۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِحیاے موتيٰ کا بلند ترین تصور
اب بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ عیسيٰ علیہ السلام نے تو مردے زندہ کیے۔ اگر سب انبیاء علیھم السلام سے آقا علیہ السلام کی افضلیت ہے تو آقا علیہ السلام نے کیا کوئی مردہ زندہ کیا؟ امام شافعی رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیا، جسے امام جلال الدین سیوطی نے رقم کیا اور امام دارمی نے روایت کیا۔ امام شافعی نے فرمایا کہ عیسيٰ علیہ السلام نے تو زندہ اِنسان جو مردہ ہو گئے، اُن کو زندہ کیا، تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو خشک لکڑی کے تنوں کو زندگی عطا کر دی۔ اور اب میں تھوڑی اس کی تفصیل میں جاتا ہوں۔ مُردے کو زندہ کرنا اور تنے کو رُلانا اور سینے سے لگا کر چپ کرانا اور اس سے کلام کرنے میں بڑا فرق ہے؟ انسان کے کان بھی ہیں، سماعت بھی ہے، بصارت بھی ہے، قوتِ گویائی بھی ہے۔ انسان سنتا بھی ہے، بولتا بھی ہے، عقل رکھتا ہے، سمجھتا بھی ہے، اُس کا احساس بھی ہے۔ ساری چیزیں اس کے حواس خمسہ میں ہیں مگر جب روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے تو سارے قويٰ اور ساری حسیں اس کی معطل ہو جاتی ہیں۔ نتیجتاً جب عیسيٰ علیہ السلام نے مردے زندہ کئے تو ان کا مردہ زندہ کرنا فقط اتنا تھا کہ نکلی ہوئی روح کو قُمْ باذن اﷲ کے ذریعے اس جسم میں دوبارہ لوٹا دیا۔ اُس انسان میں قوتِ گویائی پہلے تھی، عقل و فہم اور شعور بھی تھا، نطق بھی تھی، سماعت بھی تھی، بصارت بھی تھی، احساس بھی تھا اور اُس کے اندر تمام جذبات بھی تھے۔ فقط روح پلٹا دی تو ہر چیز پھر چلنے لگ گئی اور مردہ بولنے لگ گیا۔
مگر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردوں کو کبھی زندہ کیا، الگ مردے بھی زندہ کیے۔ یہ جو اُستن حنانہ کا مردہ تنا زندہ کیا، ارے یہ تو انسان نہ تھا۔ اس کی تو آنکھیں ہی نہ تھی۔ اس کے کان ہی نہ تھے، اس کی عقل بھی نہ تھی، نہ اس کی زبان اور منہ تھا، نہ اس کی قوتِ گویائی تھی نہ اس میں اَوَّلًا شعور تھا، نہ سماعت تھی، نہ بصارت تھی، نہ اس میں احساس تھا، نہ اس کے جذبات تھے۔ یہ تو بالکل ایک خشک تنا تھا جس میں کچھ بھی نہ تھا۔ عیسيٰں نے فقط انسان کے مردہ جسم میں روح لوٹائی۔ باقی سب کچھ پہلے سے موجود تھا اور تاجدارِ کائنات نے جب اپنا جسم اس تنے سے مس کیا، جس کی آنکھ نہ تھی، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھیں بھی عطا کر دیں۔ اُس کو کیسے پتہ چلا کہ آج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ پہ نہیں منبر پہ ٹیک لگا کے کھڑے ہیں۔ اُس نے دیکھ بھی لیا، اُس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطبہ بھی سن لیا اور پھر وہ رو پڑا۔ اُس میں احساس بھی آ گیا۔ اُس میں ہجر اور فراق اور جدائی کا غم بھی آ گیا، اُس میں درد و سوز بھی آ گیا، اُس میں عشق بھی آ گیا۔ سارے احساسات بھی آ گئے۔ اُس کو حیات بھی دی، زندگی بھی دی، شعور بھی دیا، سماعت بھی دی، بصارت بھی دی، نطق بھی دیا۔ سارے احساسات دے کر پھر جب اس سے اترے تو اس کو سسکیاں بھی سکھائیں۔ اور پھر اُس سے پوچھا کہ کہاں دفن کردوں؟ کلام کرنا بھی سکھایا۔ عیسيٰ علیہ السلام کا معجزہ فقط رَدِّ روح ہے، روح کا لوٹانا ہے باقی سب قويٰ پہلے سے موجود تھے جسم انسانی میں اور تاجدارِ کائنات نے روح لوٹائی نہیں، روح ڈالی ہے۔ اور سارے حواس بھی دیئے ہیں، عقل بھی دی ہے شعور بھی دیا ہے جذبات بھی دیئے ہیں۔ آقا علیہ السلام کا احیاے موتيٰ کا تصور کائنات میں سب انبیاء علیھم السلام سے بلند ہے۔
معجزہ دکھانے یا نہ دکھانے کا اختیار
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہنے سے جس طرح ہاتھ میں پتھر کلمہ پڑھتے اور پتھروں کو زندگی اور قوتِ گویائی ملتی اُسی طرح درخت ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ امام ابن حبان رضی اللہ عنہ، امام ابو یعلی رضی اللہ عنہ، امام طبرانی سب نے روایت کی ہے کہ آقا علیہ السلام کے پاس بنی عامر میں سے ایک شخص آیا۔ وہ شخص علاج معالجہ کرنے والا (حکیم) دکھائی دیتا تھا۔ پس اس نے کہا : اے محمد! آپ بہت سی (نئی) چیزیں (امورِ دین میں سے) بیان کرتے ہیں۔ (پھر اس نے اَز راہِ تمسخر کہا : ) کیا آپ کو اس چیز کی حاجت ہے کہ میں آپ کا علاج کروں؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اللہ تعاليٰ کے دین کی دعوت دی پھر فرمایا : کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں کوئی معجزہ دکھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھجور اور کچھ اور درخت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کی ایک شاخوں والی ٹہنی کواپنی طرف بلایا۔
فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ وَهُوَ يَسْجُدُ، وَيَرْفَعُ رَأسَهُ وَيَسْجُدُ، وَيَرْفَعُ رَأسَهُ حَتَّی انْتَهَی إِلَيْه ِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَامَ بَيْنَ يَدَيْهِ.
