۲۹۹، ج۲،ص۴۲۲)

اسی طرح جب حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والدکا  انتقال ہوا تو اُنہوں نے تین (3) روز کے بعد اپنے رُخساروں پر خُوشبو ملی اور کہا مجھے اس کی ضرورت نہ تھی ، صرف اس حکم کی تعمیل مقصود تھی ۔ (سنن ابی داود،  کتاب الطلاق،باب احدادالمتوفی عنہا زوجھا الحدیث:۲۲۹۹، ج۲،ص۴۲۲)

حضرت صدر الشریعہ مفتی امجد علی علیہ لرحمہ بہار شریعت میں تحریر فرماتے ہیں کہ : میّت کے گھر والوں کو تین دن تک اس لیے بیٹھنا کہ لوگ آئیں اور تعزیت کر جائیں جائز ہے مگر ترک بہتر اور یہ اس وقت ہے کہ فروش اور دیگر آرائش نہ کرنا ہو ورنہ ناجائز ۔ یہ دس دن سوگ منانا آلتو فالتو باتیں کرنا صریح جہالت ہے ۔ لوگوں کو اس  سے بچنا چاہیے ۔ (بہار شریعت جلد نمبر 1 حصہ چہارم صفحہ نمبر 854،چشتی)

معلوم ہوا کہ صحابیات رضی اللہ عنہن اِطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جذبے سے سرشار اوردل وجاں سے اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اِطاعت گُزار تھیں ، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام میں سوگ کی مُدّت تین (3) دن ہے ، مگر جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے تو وہ چار (4) ماہ دس (10) دن تک سوگ میں رہے گی ۔ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ آج اگر کسی گھر میں میّت ہوجائے تو  افسوس صَد افسوس ! علمِ دین سے دُوری کے سبب بہت سے غیر شرعی کا موں کا اِرْتکاب کیا جاتا ہے ، جیسے نوحہ یعنی میِّت کے اَوصاف (خوبیاں) مُبالَغہ کے ساتھ (خُوب بڑھا چڑھا کر) بیان کر کے آواز سے رونا جس کو بَین (بھی) کہتے ہیں ، بِالاِ جماع حَرام ہے ۔ یُونہیں واوَیلا ، وَامُصِیْبَتَاہ (یعنی ہائے مُصیبت) کہہ کر چلّانا ، گَرِبیان پھاڑنا ، مُنہ نوچنا ، بال کھولنا ، سر پر خاک ڈالنا ، سینہ کُوٹنا ، ران پر ہاتھ مارنا یہ سب جاہِلیَّت کے کام ہیں اورحرام (ہیں اسی طرح) آواز سے رونا منع ہے ۔ (بہارشریعت جلد ۱ صفحہ ۸۵۴ ، ۸۵۵،چشتی)

حالانکہ ایسی صُورت میں صبر سے کام لینا چاہیے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش سمجھ کر اس پر راضی رہنا چاہیے ۔ مگر افسوس ! گھر والے اور آس پڑوس کے لوگ بالخصوص خواتین زور زور سے روتی چِلّاتی ہیں ۔ اگر کوئی صَبْر و ضَبْط سے کام لیتے ہوئے ان کا ساتھ نہ دے تو اس پر طَعْن وتَشْنِیْع کے تِیر برساتے ہوئے اس طرح کی گفتگو کی جاتی ہے کہ اس کو دیکھو کیسی سخت دل ہے’’ جَوان‘‘ میّت پر بھی آنکھوں میں ایک آنسو نہیں آیا ۔ یُوں ایک مُسلمان کے بارے میں بَد گمانی اور اس کی دِل آزاری کاگُناہ بھی سرلیتی ہیں ۔ بَتقاضائے بَشریَّت وفات پر غمگین ہو جانا ، چہرے سے غم کا ظاہر ہونا ، اسی طرح بِلا آواز رونا وغیرہ منع نہیں ہے ۔ ہاں ایسے میں شریعتِ مُطَہِّرہ کی خِلاف وَرزی منع ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی شریعت کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی آخرت بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

