Friday, 18 September 2015

نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کے مبارک لعابِ دہن سے حصولِ برکت

مستند احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیماروں کو دم فرماتے اور اپنا مبارک لعابِ دہن اپنی انگشتِ شہادت سے زمین پر ملتے اور اسے منجمد کر کے بیمار شخص کی تکلیف کی جگہ پر ملتے اور اﷲ تعالیٰ سے اس کی شفایابی کی دعا فرماتے۔

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ جب کسی انسان کو تکلیف ہوتی یا کوئی زخم ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعابِ دہن مٹی کے ساتھ ملا کر لگاتے اور اس کی شفایابی کے لئے یہ مبارک الفاظ دہراتے :

بِسم اﷲِ، تُرْبَةُ أَرضِنَا، بِرِيْقَةِ بَعْضِنَا، يُشفَی سَقِيْمُنا، بِإذْنِ رَبِّنَا.

’’اللہ کے نام سے شفا طلب کر رہا ہوں، ہماری زمین کی مٹی اور ہم میں سے بعض کا لعاب اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ہمارے مریض کو شفا دیتا ہے۔‘‘

حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

1. بخاري، الصحيح، کتاب الطب، باب : رقية النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 2168، رقم : 5413
2. مسلم، الصحيح، کتاب السلام، باب : استحباب الرقية من العين، 4 : 1724، رقم : 2194
3. أبوداود، السنن، کتاب الطب، باب : کيف الرقي، 4 : 12، رقم : 3895
4. ابن ماجه، السنن، کتاب الطب، باب : ما عَوَّذ به النبي صلي الله عليه وآله وسلم وما عُوِّذَ بِه، 2 : 1163، رقم : 3521
5. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 93، رقم : 24661

وانّما هذا من باب التّبرّک بأسماء اﷲ تعالي وآثار رسوله صلي الله عليه وآله وسلم .

’’بیشک اس حدیث کا تعلق ان احادیثِ مبارکہ سے ہے جس میں اسماءِ الٰہی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے تبرک ثابت ہے۔‘‘

ابن حجر، عسقلاني، فتح الباري، 10 : 208

امام ابنِ حجر عسقلانی نے اس حدیث کی تشریح میں یہ بھی لکھا ہے :

ثم أن الرقي والعزائم لها آثار عجيبة تتقاعد العقول.

’’پھر دم اور اسماءِ مبارکہ وغیرہ کے اثرات اس قدر حیران کن ہیں جن کی حقیقت سے عقل ماؤف ہو جاتی ہے۔‘‘

ابن حجر، عسقلاني، فتح الباري، 10 : 208
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گھٹی دلواتے

مستند ترین کتبِ احادیث میں یہ مثالیں بھی بکثرت ہیں کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اسے گھٹّی دلوانے اور اس کا نام رکھوانے کے لیے بارگاہِ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نومولود کے منہ میں اپنا مبارک لعابِ دہن ڈالتے اور یوں اس بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز پہنچتی وہ تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک لعابِ دہن ہوتا۔

1۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنھما بیان کرتی ہیں :

أَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اﷲِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَتْ : فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ، فَأَتَيْتُ الْمَدِيْنَةَ فَنَزَلْتُ بِقُبَاءٍ، فَوَلَدْتُهُ بِقُبَاءٍ، ثُمَّ أَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم فَوَضَعْتُهُ فِيْ حِجْرِهِ، ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ، فَمَضَغَهَا، ثُمَّ تَفَل فِي فِيْهِ، فَکَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ دَخَلَ جَوْفَهُ رِيْقُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ، ثُمَّ حَنَّکَهُ بِتَمَرَةٍ، ثُمَّ دَعَا لَهُ وَبَرَّکَ عَلَيْهِ.

