( حصّہ اوّل )“بریلوی ” دور حاضر میں اہلسنت کا علامتی نشان ھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برصغیر پاک و ہند میں مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کا ظہور اتنا واضح اور انقلابی تھا کہ بدعقیدہ قوتیں آج تک لرزہ براندام ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ نے اپنے ایمان افروز فقہی افکار اور نعتیہ شاعری کے ذریعے زندگی بھر گستاخان رسول کاڈنکے کی چوٹ پر محاسبہ جاری رکھا۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے دین دشمنوں کے خلاف قلم سے تلوار کا کام لیا اور بھرپور انداز میں رسول کریمﷺ سے والہانہ محبت کی تبلیغ کی۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی ولولہ انگیز شخصیت اور علمی کارناموں سے متاثرہ کروڑوں مسلمان آپ علیہ الرحمہ سے اظہار قربت کے طور پر خود کو بریلوی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس پر بدعقیدہ عناصر کے حاسدانہ تبصرے بھی جاری رہتے ہیں۔ چنانچہ یہ پراپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ بریلوی ایک نیا دینی فرقہ ہے حالانکہ محبت رسولﷺ کا سفیر ہر بریلوی حضرت امام ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ کی فقہ کا قائل ہے۔ خود اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے آپ کو فقہ حنفی کا ترجمان قرار دیا۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے مقام و مرتبے سے متاثر ہوکر انہیں اپنے دور کا امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ قرار دیا تھا۔ اس تناظر میں اہلسنت کے محبوب ادیب اور صاحب طرز مصنف علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کا خصوصی مقالہ ’’بریلوی‘‘ دور حاضر میں اہلسنت کا علامتی نشان، یارسول اﷲ کہنے والے غلامان رسولﷺ کے ذوق مطالعہ کی نذر کررہا ہوں۔ علامہ ارشد القادری اپنی پاپولر کتابوں اور دل موہ لینے والی باکمال تحریروں کے باعث پڑھنے والوں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ یہ مقالہ بھی ایک ایسی ہی لافانی اور لاجواب تحریر ہے۔ یہ مقالہ ایسے نام نہاد روشن خیال عناصر کی بھی رہنمائی کرتا ہے جو سنی ہونے کے باوجود خود کو ’’بریلوی‘‘ کہلانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے دور فتن میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت فاضل علیہ الرحمہ رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ کا منصب تجدید و ارشاد اتنا واضح ہوچکا ہے کہ اب وہ محتاج بحث و استدلال نہیں رہا۔ غیر جانبداری اور انصاف و دریافت کے ساتھ اسلام کے مذہب و مسلک کا مطالعہ کرنے والا یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بریلوی اسلام کے ماضی اور حال کے درمیان ایک عظیم رابطہ کی حیثیت سے اپنے وقت میں جلوہ گر ہوئے اور اپنی خداداد قوت علم و یقین اور لگاتار قلمی جہاد کے ذریعہ انہوں نے ملحدانہ قوتوں کی، ان ساری کوششوں کو ناکام بنادیا جو ہمارے فکر و اعتقاد اور کردار و عمل کا رشتہ ہمارے مقدس ماضی سے منقطع کرنا چاہتے تھے۔
دراصل یہی ہے وہ منصب تجدید و ارشاد جس پر وقت کا ایک مجدد فائز ہوتا ہے۔ وہ کسی نئے مذہب و فکر کی بنیاد نہیں ڈالتا بلکہ اسی مذہب اسلام کو نئی توانائیوں اور صحیح تعبیر کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے جو نقطہ آغاز سے لے کر ماضی کے بے شمار اشخاص و رجال کا ذریعہ اس تک پہنچا ہے۔ اس کی ساری جدوجہد اس نقطے پر مرکوز رہتی ہے کہ ملت اسلامیہ کے افراد کے ساتھ فکر و اعتقادکے زاویئے کا وہ سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے جس نے ماضی کے ہر دور میں کروڑوں افراد کو اسلام کے ساتھ مربوط رکھا ہے۔ مسلم معاشرہ کی چھوٹی سی چھوٹی چیز کے لئے جس پر اسلام کے مقدس ماضی کی چھاپ لگی ہوئی ہے، وہ لوگوں سے جنگ کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم ایک عظیم اور مقدس ماضی کے وارث ہیں۔ اس لئے ماضی کے بزرگوں سے جو کچھ ہمیں ملا ہے ہمیں کل کا کل قبول کرنا ہوگا۔ کچھ لینے اور کچھ چھوڑنے کی اگر اجازت دے دی گئی تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ کچھ چھوڑنے والے سبھی کچھ چھوڑ دیں اور اس کے بعد بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہیں۔ یونہی کسی چھوٹی چیز کو اس پیمانے سے مت دیکھو کہ وہ چھوٹی ہے بلکہ اس زاویہ نگاہ سے دیکھو کہ وہ ماضی کے مقدس بزرگوں سے ورثے میں ملی ہے۔ جو آج ماضی کی چھوٹی چیز کو ٹھکرا سکتا ہے، وہ کل ماضی کی بڑی چیز کو بھی ٹھکرا دے گا کیونکہ ماضی سے مربوط رہنے کا ذریعہ وہ حسن اعتقاد ہے جو ماضی کے بزرگوں کے ساتھ قائم ہے اور جب وہی مجروح ہوگیا تو آئندہ مسلمان باقی رہنے کی ضمانت کیا ہے۔ قرآن کی زبان میں اسلام اس صراط مستقیم کا نام ہے جو صدیقین و صالحین کے قدموں کے نشانات سے پہچانا جاتا ہے، اس کے علاوہ سینکڑوں راہوں کے درمیان اسے ممیز کرنے کا اور کوئی محسوس ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ پس جسے اس گزر جانے والے فاصلے کے نقوش قدم کی پیروی سے انکار ہے اس کی حق میں دو ہی بات کہی جاسکتی ہے یا تو وہ اپنے تئیں اس منزل کا مسافر ہی نہیں ہے یا پھر گمشدگی اس کی تقدیر کا نوشتہ ہے۔
آپ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی کوئی بھی تصنیف اٹھا لیجئے ایک روایاتی مجدد کا یہ انداز فکر آپ کو پوری کتاب میں پھیلا ہوا نظر آئے گا۔ کسی بھی مسئلے پر اعلیٰ حضرت کا قلم جب اٹھتا ہے تو بالاتزام بحث و استدلال کی ترتیب یہ ہوتی ہے۔ سب سے پہلے آیات قرآنی پھر احادیث کریمہ پھر آثار صحابہ پھر ارشادات تابعین و تبع تابعین پھر اقوال ائمہ مجتہدین پھر تصریحات، مشاہیر امت، تحریر و بیان کا یہ اسلوب اس نقطہ نظر کو پوری طرح واضح کرتا ہے کہ کسی بھی مسئلے میں شارع کا منشاء معلوم کرنے کے لئے ماضی کے ہر مسند طبقے کے ساتھ منسلک رہنا نہایت ضروری ہے۔ اعتماد و وابستگی کا یہ سلسلہ الذہب کسی سے بھی ٹوٹ گیا تو ایمان و یقین کی سلامتی کو کبھی بھی خطرہ پیدا پیش آسکتا ہے۔ واقعات و حالات کی روشنی میں اگر آپ مذہبی امور میں آزادی رائے کی تاریخ کا تجزیہ کریں تو آپ کو تسلیم کرناہوگا کہ اپنے وقت کے مجدد کا یہ اندیشہ غلط نہیں تھا کہ چھوٹی چیز کو چھوڑنے والے ایک دن بڑی چیز کو بھی چھوڑ دیں گے اور سواد اعظم کی پیروی سے انکار کرنے والے ایک دن رسول ہی کی پیروی سے انکار کر بیٹھیں گے۔ چنانچہ تجربات شاہد ہیں کہ رسم کہہ کر جن لوگوں نے ماضی کے بزرگوں کی روایات سے لوگوں کو منحرف کرنے کی کوشش کی، انہیں کچھ مدت کے بعد اپنے ہی درمیان ایک ایسے طبقے کا سامنا کرنا پڑا جس نے یہ کہتے ہوئے ائمہ مجتہدین کی تقلید کا قلاوہ اپنی گردنوں سے اتار کر پھینک دیا کہ وہ بھی ہماری ہی طرح ایک عام امتی ہیں… دین کے مسائل و احکام معلوم کرنے کے لئے ان مجتہدانہ صوابدید پر اعتماد کرنا ہمارے لئے کیا ضروری ہے۔ ہمیں بھی خدا نے فکر کی قوت بخشی ہے ہم براہ راست احادیث سے رابطہ قائم کریں گے۔ ہمارے لئے حدیث رسول کافی ہے۔ اقوال آئمہ کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ اقوال آئمہ اغلاط کا مجموعہ ہیں۔ لیکن ابھی چند سال بھی نہیں گزرے تھے کہ اسی دعوت انحراف کے بطن سے ایک تیسرے گروہ نے جنم لیا۔ اس نے بڑے طمطراق سے کہنا شروع کیا کہ دین دراصل خدا کا ہے۔ پیغمبر کی حیثیت تو صرف ایک قاصد کی ہے۔ دین کے متعلق خدا کی مکمل ہدایات قرآن کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ ہمارے پاس قرآن کافی ہے۔ حدیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ احادیث اغلاط کا مجموعہ ہیں۔ مسلمانوں کے فکری زوال اور قومی انتشار کا سب سے بڑا ذریعہ یہ احادیث ہیں ۔بغاوت و الحاد کا یہ قیامت خیز فتنہ جب جوان ہوگیا اور سر پر چڑھ کر آواز دینے لگا تو اب لوگ بدحواس ہوکر سینہ پیٹ رہے ہیں کہ ہائے اسلام میں کتنا بڑا رخنہ ڈال دیا ان ظالموں نے۔ امت کا شیرازہ جس رشتے سے بندھا ہوا تھا اسی کو توڑ دیا۔ اب اس کی کیا ضمانت ہے کہ حدیث کو چھوڑنے والے ایک دن قرآن کو نہیں چھوڑ دیں گے اور اس کے بعد بھی کہیں گے ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں مسلم معاشرہ میں ایک مسلمان کا حق ملنا چاہئے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ پہنچنے والے یہاں تک اچانک نہیں پہنچ گئے، انہیں الحاد و انکار کے متعدد مراحل سے گزرنا پڑا۔ اس سے پہلے اعتماد و یقین کے کئی رشتے انہوں نے بتدریج توڑے، تب جاکر حدیث کے رشتے تک ان کا ہاتھ پہنچا…اس لئے مجھے کہنے دیا جائے کہ اسلام میں رخنے کی بنیاد تو اسی دن پڑ گئی تھی جس دن دہلی کے ایک ناخدا ترس باغی نے ’’بزرگوں کی رسم‘‘ کہہ کر ماضی کی متوارث روایات کے خلاف بغاوت کا علم اٹھایا تھا۔ اسلامی اقدار کے خلاف ایک نیا فتنہ عین اپنی ولادت کے وقت ہی کچل دیاگیا ہوتا تو آج ہمیں یہ سیاہ دن کیوں دیکھنا پڑتا… اور اس پر مزید ستم یہ کہ جو اسلام میں نئے فتنوں کا بانی تھا، اسے آج بھی ملت کا محسن سمجھا جاتا ہے اور جس نے اپنے خون جگر سے ایمان و یقین کے فیصلوں کی بنیاد مستحکم کی، اس کی خدمات کا کوئی اعتراف نہیں ہے۔ مسلم ہندوستان کی مذہبی تاریخ پر قلم اٹھانے والے جو اپنے آپ کو غیر جانبدار اور حقائق پسند کہتے ہیں، اگر انہوں نے دیدہ وا دانستہ احیائے ملت کی ایک عظیم تاریخ کے ساتھ بے اعتنائی برتی ہے تو یہ حقائق کے خلاف ایک کھلا ہوا تعصب ہے اور اگر انہوں نے ناواقفیت کی بنیاد پر تاریخ کی یہ اہم کڑی چھوڑ دی ہے تو سوا اس کے اور کیا کہا جائے گا کہ کچھ نہ لکھنا ایک گمراہ کن تاریخ لکھنے سے کہیں بہتر تھا۔ واقعات کے ساتھ انصاف کرنے والوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ تجدید و ارشاد کو سمجھنے کے لئے جہاں اس دور کے مذہبی اور سیاسی ماحول کو سمجھنا ضروری ہے وہاں ان کی فکری اور اخلاقی محرکات کا پیش نظر رکھنا بھی لازمی ہے جو اعلیٰ حضرت کی علمی خدمات اور ان کی تصنیفات کے پیچھے ہیں… کیونکہ فکر و اعتقاد کے جن مقاصد کی اصلاح کرنے کے لئے وہ اٹھے تھے وہ انفرادی نہیں تھے بلکہ ایک منظم گروہ اور ایک مربوط مکتبہ فکر کی پشت پناہی میںوہ پھیل رہے تھے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو اپنے وقت میں ’’دیوبندی جماعت‘‘ کے نام سے ایک ایسے الحاد پرور اور زمانہ ساز گروہ کا سامنا کرنا پڑا جو ایک طرف اپنے آپ کو ’’حنفی‘‘ بھی کہتا تھا اور دوسری طرف ابن تیمیہ سے لے کر ابن عبدالوہاب نجدی اور شاہ اسماعیل دہلوی تک، ان سارے آئمہ الحاد و فتن کے عقائد و افکار کا علمبردار بھی تھا جو سلف صالحین اور آئمہ اسلام کی بارگاہوں سے ٹھکرائے جاچکے تھے اور اتنا ہی نہیں بلکہ آئمہ اسلام کے اس باغی طبقے کے ساتھ جسے ہم غیر مقلدین کے نام سے جانتے ہیں، اعتقادی اور فکری رابطہ بھی قائم ہوگیا تھا اور دونوں گروہوں کے درمیان شاہ اسماعیل دہلوی کی تقویۃ الایمان جسے ابن عبدالوہاب نجدی کی کتاب التوحید کا اردو ایڈیشن کہنا چاہئے، بزرگان اسلام کے خلاف بغاوت کے لئے قدر مشترک کے طور پر استعمال کی جاتی تھی اور دونوں گروہ اس کتاب کے گمراہ کن اور ایمان سوز مضامین کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا مقدس ترین فریضہ سمجھتے تھے اور آج تک سمجھ رہے ہیں۔ غیر مقلدین کے ساتھ ان نام نہاد حنفی مقلدین کے گٹھ جوڑ نے نہ صرف یہ کہ حنفی مذہب کو نقصان پہنچایا اور غیر مقلدیت کے لئے مسلم معاشرہ میں داخل ہونے کا راستہ ہموار کیا بلکہ دونوں گروہوں کی مشترک جدوجہد سے زندگی کے بیشتر مسائل میں آئمہ اسلام اور سلف صالحین کے ساتھ عامہ مسلمین کے فکری رابطے کا اعتماد بھی مجروح ہونے لگا۔ اس طرح کے پیچیدہ اور سنگین ماحول میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے اصلاح و ارشاد کا کام شروع کیا۔ آندھیوں کی زد پر چراغ جلانے کا محاورہ ہم نے سنا تھا لیکن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی علمی و دینی تاریخ میں یہ محاورہ حقیقت کا ایک پیکر محسوس بن گیا ۔بلاشبہ انہوں نے آندھیوں کی زد پر چراغ جلایا، قلم کی تلوار ہاتھ میں لے کر تنہا اترے اور عرب سے عجم تک مذہب اہلسنت کی حقانیت و صداقت کا سکہ بٹھادیا… مومنین کے قلوب میں سید کائناتﷺ کی عظمت و توقیر، سلف صالحین کی محبت و عقیدت اور شریعت طیبہ طاہرہ کے احترام کا جذبہ کچھ اس طرح جگایا کہ اہل ایمان کی زندگی کا نقشہ بدل گیا۔