تاریخِ وصالُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم 12 ربیع الاوّل ہرگز نہیں ہے : ⬇

محترم قارٸینِ کرام : ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺟﻠﺪ 1 ﺻﻔﺤﮧ 11۔ﺟﻠﺪ 2 ﺻﻔﺤﮧ 662۔
ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﺟﻠﺪ 2 ﺻﻔﺤﮧ 420۔ﺟﺎﻣﻊ ﺗﺮﻣﺬﯼ ﺟﻠﺪ 2 ﺻﻔﺤﮧ 129(ﺣﺴﻦ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ) ﮐﮧ ﺣﺠﺘﮧ ﺍﻟﻮﺩﺍﻉ ﮐﮯ ﺳﺎﻝ ﯾﻮﻡِ ﻋﺮﻓﮧ (9 ﺫﻭﻟﺤﺠﮧ) ﺟﻤﻌﮧ ﮐﺎ ﺩﻥ ﺗﮭﺎ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺟﻠﺪ 1 ﺻﻔﺤﮧ 93,94 ﭘﺮ ﺣﺪﯾﺚ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﺻﺎﻝ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﭘﯿﺮ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮨﻮﺍ ﻟﮩﺬﺍ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﮐﺮﻡ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﯾﮑﻢ ﯾﺎ ﺩﻭ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﮐﻮ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ۔ﺑﺎﺭﮦ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﭘﯿﺮ ﮐﺎ ﺩﻥ ﯾﻮﻡِ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ ۔ﺧﻮﺍﮦ ﺫﻭﺍﻟﺤﺠﮧ ، ﻣﺤﺮﻡ ﺍﻭﺭ
ﺻﻔﺮ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﻣﮩﯿﻨﮯ 30,30 ﺩﻥ ﮐﮯ ﯾﺎ 29,29 ﺩﻥ ﮐﮯ ﯾﺎﺩﻭ ﻣﮩﯿﻨﮯ 30,30 ﺩﻥ ﮐﮯ ﯾﺎ ﺍﯾﮏ 29 ﺩﻥ ﮐﺎ ﯾﺎ ﺩﻭ ﻣﮩﯿﻨﮯ 29,29 ﺩﻥ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮧ 30ﺩﻥ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺮﯾﮟ ۔ ﺩﻭ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﺑﺮﻭﺯ ﭘﯿﺮ ﯾﻮﻡِ ﻭﻓﺎﺕ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﻠﻤﺎﺀﺍﺳﻼﻡ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﻣﺘﻮﻓﯽ 230 ﮪ۔ﺍﻟﻄﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ ﺟﻠﺪ 2 ﺻﻔﺤﮧ 208,209 ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﯿﮩﻘﯽ 458 ﮪ ۔ ﺩﻻﺋﻞ ﺍﻟﻨﺒﻮﮦ ﺟﻠﺪ 7 ﺻﻔﺤﮧ 235 ۔ ﺣﺎﻓﻆ ﻣﻐﻠﻄﺎﺋﯽ 762 ﮪ۔ ﺍﻻﺷﺎﺭﮦ ﺍﻟﯽ ﺳﯿﺮﺕ ﺍﻟﻤﺼﻄﻔﯽ ﺻﻔﺤﮧ 351 ۔ ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻞ (ﺍﺑﻦِ ﮐﺜﯿﺮ) 774 ﮪ۔ ﺍﻟﺒﺪﺍﯾﮧ ﻭﺍﻟﻨﮩﺎﯾﮧ ﺟﻠﺪ 4ﺻﻔﺤﮧ 228 ۔ ﺣﺎﻓﻆ ﺷﮩﺎﺏ ﺍﻟﺪﯾﻦ (ﺍﺑﻦِ ﺣﺠﺮ ) 852 ﮪ۔ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ ﺟﻠﺪ 8 ۔ ﺻﻔﺤﮧ 473 ﻋﻼﻣﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﯾﻮﺳﻒ ﺍﻟﺼﺎﻟﺤﯽ 942 ﮪ ۔ ﺳﺒﻞ ﺍﻟﮭﺪﯼ ﻭﺍﻟﺮﺷﺎﺩ ﺟﻠﺪ 12 ﺻﻔﺤﮧ 305 ۔ ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ﺩﮨﻠﻮﯼ 1052 ﮪ۔ﺍﺷﻌﺘﮧ ﺍﻟﻠﻤﻌﺎﺕ ﺟﻠﺪ 4 ﺻﻔﺤﮧ 604 ﻋﻼﻣﮧ ﺑﺪﺭ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻋﯿﻨﯽ 855 ﮪ۔ﻋﻤﺪﺓ ﺍﻟﻘﺎﺭﯼ ﺟﺰ 18 ﺻﻔﺤﮧ 60 ﻋﻼﻣﮧ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﻟﻘﺎﺭ ﯼ 1014 ﮪ۔ﺍﻟﻤﺮﻗﺎﺕ ﺟﻠﺪ 11 ﺻﻔﺤﮧ 238 ﻋﻼﻣﮧ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺳﮩﯿﻠﯽ 581 ﮪ۔ﺍﻟﺮﻭﺽ ﺍﻻﻧﻒ ﻣﻊ ﺍﻟﺴﯿﺮﺓ ﺍﻟﻨﺒﻮﯾﮧ ﺟﻠﺪ 4 ﺻﻔﺤﮧ440 ۔

