۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنتظار اور شہر مدینہ کا قیام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عجیب واقعہ جو خالی از دلچسپی نہیں آپ کی نذر ہے۔ چونکہ اللہ تعاليٰ نے ہر نبی سے یہ وعدہ لیا اور ہر نبی نے اپنی اُمت کو یہ خبر دی۔ سو آقا علیہ السلام کی آمد، اس کی شہرت اتنی ہوچکی تھی کہ کوئی قوم ایسی نہ تھی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے بے خبر ہو۔ امام ابو سعد الخرکوشی النیشاپوری، جو کہ حدیث کے بہت بڑے امام ہو گزرے ہیں اور اکثر ائمہ حدیث خواہ وہ امام عسقلانی ہوں، امام قسطلانی ہوں، امام عینی ہوں، قاضی عیاض ہوں، امام نووی ہوں، امام سیوطی ہوں یا امام قرطبی، وہ سب امام ابو سعد نیشاپوری کا حوالہ بطور حجت دیتے ہیں۔
وہ اپنی کتاب ’’شرف المصطفیٰ صلی الله عليه وآله وسلم (1 : 93-105، رقم : 1)’’ میں روایت(1) کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام کی بعثت سے ایک ہزار سال قبل یمن کی سر زمین کا بادشاہ تُبَّع الاوّل تھا۔ تاہم اِس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ یہ واقعہ (جو ہم بیان کرنے جارہے ہیں وہ) تُبَّع الاوّل کا ہے۔ امام ابو سعد النیشاپوری نے تُبَّع الاوّل ذکر کیا ہے جب کہ بعضوں نے کہا ہے کہ تُبَّع الاوسط تھا۔ جب کہ بعض کہتے ہیں کہ یہ سب سے بعد میں آنے والے تُبَّع الاصغر کا واقعہ ہے۔ دراصل تُبَّع ایک اصطلاح ہے جو دنیا کے ان پانچ بادشاہوں میں سے ایک ہے جنہوں نے پوری دنیا میں فتوحات کیں۔ جیسے روم کے بادشاہ کے لیے ’’قیصر‘‘ کی اصطلاح ہوتی تھی، ایران کے بادشاہ کے لیے ’’کسريٰ‘‘ کا لقب استعمال کیا جاتا تھا۔ اَسی طرح تُبَّع ایک اصطلاح ہے۔ یہ ان پانچ بادشاہوں میں سے ایک ہے جنہوں نے پوری دنیا میں فتوحات کیں۔ آقا علیہ السلام کے زمانے سے ایک ہزار سال قبل یہ روانہ ہوا۔ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ جس ملک اور جس شہر کو فتح کرتا وہاں سے دس اَفراد نہایت اعليٰ، صاحبانِ حکمت، صاحبانِ علم یعنی چوٹی کے دس بڑے زعماء کو چن لیتا اور اپنے لشکر میں بطور مشیر شامل کر لیتا۔ اس کا لشکر جب عالمی فتوحات کرنے کے لیے نکلا تو ایک لاکھ تینتیس ہزار گھوڑے اُس میں شامل تھے، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ سپاہی تھے، اور دس دس حکماء، زعما، دانش مند، اہل علم جو وہ شہر شہر اور ملک ملک سے جمع کرتا گیا اُس کے لشکر میں ان کی تعداد چار ہزار ہوگئی تھی۔ چونکہ پوری دنیا کی فتوحات کر رہا تھا، اس لیے چلتے چلتے وہ عرب پر حملہ کرنے کے لیے سر زمین مکہ کی سرحدوں پر پہنچا۔ وہ جس جگہ بھی جاتا تھا اُس کی طاقت اور قوت دیکھ کر اُس علاقے کے لوگ اُس کی بڑی تعظیم و تکریم کرتے اور خود سرنگوں ہوجاتے۔ لیکن جب وہ مکہ پہنچا تو اہل مکہ نے اس کی تعظیم و تکریم کی نہ اُس کے رعب و دبدبے سے مرعوب ہوئے۔