ویسے ہندوستان میں اس وقت اس گروہ کے علاوہ بھی بہت سے فرقہائے باطلہ تھے جن سے مسلمانوں کی مذہبی سلامتی کو نقصان پہنچا اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ان کے فتنوں سے بھی ملت کی تطہیر فرمائی لیکن خصوصیت کے ساتھ فتنہ وہابیت کے استحصال میں ان کے مجاہدانہ اقدامات نے امت کو ایک عظیم ابتلا سے بچالیا۔ فتنہ وہابیت کے استیصال کی طرف اعلیٰ حضرت کی خصوصی توجہ کا باعث یہ امر ہوا کہ اس فتنے کے علمبردار اپنے آپ کو حنفی کہہ کر، حنفی مسلمانوں میں بار پانے کی کوشش کررہے تھے اور حنفی مسلمانوں کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ جو خیالات وہ ان کے سامنے پیش کررہے ہیں وہ عین حنفی مذہب کے مطابق ہیں حالانکہ حنفی مذہب سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ ان حالات میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے شدت کے ساتھ یہ خطرہ محسوس فرمایا کہ اگر واضح اور مدلل بیان کے ساتھ اس فریب کا پردہ چاک نہ کیا گیا تو پاک و ہند کے احناف سخت گمراہی کا شکار ہوجائیں گے۔ اس لئے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ایک ایک اختلافی مسئلہ پر قرآن و حدیث اقوال آئمہ اور حنفی مذہب کی کتابوں سے دلائل و شواہد کا انبار لگا کر حنفیت اور وہابیت کے درمیان کھلا ہوا امتیاز قائم کردیا… فکر و اعتقاد اور کردار و عمل کی مختلف سمتوں میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی مجددانہ اصلاحات اور ان کی علمی خدمات کو ہم چار شعبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
پہلا شعبہ
سنی حنفی مسلمانوں کے وہ عقائد و روایات جنہیں دیوبندی حضرات شرک و حرام کہتے تھے، اعلیٰ حضرت نے قرآن و حدیث، فقہ حنفی اور اسلام کی کتابوں سے روشن بیانات اور واضح دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ وہ امور شرک اور حرام نہیں بلکہ قرآن و حدیث کے عین مطابق اور آئمہ اور سلف صالحین کے نزدیک مستحسن اور پسندیدہ ہیں اور یہ امور کچھ آج کے ایجاد کردہ نہیں ہیں بلکہ اسلام کے ماضی سے ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ لہذا جو ان امور کو شرک یا حرام کہتا ہے اس کا یہ حملہ ہم پر نہیں بلکہ ان اسلاف کرام پر ہے جن کے ساتھ وابستگی ہماری دینی سلامتی کی ضمانت ہے۔
اس شعبے کے ضمن میں مندرجہ ذیل مباحث بطور امثال ملاحظہ فرمائیں۔
(1) تقبیل ابہامین (2) ندائے یارسول اﷲﷺ (3) عقیدہ شفاعت (4) عرس و فاتحہ (5) عقیدہ علم غیب (6) عقیدت حیات النبیﷺ (7) میلاد و قیام (8) توسل (9) نذر (10) تذکرہ شہادت کربلا (11) محافل گیارہویں (12) تثویب (13) استعانت بالانبیاء و الاولیاء (14) بناء قبا برمزارات (15) سفر بائے زیارت قبور انبیاء واولیاء وغیرہ
اہلسنت کی یہ وہ مذہبی اور اعتقادی روایات تھیں جن پر دیوبندی اور وھابی گروہ کے علماء حملہ آور تھے اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اہلسنت کی طرف سے ان کا دفاع فرمایا تھا۔ یہ روایات صدیوں سے امت مسلمہ کے اندر تمام شرق و غرب اور عرب وعجم میں رائج تھیں… اور آج بھی مسلم معاشرہ کی عظیم اکثریت کے تمام اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں میں ان روایات پر عملدرآمد ہے۔ اس لئے کہنے دیجئے کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ دنیائے اسلام کے عظیم محسن ہیں جنہوں نے ان روحانی اور مذہبی نقوش کو مٹنے سے بچالیا جو عالم اسلام کو اپنے قابل تقلید اسلاف سے ورثے میں ملے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برصغیر پاک و ہند میں مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کا ظہور اتنا واضح اور انقلابی تھا کہ بدعقیدہ قوتیں آج تک لرزہ براندام ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ نے اپنے ایمان افروز فقہی افکار اور نعتیہ شاعری کے ذریعے زندگی بھر گستاخان رسول کاڈنکے کی چوٹ پر محاسبہ جاری رکھا۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے دین دشمنوں کے خلاف قلم سے تلوار کا کام لیا اور بھرپور انداز میں رسول کریمﷺ سے والہانہ محبت کی تبلیغ کی۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی ولولہ انگیز شخصیت اور علمی کارناموں سے متاثرہ کروڑوں مسلمان آپ علیہ الرحمہ سے اظہار قربت کے طور پر خود کو بریلوی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس پر بدعقیدہ عناصر کے حاسدانہ تبصرے بھی جاری رہتے ہیں۔ چنانچہ یہ پراپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ بریلوی ایک نیا دینی فرقہ ہے حالانکہ محبت رسولﷺ کا سفیر ہر بریلوی حضرت امام ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ کی فقہ کا قائل ہے۔ خود اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے آپ کو فقہ حنفی کا ترجمان قرار دیا۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے مقام و مرتبے سے متاثر ہوکر انہیں اپنے دور کا امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ قرار دیا تھا۔ اس تناظر میں اہلسنت کے محبوب ادیب اور صاحب طرز مصنف علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کا خصوصی مقالہ ’’بریلوی‘‘ دور حاضر میں اہلسنت کا علامتی نشان، یارسول اﷲ کہنے والے غلامان رسولﷺ کے ذوق مطالعہ کی نذر کررہا ہوں۔ علامہ ارشد القادری اپنی پاپولر کتابوں اور دل موہ لینے والی باکمال تحریروں کے باعث پڑھنے والوں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ یہ مقالہ بھی ایک ایسی ہی لافانی اور لاجواب تحریر ہے۔ یہ مقالہ ایسے نام نہاد روشن خیال عناصر کی بھی رہنمائی کرتا ہے جو سنی ہونے کے باوجود خود کو ’’بریلوی‘‘ کہلانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے دور فتن میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت فاضل علیہ الرحمہ رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ کا منصب تجدید و ارشاد اتنا واضح ہوچکا ہے کہ اب وہ محتاج بحث و استدلال نہیں رہا۔ غیر جانبداری اور انصاف و دریافت کے ساتھ اسلام کے مذہب و مسلک کا مطالعہ کرنے والا یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بریلوی اسلام کے ماضی اور حال کے درمیان ایک عظیم رابطہ کی حیثیت سے اپنے وقت میں جلوہ گر ہوئے اور اپنی خداداد قوت علم و یقین اور لگاتار قلمی جہاد کے ذریعہ انہوں نے ملحدانہ قوتوں کی، ان ساری کوششوں کو ناکام بنادیا جو ہمارے فکر و اعتقاد اور کردار و عمل کا رشتہ ہمارے مقدس ماضی سے منقطع کرنا چاہتے تھے۔
دراصل یہی ہے وہ منصب تجدید و ارشاد جس پر وقت کا ایک مجدد فائز ہوتا ہے۔ وہ کسی نئے مذہب و فکر کی بنیاد نہیں ڈالتا بلکہ اسی مذہب اسلام کو نئی توانائیوں اور صحیح تعبیر کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے جو نقطہ آغاز سے لے کر ماضی کے بے شمار اشخاص و رجال کا ذریعہ اس تک پہنچا ہے۔ اس کی ساری جدوجہد اس نقطے پر مرکوز رہتی ہے کہ ملت اسلامیہ کے افراد کے ساتھ فکر و اعتقادکے زاویئے کا وہ سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے جس نے ماضی کے ہر دور میں کروڑوں افراد کو اسلام کے ساتھ مربوط رکھا ہے۔ مسلم معاشرہ کی چھوٹی سی چھوٹی چیز کے لئے جس پر اسلام کے مقدس ماضی کی چھاپ لگی ہوئی ہے، وہ لوگوں سے جنگ کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم ایک عظیم اور مقدس ماضی کے وارث ہیں۔ اس لئے ماضی کے بزرگوں سے جو کچھ ہمیں ملا ہے ہمیں کل کا کل قبول کرنا ہوگا۔ کچھ لینے اور کچھ چھوڑنے کی اگر اجازت دے دی گئی تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ کچھ چھوڑنے والے سبھی کچھ چھوڑ دیں اور اس کے بعد بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہیں۔ یونہی کسی چھوٹی چیز کو اس پیمانے سے مت دیکھو کہ وہ چھوٹی ہے بلکہ اس زاویہ نگاہ سے دیکھو کہ وہ ماضی کے مقدس بزرگوں سے ورثے میں ملی ہے۔ جو آج ماضی کی چھوٹی چیز کو ٹھکرا سکتا ہے، وہ کل ماضی کی بڑی چیز کو بھی ٹھکرا دے گا کیونکہ ماضی سے مربوط رہنے کا ذریعہ وہ حسن اعتقاد ہے جو ماضی کے بزرگوں کے ساتھ قائم ہے اور جب وہی مجروح ہوگیا تو آئندہ مسلمان باقی رہنے کی ضمانت کیا ہے۔ قرآن کی زبان میں اسلام اس صراط مستقیم کا نام ہے جو صدیقین و صالحین کے قدموں کے نشانات سے پہچانا جاتا ہے، اس کے علاوہ سینکڑوں راہوں کے درمیان اسے ممیز کرنے کا اور کوئی محسوس ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ پس جسے اس گزر جانے والے فاصلے کے نقوش قدم کی پیروی سے انکار ہے اس کی حق میں دو ہی بات کہی جاسکتی ہے یا تو وہ اپنے تئیں اس منزل کا مسافر ہی نہیں ہے یا پھر گمشدگی اس کی تقدیر کا نوشتہ ہے۔
آپ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی کوئی بھی تصنیف اٹھا لیجئے ایک روایاتی مجدد کا یہ انداز فکر آپ کو پوری کتاب میں پھیلا ہوا نظر آئے گا۔ کسی بھی مسئلے پر اعلیٰ حضرت کا قلم جب اٹھتا ہے تو بالاتزام بحث و استدلال کی ترتیب یہ ہوتی ہے۔ سب سے پہلے آیات قرآنی پھر احادیث کریمہ پھر آثار صحابہ پھر ارشادات تابعین و تبع تابعین پھر اقوال ائمہ مجتہدین پھر تصریحات، مشاہیر امت، تحریر و بیان کا یہ اسلوب اس نقطہ نظر کو پوری طرح واضح کرتا ہے کہ کسی بھی مسئلے میں شارع کا منشاء معلوم کرنے کے لئے ماضی کے ہر مسند طبقے کے ساتھ منسلک رہنا نہایت ضروری ہے۔ اعتماد و وابستگی کا یہ سلسلہ الذہب کسی سے بھی ٹوٹ گیا تو ایمان و یقین کی سلامتی کو کبھی بھی خطرہ پیدا پیش آسکتا ہے۔ واقعات و حالات کی روشنی میں اگر آپ مذہبی امور میں آزادی رائے کی تاریخ کا تجزیہ کریں تو آپ کو تسلیم کرناہوگا کہ اپنے وقت کے مجدد کا یہ اندیشہ غلط نہیں تھا کہ چھوٹی چیز کو چھوڑنے والے ایک دن بڑی چیز کو بھی چھوڑ دیں گے اور سواد اعظم کی پیروی سے انکار کرنے والے ایک دن رسول ہی کی پیروی سے انکار کر بیٹھیں گے۔ چنانچہ تجربات شاہد ہیں کہ رسم کہہ کر جن لوگوں نے ماضی کے بزرگوں کی روایات سے لوگوں کو منحرف کرنے کی کوشش کی، انہیں کچھ مدت کے بعد اپنے ہی درمیان ایک ایسے طبقے کا سامنا کرنا پڑا جس نے یہ کہتے ہوئے ائمہ مجتہدین کی تقلید کا قلاوہ اپنی گردنوں سے اتار کر پھینک دیا کہ وہ بھی ہماری ہی طرح ایک عام امتی ہیں… دین کے مسائل و احکام معلوم کرنے کے لئے ان مجتہدانہ صوابدید پر اعتماد کرنا ہمارے لئے کیا ضروری ہے۔ ہمیں بھی خدا نے فکر کی قوت بخشی ہے ہم براہ راست احادیث سے رابطہ قائم کریں گے۔ ہمارے لئے حدیث رسول کافی ہے۔ اقوال آئمہ کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ اقوال آئمہ اغلاط کا مجموعہ ہیں۔ لیکن ابھی چند سال بھی نہیں گزرے تھے کہ اسی دعوت انحراف کے بطن سے ایک تیسرے گروہ نے جنم لیا۔ اس نے بڑے طمطراق سے کہنا شروع کیا کہ دین دراصل خدا کا ہے۔ پیغمبر کی حیثیت تو صرف ایک قاصد کی ہے۔ دین کے متعلق خدا کی مکمل ہدایات قرآن کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ ہمارے پاس قرآن کافی ہے۔ حدیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ احادیث اغلاط کا مجموعہ ہیں۔ مسلمانوں کے فکری زوال اور قومی انتشار کا سب سے بڑا ذریعہ یہ احادیث ہیں ۔بغاوت و الحاد کا یہ قیامت خیز فتنہ جب جوان ہوگیا اور سر پر چڑھ کر آواز دینے لگا تو اب لوگ بدحواس ہوکر سینہ پیٹ رہے ہیں کہ ہائے اسلام میں کتنا بڑا رخنہ ڈال دیا ان ظالموں نے۔ امت کا شیرازہ جس رشتے سے بندھا ہوا تھا اسی کو توڑ دیا۔ اب اس کی کیا ضمانت ہے کہ حدیث کو چھوڑنے والے ایک دن قرآن کو نہیں چھوڑ دیں گے اور اس کے بعد بھی کہیں گے ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں مسلم معاشرہ میں ایک مسلمان کا حق ملنا چاہئے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ پہنچنے والے یہاں تک اچانک نہیں پہنچ گئے، انہیں الحاد و انکار کے متعدد مراحل سے گزرنا پڑا۔ اس سے پہلے اعتماد و یقین کے کئی رشتے انہوں نے بتدریج توڑے، تب جاکر حدیث کے رشتے تک ان کا ہاتھ پہنچا…اس لئے مجھے کہنے دیا جائے کہ اسلام میں رخنے کی بنیاد تو اسی دن پڑ گئی تھی جس دن دہلی کے ایک ناخدا ترس باغی نے ’’بزرگوں کی رسم‘‘ کہہ کر ماضی کی متوارث روایات کے خلاف بغاوت کا علم اٹھایا تھا۔ اسلامی اقدار کے خلاف ایک نیا فتنہ عین اپنی ولادت کے وقت ہی کچل دیاگیا ہوتا تو آج ہمیں یہ سیاہ دن کیوں دیکھنا پڑتا… اور اس پر مزید ستم یہ کہ جو اسلام میں نئے فتنوں کا بانی تھا، اسے آج بھی ملت کا محسن سمجھا جاتا ہے اور جس نے اپنے خون جگر سے ایمان و یقین کے فیصلوں کی بنیاد مستحکم کی، اس کی خدمات کا کوئی اعتراف نہیں ہے۔ مسلم ہندوستان کی مذہبی تاریخ پر قلم اٹھانے والے جو اپنے آپ کو غیر جانبدار اور حقائق پسند کہتے ہیں، اگر انہوں نے دیدہ وا دانستہ احیائے ملت کی ایک عظیم تاریخ کے ساتھ بے اعتنائی برتی ہے تو یہ حقائق کے خلاف ایک کھلا ہوا تعصب ہے اور اگر انہوں نے ناواقفیت کی بنیاد پر تاریخ کی یہ اہم کڑی چھوڑ دی ہے تو سوا اس کے اور کیا کہا جائے گا کہ کچھ نہ لکھنا ایک گمراہ کن تاریخ لکھنے سے کہیں بہتر تھا۔ واقعات کے ساتھ انصاف کرنے والوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ تجدید و ارشاد کو سمجھنے کے لئے جہاں اس دور کے مذہبی اور سیاسی ماحول کو سمجھنا ضروری ہے وہاں ان کی فکری اور اخلاقی محرکات کا پیش نظر رکھنا بھی لازمی ہے جو اعلیٰ حضرت کی علمی خدمات اور ان کی تصنیفات کے پیچھے ہیں… کیونکہ فکر و اعتقاد کے جن مقاصد کی اصلاح کرنے کے لئے وہ اٹھے تھے وہ انفرادی نہیں تھے بلکہ ایک منظم گروہ اور ایک مربوط مکتبہ فکر کی پشت پناہی میںوہ پھیل رہے تھے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو اپنے وقت میں ’’دیوبندی جماعت‘‘ کے نام سے ایک ایسے الحاد پرور اور زمانہ ساز گروہ کا سامنا کرنا پڑا جو ایک طرف اپنے آپ کو ’’حنفی‘‘ بھی کہتا تھا اور دوسری طرف ابن تیمیہ سے لے کر ابن عبدالوہاب نجدی اور شاہ اسماعیل دہلوی تک، ان سارے آئمہ الحاد و فتن کے عقائد و افکار کا علمبردار بھی تھا جو سلف صالحین اور آئمہ اسلام کی بارگاہوں سے ٹھکرائے جاچکے تھے اور اتنا ہی نہیں بلکہ آئمہ اسلام کے اس باغی طبقے کے ساتھ جسے ہم غیر مقلدین کے نام سے جانتے ہیں، اعتقادی اور فکری رابطہ بھی قائم ہوگیا تھا اور دونوں گروہوں کے درمیان شاہ اسماعیل دہلوی کی تقویۃ الایمان جسے ابن عبدالوہاب نجدی کی کتاب التوحید کا اردو ایڈیشن کہنا چاہئے، بزرگان اسلام کے خلاف بغاوت کے لئے قدر مشترک کے طور پر استعمال کی جاتی تھی اور دونوں گروہ اس کتاب کے گمراہ کن اور ایمان سوز مضامین کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا مقدس ترین فریضہ سمجھتے تھے اور آج تک سمجھ رہے ہیں۔ غیر مقلدین کے ساتھ ان نام نہاد حنفی مقلدین کے گٹھ جوڑ نے نہ صرف یہ کہ حنفی مذہب کو نقصان پہنچایا اور غیر مقلدیت کے لئے مسلم معاشرہ میں داخل ہونے کا راستہ ہموار کیا بلکہ دونوں گروہوں کی مشترک جدوجہد سے زندگی کے بیشتر مسائل میں آئمہ اسلام اور سلف صالحین کے ساتھ عامہ مسلمین کے فکری رابطے کا اعتماد بھی مجروح ہونے لگا۔ اس طرح کے پیچیدہ اور سنگین ماحول میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے اصلاح و ارشاد کا کام شروع کیا۔ آندھیوں کی زد پر چراغ جلانے کا محاورہ ہم نے سنا تھا لیکن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی علمی و دینی تاریخ میں یہ محاورہ حقیقت کا ایک پیکر محسوس بن گیا ۔بلاشبہ انہوں نے آندھیوں کی زد پر چراغ جلایا، قلم کی تلوار ہاتھ میں لے کر تنہا اترے اور عرب سے عجم تک مذہب اہلسنت کی حقانیت و صداقت کا سکہ بٹھادیا… مومنین کے قلوب میں سید کائناتﷺ کی عظمت و توقیر، سلف صالحین کی محبت و عقیدت اور شریعت طیبہ طاہرہ کے احترام کا جذبہ کچھ اس طرح جگایا کہ اہل ایمان کی زندگی کا نقشہ بدل گیا۔