ﯾﮑﻢ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﺑﺮﻭﺯ ﭘﯿﺮ ﻭﻓﺎﺕ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﻠﻤﺎﺀ : ⬇

ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺍﻟﻘﺎﺳﻢ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ 571 ﮪ۔ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺩﻣﺸﻖ ﺟﻠﺪ2 ﺻﻔﺤﮧ 387 ﻋﻼﻣﮧ ﺟﻼﻝ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﯿﻮﻃﯽ
911 ﮪ۔ﺍﻟﺘﻮﺷﯿﺢ ﺟﻠﺪ 4 ﺻﻔﺤﮧ 143
ﻋﻼﻣﮧ ﻋﻠﯽ ﺣﺒﻠﯽ 1044 ﮪ۔ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻟﻌﯿﻮﻥ ﺟﻠﺪ3 ﺻﻔﺤﮧ 473 ﻋﻼﻣﮧ ﺷﺒﻠﯽ ﻧﻌﻤﺎﻧﯽ ﺳﯿﺮﺕ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﺟﻠﺪ 2 ﺻﻔﺤﮧ 106,107 ﻋﻼﻣﮧ ﻧﻮﺭ ﺑﺨﺶ ﺗﻮﮐﻠﯽ1367 ﮪ۔ ﺳﯿﺮﺕ ﺭﺳﻮﻝ ﻋﺮﺑﯽ
226 ﻋﻼﻣﮧ ﻏﻼﻡ ﺭﺳﻮﻝ ﺳﻌﯿﺪﯼ ﺗﺒﯿﺎﻥ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﺟﻠﺪ 7 ﺻﻔﺤﮧ 576
ﺷﯿﺦ ﺍﺷﺮﻑ ﻋﻠﯽ
ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ 1364 ﮪ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﮨﻮﯾﮟ ﺟﻮ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺣﺴﺎﺏ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮﺗﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﮐﯽ ﻧﻮﯾﮟ ﺟﻤﻌﮧ ﮐﯽ ﺗﮭﯽطﺍﻭﺭ ﯾﻮﻡِ ﻭﻓﺎﺕ ﺩﻭ ﺷﻨﺒﮧ (ﭘﯿﺮ) ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ۔ﭘﺲ ﺟﻤﻌﮧ ﻧﻮﯾﮟ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﺎﺭﮦ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﺩﻭ ﺷﻨﺒﮧ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ۔ﻧﺸﺮﺍﻟﻄﯿﺐ ﺻﻔﺤﮧ 241۔
ﺑﺎﺭﮦ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﻭﻓﺎﺕ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻏﻠﻄﯽ ﯾﮧ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺛﺎﻧﯽ ( 2 ) ﮐﻮ ﺛﺎﻧﯽ ﻋﺸﺮ ( 12 ) ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ۔ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﮯ
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﻘﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺎ۔ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ ﺟﻠﺪ 8 ﺻﻔﺤﮧ473,474۔چشتی)

ﺍﮨﻞِ ﺳﻨﺖ ﭘﺮ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ وآلہ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﻨﺎﺗﮯ ﮨﻮ ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات شریف کے بارے میں ایک استفتا کے جواب میں رقم طراز ہیں : قول مشہور و معتمد جمہور دواز دہم ربیع الاول شریف ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 415)