(1) امام ابو سعد اپنی کتاب ’’شرف المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (1 : 93-105، رقم : 1)’’ کے اندر یہ روایت بڑی جید سند کے ساتھ لائے ہیں جس کو محمد بن سہل بن ہلال البستی روایت کرتے ہیں، اُن کو ابو الحسن محمد بن نافع الخزاعی مکہ میں روایت کرتے ہیں، انہوں نے یہ روایت ابو محمد اسحاق بن احمد سے لی، اُنہوں نے صاحبِ تاریخ مکۃ امام ابو الولید الازرقی سے روایت لی، انہوں نے آگے سعید بن سالم سے، انہوں نے عثمان بن ساج سے اور اُنہوں نے محمد بن اسحاق سے روایت لی۔
یہ تمام رُواۃ اَسماء الرجال کی کتب اور طبقات المحدثین کی کتب میں اس حدیث کی سند کو ثقہ مانتے ہیں۔ اِن کی روایت مقبول ہے۔ کثرت کے ساتھ ائمہ حدیث، ائمہ جرح و تعدیل نے ان کی تائید کی ہے۔
اُس نے عماریسا نامی اپنے وزیر خاص کو بلایا اور اہل مکہ کی بے التفاتی کی وجہ دریافت کی۔ وزیر نے کہا : آپ زیادہ غصے میں نہ آئیں۔ یہ عرب لوگ جاہل، ان پڑھ بدو ہیں۔ یہ اپنے حال میں مست رہنے والے بتوں کے پجاری ہیں۔ ان کے شہر میں ایک گھر ہے جسے کعبہ کہتے ہیں۔ یہ اس پر بڑا فخر کرتے ہیں اور یہ اُس کعبے کے مجاور ہیں، اور اس کا انہیں بڑا گھمنڈ ہے۔ اس وجہ سے کسی کی پروا نہیں کرتے۔ بادشاہ نے سوچا کہ اگر یہ بات ہے تو میں پھر اس گھر کو ہی (معاذ اللہ) مسمار کر دیتا ہوں۔ بس اس نے یہ ارادہ کیا ہی تھا کہ اس کے سر میں ناقابل برداشت قسم کا شدید درد شروع ہوگیا، اور ساتھ ہی اس کی آنکھوں، دونوں کانوں، ناک اور منہ سے بودار پانی پیپ کی مانند بہنے لگ گیا۔ جو اتنا بدبو دار تھا کہ کوئی شخص اُس کے پاس مجلس میں بیٹھنے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ سخت پریشان ہوا۔ جتنے حکماء و اطباء تھے ان کو بلایا۔ انہوں نے سر توڑ کوشش کی لیکن کسی سے اس کا علاج نہیں ہو سکا۔ وہ کہنے لگے کہ ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ یہ کوئی اَمر سماوی ہے، اَمرِ اَرضی نہیں۔ زمینی مرض ہوتا تو ہم میں سے کسی نہ کسی کی سمجھ میں اس کا علاج آ جاتا۔ یہ کہہ کر سب لوگ چلے گئے اور اس پر رات کا اندھیرا چھا گیا۔
