۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ اِمام زرقانی نے اپنی کتاب میں امام قرطبی رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ ایمان افروز قول نقل کیا ہے :
لم يظهر لنا تمام حسنه صلي الله عليه وآله وسلم، لأنّه لو ظهر لنا تمام حسنه لما أطاقت أعيننا رؤيته صلي الله عليه وآله وسلم.
’’حضور کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا اور اگر آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کر دیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوؤں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں۔‘‘
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 241
2۔ قولِ مذکور کے حوالے سے اِمام نبہانی رحمۃ اﷲ علیہ حافظ اِبن حجر ہیتمی رحمۃ اﷲ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں :
وَ ما أحسن قول بعضهم : لم يظهر لنا تمام حسنه صلي الله عليه وآله وسلم .
’’بعض ائمہ کا یہ کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام حسن و جمال ہم (یعنی مخلوق) پر ظاہر نہیں کیا گیا نہایت ہی حسین و جمیل قول ہے۔‘‘
نبهاني، جواهر البحار، 2 : 101
1۔ نبی بے مثال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا ذکرِ جمیل حضرت عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اِن اَلفاظ میں کرتے ہیں :
وَ ما کان أحد أحبّ إليّ مِن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و لا أجل في عيني منه، و ما کنت أطيق أن أملأ عيني منه إجلالا له و لو سئلت أن أصفه ما أطقت لأني لم أکن أملأ عيني منه.
’’میرے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا اور نہ ہی میری نگاہوں میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسین تر تھا، میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس چہرہ کو اُس کے جلال و جمال کی وجہ سے جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامد و محاسن بیان کرنے کے لئے کہتا تو میں کیونکر ایسا کرسکتا تھا کیونکہ (حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ جہاں آرا کی چمک دمک کی وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آنکھ بھر کر دیکھنا میرے لئے ممکن نہ تھا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 1 : 112، کتاب الإيمان، رقم : 121
2. ابو عوانه، المسند، 1 : 70، 71، رقم : 200
3. ابراهيم بن محمد الحسيني، البيان والتعريف، 1 : 157، رقم : 418
4. ابن سعد، الطبقات الکبري، 4 : 259
5. ابو نعيم، المسند المستخرج علي صحيح الامام مسلم، 1 : 190، رقم : 315
6. قاضي عياض، الشفاء، 2 : 30
2۔ اِنسانی آنکھ کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ شاعرِ رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ جو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں درُودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رُوئے منوّر دیکھ کر اپنی آنکھیں ہتھیلیوں سے ڈھانپ لیا کرتے تھے، وہ خود فرماتے ہیں :
لما نظرتُ إلي أنواره صلي الله عليه وآله وسلم وضعتُ کفي علي عيني خوفاً من ذهاب بصري.
’’میں نے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَنوار و تجلیات کا مُشاہدہ کیا تو اپنی ہتھیلی اپنی آنکھوں پر رکھ لی، اِس لئے کہ (رُوئے منوّر کی تابانیوں سے) کہیں میں بینائی سے ہی محروم نہ ہو جاؤں۔
No comments:
Post a Comment