اس گروہ نے اِس قول کو بھی اعلیٰ حضرت کی تحقیق کہہ دیا حالانکہ اعلیٰ حضرت یہ فرمارہے ہیں کہ یہ قول مشہور ہے اور جمہور یعنی اکثر علما نے اِسی قول پر اعتماد کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اقدس 12ربیع الاول ہے۔ لیکن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے نزدیک 13ربیع الاول ہے اور جمہور کے قول 12 ربیع الاول کی 13 ربیع الاول کے ساتھ یوں تطبیق فرماتے ہیں:"اور تحقیق یہ ہے کہ حقیقتاً بحسب رؤیتِ مکۂ معظمہ ربیع الاول شریف کی تیرھویں تھی۔ مدینۂ طیبہ میں رؤیت نہ ہوئی (یعنی چاند نظر نہیں آیا) لہٰذا اُن کے حساب سے بارہویں ٹھہری وہی رُواۃ (یعنی روایت کرنے والوں) نے اپنے حساب کی بناہ پر روایت کی اور مشہور و مقبول جمہور ہوئی یہ حاصل تحقیق امام بارزی و امام عماد الدین بن کثیر اور امام بدر الدین بن جماعہ و غیرھم محدثین و محققین ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 417۔چشتی) ۔ اعلیٰ حضرت نے اِس اقتباس میں امام بارزی، امام عماد الدین بن کثیر اور امام بدر الدین بن جماعہ وغیرھم ایسے بڑے محدثین و محققین کی تحقیق کا حاصل یہ بتایا کہ مکۂ معظمہ میں مدینۂ طیبہ سے ایک دن پہلے چاند نظر آگیا تھا لہٰذا مکۂ معظمہ میں چاند نظر آنے کے اعتبار سے تیرہ تاریخ تھی اور مدینۂ طیبہ میں چونکہ ایک دن بعد میں چاند نظر آیا اِس لحاظ سے راویوں نے اپنے حساب کی بناء پر بارہ ربیع الاول کی روایت کردی اور اِس طرح سے وفات اقدس کی تاریخ بارہ ربیع الاول مشہور ہوگئی اور جمہور نے اِن مشہور روایت پر اعتماد کر لیا لیکن حقیقت میں ربیع الاول شریف کی تیرھویں تھی اور اِسی کے لیے اعلیٰ حضرت نے فرمایا "اور تحقیق یہ ہے۔" وہ حضرات جو یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کی تحقیق یہ ہے کہ وفات شریف کی تاریخ بارہ ربیع الاول ہے اب ذرا اعلیٰ حضرت کی درج ذیل واقعی اور حقیقی تحقیق ملاحظہ فرمائیں کہ وفات شریف بارہ ربیع الاول کو نہیں ہوئی ۔
اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں : تفصیل و مقام توضیح مرام یہ ہے کہ وفاتِ اقدس ماہِ ربیع الاول شریف روز دو شنبہ میں واقع ہوئی اِس قدر ثابت و مستحکم و یقینی ہے جس میں اصلاً جائے نزاع نہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 418) ۔ یعنی وفات شریف ربیع الاول کے مہینے میں پیر کے دن ہوئی اِس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں (حتّٰی کے دیوبندی اور وہابی بھی اس سے متفق ہیں)۔

آگے چل کر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ادھر یہ بلاشبہ ثابت ہے کہ اِس ربیع الاول سے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی روز پنجشنبہ تھی کہ حجۃ الوداع شریف بالا جماع روزِ جمعہ ہے۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26، صفحہ،418)