اس کے چار ہزار بڑے چوٹی کے علماء بڑے متقی اور بڑے پرہیزگار عالم تھے۔ ان میں سے ایک نے عمار یسا سے کہا : میں ایک راز کی بات بادشاہ تُبَّع سے کرنا چاہتا ہوں مگر وہ خلوت میں مجھے ملے اس وقت جب کوئی اور شخص موجود نہ ہو تاکہ راز افشا نہ ہو۔ اس نے کہا کہ دوسری بات یہ کہ : میں اس کے مرض کا علاج کر سکتا ہوں۔ مگر شرط یہ ہے کہ جو کہوں وہ اس پر عمل کرے۔ وزیر نے بادشاہ سے آ کر یہ باتیں کیں۔ وہ اتنی سخت تکلیف میں تھا کہ دونوں باتیں مان گیا۔ چنانچہ رئیس العلماء رات کی تنہائی میں خلوت میں بادشاہ تُبَّع کے پاس آیا۔ اُس نے خلوت میں پوچھا : یہ بتائیے آپ نے ذہن میں کعبہ کو مسمار کرنے کا ارادہ کیا تھا؟ بادشاہ نے کہا : ہاں! یہ ارادہ میں نے کیا تھا، اور صرف اس کعبہ کو تباہ کرنے کا ارادہ ہی نہیں بلکہ یہاں کے باسیوں کو قتل کرنے اور پورے شہر کو تباہ وبرباد کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ اُس نے کہا : بس یہی سبب ہے اور یہ مصیبت ٹل نہیں سکتی، جب تک تم اِرادہ نہ بدل لو اور توبہ کر لو۔ بادشاہ نے اُسی لمحے توبہ کر لی اور کہا کہ تم گواہ ہو جاؤ کہ ِاس کعبہ اور اہل مکہ کی نسبت میرے تمام مکروہ اِرادے میرے دل و دماغ سے نکل گئے۔ اُس کے توبہ کرنے کی دیر تھی کہ اُس عالم کے بادشاہ سے روانہ ہونے سے قبل ہی بادشاہ کی پیپ بھی بند ہوگئی اور درد سر بھی ٹھیک ہوگیا۔ وہ اﷲ تعاليٰ پر ایمان لے آیا اور اپنی قیام گاہ سے دین ابراہیمی کا پیروکار بن کر نکلا۔ اُس نے کعبے پر سات غلاف چڑھائے اور اپنے لشکر کو بلا کر اس گھر کی حفاظت کے احکامات جاری کیے۔ تو تُبَّعْ وہ پہلا شخص ہے جس نے کعبۃ اﷲ پر غلاف چڑھایا۔ (1)
ابن اسحاق، السيرة النبوية : 105
(1) یہ محض کوئی داستان نہیں۔ ایک تو امام ابو سعد النیشاپوری جیسے جلیل القدر امامِ حدیث نے اپنی کتاب شرف المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قوی اور جید سند کے ساتھ اسے روایت کیا ہے۔ یہ کتاب پہلے چھپی ہوئی نہیں تھی۔ چند سال پہلے تاریخ میں پہلی بار چھپی ہے اور جس سال پہلی مرتبہ چھپی راقم کویت میں تھا تو میں نے یہ نسخہ خرید لیا۔ اس سے پہلے اس کے مخطوطے تھے اور اَئمہ حدیث کے مخطوطوں کے ذریعے سے اس کتاب کے حوالے ملتے تھے۔
اس دلچسپ واقعے کو امام ابن اسحاق نے اپنی ’’السیرۃ النبویۃ (ص : 103-107)’’ میں روایت کیا جو سیرتِ طیبہ پر سب سے پہلی اور مستند ہے۔ امام ابن سعد نے اپنی ’’الطبقات الکبری (1 : 158، 159)’’ میں روایت کیا۔ امام ابو الولید الازرقی نے ’’اخبار مکۃ (1 : 132-134)‘‘ میں اسے روایت کیا۔ امام سعید بن منصور نے ’’السنن (2 : 400، رقم : 2978)‘‘ میں روایت کیا۔ امام بیہقی نے ’’دلائل النبوۃ (2 : 509) میں روایت کیا۔ حدیث کے جلیل القدر امام طبرانی نے ’’المعجم الاوسط (4 : 35، رقم : 3544)’’ میں روایت کیا۔ امام ماوردی نے ’’اعلام النبوۃ (ص : 199)’’ میں روایت کیا۔ امام طبری نے ’’تاریخ الامم والملوک (2 : 94۔ 99)‘‘ میں اپنے طرُق اور اپنی اسانید کے ساتھ اس کو روایت کیا ہے۔ ابن عساکر نے ’’تاریخ دمشق الکبیر (11 : 68-77)‘‘ میں بہت سارے طُرق کے ساتھ روایت کیا۔ امام سیوطی نے ’’الدر المنثور (7 : 417)‘‘ میں روایت کیا۔ امام ابو نعیم جو حدیث کے بڑے ثقہ امام ہیں انہوں نے دلائل النبوۃ میں اس کو روایت کیا۔ امام واقدی نے اس کو روایت کیا۔ امام ابن قُتَیبہ نے اس کو روایت کیا۔