’’وہ ٹہنی کھجور سے جدا ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سجدہ کرتے اور سر اٹھاتے، سجدہ کرتے اور پھر سر اٹھاتے ہوئے بڑھی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچ گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھڑی ہو گئی۔‘‘
پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنی جگہ واپس چلی جائے۔ یہ واقعہ دیکھ کر قبیلہ بنو عامر کے اس شخص نے کہا : خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی شے میں بھی آپ کی تکذیب نہیں کروں گا جو آپ فرماتے ہیں۔ پھر اس نے برملا اعلان کر کے کہا : اے آلِ عامر بن صعصعہ! اللہ کی قسم! میں انہیں (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) آئندہ کسی چیز میں نہیں جھٹلاؤں گا۔
ابن حبان، الصحيح، 14 : 454، رقم : 6523
أبو يعلی، المسند، 4 : 237، رقم : 2350
طبراني، المعجم الکبير، 12 : 100، رقم : 12595
یہ حدیث مبارکہ ہمیں بتلاتی ہے کہ آقا علیہ السلام نے اس کافر کی بات سن کر غصہ نہیں کیا۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت ہے کہ اتنی بڑی بات سن کر غصہ نہیں کیا۔ اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود پوچھا کہ چاہو تو معجزہ بھی دکھاؤں۔ اب آقا علیہ السلام کے معجزات کی حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ وہ صرف اِجراء نہیں ہوتا تھا دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر، جب پوچھنا ہے چاہو تو معجزہ دکھاؤں۔ یہ معجزہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منشاء پر منحصر تھا۔ یہ آقا علیہ السلام کی یہ پہچان تھی۔ اور یہی حکم اب امت کو دیا گیا۔
ایک قابل توجہ نکتہ
سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 81 میں لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ (تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے) کا جو حکم ایزدی انبیاء کرام علیھم السلام کو دیا گیا اور پھر یہی معرفت کا ئنات کی ہر شے کو عطا کی گئی۔ یہی معرفت سمجھانے کے لیے اللہ تعاليٰ نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو حکم دیا :
فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ .
الأعراف، 7 : 157
’’پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے۔‘‘
جس طرح تمام انبیاء علیھم السلام کو دو تین قسم کے حق پر مامور کیا گیا : ایک یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا، دوسرا یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین، مشن اور نبوت و رسالت کی مدد کرنا اور تیسرا حق اپنی اپنی امتوں کو اس کی ترغیب اور حکم دینا۔ اِسی طرح آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت کے باب میں حق دیے گئے، وہ یہ کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت وہی قابلِ فلاح اور وہی قابلِ نجات ہوگی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور تعظیم و تکریم اور اتباع کا حق ادا کرے گی اور نصرت کرے گی۔
اب بہت سی احادیث اور واقعات بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ اور کتب احادیث صحابہ کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و تعظیم کے مذکور ہیں۔ لیکن آج کی گفتگو کے اختتامی حصے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باب میں احادیث سے کچھ ایسے شواہد دینا مقصود ہیں جن کا تذکرہ غالباً پہلے نہیں ہوا۔ آقا علیہ السلام کے ساتھ اُن کی محبت و تعظیم کے کچھ نئے رُخ اور چند نمونے دکھانا چاہتے ہیں۔ ایک اصول کی بات سمجھا دوں۔ بعض لوگ اگر یہ سوال کریں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کے معیار، اُس کے اصول اور پیمانے کیا ہیں؟ تو یاد رکھیں! ادب اور تعظیم کے لیے ہر چند کہ اﷲ تبارک وتعاليٰ نے معیار، پیمانے اور اصول بے شمار دیے ہیں۔ قرآن مجید میں جابجا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کے پیمانے اور آداب اﷲ تعاليٰ نے سکھائے ہیں۔ سورۃ الحجرات کا پہلا پورا باب ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و تعظیم و تکریم کے پیمانے اور آدابِ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سکھانے کے لئے وقف ہے
No comments:
Post a Comment