یعنی جس ربیع الاول شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اُس سے تین مہینے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی تاریخ جمعرات کے دن تھی کیونکہ حجۃ الوداع شریف کے روز جمعہ (جمعہ کا دن) ہونے پر اجماع (یعنی سب کا اتفاق) ہے، یعنی 9ذی الحجہ کو جمعہ کا دن تھا لازمًا ذی الحجہ کی پہلی تاریخ جمعرات کو تھی ۔ اس حساب سے 29 ذی الحجہ کو جمعرات ہوئی۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: "اور جب ذی الحجہ 10ھء کی 29 روز پنجشنبہ تھی تو ربیع الاول 11ھ ء کی 12 کسی طرح روز ِ دو شنبہ نہیں آتی) کہ اگر ذی الحجہ، محرم، صفر تینوں مہینے 30کے لیے جائیں تو غرّہ ربیع الاول روز چار شنبہ ہوتا ہے اور پیر کی چھٹی اور تیرھویں، اور اگر تینوں 29 کے لیں تو غرّہ اور روزِ یکشنبہ پڑتا ہے اور پیر کی دوسری اور نویں، اور اگر اُن میں کوئی سا ایک ناقص اور باقی دو کامل لیجیے تو پہلی سہ شنبہ کی ہوتی ہے اور پیر کی ساتویں اور چوھویں، اور اگر ایک کامل دو ناقص مانیے تو پہلی پیر کی ہوتی ہے پھر پیر کی آٹھویں اور پندرھویں ، غرض بارہویں کسی حساب سے نہیں آتی، اور ان چار کے سوا پانچویں کوئی صورت نہیں، قولِ جمہور پر یہ اشکال پہلے امام سہیلی کے خیال میں آیا اور اسے لاحل سمجھ کر انھوں نے قول یکم اور امام ابن حجر عسقلانی نے دوم کی طرف عدول فرمایا ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحات 418تا 419۔چشتی)
خلاصہ یہ ہے کہ دو باتوں میں کسی کا اختلاف نہیں ہے پہلی بات یہ کہ وصال مبارک سے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی تاریخ جمعرات کے دن تھی کہ وقوف، عرفہ (9ذی الحجہ) بروز جمعہ ہونے پر سب متفق ہیں دوسری بات یہ کہ وفات اقدس ربیع الاول میں پیر کے دن ہوئی۔ تو ذی الحجہ کی پہلی تاریخ جمعرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں یہ حساب لگانا ہوگا کہ آنے والے ربیع الاول شریف میں پیر کس کس تاریخ میں آیا۔ تو اگر ذی الحجہ، محرم، صفر تینوں مہینے تیس کے لیے جائیں تو ربیع الاول کی پہلی تاریخ بدھ کو ہوگی اور پیر کو 6، 13، 20 اور 27 تاریخیں ہوں گی اگر تینوں مہینے 29 کے لیے جائیں تو یکم ربیع الاول اتوار کو ہوگی اور پیر کے دن 2، 9، 16، 23 (اور 30 بھی ممکن ہے) تاریخیں ہوں گی اور اگر تینوں مہینوں میں سے کوئی سا ایک مہینہ 29 کا اور باقی دو مہینے 30 کے لیے جائیں تو ربیع الاول کی پہلی تاریخ منگل کی ہوگی اور پیر کو 7، 14، 21، 28 اور اگر تینوں مہینوں میں سے کوئی سا بھی ایک 30 کا لیجیے اور باقی دو 29 کے سمجھیں تو یکم ربیع الاول پیر کو ہوگی اوراِس طرح پیر کے دن 1، 8، 15، 29 تاریخیں ہوں گی یعنی چاروں صورتوں میں پیر کے دن ممکنہ تاریخیں یہ ہوئیں: 1، 2، 6، 7، 8، 9، 13، 14، 15، 16، 20، 22، 23، 27، 28، 29 اور 30۔ اِن چاروں صورتوں میں ربیع الاول کی 12تاریخ پیر کے دن کسی حساب سے نہیں آتی اور ان چار کے سوا کوئی صورت ممکن نہیں۔ اِن ممکنہ تاریخوں میں سے یکم ربیع الاول اور 2ربیع الاول کے اقوال بھی ملتے ہیں اور اعلیٰ حضرت اِن دونوں اقوال کو علم ہیات وزیجات کے حساب سے غلط ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں، "وہ دونوں قول (یکم اور دوم ربیع الاول کے) قطعاً باطل ہیں اور حق و صواب وہی قولِ جمہور بمعنی مذکو رہے یعنی واقع میں تیرھویں اور بوجہ مسطور تعبیر میں بارہویں ۔(فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 426)
یعنی مدینۂ طیبہ میں چاند نظر نہیں آیا تو اُن کے حساب سے بارہ ہوئی۔ اور راویوں نے وہی مشہور کردی لیکن چونکہ مکۂ معظمہ میں چاند نظر آگیا تھا واقع میں (یعنی حقیقت میں) تیرہ ربیع الاول۔ اور حقیقتاً 12ربیع الاول کسی حساب سے نہیں آتی، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔
یہ ہے اعلیٰ حضرت کی تحقیق۔ علم ہیاٴت و زیج کے حساب بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی تحقیق یہی ہے کہ وفات شریف 12 نہیں بلکہ 13 تاریخ کو ہے چنانچہ میلاد شریف پر ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : اگر ہیاٴت و زیج کا حساب لیتا ہے تو تاریخِ وفات شریف بھی بارہ نہیں بلکہ تیرہ ربیع الاول (ہے) کَمَا حَقَّقْنَاہُ فِیْ فَتَاوٰ نَا (جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحقیق کردی ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 428۔چشتی)
اور اگر بارہ ربیع الاول ہی تاریخِ وفات شریف ہو تو بھی میلاد شریف منانے سے روکنے کی کوئی دلیل نہیں۔ شریعت میں تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں صرف بیوہ کو شوہر کے لیے چار ماہ دس دن سوگ کرنے کا حکم ہے۔ غم پر صبر کرنا اور نعمت کا چرچا کرنا ہی مومن کی شان ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش بھی جمعہ کے دن ہے اور وفات شریف بھی لیکن حدیث شریف میں جمعہ کے دن کو عید کا دن قرار دیا گیا ہے بلکہ مشکوٰۃ شریف باب الجمعۃ مین ابن ماجہ کے حوالے سے ایک حدیث روایت کی جس میں جمعہ کو عید الاضحی اور عید الفطر سے بھی عظیم دن فرمایاگیا۔ حالانکہ اسی دن ایک نبی کی وفات بھی ہے، تو معلوم ہوا کہ غم پر صبر کرنا چاہیے اور پیدائش کا اعتبار کرتے ہوئے اس دن عید (خوشی) منانا چاہیے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:"اگر مشہور کا اعتبار کرتا ہے تو ولادت شریف اور وفات شریف دونوں کی تاریخ بارہ ہے ہمیں شریعت نے نعمتِ الٰہی کا چرچا کرنے اور غم پر صبر کرنے کا حکم دیا، لہٰذا اس تاریخ کو روزِ ماتمِ وفات (وفات کے ماتم کا دن) نہ کیا روزِ سُرورِ ولادتِ شریفہ (ولادت شریف کی خوشی کا دن) کیا۔ کما فی مجمع البحار الانوار (جیسا کہ مجمع البحار الانوار میں ہے)۔(فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 428)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...