اتنے ائمہ نے اپنے اپنے طُرق اور اسانید صحیحہ معتمدہ کے ساتھ اسے الگ الگ روایت کیا ہے۔
اِس کے بعد بادشاہ تُبَّع لشکر لے کر آگے چل پڑا۔ سفر کرتے کرتے وہ ایک جگہ پہنچے جہاں کوئی آبادی نہیں تھی۔ صرف پانی کا ایک چشمہ تھا، وہاں سارا لشکر رُک گیا کہ چلو پانی پی لیں اور تھوڑی دیر آرام کریں۔ بادشاہ نے جگہ کا نام پوچھا تو گرد و نواح میں سے اِکا دُکا لوگوں نے بتایا کہ اس سر زمین کو یثرب کہتے ہیں۔ وہاں اُس نے قیام کیا اور اعلان کیا کہ کل یہاں سے روانہ ہوں گے۔ اِس دوران میں لشکر میں موجود چار ہزار صاحبانِ علم کا اجلاس ہوا اور انہوں نے باہمی صلاح مشورہ کیا۔ وہ علماء سماوی کتب کا علم رکھنے والے اور صاحبانِ بصیرت تھے۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد، بعثت، ولادت اور ہجرت کے تذکروں کی پوری پہچان رکھتے تھے۔ جن کے پاس یہ سارا علم تھا وہ جانتے تھے کہ وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے اِس یثرب نامی وادی میں تشریف لائیں گے اور اسے یثرب سے مدینہ بنا دیں گے۔
اب انہوں نے طے کر لیا کہ قسمت ہمیں یہاں لائی ہے، اگر ہم یہ سرزمین چھوڑ کر چلے گئے تو ہم سے بڑا بدقسمت کون ہوگا۔ اور ممکن ہے وہ ہمارے زمانے میں آ جائیں، ممکن ہے ہماری اولادوں کے زمانے میں آ جائیں۔ لہٰذا ان میں سے چار سو علماء نے یہ فیصلہ کیا کہ چاہے بادشاہ قتل بھی کر دے یا زندہ جلا دے، ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔ صبح بادشاہ نے روانگی کا اعلان کیا تو ان علماء نے اعلان کر دیا کہ ہم نہیں جا رہے۔ بادشاہ پریشان ہو گیا کہ یہ اہل علم و دانش اور اہل حکمت میرے مشیر ہیں، یہ کیوں نہیں جا رہے۔ پھر وزیر نے اُن علما سے آ کر بات کی تو اُنہوں نے کہا کہ وہ جو بادشاہ نے کعبے کو مسمار کرنے کا ارادہ کیا تھا اور اُسی وقت آسمانی مصیبت نے اِس کی گرفت کر لی تھی اور پھر جب اس نے ارادہ ترک کر دیا تو بچ گیا۔ وہ دراصل جو اُس کعبے کی حرمت تھی وہ صاحبِ کعبہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے تھی۔ اس کعبہ کے شہر میں اُس نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیدا ہونا ہے کہ یہ اُن کی ولادت کا شہر ہے اور اس کعبہ کو انہوں نے آباد کرنا ہے۔ لہٰذا آپ بادشاہ کو بتا دیں کہ ہم نے تمام آسمانی کتابوں میں یہ متفقہ طور پر پڑھ رکھا ہے کہ وہ رات اُس شہر مکہ میں ہوگی جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے اِس مقام یثرب پر آئیں گے۔ (1) اور اُن کا مزار اقدس بھی یہاں بنے گا۔ اب ہم اس یثرب کی سرزمین کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے۔ یہ مبارک ہوگی اُن لوگوں کے لیے کہ جو اپنی زندگی میں اُن کا زمانہ پا لیں گے اور اُن پر ایمان لائیں گے، اور اگر وہ نہ پا سکے تو اُن کی اولادیں اُن کو پا لیں گی اور اُن پر ایمان لائیں گی۔ جب یہ بات وزیر نے بادشاہ کو بتائی تو بادشاہ نے کہا : اگر یہ بات حقیقت ہے تو اعلان کر دو کہ ایک سال تک میں خود اُن کی آمد کے انتظار میں یہیں رُکوں گا۔ اب اُس نے ایک سال وہاں قیام کیا اور چونکہ چار سو علماء نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ تو یہاں سے نہیں جائیں گے۔ پس بادشاہ نے چار سو کے چار سو علماء کے لئے ایک ایک گھر بنا دیا۔ (2) اور جو باندیاں و لونڈیاں فتوحات کے نتیجے میں حاصل ہوئی تھیں اُس نے اُن میں سے چار سو کو آزاد کر کے اپنی موجودگی میں ایک ایک عالم کے ساتھ شادی کرائی اور ان کو ایک ایک گھر میں ٹھہرایا۔
(1) ابن سعد، الطبقات الکبری، 1 : 159
(2) ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير : 11 : 75
اس طرح چار سو جوڑے بنے اور چار سو گھر آباد ہوئے اور اس طرح تُبَّعْ کے ہاتھوں شہر مدینہ کی ابتداء ہوئی۔ یہ ہزار سال پہلے کا واقعہ ہے۔ (3) بعض ائمہ حدیث و تاریخ نے سات سو سال پہلے کا ذکر کیا ہے۔
(3) ازرقی، اخبار مکة، 1 : 134
جب ایک سال بعد بادشاہ یثرب سے روانہ ہونے لگا تو اُس نے رئیس العلماء کو بلایا؛ وہ رئیس العلماء جس نے اس کی ساری رہنمائی کی تھی اور جو اسے یثرب تک لایا تھا۔ اس کو بلا کر کہا : تم گواہ ہو جاؤ، ہمیں معلوم نہیں کتنا زمانہ پڑا ہے محمد مصطفی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی آمد اور بعثت کا، مگر تم گواہ ہو جاؤ کہ میں ان پر ایمان لے آیا اور ان کی آمد سے پہلے، میں ان کا پہلا اُمتی بنتا ہوں۔ میں ایک خط لکھ کے تمہیں دیتا ہوں، اگر تمہاری زندگی میں آقا (علیہ السلام) آ جائیں تو ان کو میرا خط دے دینا اور اگر تمہاری زندگی میں نہ آئیں تو پھر نسل بعد نسل اپنی اولاد کو دیتے جانا، اور وصیت کرتے جانا کہ جس نسل میں جس زمانے میں آقا (علیہ السلام) تشریف لائیں، میرا خط انہیں دے دیا جائے۔ اُس نے خط میں لکھا :
اَمَّا بَعد يَا مُحَمَّد - صَلَّی اﷲُ عَلَيکَ - إِنِّي آمَنتُ بِکَ وَبِکِتَابِکَ الَّذِي أَنزَلَ اﷲُ عَلَيْکَ، وَأَنَا عَلَی دِينِکَ وَسُنَّتِکَ، وَآمَنتُ بِرَبِّکَ وَرَبِّ کُلِّ شَيئٍ.