’’وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حاملہ تھیں۔ انہوں نے کہا : میں مکہ سے (ہجرت کے لئے) اس حالت میں نکلی کہ میرے وضع حمل کے دن پورے تھے میں مدینہ آئی اور قبا میں ٹھہری اور وہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی۔ میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک میں ڈال دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور منگوائی اور اسے چبایا۔ پھر بچے کے منہ میں لعابِ دہن ڈال دیا پس جو چیز سب سے پہلے اس کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لعاب مبارک تھا۔ پھر اس کے تالو میں کھجور لگا دی، اس کے حق میں دعا کی اور اس پر مبارکباد دی۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب : هجرة النبي صلي الله عليه وآله وسلم وأصحابه إلي المدينة، 3 : 1422، رقم : 3697

(امام بخاری نے کتاب العقیقۃ، رقم : 5152 میں بھی اسی روایت کو بیان کیا ہے۔ )

2. مسلم، الصحيح، کتاب الآداب، باب : استجاب تحنيک للولود عند ولادته وحمله الي صالح يحنکه، 3 : 1691، رقم : 2146
3. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 347، رقم : 26983

2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

ذَهَبْتُ بِعَبْدِ اﷲِ بْنِ أبِی طَلْحَةَ الْأَنْصَارِیِّ إلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حِيْنَ وُلِدَ، وَرَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي عَبَاءَ ةٍ يَهْنَأُ بَعِيْرًا لَهُ فَقَالَ : هَلْ مَعَکَ تَمْرٌ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ، فَنَاوَلْتُهُ تَمَرَاتٍ، فَأَلْقَاهُنَّ فِيْ فِيْهِ فَلَاکَهُنَّ، ثُمَّ فَغَرَفَا الصَّبِيّ فَمَجَّهُ فِي فِيْهِ، فَجَعَلَ الصَّبِيُ يَتَلَمَّظُهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : حُبُّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ. وَسَمَّاهُ عَبْدَ اﷲِ.

’’جب حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو میں ان کو لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چادر اوڑھے اپنے اونٹ کو روغن مل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کھجوریں ہیں؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ پھر میں نے کچھ کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ اپنے منہ میں ڈال کر چبائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچے کا منہ کھول کر اسے بچے کے منہ میں ڈال دیا اور بچہ اسے چوسنے لگا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انصار کو کھجوروں سے محبت ہے۔ اور اس بچے کا نام عبداللہ رکھا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الأداب، باب : استحباب تحنيک للولود عند ولادته وحمله إلي صالح يحنکه، 3 : 1689، رقم : 2144
2. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب : في تفسير الأسماء، 4 : 288، رقم : 4951
3. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 175، 212، 287، رقم : 12812، 13233، 14097

مذکورہ احادیث کے لیے امام مسلم نے عنوان باندھا ہے : باب اسْتِحْبَابِ تحْنِيْک الْمَوْلُوْدِ عِنْدَ وِلَادَتِه وَحَمْلِهِ إِلَی صَالِح يُحَنِّکُهُ یعنی ’’بچے کو پیدائش کے وقت گھٹی دینے اور کسی صالح شخص کی بارگاہ میں لے جا کر گھٹی دلوانے کا بیان۔‘‘ باب کے اس عنوان سے امام مسلم کا صحیح عقیدہ اور نظریہ معلوم ہو گیا کہ وہ صالحین سے تبرک کے قائل ہیں کیونکہ اس عنوان کے تحت اصلاً تو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث لا رہے ہیں۔ مگر جب عنوان قائم کیا تو عمومی رکھا اور صحیح عقیدے کی وضاحت بھی کر دی شارحینِ حدیث نے بھی اس حدیث سے آثار صالحین سے تبرک کا جواز ثابت کیا ہے۔

شارح مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں :

وفي هذا الحديث فوائد، منها : تحنيک المولود عند ولادته وهو سنة بالإجماع کما سبق. ومنها : أن يحنکه صالح من رجل أو امرأة ومنها التبرک بآثار الصالحين وريفهم وکل شئ منهم.

’’اس حدیث سے کئی فوائد اخذ ہوتے ہیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ نومولود بچے کو ولادت کے بعد گھٹی دی جائے اور مسئلہ اجماع سے ثابت ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہوا۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کسی صالح مرد یا صالح خاتون سے اس نومولود کو گھٹی دلوانی چاہیے۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ آثارِ صالحین ان کا لعاب اور ان سے منسوب ہر چیز سے تبرک حاصل کرنا ثابت اور جائز ہے۔‘‘

نووي، شرح النووي علي صحيح مسلم، 14 : 124

No comments:

Post a Comment

فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا

فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا محترم قارئین کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو آگاہ فرمایا کہ اللہ کی ...