ویسے ہندوستان میں اس وقت اس گروہ کے علاوہ بھی بہت سے فرقہائے باطلہ تھے جن سے مسلمانوں کی مذہبی سلامتی کو نقصان پہنچا اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ان کے فتنوں سے بھی ملت کی تطہیر فرمائی لیکن خصوصیت کے ساتھ فتنہ وہابیت کے استحصال میں ان کے مجاہدانہ اقدامات نے امت کو ایک عظیم ابتلا سے بچالیا۔ فتنہ وہابیت کے استیصال کی طرف اعلیٰ حضرت کی خصوصی توجہ کا باعث یہ امر ہوا کہ اس فتنے کے علمبردار اپنے آپ کو حنفی کہہ کر، حنفی مسلمانوں میں بار پانے کی کوشش کررہے تھے اور حنفی مسلمانوں کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ جو خیالات وہ ان کے سامنے پیش کررہے ہیں وہ عین حنفی مذہب کے مطابق ہیں حالانکہ حنفی مذہب سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ ان حالات میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے شدت کے ساتھ یہ خطرہ محسوس فرمایا کہ اگر واضح اور مدلل بیان کے ساتھ اس فریب کا پردہ چاک نہ کیا گیا تو پاک و ہند کے احناف سخت گمراہی کا شکار ہوجائیں گے۔ اس لئے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ایک ایک اختلافی مسئلہ پر قرآن و حدیث اقوال آئمہ اور حنفی مذہب کی کتابوں سے دلائل و شواہد کا انبار لگا کر حنفیت اور وہابیت کے درمیان کھلا ہوا امتیاز قائم کردیا… فکر و اعتقاد اور کردار و عمل کی مختلف سمتوں میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی مجددانہ اصلاحات اور ان کی علمی خدمات کو ہم چار شعبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
پہلا شعبہ
سنی حنفی مسلمانوں کے وہ عقائد و روایات جنہیں دیوبندی حضرات شرک و حرام کہتے تھے، اعلیٰ حضرت نے قرآن و حدیث، فقہ حنفی اور اسلام کی کتابوں سے روشن بیانات اور واضح دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ وہ امور شرک اور حرام نہیں بلکہ قرآن و حدیث کے عین مطابق اور آئمہ اور سلف صالحین کے نزدیک مستحسن اور پسندیدہ ہیں اور یہ امور کچھ آج کے ایجاد کردہ نہیں ہیں بلکہ اسلام کے ماضی سے ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ لہذا جو ان امور کو شرک یا حرام کہتا ہے اس کا یہ حملہ ہم پر نہیں بلکہ ان اسلاف کرام پر ہے جن کے ساتھ وابستگی ہماری دینی سلامتی کی ضمانت ہے۔
اس شعبے کے ضمن میں مندرجہ ذیل مباحث بطور امثال ملاحظہ فرمائیں۔
(1) تقبیل ابہامین (2) ندائے یارسول اﷲﷺ (3) عقیدہ شفاعت (4) عرس و فاتحہ (5) عقیدہ علم غیب (6) عقیدت حیات النبیﷺ (7) میلاد و قیام (8) توسل (9) نذر (10) تذکرہ شہادت کربلا (11) محافل گیارہویں (12) تثویب (13) استعانت بالانبیاء و الاولیاء (14) بناء قبا برمزارات (15) سفر بائے زیارت قبور انبیاء واولیاء وغیرہ
اہلسنت کی یہ وہ مذہبی اور اعتقادی روایات تھیں جن پر دیوبندی اور وھابی گروہ کے علماء حملہ آور تھے اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اہلسنت کی طرف سے ان کا دفاع فرمایا تھا۔ یہ روایات صدیوں سے امت مسلمہ کے اندر تمام شرق و غرب اور عرب وعجم میں رائج تھیں… اور آج بھی مسلم معاشرہ کی عظیم اکثریت کے تمام اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں میں ان روایات پر عملدرآمد ہے۔ اس لئے کہنے دیجئے کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ دنیائے اسلام کے عظیم محسن ہیں جنہوں نے ان روحانی اور مذہبی نقوش کو مٹنے سے بچالیا جو عالم اسلام کو اپنے قابل تقلید اسلاف سے ورثے میں ملے تھے۔
No comments:
Post a Comment