ابو سعد خرکوشی، شرف المصطفی، 1 : 100، 101، رقم : 1
’’اما بعد! اے محمد (صلی اﷲ علیک وسلم)! میں آپ پر ایمان لایا اور آپ کی اُس کتاب پر ایمان لایا جو اﷲ تعاليٰ آپ پر نازل فرمائے گا۔ اور میں اعلان کرتا ہوں کہ آپ کے دین میں آ گیا ہوں اور آپ کی سنت پر جو آپ کا طریقہ ہوگا اس پر قائم ہوں۔ اور آپ کے رب اور ہر شے کے رب پر ایمان لے آیا ہوں۔‘‘
اس کے بعد وہ خط میں مزید بیان کرتا ہے :
وَإِنْ لَّمْ اُدْرِکک فَاشفع لِي يَومَ القِيَامَة، ولا تنسنی، فإنی من أمتک الأولين، وَبَايَعتُکَ قَبلَ مَجِيئِک، وقبل إرسال اﷲ إياک، وأنا علی ملتک وملة إبراهيم أبيک خليل اﷲ.
ابوسعد خرکوشی، شرف المصطفی، 1 : 101، رقم : 1
’’اور اگر میں (اپنی زندگی میں) آپ کو نہ پا سکوں تو میری التجا ہے کہ قیامت کے دن میری شفاعت فرما دیجیے گا اور مجھے فراموش مت کیجیے گا۔ کیوں کہ میں آپ کے پہلے امتیوں میں سے ہوں اور میں نے آپ کی آمد سے بھی پہلی آپ کی بیعت کی اور آپ کے ہماری طرف مبعوث کیے جانے سے بھی قبل آپ پر ایمان لے آیا۔ اور میں آپ کی ملت پر ہوں اور آپ کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر ہوں۔‘‘
یہ خط لکھ کر اس نے آخر میں اپنی مہر لگا دی اور لکھا :
إلٰی مُحَمَّدِ بنِ عَبدِ اﷲِ خَاتَمِ النَّبِيِّنَ، ورَسُولِ رَبِّ العٰـلَمِين صلوات اﷲ عليه. مِن تُبَّعِ الأَوَّل الحِمْيَري.
ابوسعد خرکوشی، شرف المصطفی، 1 : 101، رقم : 1
’’تُبع الاول حِمَیري کی طرف سے خاتم النبیین اور رب العالمین کے پیغمبر محمد بن عبد اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں۔‘‘
بادشاہ یہ خط بطور امانت اُس رئیس العلماء کو دے کر روانہ ہوگیا۔ اب اس بات کو سات سو یا ایک ہزار برس گزر گئے۔ ان کی اولادیں بڑھتی رہیں اور قبیلے بنتے رہے اور مدینہ (یثرب) آباد ہوتا چلا گیا۔ دور دراز آبادیوں میں انہی چار سو علماء کی اولادیں آباد ہو گئیں۔ ان میں یہود بھی تھے اور کچھ نصاريٰ تھے۔ اس زمانے میں لوگ دین ابراہیم پر تھے جن کو قرآن نے اہل کتاب قرار دیا ہے۔ ان میں بیشتر کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا۔ پھر جب آقا علیہ السلام کا زمانہ آ گیا اور 53 برس کی عمر مبارک میں آقا علیہ السلام نے ہجرت کا فیصلہ فرما لیا۔ جب یہ خبر پہنچ مدینہ پہنچی تو جو لوگ منيٰ میں بیعت کر آئے تھے، تو انہوں نے آقا علیہ السلام کو خط دینے کے لئے بندہ تلاش کیا۔ انہوں نے مشورہ کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں خط پیش کر دیا جائے۔ عبد الرحمن بن عوف نے انہیں مشورہ دیا کہ اپنے میں سے ثقہ آدمی کو اپنا نمائندہ منتخب کر لو(1) اور اس کو خط دے کر بھیج دو کہ وہ راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خط پہنچا دے۔ انہوں نے انصار میں سے ابو لیلی نامی ایک معتمد اور معتبر شخص کو منتخب کیا اور تبع الاول کا خط دے کر روانہ کیا۔ (2) مکہ معظمہ سے آقا علیہ السلام نکلے ہی تھے کہ وہ خط لے کر وہ پہنچ گئے اور آقا علیہ السلام کو دیا۔ (ایک روایت میں ہے کہ آقا علیہ السلام نے لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیا کہ علی! پڑھو کہ یہ کیا لکھا ہے۔ )
(1) ابوسعد خرکوشی، شرف المصطفی، 1 : 102، رقم : 1
(2) ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 11 : 76
اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ آقا علیہ السلام کے مکہ معظمہ سے روانہ ہونے سے قبل خط پہنچ چکا تھا، اور بعض ائمہ نے جو اپنے طرق سے روایات لی ہیں ان میں لکھا ہے کہ آقا علیہ السلام نے صدیق اکبر کو خط دیا ہے۔ فرمایا : پڑھو، ابوبکر کیا لکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر ہجرت پر روانہ ہو چکے تھے۔ تاہم اُسی ایک دن کا واقعہ ہے کہ ابو لیلی وہ خط لے کر روانہ ہوا تو آقا علیہ السلام راستے میں پڑاؤ کئے ہوئے تھے۔ اس کی نظر آقا علیہ السلام پر پڑی، اسے معلوم نہیں تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون ہیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کون ہے۔ وہ تو اس خیال سے آ رہا تھا کہ مکہ پہنچ کر دریافت کروں گا اور پھر آپ کو خط دوں گا۔ مگر جب آقا علیہ السلام کے چہرے پر نگاہ پڑی تو وہ تکتا ہی رہ گیا۔ اتنے میں آقا علیہ السلام فرماتے ہیں :
أَنتَ أَبُو لَيلَی؟
’’اے شخص! تمہارا نام ابو لیليٰ ہے؟‘‘
اُس نے عرض کیا : جی میرا نام ابو لیلی ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا :
وَمَعَکَ کِتَابُ تُبَّع الاَوَّل.
’’اور تُبَّع الاَوَّل کا خط تمہارے پاس ہے؟‘‘
وہ شخص متفکر اور متحیر ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے سے تو جادوگر ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے پتا چل گیا کہ میں ابو لیليٰ ہوں اور میرے پاس تبع کا خط ہے؟ کیوں کہ ان کے ذہن میں تو یہ نہیں تھا کہ سوائے جادوگر کے اور کوئی بھی غیبی بات جان سکتا ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا :
أنا محمد رسول اﷲ، هات الکتاب.
ابو سعد خرکوشی، شرف المصطفی، 1 : 102، رقم : 1
’’میں محمد رسول اﷲ ہوں اور وہ خط (جو تُبَّعْ نے میرے لئے لکھا تھا) مجھے دے دو۔‘‘
بہر حال روایات میں اختلاف ہے کہ وہ خط سفر ہجرت پر روانہ ہونے سے قبل ملا یا سفر ہجرت کے دوران میں۔ تاہم خط آقا علیہ السلام نے رکھ لیا اور پھر سفر ہجرت مکمل کر کے یثرب پہنچے۔ سب نے استقبال کیا اور ہر شخص خواہش مند تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر رکیں اور میرے گھر مہمان ہوں۔ آقا علیہ السلام نے ان کو فرما دیا کہ نہیں! نہ تم فیصلہ کرو گے نہ میں فیصلہ کروں گا، یہ اونٹنی مامور ہے۔ (1) اب کُل انصار مدینہ جلوس کی شکل میں دف بجاتے اور آقا علیہ السلام کے استقبال کے نغمے گاتے اور حبشہ سے آئے ہوئے حبشی رقص کرتے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کر رہے ہیں اور چھوٹی بچیاں دف بجا کے طَلَعَ البَدرُ عَلَينَا کے نغمے گا رہی ہیں۔ (2) اک سماں تھا اور سارا شہر اہل مدینہ کے پیچھے پیچھے تھا، آقا علیہ السلام اونٹنی پر سوار تھے اور دنیا کی نگاہیں اونٹنی پر جمی ہوئی تھیں کہ کس کے گھر جا کر بیٹھتی ہے۔ آقا علیہ السلام کو لے کر چلتے چلتے جب حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا گھر آیا تو اُونٹنی اس کے آگے بیٹھ گئی۔ آقا علیہ السلام نے اُس کا شجرہ نسب پوچھا تو واضح ہوا کہ ابو ایوب انصاری اس رئیس العلماء کی اولاد میں سے تھے جو تُبَّعْ اَوَّل کے ساتھ ایمان لایا تھا اور جس نے دعوت دی تھی۔ (3) امام ابو سعد النیشاپوری کہتے ہیں کہ تُبَّعْ الاوَّل نے جو چار سو گھر بنا کر دیے تھے ان کے بارے میں رئیس العلماء کو بتا دیا تھا۔ لیکن ایک گھر اُس نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ تو حقیقت میں جس گھر کے سامنے اونٹنی رکی وہ گھر ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا بھی نہیں تھا، صرف ان کے کنٹرول اور تحویل میں تھا۔ اونٹنی وہیں بیٹھی جو ہزار سال پہلے تُبَّعْ کے حکم سے دارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور پر تعمیر ہوا تھا۔ (4)
(1) 1. طبرانی، المعجم الاوسط، 4 : 35، رقم : 35444
2. بيهقی، دلائل النبوة، 2 : 509
(2) 1. ابن ابی حاتم رازی، الثقات، 1 : 131
2. بيهقی، دلائل النبوة، 2 : 507
(3) ابو سعد نيشاپوری، شرف المصطفی، 1 : 104، رقم : 1
(4) ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 11 : 77
یہ علم تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی کا ہے کہ ہر ایک نے کہا : میرے گھر ٹھہریں۔ آقا علیہ السلام کی اونٹنی نے کہا : ارے تم کون ہو کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے گھر ٹھہریں، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کے مہمان نہیں بلکہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود میزبانِ کائنات ہیں۔ یہ اپنے گھر ٹھہریں گے جو ہزار سال پہلے ان کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ (1)
(1) آج کی اس مبارک رات میں تحدیثِ نعمت کے طور پر ایک بات آپ کو بتا رہا ہوں۔ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے جب سعودی حکومت آئی تو انہوں نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کو ’’مدرسۃ العلوم الشرعیۃ’’ بنادیا۔ یہ گھر گنبد خضريٰ کے بالکل سامنے تھا۔ اللہ کی شان دیکھئے کہ کس جگہ وہ گھر اللہ نے بنوایا۔ عین اس مقام پر کہ جس کے بالکل سامنے صرف ایک چھوٹی سی گلی ہے، گلی کی اس دیوار میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کا دروازہ ہے۔ اِس دیوار میں باب جبریل ہے اور باب جبریل کے ساتھ دائیں جانب آقا علیہ السلام کا مزارِ اقدس ہے۔ گھر بھی عین اس مقام پہ تعمیر کروایا گیا جہاں آقا علیہ السلام نے قیام بھی کرنا تھا اور جہاں مزار اقدس اور گنبد خضريٰ بھی بننا تھا۔ باب جبریل کے بالکل سامنے اُس زمانے میں یہ سیدنا ابو ایوب انصاری کا گھر دار ابی ایوب کہلاتا تھا۔ اب وہ جو زمانہ آپ نے دیکھا وہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر آگیا مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصے میں آگیا، مگر 1963ء میں، جب میری عمر 12 سال تھی، میں وہاں گیا تھا تو اُس وقت مسجد نبوی کی توسیع نہیں ہوئی تھی۔ وہاں میری دینی تعلیم کا آغاز دار ابی ایوب - مدرسۃ العلوم الشرعیۃ - میں ہوا تھا۔ تاہم مدرسہ اور گھر بعد میں مسمار کر دیے گئے۔ اور مولانا ضیاء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ جن کا گھر بابِ مجیدی کے سامنے اُس سمت تھا، تو انہوں نے مجھے بسم اللہ کرائی تھی
No comments:
Post a Comment